حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرناہے (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲؍اکتوبر۲۰۰۹ء)

مَیں گزشتہ خطبات میں بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ پاکستان میں بھی اور بعض عرب ممالک میں بھی اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی احمدیوں پر بعض سخت حالات آئے ہوئے ہیں یا ان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان جیسے حالات تو کہیں بھی نہیں وہاں تو بہت زیادہ حالات بگڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں بعض جگہ ظلموں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ آئے دن مولوی کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور حکومت بھی ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ یا بعض جگہوں پر حکومت کے کارندے یا افسران جو ہیں افراد جماعت پر سختیاں کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ دوسرے ملکوں میں بھی احمدیوں پر بعض جگہوں میں جمعہ اور نمازیں پڑھنے پر پابندی ہے۔ حکومتی ایجنسیوں کی طرف سے بلا کے کہا جاتا ہے کہ تم نے نمازیں نہیں پڑھنی اور جمعہ نہیں پڑھنا، جمع نہیں ہونا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے حالات میں پہلے سے بڑھ کر ایمان میں مضبوطی پیدا کر و اور یہ مضبوطی پیدا کرتے ہوئے ظاہری اعمال کو بھی بہتر کرو اور عبادتوں کے معیار بھی بہتر کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خداتعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ’’کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے خود پاک ہونا بھی ضروری ہے)۔ فرمایا کہ’’مگر تم اس نعمت کو کیونکر پا سکو۔ اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو‘‘۔

’’نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح، تحمید، تقدیس اور استغفار اور درُود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ سے پابندنہ رہو‘‘ وہ لوگ جو عربی نہیں جانتے ان کو فرمایا کہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ کیوں؟ فرماتے ہیں کہ ’’جب تم نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسولؐ کا کلام ہے۔ باقی اپنی تمام عام د عاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کرلیا کرو تاکہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ68-69)

اپنی زبان میں دعا کرو گے تو دل سے جو الفاظ نکل رہے ہوں گے اس میں اسی سے تضرع پیدا ہو گا اور وہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہوں گے۔

پس دعاؤں میں ایک خاص اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور جب یہ اضطراب پیدا ہو جائے تو پھر خداتعالیٰ اپنے بندے کے حق میں بہتررنگ میں دعا قبول فرماتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَیَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ(النمل: 63) کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے، جب وہ اس سے یعنی خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دُور کر دیتا ہے اور وہ تم اور تمام دعا کرنے والے لوگوں کو ایک دن زمین کا وارث بنا دے گا۔

پس جو دعائیں ایک خاص حالت میں اور اضطراب سے کی جائیں وہ ایک ایسا رنگ لانے والی دعائیں ہوتی ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کر دیا کرتی ہیں اور جن کو خداتعالیٰ کے راستہ میں امتحانوں اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑ رہا ہو ان سے زیادہ خداتعالیٰ کو کون پیارا ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لئے ساری تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ تم صبر اور دعا سے ان ابتلاؤں کو برداشت کرتے چلے جاؤ۔ ایک دن تم ہی زمین کے وارث کئے جانے والے ہو۔ پس آجکل کے یہ امتحان جن سے احمدی گزر رہے ہیں، جیسا کہ مَیں نے بتایاپاکستان میں خاص طور پر، یہ قربانیاں جو کر رہے ہیں یہ ضائع جانے والی نہیں ہیں۔ یہ قربانیاں جو احمدی کر رہے ہیں یہ آج نہیں تو کل انشاء اللہ ایک رنگ لانے والی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شکوہ کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان امتحانوں سے گزرتے چلے جائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ابتلا اور امتحانوں میں سے گزرنے والے کی انتہا یہ ہے کہ جان تک کی قربانی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو لوگ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں ان کا جانیں قربان کرنا ایک عام آدمی کے قتل ہونے کی طرح قتل نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دَور میں تو جب جنگیں نہیں ہو رہی تھیں اس وقت بھی قربانیوں کی بے انتہاء مثالیں نظر آتی ہیں اور پھر جب دوسرا دور آیا، جب مسلمانوں پر جنگیں ٹھونسی گئیں، اس وقت بھی مومنوں کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن میں جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے اور ہر دو طرح سے جو قتل ہوئے، مسلمانوں کے یہ قتل ہونے والے لوگ جو تھے انہوں نے خداتعالیٰ کے دین کی بقاکے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ توحید کے قیام کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ اور خداتعالیٰ نے پھر ان کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو جو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے مقصد کی خاطر قربانی دی ہے۔ خداتعالیٰ کے ہاں جہاں ان جانیں قربان کرنے والوں کے اجر ہر آن بڑھتے چلے جاتے ہیں وہاں مومنین کی جماعت ان کی قربانیوں کو یاد کرکے ان کے ناموں کو زندہ رکھنا چاہئے کیونکہ ان شہداء کے ناموں کو زندہ رکھنا جماعت مومنین کی زندگی کی بھی ضمانت بن جاتا ہے۔ ان مثالوں کو سامنے رکھ کر پھر دوسرے مومن جو ہیں وہ بھی دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں کہ کس طرح قربانیاں کرنے والوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جس قوم میں قوم کی خاطر جان دینے والے موجود ہوں وہ قومیں پھر مرا نہیں کرتیں اور پھر جو خداتعالیٰ کے دین کی خاطر جانیں قربان کرنے والے ہوں ان کے ساتھ تو خداتعالیٰ کی خاص تائیدات ہوتی ہیں۔ آج مسیح موعودؑ کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا تو خاتمہ ہے تو کیا خداتعالیٰ کی راہ میں اب کوئی قتل نہیں ہوتا جو مرنے کے بعد خود بھی ہمیشہ کی زندگی پائے اور مومنین کی زندگی کے بھی سامان کرے۔ جب آخرین نے اوّلین سے ملنے کے معیار قائم کرنے تھے۔ تو یقیناً خداتعالیٰ کی راہ میں جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے تھے۔ پس اِن آخرین نے جنہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی جانیں قربان کرنے کے نمونے دکھائے سرزمین کابل میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جانوں کے نذرانے پیش کرکے دائمی زندگی کے راستے ہمیں دکھائے اور اس کے بعد آج تک افراد جماعت خداتعالیٰ کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے نمونے قائم کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہرشہید احمدی کے خون کا ہر قطرہ جہاں ان کی اُخروی زندگی میں ان کے درجات کو بلند کرتا چلا جا رہا ہے وہاں جماعتی زندگی کے بھی سامان پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔

پس اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس سے جماعتی زندگی کو متاثرکر رہے ہیں، یا ایمانوں کو کمزور کر رہے ہیں تو یہ دشمن کی بھول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شعور نہیں رکھتے۔ جو سطحی نظر سے دیکھنے والے ہیں ان کو اس بات کا فہم ہی نہیں ہے کہ جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کیا ہے وہ مالی اور جانی نقصان سے رکنے والا نہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آخر کاراسی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرناہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button