شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے کھانا کھانے کا بیان
حضرت اقدس ؑکوالہام ہوا:
’’کُلُّ الْعَقْلِ فِی لُبْسِ النَّظِیْفِ وَاَکْلِ اللَّطِیْفِ‘‘
حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی بہت لطیف تفسیرفرمائی خلاصہ یہ ہے کہ اکل حلال اورلباس نظیف نشان ہے انسان کی دانش کا۔
(تذکرہ:663)
“خداتعالیٰ حاجات کے وقت میں میرامتولی اورمتکفل ہوتا رہا ہے۔اور اکثر عادت الٰہی مجھ سے یہی ہے کہ وہ پیش ازوقت مجھے بتلادیتاہے کہ وہ دنیاکے انعامات میں سے کسی قسم کاانعام مجھ پرکرناچاہتاہے اوراکثروہ مجھے بتلادیتاہے کہ کل تویہ کھائے گااوریہ پئے گااوریہ تجھے دیاجائے گا۔اورویساہی ظہورمیں آجاتاہے۔”
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 ص 200)
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں :
“آج کل میری مصروفیات کایہ حال ہے کہ رات کومکان کے دروازے بند کرکے بڑی بڑی رات تک بیٹھا اس کام کوکرتاہوں … دوران سرکادورہ زیادہ ہوجاتاہے ،مگرمیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کیے جاتاہوں ۔ چونکہ دن چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اورمجھے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ دن کدھرجاتاہے۔اُسی وقت خبرہوتی ہے جب شام کی نمازکے لیے وضوکرنے کے واسطے پانی کالوٹارکھ دیاجاتاہے۔اس وقت مجھے افسوس ہوتاہے کہ کاش اتنادن اور ہوتا … ایساہی روٹی کے لیے جب کئی مرتبہ کہتے ہیں توبڑاجبرکرکے جلدجلدچندلقمے کھالیتاہوں۔بظاہرتومیںروٹی کھاتاہوادکھائی دیتاہوں۔ مگر میں سچ سچ کہتاہوں کہ مجھے پتہ بھی نہیں ہوتاکہ وہ کہاں جاتی ہے اورکیاکھاتاہوں”
(ملفوظات جلددوم صفحہ 377-376)
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اتنا تحمّل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دو دو وقت بڑے آرام سے بسر کر سکتا ہوں ۔ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کر سکتا ہے۔اس کے امتحان کے لیے چھے ماہ تک میں نے کچھ نہ کھایا۔کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھا لیا اور چھے ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھےسال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے۔اس اثناء میں دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا تھا اور مجھے اپنی حالت کا اخفاء منظور تھا۔اس اخفاء کی تدابیر کے لیے جو زحمت اٹھانی پڑتی تھی۔شاید وہ زحمت اَوروں کو بھوک سے نہ ہوتی ہو گی۔میں وہ دو وقت کی روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کر دیتا۔اس حال میں نماز پانچوں وقت مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناؤں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا۔”
(ملفوظات جلد اول صفحہ 458-457)
حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :
“حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لیے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے”۔اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں ۔سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نےپہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لیے تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خداتعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام دن رات میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا۔یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خداتعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔
…غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے۔ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں ۔میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ ا گر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لیے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے۔اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کےلائق نہیں ہو سکتا۔لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخریبوست دماغ سے وہ مجنون ہوگئے اور بقیہ عمر اُن کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہوگئے۔انسانوں کے دماغی قویٰ ایک طرز کے نہیں ہیں ۔پس ایسے اشخاص جن کے فطرتاً قویٰ ضعیف ہیں ان کو کسی قسم کا جسمانی مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اور جلد تر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں ۔سو بہتر ہے کہ انسان اپنی نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے۔ہاں اگر خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعتِ غرّاء اسلام سے منافی نہ ہو تواس کو بجا لانا ضروری ہے لیکن آج کل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔پس ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجا لانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔”
(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد13صفحہ 200-197 حاشیہ)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ … جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔جب گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر مجھے سوار کر دیتے تھے۔خود آگے آگے پیدل چلے جاتے۔نوکر نے گھوڑا پکڑا ہوا ہوتا تھا۔کبھی آپؑ بٹالہ کے راستہ والے موڑ پر سوار ہو جاتے اور کبھی نہر پر۔مگر اس وقت مجھے اتارتے نہ تھے۔بلکہ فرماتے تھے کہ تم بیٹھے رہو۔مَیں آگے سوار ہو جاؤںگا۔اس طرح ہم بٹالہ پہنچتے۔ان ایّام میں بٹالہ میں حضرت صاحب کے خاندان کا ایک بڑا مکان تھا۔یہ مکان یہاں محلہ اچری دروازے میں تھا۔اُس میں آپؑ ٹھہرتے تھے۔اس مکان میں ایک جولاہا حفاظت کے لیے رکھا ہوا تھا۔مکان کے چوبارہ میں آپؑ رہتے تھے۔شام کو اپنے کھانے کے لیے مجھے دو پیسے دے دیتے تھے۔ان دنوں میں بھٹیاری جھیوری کی دکان سے دو پیسے میں دو روٹی اور دال مل جاتی تھی۔وہ روٹیاں مَیں لا کر حضرت صاحب کے آگے رکھ دیتا تھا۔آپؑ ایک روٹی کی چوتھائی یا اس سے کم کھاتے۔باقی مجھے کہتے کہ اس جولاہے کو بلاؤ۔اسے دے دیتے اور مجھے میرے کھانے کےلیے چار آنہ دیتے تھے اور سائیس کو دو آنہ دیتے تھے۔اس وقت نرخ گندم کا روپیہ سوا روپیہ فی من تھا۔بعض دفعہ جب تحصیل میں تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔جب تین یا چار بجتے تو تحصیل سے باہر آتے تو مجھے بلا کر ایک روٹی کھانے کے ناشتہ کے لیے دے دیتے اور خود آپؑ اس وقت کچھ نہ کھاتے۔تحصیل کے سامنے کنویں پر وضو کرکے نماز پڑھتے اور پھر تحصیلدار کے پاس چلے جاتے اور جب کچہری برخاست ہو جاتی تو واپس چلے آتے…”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 680)
حضرت اقدسؑ نے ایک ذکر پر فرمایا:
“ایک سال سے زیادہ عرصہ گذرا ہے کہ میں نے گوشت کا منہ نہیں دیکھا ہے۔اکثر مِسّی روٹی (بیسنی)یا اچار اور دال کے ساتھ کھا لیتا ہوں ۔آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھائی ہے۔”
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 271)
آپ ؑ کے کھانے اور کھانے کے دیگرمعمولات کے متعلق حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ کاایک تفصیلی نوٹ ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں :
قرآن شریف میں کفار کے لیے وارد ہے یَأْ کُلُوْنَ کَمَا تَأْ کُلُ الْاَنْعَام (محمد:13) اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ کافر سات انتڑی میں کھا تا اور مومن ایک میں۔مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا او ر دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے۔جب مومن کا یہ حال ہو ا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا۔آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا۔بلکہ سَتّو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہو ا کرتی تھی۔اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ ا س کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے۔خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے۔عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ کھا نا نوش فرمایا کرتے تھے۔علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے۔مگر جہاں تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا۔
(آپؑ کے کھانے کے) اوقات
معمولاً آپؑ صبح کا کھانا 10بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھا لیا کرتے تھے۔کبھی شاذو نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپؑ نے بعد ظہر کھایا ہو۔شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی۔مگرکبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے۔مگر معمول دو طرح کا تھا جن دنوں میں آپؑ بعد مغرب، عشاء تک باہر تشریف رکھاکرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہو اکرتا تھا ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان۔
مدتوں آپؑ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے۔اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا۔اور خاص مہمان آپؑ کے ہمراہ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے۔یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے۔ایسے دسترخوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے بیس پچیس تک ہو جایا کرتی تھی۔
گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے تو آپؑ کبھی تنہا مگر اکثر اُمّ المومنین اور کسی ایک یا سب بچوں کو ساتھ لے کر تناول فرمایا کرتے تھے۔یہ عاجز کبھی قادیان میں ہوتا تو اس کوبھی شرف اس خانگی دستر خوان پر بیٹھنے کا مل جایا کرتا تھا۔
سحری آپؑ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا۔سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپؑ کھانا کھاتے تو آپؑ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے یہ آپؑ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپؑ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے۔اگرچہ اَور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے۔
کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے
جب کھانا آگے رکھا جاتا یا دسترخوان بچھتا تو آپؑ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے۔کیوں جی شروع کریں ؟مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا یا سب کے آگے کھانا آگیا۔پھر آپؑ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھاتے۔کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی آپؑ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے۔سالن آپؑ بہت کم کھاتے تھے۔اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہو ں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جو رکابی آپؑ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔بہت بوٹیاں یا ترکاری آپؑ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کر ٹکڑا کھا لیا کرتے تھے۔لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپؑ بہت سے کر لیا کرتے تھے۔اور یہ آپؑ کی عادت تھی دسترخوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ ٹکڑے روٹی کے آپؑ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے۔آپؑ اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یہ کہ سب مہمانوں کے برابر آپؑ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپؑ کے آگے سے بچتا تھا۔
بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپؑ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے۔اور پھر انگلی کا سرا شوربہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تا کہ لقمہ نمکین ہو جاوے۔پچھلے دنوں میں جب آپؑ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپؑ اکثر صبح کے وقت مکئ کی روٹی کھایا کرتے تھے۔اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یاصرف لسّی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھا لیا کرتے تھے۔آپؑ کا کھانا صرف اپنے کام کے لیے قوّت حاصل کرنے کے لیے ہواکرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لیے۔بارہا آپؑ نے فرمایا کہ ہمیں توکھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہواکہ کیا پکا تھااور ہم نے کیا کھایا۔
ہڈیاں چوسنے اور بڑا نوالہ اُٹھانے، زور زور سے چپڑچپڑ کرنے ،ڈکاریں مارنے یا رکابیاں چاٹنے یا کھانے کے مدح و ذم اور لذائذکا تذکرہ کرنے کی آپؑ کو عادت نہ تھی۔بلکہ جو پکتا تھا وہ کھا لیا کرتے تھے۔کبھی کبھی آپؑ پا نی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کرپیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی۔اکڑوں بیٹھ کر آپؑ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دائیاں گھٹنا کھڑا رکھتے۔
……(جاری ہے)
٭…٭…٭