جلسہ سالانہ جرمنی پر مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کے تاثرات
مکرم ناصر احمد سدھو صاحب امیر و مشنری انچارج سینیگال نے کہا کہ وہ پہلے بھی تین دفعہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہو چکے ہیں۔ترقی کی طرف ہر دفعہ قدم جا رہا ہے۔ اس دفعہ یہ احساس ہو رہا ہے کہ جرمنی کا جلسہ برطانیہ کے جلسہ کی کاپی ہے۔اسی طرح مارکی اور ٹینٹ کو نصب کیا گیا ہے جیسے برطانیہ کے جلسہ میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ ایک غیراحمدی جسٹس صاحب اور ایک احمدی دوست جو کہ محکمہ تعلیم سے منسلک ہیں جلسہ سالانہ جرمنی میں آئے ہیں۔ دونوں نے جلسہ کے انتظامات کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ مکرم امیر صاحب نے یہ بھی کہا کہ پیارے حضور اقدس کے نہ آنے سے ایک قسم کی پریشانی تو ہوئی چونکہ ملاقات کی خواہش تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہم راضی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے آقا کو صحت اور سلامتی والی فعال زندگی سے نوازے ۔ آمین
مکرم محمد امین صاحب نیشنل صدر و مشنری انچارج Central African Republicنے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ ۶ سال سے اس ملک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اور ۱۷ سال تک انہوں نے برکینا فاسو میں خدا کے فضل سے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی ہے۔ اس ملک میں ۹۰ فی صد لوگ عیسائی اور ۱۰ فی صد مسلمان ہیں۔ جبکہ الحمد للہ تین ہزار کے قریب احمدی ہیں۔ان کے ساتھ وفد میں ۴ مہمان شامل ہیں۔ ایک ان میں سے ملک کے صدر کے مشیر بھی ہیں۔ جو کہ عیسائی ہیں۔ یہ پہلی دفعہ جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوئے اور بہت خوش دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سفر میں پریشان تھے کہ حضور اقدس نہیں آر ہے۔ لیکن حضور اقدس کے خطبہ جمعہ نے ہماری تمام اداسی اور پریشانی پر مرہم لگا دی۔
ان کے ساتھ جو صدر کے مشیر ہیں ان کا نام RINA SANY ALAINL BRUCE ہے۔
انہوں نے جب جلسہ کا منظر دیکھا اور سب کو سفید ملبوسات میں پایا تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا’’یہ تو حج کا منظر لگ رہا ہے‘‘۔
انہوں نے حضور اقدس کے خطبہ میں ان الفاظ کو خوب پسند کیا جن میں مہمان اور میزبان دونوں کو یکساں اپنی اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔کہتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہو ںکہ مجھے اس جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ یہ اپنے ملک میں جماعت کے بہت قریب ہیں اور لوکل طور پر جلسہ سالانہ میں شامل ہوچکے ہیں۔یہ جماعت کی انسانیت کی خدمت کو خوب سراہتے ہیں اور اپنی محفلوں میں اس کا اکثر ذکر بھی کرتے ہیں۔ ایک احمدی دوست بھی ان کے ساتھ آئے تھے جوکہ سب سے پہلے تین احمدی ہونے والوں میں شامل تھے جن کا نام DEMELE YAYA ہے۔ یہ بھی جلسہ کے انتظامات کو سراہتے ہیں ۔
مکرم عبد الصبور صاحب مربی سلسلہ ۲۰ سال سے سپین میں ہیں اور بچوں کے ساتھ By Road جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے کے لیے آئے۔ کہتے ہیں:
جرمنی کا جلسہ نئی جگہ پر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انتظامات کافی بہتر ہیں۔بہت سے احمدی احباب نے حضور اقدس کے لیے پیغامات اور سلام بھجوایا تھا لیکن پیارے آقا کے تشریف نہ لانے سے وہ پیغامات اور سلام پیارے حضور پر نور کو نہ دیا جا سکا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ جلسہ کے مقام کی طرف آنے والی روڈ سنگل ہے جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہوگئی تھی اور اسی طرحinformation کے دفاتر کم ہیں۔ اگر جماعت جرمنی اس کا حل کر لے تو بہت بہتری آ سکتی ہے۔
مکرم طاہر احمد ظفر صاحب صدر جماعت وٹلش نے بتا یا کہ جرمنی کی جماعتWittlichسے ۳ مہمان ایک عیسائی چرچ کی طرف سے جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ بڑی دلچسپی سے سنا۔ حضور اقدس نے انسانی بھائی چارے کے بارے میں جو فرمایا اس کو انہوں نے بہت پسند کیا اوراس کو بہت سراہا۔محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں کے ماٹو کو بھی انہوں نے انسانیت کے لیے ضروری قرار دیا۔
وہ خاص طور پر جماعت کے افراد کی آپس میں محبت اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے۔ اس بات کا وہ بارہا ذکر کرتے رہے کہ ہمیں یہاں کے ماحول نے بہت متاثر کیا ہے۔ان میں سے ایک ہماری جماعت کے بہت اچھے دوست ہیں جن کا نام MR Richcheid ہے جو کہ چرچ کی طرف سے بہت سے انتظامی امور کے انچارج ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ ہسپتالوں اور جیل میں موجود لوگوں سے جماعت کے افراد کا رابطہ کروایا جائے تاکہ عیسائی اداروں کے علاوہ مسلمانوں کا جو تیمارداری کا طریق کار ہے اس سے ان کو بھی واقفیت ہو۔ اس سے ان لوگوں سے رابطہ بھی ہو جائے گا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو سکے گی ۔ایک دوست نے Humanity First کے بکس میں چندہ بھی ڈالا۔ وہ مجموعی طور پر بہت اچھا اثر لے کر گئے۔ الحمد للہ
مکرم ودود احمد صاحب مربی سلسلہ جو کہ برکینا فاسو سے جلسہ جرمنی کے لیے آئے کہتے ہیں کہ خاکسار کی زندگی کا یہ پہلا اتنا بڑا جلسہ ہے۔پہلی دفعہ جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔جب اس بات کا علم ہوا کہ حضور اقدس تشریف نہیں لا رہے۔تو بہت اداسی ہوئی۔لیکن پیارے حضور کے خطبہ جمعہ نے اس اداسی کو بہت حد تک دور کر دیا۔
MURAT USMANI SAHI جو کہ فرانس سے اپنی فیملی کے ساتھ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے آئے۔ ۶۰۰؍کلو میٹر کا فاصلہ بس کے ذریعہ انہوں نے طے کیا۔یہ البانین بولنے والے احمدی ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں یہ جماعت میں داخل ہوئے تھے۔ہر سال جلسہ جرمنی میں شامل ہوتے ہیں۔مہمان نوازی اور کارکنوں کے برتاؤ سے بہت خوش ہیں۔ پیارے حضور اقدس کے خطبہ جمعہ کے بارے میں موصوف کہتے ہیں یہ نصائح جماعت اور گھر میں پیار سے رہنے کے لیے ایک چابی ہے۔ پھر کہا کہ ہم نے اپنے آقا کو بہت miss کیا ہے جس کو میں بیان نہیں کر سکتا۔
ان کے بیٹے Seat Usmani نے کہا کہ انتظامات بہتر ہیں لیکن ٹائیلٹ بہت کم ہیں جس سے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ فرانس کے جلسے کے مقابلہ میں یہ ایک بڑا جلسہ ہے بلکہ پورا ایک شہر آباد ہے۔
فرانس سے آنے والے ایک افریقن احمدی بھائی جن کا نام Amourlaye Diomando ہے نے ۱۹۸۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے مبارک دور میں بیعت کی جب ان کی عمر ۱۵ سال تھی۔ پہلے ان کے والد صاحب نے بیعت کی تھی اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ جب یہ آئیوری کوسٹ میں جماعت کے ایک سکول میں پڑھتے تھے ان کی پہلی ملاقات کسی خلیفہ سے ۱۹۸۹ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒسے ہوئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ان کی ملاقات Stasbourg فرانس میں ہوئی تھی۔یہ مزید کہتے ہیںکہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ حضور اقدس تشریف نہیں لارہے لیکن میں نے یہ افریقہ کے جلسوں سے سیکھا ہوا ہے کہ ہر حال میں جلسہ پر جانا ہے۔
مکرم بشارت احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ Latvia کے وفد میں ۱۳؍افراد شامل تھے۔ دو افراد Uzbek سٹوڈنٹ ہیں جو کہ زیر تبلیغ ہیں۔ کہتے ہیں:اس سال جلسہ سالانہ کا معیار پہلے سے بہت اعلیٰ ہے اور UK کے جلسہ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ ان کے ساتھ جو دوست تھے انہوں نے ترجمانی کی بھی تعریف کی۔ مربی صاحب نے مزید کہا کہ Uzbek لوگ اپنی زبان کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان کے خیال میں ان کی زبان کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے اس لیے یہاں پر اپنی زبان میں ترجمہ سن کر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
(رپورٹ: جاوید اقبال ناصر۔ مربی سلسلہ جرمنی)