الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء

(گذشتہ سے پیوستہ۔ قسط۶)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں شامل دلچسپ مضامین کا خلاصہ گذشتہ چند شماروں سے ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔

مذکورہ شمارہ میں مکرم فخرالحق شمس صاحب کے قلم سے اخبار الفضل کے بعض بزرگ قلمکاروں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ان میں سے اُن مرحومین کا ذکرخیر درج ذیل ہے جن کا ذکر قبل ازیں الفضل ڈائجسٹ کی زینت نہیں بنایا جاسکا۔

٭…حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ ایک کامیاب مبلغ سلسلہ، مناظر اور منتظم بھی تھے۔ آپؓ ۱۹۰۱ء میں حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ کے ہاں سیکھواں ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی والدین کے ہمراہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں جاتے اور حضورؑ اپنا دستِ شفقت آپؓ کے سر پر پھیرتے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۱۰ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان کی پہلی کلاس میں داخل ہوئے اور ۱۹۱۹ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر آپؓ نے زندگی وقف کی اور پہلی یادگار مبلغین کلاس میں شامل ہوئے۔

حضرت مولانا شمس صاحبؓ ابتدا سے ہی دعوت الی اللہ، مباحثات و مناظرات اور مضامین لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ شروع میں ابوالثناء کے نام سے لکھتے رہے۔ جولائی ۱۹۲۵ء کو بلادعربیہ تشریف لے گئے جہاں آپؓ کی دعوت الی اللہ اور مناظروں میں آپؓ کے دلائل سے عاجز آکر بعض مخالفین نے آپؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ۲۲؍دسمبر۱۹۲۷ء کو خنجر سے حملہ کرکے آپؓ کو زخمی کردیا گیا۔

آپؓ نے زندگی بھر وقف زندگی کے عہد کو باحسن نبھایا۔ آپ کو بلادعربیہ، شام، فلسطین، مصر اور برطانیہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ بھی رہے۔ روحانی خزائن کا انڈیکس تیار کرنے اور اس کا سیٹ شائع کرنے کی توفیق بھی پائی۔ متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ۱۹۶۶ء میں آپؓ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

٭…محترم صوفی عبدالغفور صاحب سابق مبلغ چین و امریکہ ایک عرصے تک رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ (انگریزی) کے مدیر رہے۔ سینکڑوں مضامین لکھے، متعدد کتب کے مصنف تھے۔ کتب حضرت مسیح موعودؑ اور دیگر کئی کتب سلسلہ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ ۵؍دسمبر۱۹۷۸ء کو سرگودھا میں آپ نے وفات پائی۔

٭…محترم سلیم شاہجہانپوری صاحب ۲۶؍اپریل۱۹۱۱ء کو شاہجہانپور میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۱ء میں میٹرک پاس کیا پھر منشی کامل، ادیب فاضل اور تدریسی امتحان کے کئی کورسز پاس کیے۔ تاہم آپ کی ٹھوس تعلیم کا اصل منبع حضرت حافظ مختار شاہجہانپوری صاحبؓ کی ہستی تھی۔ آپ کی پہلی کاوش سخن ۱۹۲۷ء میں مشن ہائی سکول شاہجہانپور کے سالانہ میگزین میں مطالعہ کتب کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوئی۔ بعدازاں ہفت روزہ ’المیزان‘ میں ان کی غزلیات شائع ہونا شروع ہوئیں اور پھر ملک بھر کے اخبارات میں اشاعت کا سلسلہ چل نکلا۔ تاہم جماعتی خدمات کو آپ نے ہمیشہ اپنے دیگر فرائض پر فوقیت دی۔ آپ کی ستّر سالہ ادبی خدمات تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ آپ ادیب و شاعر، متبحر عالم اور شعلہ نوا مقرر بھی تھے۔ دو درجن سے زائد کتب تالیف کیں۔

………٭………٭………٭………

محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب صدر الفضل بورڈ کی اخبار الفضل کے لیے خدمات کو پیش کرتے ہوئے مکرم آغاسیف اللہ صاحب رقمطراز ہیں کہ جولائی۱۹۸۴ء سے اکتوبر ۲۰۰۶ء تک مجھے محترم شاہ صاحب کے ماتحت بطور مینیجر و پبلشر کام کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی فراوانیٔ فکر اور غیرمعمولی ذہانت عطا کی تھی کہ مایوس کُن حالات میں بھی اپنے فرائض کی تعمیل و تکمیل کی غرض سے کوئی نہ کوئی تدبیر کرنے میں کامیاب رہتے۔ ۱۹۸۴ء میں الفضل کی اشاعت پر حکومت نے پابندی عائد کردی۔ اشتہارات اور کاغذ کا کوٹہ پہلے ہی بند کرچکے تھے۔ مقدمات بھی بنائے گئے۔ مالی حالات بہت ناگفتہ بہ ہوگئے لیکن آپ کی راہنمائی میں جو اقدامات کیے گئے اُن میں عارضی عملے کی فراغت کے علاوہ مختلف رسالہ جات (انصاراللہ، خالد، مصباح اور تحریک جدید) کے ضمیمہ جات کی اشاعت کا آغاز بھی تھا۔ ہر ہفتے چار ہزار کی تعداد میں کسی ایک رسالے کا ضمیمہ شائع ہوتا اور الفضل کے متبادل کے طور پر بھجوایا جاتا۔ آخر چار سال کی بندش کے بعد ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل رمدے صاحب نے اس پابندی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اُس وقت وکلاءکرام کے درمیان الفضل کی دوبارہ اشاعت شروع کرنے کے طریق پر اختلاف رائے ہوا تو محترم شاہ صاحب کے حکیمانہ فیصلے اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں راتوں رات الفضل کا پرچہ شائع کرواکر علی الصبح ربوہ کے گھروں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس پُرحکمت فیصلے نے ایک پُرمسرت فضا پیدا کردی۔

محترم شاہ صاحب ہر معاملے میں خلیفہ وقت سے راہنمائی کے طالب ہوتے اور پھر ہدایت دیتے۔ آپ کی ہدایت پر الفضل کے تین کارکنان کو کمپوزنگ کی تربیت دلائی گئی اور اخبار کو کتابت سے کمپوزنگ میں تدریجاً ترقی دے دی گئی۔

مختلف قانونی قدغنوں اور تحریری مواد پر پابندیوں کے باوجود اُس دَور میں ادارتی عملے نے محنت شاقہ اور بالغ نظری سے اخبار الفضل کو حکومت کی چیرہ دستیوں سے بچانے کی مکمل کوشش جاری رکھی اور قرآن کریم، احادیث، ملفوظات، خلفائے کرام کے ارشادات اور دیگر اطلاعات و اعلانات کی اشاعت میں کبھی رخنہ نہیں آنے دیا۔ مالی طور پر بھی الفضل کا ادارہ مستحکم ہوتا چلا گیا جس میں مکرم شاہ صاحب کی شخصیت کا بڑا دخل تھا۔ انہیں خوشکُن طریق پر اپنی ہدایات تعمیل کرانے کا ملکہ حاصل تھا اور اپنے ماتحتوں پر اعتماد اور اُن کی اچھی کارکردگی پر نوازنے کا سلیقہ بھی خوب تھا۔ کبھی طعن و تشنیع یا ناجائز سرزنش نہ کرتے۔ دفتر کا ہر چھوٹا بڑا کارکن اپنی معروضات یا شکایات لے کر بلاجھجک آپ کے پاس چلا جاتا اور آپ پورے حلم اور توجہ سے ہمدردی اور ممکنہ دادرسی بھی کرتے۔ اگر شکایت کنندہ کی بات درست نہ ہوتی تو بھی لہجہ میں تلخی اور الفاظ میں سختی لائے بغیر دھیمے انداز میں مناسب نصیحت فرمادیتے۔ بہت نرم خُو، معاملہ فہم اور مزاج شناس تھے۔

ادارہ الفضل کے کئی کارکنان کو اُس دَور میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہمیں کراچی اور سندھ میں بسلسلہ مقدمات پیشی پر جانا ہوتا تو شاہ صاحب تسلی دہندہ ہوتے اور صدقہ و عبادت کی تلقین کرتے ہوئے وعدۂ دعا کے ساتھ رخصت کرتے۔ آپ بھی کئی مقدمات میں ملوّث کیے گئے تو پیشی پر جانے کے لیے لبوں پر مومنانہ مسکراہٹ لیے ساتھ ہوتے۔ آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ کے لیے کوئی امتیازی سہولت نہ پیدا کی جائے۔ بڑی ہی سادگی اور درویشی سے ہم میں گھل مل جاتے اور ہمارے ساتھ ہی رہتے خواہ فرش پر بیٹھنا پڑتا۔

محترم شاہ صاحب دفتر کی تعمیر و ترقی اور کارکنان کی بہبود کا خیال بھی رکھتے لیکن بلاجواز خرچ کی اجازت نہ دیتے۔

………٭………٭………٭………

محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم عبدالسمیع خان صاحب سابق مدیر الفضل تحریر کرتے ہیں کہ مجھے تیرہ سال آپ کی راہنمائی میں کام کرنے کا موقع ملا اور آپ کو نہایت محنتی، صائب الرائے اورمتحمّل مزاج پایا۔ دیگر مصروفیات کے باوجود اُن اعلانات اور مضامین کو ملاحظہ فرماکر فوری طور پر ہدایت دیتے جو آپ کی خدمت میں مشورہ کے لیے بھیجے جاتے۔ ہدایت دیکھ کر علم ہوجاتا کہ آپ نے سرسری نظر سے نہیں بلکہ گہری نظر سے ملاحظہ فرمایا ہے۔

آپ کی تحریر صرف ظاہری خوبصورتی ہی نہیں رکھتی تھی بلکہ نہایت جچے تلے الفاظ اور معانی سے پُر ہوتی تھی۔ جس مضمون میں اصلاح فرماتے اس میں نگینے جڑ دیتے تھے۔

کوئی بزرگ یا احباب اپنے کسی مضمون میں تبدیلی یا تاخیر پر ناراض ہوتے تو آپ حکمت کے ساتھ راہنمائی فرماتے اور اُن کی ناراضگی دُور کرنے کا کام اپنے ذمہ لے لیتے۔

الفضل پر قانونی معاملات میں سخت وقت بھی آئے مگر کبھی آپ کو گھبرایا ہوا نہیں دیکھا۔ تحمّل اور خاموشی سے دعا کے بعد حوصلہ دیتے اور دشمن کی تدبیر کا مناسب توڑ تجویز فرماتے۔ آپ کے دَور میں دفتر الفضل میں چار کمروں کی توسیع ہوئی، عمارت کی مرمّت اور تزئین کا کام بھی ہوتا رہا۔ الفضل کے کاغذ کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہتے اور ہدایت کرتے کہ تین چار ماہ کا کاغذ سٹاک میں موجود رہے۔ ہماری درخواست یا اختلاف کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے یا ٹھوس دلیل سے اس طرح ردّ کردیتے کہ طبیعت میں ملال نہ پیدا ہوتا۔ ہمیشہ ایک مہربان باپ اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے موصول ہونے والے ارشادات کے بارے میں راہنمائی فرماتے کہ بہترین طور پر اس کی تعمیل کیسے ہوسکتی ہے۔

………٭………٭………٭………

مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب مربی سلسلہ کا مضمون بھی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے گاؤں میں ڈاک ہفتے میں ایک بار آیا کرتی تھی اور ہفتے بھر کے الفضل کے پرچے بھی اکٹھے ہی ملتے تھے جن کا شوق سے مطالعہ کیا جاتا۔ جب مَیں موضع چارکوٹ، راجوری ریاست جمّوں کے احمدیہ سکول میں زیرتعلیم تھا تو ہمارے استاد ماسٹر بشیر احمد صاحب تھے جنہوں نے قادیان میں بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی تھی۔ احمدیہ سکول میں بھی الفضل آتا تھا جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات بھی شائع ہوتے تھے۔ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات میں تحریک جدید کے قیام کی غرض و غایت اور دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کی ولولہ انگیز تلقین ہوا کرتی تھی۔ ایک ایسا ہی خطبہ جمعہ پڑھ کر مَیں نے اپنے والد سے وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کام صبر آزما ہے، اگر اس پر قائم رہنا ہے تو سوچ کر فیصلہ کرلو، یہ تمہاری مرضی ہے۔چنانچہ مَیں نے درخواست بھجوادی۔ ۱۹۴۷ء میں میرا وقف منظور ہوا اور ۱۹۴۸ء میں مَیں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوگیا۔

جب مَیں جامعۃالمبشرین کے آخری سال میں تھا تو الفضل سے متاثر ہوکر ہی مضامین لکھنے شروع کیے جو الفضل میں شائع بھی ہونے لگے۔ الفضل نے مجھے اردو ادب کا ذوق دیا اور دینی علوم اور عام معلومات میں اضافے کا باعث بھی ہوا۔ چنانچہ جامعہ سے شاہد کرنے کے بعد مختلف ممالک مثلاً سیرالیون (مغربی افریقہ)، زیمبیا (وسطی افریقہ) اور گی آنا (جنوبی امریکہ) میں متعیّن رہا تو کئی جگہ ماہوار رسالے شائع کرنے کی توفیق بھی ملتی رہی۔ یہ سب الفضل کی برکت تھی۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم عبدالمنان ناہید صاحب کی درج ذیل خوبصورت غزل شامل اشاعت ہے:

درکار جنوں کی ہو جس راہ میں بےباکی
آتی نہیں کام اس میں کچھ عقل کی چالاکی
درگاہِ محبت میں کام آتی ہیں دو چیزیں
اِک قلب کی بےتابی اِک آنکھ کی نمناکی
آئین ہے فطرت کا آتا ہے کوئی موسیٰ
بڑھ جاتی ہے جب حد سے فرعون کی سفّاکی
بےمائیگی ملّت کی ہے فرد کے بےوقری
ہر قطرۂ دریا سے ہے آبرو دریا کی
بےراہروی دل کی ناعاقبت اندیشی
عضو کی ناسازی ہے دل کی ہی ناپاکی

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button