زندگی کے ہر کام میں تقویٰ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۹؍جولائی ۲۰۱۶ء)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہوَاللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ (یونس: 26) اور اللہ تعالیٰ سلامتی اور امن کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ پھر ایک حقیقی مسلمان جب نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا رحم اور اس کا فضل مانگتا ہے لیکن یہ لوگ جو ظالم لوگ ہیں یہ نہ تو قرآن کریم کو مانتے ہیں، نہ اس پر عمل کرتے ہیں، نہ نمازیں پڑھتے ہیں۔ انہوں نے تو اپنا ایک نیا دین اور نئی شریعت بنائی ہوئی ہے۔ بہرحال جب ایک حقیقی مسلمان سلامتی مانگتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو پھر شرارت شوخی اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ پھر اسلام کہتا ہے سلام کو رواج دو اور سلامتی پھیلاؤ۔ سلام کہنا صرف مسلمانوں تک محدودنہیں ہے۔ گو کہ آجکل پاکستان میں وہاں کے ملکی قانون نے علماء کے زیر اثر اس پر بھی اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے یا monopolizeکیا ہے کہ سوائے مسلمانوں کے کوئی سلام نہیں کہہ سکتا اور احمدی تو بالکل سلام نہیں کہہ سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو بلاتخصیص سب کو سلام کہا جاتا تھا۔ (ماخوذ از الصحیح البخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث 12)
اسلام کی امن قائم کرنے کے لئے یہ چند خوبیاں جو میں نے بیان کی ہیں یہ مختصراً میں نے بعض باتیں بتائی ہیں۔ تفصیل میں جائیں اور کسی بھی رنگ میں دیکھ لیں، کسی بھی حکم کو لے لیں تو اسلام امن صلح اور آشتی کا مذہب ہے نہ کہ دہشت گردی کا۔
اگر دنیا کے دل جیتے جا سکتے ہیں، اگر اسلام کو دنیا میں پھیلایا جا سکتا ہے تو اس کی خوبصورت تعلیم سے، نہ کہ شدت پسند لوگوں اور علماء کی خود ساختہ تعلیم سے۔ لیکن یہ راستہ تو وہی دکھا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے۔ انصاف تو وہی قائم کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ حَکَم اور عدل بنا کر بھیجا ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو وہی لاگو کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فائز کیا ہے۔
ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مانا اور دنیا کے ان ظلموں میں شامل ہونے سے بچے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصہ کئے ہیں۔ اول حقوق اللہ اور دوم حقوق العباد۔ حق اللہ تو یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حق العباد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شئے۔ مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ کفار کا مال ناجائز طور پر لینا درست ہے۔
فرماتے ہیں کہ بلکہ ’’خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لُوٹ لو۔‘‘ (یہ فتویٰ غیراحمدی علماء کا جماعت احمدیہ کے لوگوں کے لئے آج بھی جاری ہے۔ آپ فرماتے ہیں لوگوں نے فتویٰ دیا ہے کہ ان کا مال لوٹ لو یعنی احمدیوں کا یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا)۔ فرماتے ہیں ’’بلکہ یہاں تک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو۔ حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں۔ وہ تو ایک صاف اور مصفّٰی مذہب تھا۔ اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوق ابوّت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشاء ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو۔‘‘ (لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ281)
پس یہ تعلیم ہے جس کو اپنا کر مسلمان دنیا میں دوبارہ اسلام کی شان و شوکت قائم کر سکتے ہیں کہ خدا کے حق کو بھی پہچانیں اور ایک دوسرے کے حق کو بھی پہچانیں۔ نوع انسان میں محبت اور پیار پیدا کرنے کی کوشش کریں قطع نظر اس کے کہ کون کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ ظلم سے کام لے کر معصوموں کو قتل کرنے کی بجائے اسلام کی امن صلح اور آشتی کی تلوار سے دلوں کو گھائل کر کے خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے قدموں میں لا کر ڈالیں۔ خود کش حملے کر کے یا ظلم کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی بجائے اس کا پیار اور قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام کی آغوش کو باپ کی محبت اور رحمت کا سایہ بنائیں نہ کہ اپنی ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے اسلام پر اعتراض کرنے والوں اور حملہ کرنے والوں کو مزید مواقع فراہم کریں۔ اگر یہ باز نہیں آئیں گے تو یاد رکھیں کہ دنیاوی حیلوں اور حملوں سے کبھی بھی اسلام کو دنیا میں پھیلا نہیں سکتے۔
ہم احمدیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر حملہ جو اسلام کے نام پر یہ بھٹکے ہوئے لوگ کرتے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر ہماری ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ہر ایسی حرکت جس سے اسلام کا نام بدنام ہوتا ہے اس کے بعد ہم نے دنیا کو بتانا ہے کہ میرے مذہب کی بنیاد امن اور سلامتی پر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے یہ بتانا ہے۔ اگر اسلام کے پیروؤں میں سے کوئی ایسی حرکت کرتا ہے جو امن اور سلامتی کو برباد کرنے والی ہے تو یہ اس شخص یا گروہ کا ذاتی اور اپنے مفاد حاصل کرنے والا عمل ہے۔ اسلام کی تعلیم سے اس کا کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ یہ سراسر ناجائز چیزیں ہیں۔ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو یہ عمل کرتے ہیں نہ کہ اسلامی تعلیم پر۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ اس بات کے لئے ہر ملک میں کوشش کرتی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میڈیا کے ذریعہ سے اس کا اچھا اثر بھی ہو رہا ہے۔ ان کے کالم لکھنے والے خود لکھتے ہیں۔ اب فرانس میں جو پادری کا ظالمانہ قتل ہوا اس پر ہی یہاں ایک لکھنے والے نے یہ لکھا کہ یہ عمل اس بات کی طرف توجہ پھیرتا ہے کہ دنیا میں مذہبی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ لیکن وہ خود ہی لکھتا ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ مذہب کی آڑ میں مفاد پرستوں اور نفسیاتی مریضوں کی جنگ ہے۔
پوپ صاحب نے بھی بڑا اچھا بیان دیا کہ یہ بیشک بین الاقوامی جنگ بن گئی ہے لیکن یہ مذہبی جنگ نہیں ہے بلکہ مفادات کی جنگ ہے۔ ان لوگوں کی جنگ ہے جن کے اپنے مفادات ہیں کیونکہ کوئی مذہب بھی ظلم کی تعلیم نہیں دیتا۔ ابھی تک تو یہ غیر خود ہی اپنے لوگوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ظلم جب بڑھتے جائیں گے تو پھر ردّعمل بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں کہ ہم اپنا اسلام کا، امن کا پیغام دنیا میں ہر جگہ پہنچائیں۔ بہرحال ایک طرف تو یہ ہے لیکن ایسے بھی ہیں جن تک ہمارا پیغام پہنچا ہوا ہے لیکن وہ منفی معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی نے مجھے لکھا کہ ایک شخص نے جو غالباً اسلام سے مرتد ہؤا ہؤا ہے میرے حوالے سے ایک ٹویٹ (Tweet) کیا اور شاید اس میں اس نے میری تصویر بھی دی ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم و بربریت کی مناہی کی ہے۔ لیکن اس بیان کے بعد پھر آگے اپنی طرف سے اس نے استہزائیہ انداز میں یہ لکھ دیاکہ یہ حکم عورتوں کے لئے نہیں ہے، اسلام کو چھوڑنے والوں کے لئے نہیں ہے، جو ارتداد اختیار کرتے ہیں ان کے لئے نہیں ہے۔ فلاں چیز کے لئے نہیں ہے، فلاں چیز کے لئے نہیں ہے۔ تو ایسے بھی ہیں جب دیکھتے ہیں کہ اسلام کی امن پسندی کی جو تصویر جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں تو اس اثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ذریعہ جو آجکل ٹویٹ (Tweet) اور فیس بُک (Facebook) اور دوسرے مختلف ذرائع سے اپنایا جاتا ہے اس میں کئی ہزار لوگوں تک بلکہ لاکھوں تک یہ پیغام پہنچ جاتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھنا ہمارا کام ہے اور ان کا جواب دینا ہمارا کام ہے۔