اسلام میں شراب اور جوئے کی ممانعت
حضرت منشی برکت علی خاں صاحبؓ صحابی حضرت اقدسؑ شملہ میں ملازم تھے۔ احمدی ہونے سے پہلے انہوں نے ایک لاٹری ڈالی ہوئی تھی وہ لاٹری نکلی تو ساڑھے سات ہزار کی رقم ان کے حصے میں آئی۔ (اس زمانہ میں )۔ انہوں نے حضور سے پوچھا تو حضور نے اسے جؤا قرار دیا اور فرمایا اپنی ذات میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں ۔ حضرت منشی صاحب نے وہ ساری رقم غرباء اور مساکین میں تقسیم کردی۔ (اصحاب احمد جلد ۳صفحہ۳۳)
تو یہی آج کل یہاں یورپ میں رواج ہے، مغرب میں رواج ہے لاٹری کا کہ جو لوگ لاٹری ڈالتے ہیں اور ان کی رقمیں نکلتی ہیں وہ قطعاً ان کے لئے جائز نہیں بلکہ حرام ہیں ۔ اسی طرح جس طرح جوئے کی رقم حرام ہے۔ اول تو لینی نہیں چاہئے اور اگر غلطی سے نکل بھی آئی ہے تو پھر اپنے پر استعمال نہیں ہوسکتی۔
ایک واقعہ یہیں آپ کے ملک انگلستان کا محترم بشیر آرچرڈ صاحب کاہے جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلیاں پیدا کیں اور اس کے بعداپنی زندگی وقف کی۔ ۱۹۴۴ء میں احمدی ہوئے تھے اور قادیان میں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی اور جیساکہ مَیں نے کہا ہے اپنی زندگی وقف کردی۔ اور اس کے بعد ان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ عبادات الٰہی اور دعاؤں میں بے انتہا شغف پیدا ہوگیا۔ ان کے قادیان کے پہلے دورہ کا سب سے پہلا ثمرہ ترک شراب نوشی تھا۔ شراب بہت پیا کرتے تھے۔ فوری طورپر انہوں نے پہلے شراب ترک کی۔ انہوں نے جوئے اور شراب نوشی سے توبہ کرلی اور اور ان دونوں چیزوں سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کی، ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔(الفضل ۱۰؍جنوری۱۹۷۸ء، عظیم زندگی صفحہ ۸۔ ۹)
اس زمانہ میں بھی، آج کل بھی چند سال پہلے بعض احمدی یہاں بھی، جرمنی وغیرہ میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی ایسے کاروبار جن میں ریسٹورانٹ میں ، ہوٹلوں میں جہاں شراب کا کاروبار ہوتا تھا۔ حدیث کے مطابق شراب کشیدکرنے والا، شراب پلانے والا، شراب بیچنے والا، رکھنے والا، ہر قسم کے لوگوں کو کہاگیا کہ یہ جہنمی ہیں اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اعلان فرمایا تھاکہ جو بھی احمدی اس کاروبار میں ملوث ہیں ان کو فوری طورپر یہ کاروبار ترک کردینا چاہئے ورنہ ان کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے گا۔ تو خود ہی حضورؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بھاری تعداد نے اس کاروبارکو ترک کردیا۔ اور بعضوں کو توخداتعالیٰ نے فوراً بہت بہتر کاروبار عطا کئے اور بعضوں کو ابتلاء میں بھی ڈالا۔ اور وہ لمبے عرصہ تک کاروبار سے محروم رہے۔ لیکن وہ پختگی کے ساتھ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور پھر انہوں نے اس گندے کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
(خطبہ جمعہ ۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍دسمبر ۲۰۰۳ء)