سلامتی تقویٰ اختیار کرنے میں ہی مضمر ہے (جلسہ سالانہ جرمنی۲۴ء کے اجلاس مستورات سے حضورِانور کے خطاب کا خلاصہ)
٭…آج جہاں ایک احمدی عورت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اصلی زینت کو خود اختیار کرے وہیں اپنے معاشرے کو بھی بتائے کہ عورت کا اصل حسن اور اس کی حقیقی زینت کیا ہے
٭…ہمارے لڑکوں لڑکیوں مردوں اور عورتوں کو یہ نکتہ سامنے رکھنا چاہیے کہ میرا اوّل فرض تقویٰ پر چلنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور جب یہ ہوگا تو پھر سچائی کو بھی قائم رکھیں گے۔ رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھیں گے۔ اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے بھی ہوں گے
٭…ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے معاشرے کو بنانا اور قائم کرنا ہے نہ کہ دنیا کو اپنے اوپر حاوی کرنا ہے
خلاصہ خطاب سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اجلاس مستورات برموقع جلسہ سالانہ جرمنی۲۴ء فرمودہ ۲۴؍اگست۲۰۲۴ء بمقام ایوان مسرور،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
(۲۴؍اگست ۲۰۲۴ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج جماعت احمدیہ جرمنی کے اڑتالیسویں جلسہ سالانہ کا دوسرا روز ہے۔ اس روز حسب روایت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستورات سے خطاب فرماتے ہیں۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ حضورِانور اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں رہتے ہوئے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرما رہے ہیں اسی مناسبت سے یہاں جلسہ سالانہ جرمنی کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔ چنانچہ ایوانِ مسرور اسلام آباد میں اجلاس مستورات کی مناسبت سے خواتین کے بیٹھنے کا انتظام تھا اور یہیں سے حضور انور نے خطاب فرمایا۔ تمام کارروائی کے دوران ایم ٹی اے پر ساتھ ساتھ جرمنی سے جلسہ گاہ کے مناظر بھی دکھائے جارہے تھے۔ علاوہ ازیں حضورِانور کے سامنے جو سکرین موجود تھی اس میں جرمنی کا جلسہ گاہ مستورات دکھایا جا رہا تھا۔
برطانیہ کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب حضورِانور ایوانِ مسرور میں تشریف لائے۔ اس موقع پر جلسہ گاہ مستورات سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے گئے۔ حضور انور کرسیٔ صدارت پر تشریف لائے، تمام حاضرین کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کا تحفہ عنایت فرمایا اور بیٹھنے کا ارشاد فرمایا۔
جرمنی سے مواصلاتی رابطہ کے قائم ہوجانے کی تسلی کرلینے کے بعد حضور انور نے اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز فرمایا۔ جلسہ گاہ مستورات جرمنی سے ثمینہ طاہر صاحبہ نے سورة المؤمنون کی پہلی گیارہ آيات کی تلاوت اور تفسیر صغیر سے ان کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں کلام محمود سے منظوم اردو کلام ’’بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے ‘‘ ندا منصور علی صاحبہ نے خوش الحانی سے پيش کيا۔ اس کے بعد سیکرٹری صاحبہ امور طالبات لجنہ اماء اللہ جرمنی نے تعليمی ميدان ميں نماياں کاميابی حاصل کرنے والی طالبات کے نام پڑھ کر سنائے۔
اعزاز حاصل کرنے والی طالبات کی فہرست
پی ایچ ڈی
ڈاکٹر صدف ناز چیمہ(Pinneberg)، ڈاکٹر نائلہ کوثر شاکر(Osnabrück)، ڈاکٹر طوبیٰ احمد بٹ(Çorum،ترکی)
State Examination
بارعہ قمر(Herborn)، شاہدہ کنول احمد(Bait-us-Sabuh Nord)، ماہا ڈوگر(Frankfurter Berg)، سدرہ رحمان(Nasir Bagh)، ارم طاہر (Limburg)، نعیمہ انجم (Frankfurt Nied)، عافیہ رفیق (Dreieich)، صفورہ سلیم (Nidda)، ماہا خواجہ (Neu-Isenburg)، شہلا افق (Flörsheim)، عمارہ احمد (Friedberg)، انیقہ وڑائچ (Hannover)
Masters
سدرہ احمد (Bruchsal-Ost)، تمثیلہ احمد خان (Rüsselsheim Nord)، ہمدہ احمد (Marburg)، مریم احمد (Frankenberg)، حانیہ نصیر (Bad Nauheim)،سیدہ فرح نور عباسی (Frankfurter Berg)، وردہWachtberger۔(Seligenstadt)، سارہ رؤف نواز (Eidelstedt)،بارعہ عرفان واہلہ (Bait-ul-Wahid)، بنت المہدی منہاس (West Berlin)، حانیہ رفیع شعیب (Augsburg) راحیلہ جاوید شفیق (Böblingen)، ماریہ بھٹی (Mainz Süd)، قدسیہ محمود (Betzdorf)، سائقہ الدین (Bait-ul-Jame)، ندا اشرف (Erlangen)
Bachelors
آمنہ ملک (Heilbronn)، فائزہ احمد (Neuwied)، ریحانہ کنول شاد (Radolfzell)، فائزہ اسلم،(Fulda) راضیہ ایوب خان (Bait-ul-Wahid)، شانزہ طارق (West Dreieich)، عائشہ ظہیر اکرم (Pforzheim)، مبینہ افضل شاہ (Langen)، ثمن شاہد (Paderborn)، عاقبہ بٹ (Rödelheim)، اریبہ سمرن چودھری (Heidelberg)، اجوا محمود (Wandsbek)، رامین راشد (Herborn)، شمائلہ لقمان بٹ (Fazle Omar Moschee Ost)،ماہ نور خواجہ (Bad Marienberg)، ماریہ راجہ طور(Heusenstamm)، عمرانہ جاوید احمد (Mainz Nord)، ماہین مظفر (Köln)، ماریہ گل (Friedberg)، ماریہ چودھری(Augsburg)، نوال نوید (Bensheim)، عروشہ رانا (Osnabrück)، سدرہ عباسی (Rödermark)، جاذبہ احمد (Lüneburg)سلمہ صدف ناصر (Friedberg)، ارم بھٹی (Freinsheim)، سارہ ماہم رانا (Reinheim)، کنزہ سید(Vechta)، عروہ سید(Vechta)
Abitur (A-Levels)
حنا حئی(Barmbek)، فائزہ احمد (Heusenstamm)، ارم خلیل (Bad Nauheim)، ماہین احمد (Fuhlsbüttel)، خافیہ مناہل (Bruchköbel)،
بیرون ملک سے میٹرک کرنے والی
مایا احمد (Berlin)، جاسیہ احمد (Nuur-ud-Din Moschee)
گیارہ بج کر۵۳ منٹ پر حضورانور منبر پر تشریف لائے اور خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
مجھے امید ہے کہ اس دفعہ جرمنی میں آواز کا نظام بہتر ہوگا۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت وہاں لجنہ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور جلسے سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
قرآن کریم میں تقویٰ کی بےشمارجگہ تلقین کی گئی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ایک مسلمان مرد اورعورت اپنے دین کی تعلیم پرعمل کرنے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ ہماری گھریلواور معاشرتی زندگی میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ نکاح کےوقت، جو ایک لڑکی اور لڑکے کے بندھن اور نئی زندگی شروع کرنے کا وقت ہے دو خاندانوں کے آپس میں معاشرتی تعلقات پیدا ہونے کا وقت ہے؛ جو قرآنی آیات پڑھنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے عائلی زندگی اور دنیا و آخرت سنوارنے کا طریق بتایا ہے۔ اسی طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کے حق ادا کرنے کی تلقین بھی فرمائی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہم میں تقویٰ کا بہت بلند مقام دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تقویٰ کی جڑ ہی ہے جو انسان اگر اپنے اندر قائم کرلے تو اسے سب کچھ مل جائے گا۔ ایک مومن کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ وہ خدا کو پاسکے اور اگر خدا کو پانا ہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا جائے۔
تقویٰ اختیار کرنے کا طریق یہی ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کو بیزارہوکر ترک کیا جائے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہوئے اختیار کیا جائے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ تقویٰ ہر ایک بدی سے بچنے کے لیے قوّت بخشتی ہے اور ہر ایک نیکی کی طرف دوڑنے کے لیے حرکت دیتی ہے۔ اس قدر تاکید فرمانے میں بھید یہ ہے کہ تقویٰ ہرایک باب میں انسان کے لیے سلامتی کا تعویذ ہے۔
فرمایا: روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوش نما خط و خال ہیں۔
حضورؑ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں۔ یہ گو مختلف صنف سے تعلق رکھتے ہیں ان کے قویٰ اور صلاحیتیں گو مختلف ہیں لیکن میاں بیوی ہونے کے بعد یہ ایک اکائی بن جاتے ہیں اور یہی وہ رشتہ اور جوڑ ہے جس سے آگے نسلِ انسانی چلتی ہے۔ اگر اس اکائی میں تقویٰ نہ ہو تو آئندہ نسل میں بھی تقویٰ نہیں ہوگا اور پھر معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ آج کل جوغلط قسم کی gender کےنام پر باتیں ہوتی ہیں وہ نسلِ انسانی کی بقا کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔ ہراحمدی کو اس سے بچنا چاہیے۔ پس حضورؑ نے جو فرمایا ہے کہ تقویٰ سلامتی کا تعویذ ہے تو اگر تو آپ سلامتی چاہتی ہیں تو تقویٰ اختیار کریں اور یقیناً ہر انسان خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا کسی بھی مذہب سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ یہی چاہتا ہے کہ اسے سلامتی حاصل رہے اور اس کے دن رات خیر و عافیت سے گزریں۔ پس سلامتی تقویٰ اختیار کرنے میں ہی مضمر ہے۔
جب انسان تقویٰ پر قدم مارتا ہے تو وہ ایسے مضبوط قلعے کے اندر آجاتا ہے جس پر خداتعالیٰ نے پہرہ بٹھایا ہوا ہے جس کے اندر کوئی شیطان نہیں پہنچ سکتا۔
اس کے لیے کل مَیں نے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلَ مُحَمَّدٍ اور استغفار پڑھنے کی طرف توجہ بھی دلائی تھی۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم لغویات سے بچ سکیں۔ اگر ذکرِ الٰہی کریں گے تو لغویات سے بچ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشکلات اور فتنوں سے بچنے کے لیے مختلف راستے بتائے ہیں مگر بدقسمتی ہے کہ انسان ان کی طرف توجہ نہیں کرتا اور دنیا داری میں پڑا رہتا ہے اور اس خوبصورتی کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ یہ وہ خوبصورتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا فرمایا ہے اور انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اورعورتیں توخاص طور پر اپنی زینت کا خیال رکھتی ہیں مگر افسوس کہ بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو اپنی حقیقی زینت سے بےخبر ہیں اور اس مغربی معاشرے میں تو بہت سی لامذہب عورتیں ایسی ہیں جنہیں علم ہی نہیں کہ ان کی اصل زینت کیا ہے۔ پس
آج جہاں ایک احمدی عورت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اصلی زینت کو خود اختیار کرے وہیں اپنے معاشرے کو بھی بتائے کہ عورت کا اصل حسن اور اس کی حقیقی زینت کیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اپنے جسم کے تمام اعضاء کو جو ظاہری اعضاء ہیں ان امانتوں کا حق ادا کرنے والا بناؤ۔ ہر مرد اور عورت کا کام ہے کہ اپنے کان اور آنکھ، زبان اور ہر عضو کے استعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع بنائے۔
تقویٰ کے مضمون میں اللہ تعالیٰ نے یہ تلقین بھی فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا پاس رکھو۔ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کے متعلق غلط بات نہ کرو کیونکہ ان سے پھر تلخیاں پیدا ہوتی ہیں جن سے پھر لڑائیاں پیدا ہوتی ہیں۔
پھر یہ بھی ہے کہ اپنے دل کو ناجائز باتوں کی آماجگاہ نہ بناؤ۔ ایسی باتوں کو اپنے دل میں جگہ نہ دو بلکہ اپنے دل کو خدا تعالیٰ کے خوف سے پُر رکھو پھر کبھی بھی مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔
حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی بنیادی اکائی خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے اس لیے حقوق العباد کی ادائیگی میں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا بہت خیال رکھیں۔ میاں بیوی کا آپس میں اعتماد کا تعلق ہونا بہت ضروری ہے۔
شادی کا پاک رشتہ جہاں خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کی تسکین کے لیے اور نسلِ انسانی کو جاری رکھنے کے لیے قائم فرمایا ہے وہاں معاشرے کی امن کی ضمانت بھی اس ذریعے سے قائم فرمائی ہے بشرطیکہ ایک نیک نسل پیدا ہو جس کی تربیت صحیح طرح کی جائے اور اُن کی صحیح تربیت کرنے کے لیے میاں بیوی کو اپنی صحیح تربیت کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ صرف جسمانی تسکین حاصل کرنا یا بچے حاصل کر لینا کوئی ایسا کام نہیں ہے۔ یہ تو جانور بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے جس کے لیے کچھ لوازمات ہیں جنہیں انسان کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور جس کی بنیاد تقویٰ پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
اپنے مقصد پیدائش کو سمجھیں،اللہ تعالیٰ کا صحیح عبداور فرمانبردار بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت کا بھی حق ادا کریں اور اس کے بندوں کےحق ادا کریں تبھی اپنی عاقبت کو بھی سنوارنے والے ہوں گےاور تبھی اپنی نسل کو سنوارنے والے ہوں گے۔
نہیں تو پھر بگاڑ پیدا کرنے والی نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو ماں باپ کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے بچےاگر جماعت کے نام سے منسوب ہیں تو جماعت کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں۔
تربیت کےلیےضروری ہے کہ ہر فرد جماعت مرد اور عورت اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ اپنے نیک نمونے قائم کرے۔ خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑے اوراپنی اولاد کو بھی اس تعلق کو جوڑنے کی طرف لے کر آئے۔ اُن کی ایسی تربیت کرے جس سے حقیقی معنوں میں وہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والےاور اپنی روحانیت کو بڑھانے والے بنیں۔
دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کافروں کی تعدادمومنوں سے بہت زیادہ ہے۔ اولاد کی کثرت کافروں کے ذریعے سے پھیل رہی ہے۔ مذہب سے دور جانے والوں کی زیادہ کثرت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
حقیقی کثرت وہ ہے جو تقویٰ پر چلنے والوں کی ہو۔ تقویٰ پر چلنے والے ہی ہیں
جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دنیا کے باقی انسانوں پر بھی رحم اور فضل فرما دیتا ہے۔
ایک بھی انسان متقی ہوتا ہے تو اس کی خاطر پورا شہر بچا لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دنیا داروں کی طرف دیکھ کر متاثر نہ ہو بلکہ تقویٰ پر چلو گےتواللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنو گے اور تمہاری اولادیں بھی نیکیوں پر چلتے ہوئے تمہاری نیک نامی کا باعث ہوں گی اور تمہارے لئے دعائیں کرنے والی ہوں گی۔
عائلی مسائل کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو باتیں ہمیں بتائی ہیں اُن کی طرف توجہ دیں۔
بہت زیادہ مسائل سامنے آتے ہیں۔ یہ بھی بہت زیادہ ایشو ہے کہ خاوند بیوی کے ماں باپ کی عزت نہیں کر تااور مرد کہتا ہے کہ عورت میرے ماں باپ کی عزت نہیں کرتی۔ اس طرح جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ اگر تم رحمی رشتوں سے قطع تعلق کروگے تو تم لوگ معاشرے میں فساد پیدا کرنے والے بن جاؤ گے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبے میں جو آیات منتخب فرمائی ہیں اس میں مرد اور عورت کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے رحمی رشتوں کا خیال رکھو۔ اس سے جہاں دو خاندانوں میں آپس میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہوگی وہاں معاشرے کا امن اور سکون بھی قائم ہوگا اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے۔آج کل افسوسناک بات ہے کہ ہماری جماعت میں بھی یہ مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ اس لیے ہمیں فکر کرنی چاہیے اور
اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اعتماد قائم رکھنا ہے اور رحمی رشتوں کا خیال رکھنا ہے۔ اعتماد قائم کرنے کے لیے سب سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا۔
رحمی رشتوں کے تعلق میں ساسوں کو بہوؤں اور دامادوں کا خیال رکھنا ہے۔ اگر ساسیں اپنا کردار ادا کریں تو ایک انقلاب آسکتا ہے۔
نکاح کے خطبات میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں ایک نصیحت یہ بھی کی گئی ہے کہ قولِ سدید سے کام لو اور یہی تقویٰ ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کریں اور اعتماد حاصل کریں تاکہ ہر قسم کی غلط فہمی دُور ہو۔ رشتہ کرنے سے پہلے بھی لڑکی اور لڑکے میں اگر کوئی کمزوریاں ہیں نقائص ہیں توپہلے ہی بتادینا چاہیےاور پھر دعا کا کہہ کر فیصلہ کرو تاکہ شادی ہونے کے بعد کوئی مسائل پیدا نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سچائی کو قائم رکھو گے تو تمہارے معاشرے کا امن بھی قائم رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اپنے عہدوں کو پورا کرو۔شادی بیاہ کے معاملے میں رشتوں کو نبھانے کےلیے بھی جو ایک عہد ہے اس کو بھی مرد اور عورت کو پورا کرنا ضروری ہے۔
ہمارے لڑکوں لڑکیوں مردوں اور عورتوں کویہ نکتہ سامنے رکھنا چاہیے کہ میرا اوّل فرض تقویٰ پر چلنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرناہے اور جب یہ ہوگا تو پھر سچائی کو بھی قائم رکھیں گے۔ رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھیں گے۔
اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے بھی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا اصل مقصود ہوگا اور جب یہ ہوگا تو پھر ہی ہم وہ حسین معاشرہ قائم کر سکیں گے جو قائم کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے اور جس کے قائم کرنے کے لیے ہم نےآپؑ کے ہاتھ پر عہد بیعت باندھا ہے۔
پس ہمیشہ نیکیوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں اور جب دین کو دیکھ کر رشتے قائم ہوں گے تو وہ دائمی رشتے ہوں گے کیونکہ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے قائم کیے گئے ہوں گے۔ اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے کہ
ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے معاشرے کو بنانا اور قائم کرنا ہے نہ کہ دنیا کو اپنے اوپر حاوی کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ان لوگوں کی پیروی مت کرو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے۔ پس ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ ہم ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ اگریہ ہوگا تو ہم ایک حسین معاشرہ قائم کر سکیں گے۔ ہم نے اپنی خوشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے۔ ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ ہم آپؑ کی بیعت میں شامل ہوں۔ جب ہم نے بیعت کر لی تو پھر ہمیں ان باتوں پر یقیناً عمل کرنا چاہیےجن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے توقع کی ہے اور جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بار بار نصیحت فرمائی اور جس کی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بےشمار جگہ تلقین فرمائی ہے۔
اگر یہ ہوگا تو وہ پاک معاشرہ قائم ہوگا جس سے دنیا میں انقلاب آئے گا اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف ہم لانے والے بنیں گے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے پھر ہم دنیا میں اسلام کی تبلیغ کر کے دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے والے ہوں گے اور دنیا میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں گے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم یہ سب کچھ حاصل کرنے والے ہوں اور ایک پاک معاشرہ جماعت احمدیہ میں قائم ہو جائے اور آج کل جو دنیاوی لہو و لعب اور دنیاوی چکا چوند ہے، دنیاوی خواہشات ہیں، ان سے ہم بچنے والے ہوں اوردین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن کر اپنی عملی حالتوں میں انقلاب لانے والے بن جائیں۔ آمین
حضور انور کا خطاب ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کرائی۔
دعا کے بعد لجنہ اور ناصرات نے مختلف زبانوں میں ترانے پیش کیے۔ترانوں کےاختتام پر حضور انور نے حاضری کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ جرمنی میں پندرہ ہزار ۹۳۳؍ ہے جبکہ ایوان مسرور اسلام آباد میں خواتین کی حاضری گیارہ سو ہے۔ بارہ بج کر۴۲منٹ پر حضورانور ایوان مسرور سے تشریف لے گئے۔
سوا ایک بجے حضور انور نے مسجد مبارک میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کے بعد اسلام آباد میں جلسے پر آنے والے مہمانوں کے لیے دوپہر کے کھانے میں آلو گوشت، دال، چاول اور روٹی پلانٹ کی تازہ روٹی کا انتظام تھا۔