پاکستان میں مخالفت کے باوجوداحمدیوں کی وطن سے وفاداری کی داستانیں
جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر و باہر ہے۔اس لئے آج کے، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔(حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
کتب احادیث و تاریخ میں ہے کہ جب حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اورآپ منصبِ نبوت پر سرفراز کیے گئے تو حضرت خدیجہؓ آپ کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور اس موقع پر ہونے والی گفتگو میں مذہبی تاریخ و علوم سے واقفیت رکھنے والے اس معمر شخص ورقہ بن نوفل نے یہ بھی بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی۔ آپﷺ نے نہایت تعجب سے سوال کیا:’’اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ؟‘‘(صحیح البخاری، کتاب بدء الوحی۔باب کیف کان بدء الوحی۔حدیث نمبر 3)کیا واقعی میری قوم مجھے نکال دے گی؟
اس بے ساختہ سوال سے جہاں بانی اسلامﷺ کی اپنے وطن اور قوم والوں سے محبت،گہرے قلبی تعلق اور وفاداری کا اندازہ ہوتا ہے وہاں تاریخ مذاہب عالم کی اس تلخ سچائی سے بھی آشنائی ملتی ہے کہ ہر آسمانی سلسلہ کے بالکل ابتدائی دور میں اہل وطن کی حق و صداقت سے سخت دشمنی اور مخالفت ہی رہا کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے محسن اور خیر خواہ کو ہی دیس نکالا دے دیا کرتے ہیں اور اہل اللہ کو معاندین کے ہاتھوں ایسی سخت ایذائیں پہنچتی ہیںکہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجایا کرتے ہیں۔ اب جبکہ جماعت احمدیہ کو بھی روزِ اول سے ہی علیٰ منہاج النبوت پر رکھا اور سمجھا جاسکتا ہے اسی منہج پر گزر کر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں مضبوطی سے قائم ہے۔
زیرِ نظر مضمون میں جماعت احمدیہ کی پاکستان میں قریباً پون صدی کی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا مقصود ہے کہ کس طرح 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد جماعت احمدیہ کے امام حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان سے لاہور کی طرف ہجرت فرمائی اورپھر دعاؤں کے ساتھ ربوہ میں اپنا مرکز قائم فرمایا۔
وطن عزیز پاکستان کےلیے خلفائے احمدیت کی پالیسی کی جھلک زیرنظر اس ایک جملہ سے ہی عیاں ہے۔حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍جولائی 1974ء کو جب پاکستان کے درندہ صفت لوگ معصوم احمدیوں کے جلاؤ گھیراؤ کے درپے تھے، فرمایا: ’’ہم نے پاکستان کی کوئی چیز حتیٰ کہ ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونے دینا۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کا ایک دھیلہ بھی… ضائع نہ ہو۔‘‘( خطبات ناصر جلد5 صفحہ 593)لیکن دوسری طرف اہل پاکستان کا وہ غیض وغضب اور شدید دشمنی جس سے اغیار ہمیں روز اول سے ہی ڈراتے تھے، وہ عیاں ہوتی چلی گئی۔ 1953ء کے احمدیہ مخالف فسادات کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے ان رازوں پر سے پردہ اٹھایاہےاور سامنے آیا کہ قیام پاکستان کے بعد جن مواقع پر احمدیوں کے ساتھ خاص طور پر ظلم کیا گیا ان میں سے گو پہلا موقع 1953ء کا تھا مگر اس سے قبل بھی پاکستان میں احمدیوں پر مظالم ہوتے رہے مثلاً 1949ء میں کوئٹہ میں ایک احمدی میجر محمود صاحب کو مخالفین احمدیت کے ایک ہجوم نے چھریاں مار کر شہید کر دیا۔1953ء میں تو منظم طور پر صوبہ پنجاب میں جماعت احمدیہ کے خلاف ختم نبوت کے مقدس نام پر ایک تحریک چلائی گئی۔ مذہب کے نام پر نچلے درجے کی سیاست کرنے والی جماعتوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام اہم حکومتی عہدوں سے احمدیوں کو فارغ کیا جائے، خصوصاً حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کو اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ ساتھ یہ دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو راست اقدام کیا جائے گا۔اور عملاً مولویوں اور بےروز گاروں نے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ہنگامے شروع کیے احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں کو آگ لگائی گئی۔
یوں احمدیوں پر ظلم کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا، پاکستان کے طول و عرض میں ظلم وستم ڈھانے اور معصوموں کو شہیدکرنے کے واقعات بھی ہوتے رہے مگر جماعت احمدیہ نے اپنی مخلصانہ کوششوں کو کسی دور میں محدود نہیں کیا، مگر 1974ء کا وہ تلخ وقت آیا کہ جب خود پاکستان نے محسن کشی اور احسان فراموشی کی وہ تاریخ رقم کی کہ چشم فلک بھی حیراں ہوئی۔ اس پر طرفہ یہ ہے کہ اہل سیاست و سیادت یکسر بھول گئے کہ وہ محض جماعت احمدیہ کو آئین و قانون کے معاملات کے لیے باقی تمام فرقوں سے ہی الگ نہیں کررہے ہیں بلکہ چودہ سو سال پہلے خیرالانام اور مخبر صادقﷺ کی ایک پیش خبری کو پورا کرنے والے بن رہے ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتھا کہ بنی اسرائیل بہتر(۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر(۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔ (ترمذی كتاب الإيمان عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ)
کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہ نام نہاد مولوی لوگ اس مذکورہ بالا حدیث کے واضح الفاظ اور کھلے پیغام پر سٹ پٹا کر عوام الناس کے سامنے یہ کہہ دیتے ہیں کہ کسی کے جہنمی یا جنتی ہونےکا فیصلہ کوئی انسان نہیں کرسکتا ہے وغیرہ،مگر یہی نام نہاد علماءخود اپنے ان فتاویٰ پر نگاہ نہیں ڈالتے جب وہ اپنے کلمہ گو، مسلمان بھائیوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے محض دشمنی میں کافر،زندیق، واجب القتل، مرتد، جہنمی وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ بلکہ سرعام کہتے اور شائع کرتے ہیں کہ ’’قادیانیوں کی سو نسلیں بھی بدل جائیں ‘‘ تب بھی وہی اسی حکم کے نیچے ہیں۔ وغیرہ
الغرض 7؍ستمبر 1974ء کو ہونے والی یہ قانون سازی جو دراصل ایک آئینی ترمیم تھی، جس میں’’مسلمان‘‘ کی تعریف معین کیے بغیرپاکستان کے شہریوں کو’’ غیر مسلم‘‘ قرار دے دیا گیا،جہاں یہ آئینی ترمیم عقل و دانش سے متصادم ٹھہری وہاں اس قانون سازی نے اُس جِن کو بوتل سے باہر نکال دیا جو شاید کبھی اہل وطن سے دوبارہ قابو میں نہیں آئے گا۔ اور اسی پس قسمت قانون نے ہی اپنے اجرا کے ایک دہائی بعد ایک ایسے آرڈیننس کو جنم دیا جس کے سامنے سفاک ترین حاکم اور نمرود وفرعون بھی شرما جائیں۔ کیونکہ پاکستان کے اربابِ اختیار نے ایک قانون سازی کرکے ایک مسلمان کو غیر مسلم قرار دیا اور ایک آرڈیننس لاکر پاکستان میں بسنے والے ہر احمدی کو اسلام پر عمل پیرا ہونے سے ہی نہ صرف روک دیا بلکہ ضابطہ قانون کی نظر میں قابل گرفت مجرم بنا کر پس زنداں ڈالاجانے لگا۔1974ء اور 1984ء کے بعد جب پاکستان کی ریاست ہی احمدیوں کے جان و مال کی دشمن ہوگئی، وہ کسی ذہین، تجربہ کار اور مخلص احمدی سے کسی میدان میں کوئی بھی خدمت لینے سے ہی انکاری ہوگئی تو معصوم احمدی کیا کرتے۔ انہوں نے پہلے بھی اسلام کی ہی تعلیم پرعمل کیا، اور اپنے ملک کے وفادار شہری بن کر اہل وطن کی بھلائی و فلاح کے لیے اپنی خدا داد خدمتیں نہایت اخلاص اور محنت سے پیش کرتے چلے گئے۔ اور جب ریاست نےہی بے رحمی پر کمر باندھ لی تو ان امانت دار اور ماہر فن احمدیوں نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا اور اپنے دین اور ایمان کو بچانے کے لیے دنیاداری کے لحاظ سے اپنی عزیز ترین چیزیں بھی قربان کردیں۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ پر ہونے والے مظالم کی فہرست اور اس کی نوعیت ایک دردناک باب ہے، محض منظر کشی کے لیے چند ایک اعداد وشمار پیش کرتا ہوں جو جماعت احمدیہ کے شعبہ ’’انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈیسک‘‘ کی مرتب کردہ رپورٹ بابت سال 2023ء سے ماخوذ ہیں۔رپورٹ کے مطابق جماعت احمدیہ کے خلاف حکومتی قانون سازی اور اس کے نفاذ کے بعدصورت حال یہ ہے کہ سال بھر میں 44؍احمدیہ مساجد کی بے حرمتی کی گئی جس میں زیادہ مواقع پر حکومتی کارندے اور سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔جس میں مساجد کے میناروں اور گنبد اور محراب کو توڑا اور گرایاگیا،مساجد میں آتش زنی کی گئی، کلمہ طیبہ مٹایا گیا اورجتھے بن کر مذہبی شدت پسندوں نے حکومتی سرپرستی میں مساجد پر ہلا بولا۔ اسی طرح زندگی بھر ظلم سہنے والے پاکستان کے شہری بعد از مرگ بھی امان میں نہیں، 109؍قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایک سال کے دوران 13؍ایسے مقدمات کا اندراج ہو، جس میں ریاست نے احمدیوں کے خلاف محض مذہب کی بنا پرظلم کی راہ اختیار کی۔ عید الاضحی کے موقع پراحمدیوں کے خلاف قربانی کرنے پر درجنوں شکایتیں درج ہوئیں، بیسیوں احمدیوں کو ہراساں کیا گیا، پولیس نے پانچ احمدی گھرانوں کے چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے تلاشی لی، اور مقدمات درج کرکے قربانی کے جانور اورفریج اور فریزر سے گوشت بھی ضبط کرلیا۔
اسی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 39؍برسوں میں قانون کے نفاذ کے بعد سے 227؍مساجد کو نقصان پہنچایا گیا ہے،جماعت احمدیہ کی مخالف دینی جماعتوں کےدباؤ پر مساجد کوشہید کیا گیا، سرکاری حکام نے اسلامی جمہوریہ میں عبادت کی جگہوں کو سیل کیا،احمدیہ مساجد کو آگ لگائی گئی یا کوشش کی گئی، مساجد پر زبردستی قبضہ کیا گیا، اورمساجد کی تعمیریا توسیع کو زبردستی روکا گیا۔ قبرستان کا اور قبروں کا تقدس اس قانون کے ذریعے پامال کیا گیا۔
اب تک مختلف نوعیت کے ایسے مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں اذان دینا، خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کلمہ طیبہ کے بیج سینے پر آویزاں کرنا، نمازوں کی ادائیگی، تبلیغ کرنا، اسلامی شعائر کا استعمال کے علاوہ دیگر مذہبی بنیادوں پر بھی ہزاروں مقدمات شامل ہیں۔ تضحیک مذہب کے مقدمات میں بھی اس قانون کو بےدریغ استعمال کیا جا رہا ہے
اور اس وقت جماعت کے تمام جرائد و رسائل پر سینکڑوں کی تعداد میں مقدمات درج ہیں۔پاکستان سے اس وقت قرآن کریم اور اس کے تراجم، بانی جماعت احمدیہ کی تصنیفات سمیت ہر طرح کے لٹریچر کی تیاری، اشاعت، اپ لوڈنگ، اور استفادہ پر مکمل پابندی ہے۔ احمدیوں کے چھوٹے بڑے اجتماعات پر یکسر پابندی ہے۔ احمدی بچوں کو حق تعلیم سے محروم کرتے ہوئے سکولوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ احمدیوں کے کاروباروں کو نقصان پہنچایاجاتا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری نوکریوں کا حصول اور وہاں کسی احمدی کا کام کرنا قریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
اس طرح کے سخت ماحول اورکڑے حالات میں بطور مثال محض چند اشخاص کا ذکر کروں گا،مثلاً ایک احمدی محترم طاہر عارف صاحب مرحوم جو ایک کہنہ مشق ادیب، شاعر اور مقرر تھے اور کئی کتب کے مصنف بھی تھے۔آپ نے ایم ایس سی اکنامکس اور ایل ایل بی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے اور لنڈن سکول آف اکنامکس سے ایل ایل ایم (LLM)کی ڈگری حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لنڈن یونیورسٹی سے ’’Mark of Merit‘‘ کاا عزاز حاصل کیا۔لندن سے تکمیل تعلیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے اور یہاں آکر سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور سول سروس آف پاکستان سے وابستہ ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی بلوچستان ) کے عہدہ تک پہنچے۔ پاکستان پولیس کے علاوہ ایف آئی اے(فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی)اور امیگریشن اور انٹیلی جینس بیورو میں بھی متعین رہے۔
اسی طرح مکرم کنور ادریس صاحب تھے جنہوں نے 1959ء میں سول سروسز میں شمولیت اختیار کی اور پینتیس سالہ طویل عرصۂ ملازمت میں مرکزی اور صوبائی حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ہمیشہ ایک نہایت ایماندار اور فرض شناس افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کو عبوری حکومت کے دوران صوبائی وزیر بننے کا بھی موقع ملا۔
الغرض پاکستان کا فخر اور شناخت بننے والے روشن ستاروں کی فہرست بہت طویل ہے جس میں حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ، ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، مرزا مظفر احمد صاحب اور افواج پاکستان میں دفاع ملک کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دینے والے احمدی سپوت بھی ہیں۔ مگر وطن عزیز کی فضاؤں میں اس قدر گھٹن اور تلخی بھر دی گئی ہے کہ ہم حاضر سروس کسی احمدی کا نام اور شعبہ بتانے سے تو یکسرقاصر ہیں۔
پولیس کے محکمہ میں فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی قربانی دینے والے احمدیوں کا ذکر ہوتو مکرم سعید احمد بٹ صاحب پولیس میں اے ایس آئی تھے اور 13؍جولائی 1995ء کو کراچی میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی قربانی دی، ان کی غیر معمولی جرأت و دلیری پر ان کو قائد اعظم پولیس میڈل ملا۔دیگر شعبوں میں ملک کی قابل قدر خدمت کی بات ہوتو چودھری احمد جان صاحب کو محکمہ سول سپلائز میں اعلیٰ خدمات کے صلہ میں صدر پاکستان نے تمغہ خدمت دیا۔ مکرم صفدر علی خان صاحب کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ خدمت ملا۔ اردو زبان کے محقق اور مصنف شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔ پشتو زبان کے عالم قلندر مومند جن کا اصل نام صاحبزادہ حبیب الرحمٰن تھا، کو ان کی علمی خدمات کے صلہ میں 1979ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور 1991ء میں ستارہ پاکستان دیا گیا۔ میجر جنرل ڈاکٹر نسیم احمد صاحب کو 1996ء میں صدر پاکستان کی طرف سے گولڈ میڈل ملا۔ معروف سائنسدان ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کو ان کی اعلیٰ خدمات کے صلہ میں ستارہ خدمت دیا گیا۔ آدم جی ادبی ایوارڈ کے حقدار بننے والے احمدی شاعر عبیداللہ علیم صاحب ہوں یا لیفٹیننٹ کرنل نصرت ظفر صاحب جن کو تمغہ امتیاز (ملٹری )دیا گیا، مثلاً مکرم مصطفیٰ احمد خان صاحب ہیں جو حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ اور حضرت نواب ا مة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے بیٹے تھے۔ انہوں نے 1966ء میں سوئی ناردرن گیس کمپنی میں بطور سینئر جنرل مینیجر ملازمت شروع کی اور اس کے بعد پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دوبارہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر بن گئے۔ 74ءمیں حالات خراب ہوئے تو کمپنی نے آپ کو بالکل ایک طرف کر دیا اور جو اچھا صحیح کام تھا وہ نہیں دیتے تھے۔ ایک احمدی مکرم چودھری رشید احمد صاحب تھے، جو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈپٹی رجسٹرار تھے۔1974ء کے فسادات میں ایک ہجوم نے یونیورسٹی کے احاطہ میں گھس کر حملہ کیا اور گھرلُوٹ کے ان کا سارا سامان نذرِ آتش کر دیا۔ اس احمدی کی ایمانداری اتنی تھی کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ممبر تھے۔ جو ایک بہت بڑا اعزازتھا۔ پھر پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد خان صاحب جو پرویز پروازی صاحب کے نام سے مشہور تھے۔پروازی صاحب نے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1960ء میں یونیورسٹی اوریئنٹل کالج سے ایم اے کیا اور 68ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1975ء سے 79ء تک اوساکا یونیورسٹی آف فارن سٹڈیز (Osaka University of Foreign Studies) جاپان میں وزیٹنگ پروفیسر مقرر ہوئے جہاں خدمات کے دوران انہوں نے پاکستان اور جاپان کے بہترین تعلقات کی بڑی کوشش کی۔پروازی صاحب جاپان سے واپس آئے اورپاکستان کے مختلف کالجوں میں یہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ 86ء سے 90ء تک یہ بطور اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پڑھایا کرتے تھے۔ احمدی ہونے کی وجہ سے اس دَور میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر جب نوبت گرفتاری تک پہنچ گئی تو سب چھوڑ چھاڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ سویڈن ہجرت کی اور وہاں 1991ء سے 2001ء تک اُپسالہ یونیورسٹی (Uppsala University) سویڈن میں پروفیسر کے طورپر خدمات انجام دیتے رہے۔ سویڈن میں قیام کے دوران نوبیل پرائز کمیٹی فار لٹریچر کے رکن بھی بنے اور سولہ سال خدمات سرانجام دیتے رہے۔دنیائے ادب اور تعلیم کے میدان میں آپ کا نام کافی مشہور تھا مگر پاکستان کےحکام کا حال یہ تھا کہ 1980ء کی دہائی میں علامہ اقبال گولڈ میڈل فار لٹریچر سے نوازا گیا تو احمدی ہونے کی وجہ سے ان کو بلایا نہیں گیا اور ان کا میڈل گھر میں بھیج دیا گیا۔
پھر پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب تھے جن کا تعلق ضلع نوابشاہ سے تھا۔ یونیورسٹی سے سندھی لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس دَور میں سندھ میں تعلیمی اداروں کی کمی تھی تو تعلیم کے شوق کی وجہ سے حیدرآباد میں ایک کالج میں بطور لیکچرر کام شروع کیا۔ ان کے شوق کو دیکھ کر وہاں کے پرنسپل نے ان کو کہا کہ نوابشاہ میں ایک تعلیمی ادارہ کھولیں اور eveningکلاسز وہاں شروع کریں۔ چنانچہ وہ کلاسیں کھولی گئیں اور اس نے بڑی ترقی کی۔ اس کے بعد وہ کالج بن گیا اور ان کی محنت کی وجہ سے سندھ کے مشہور کالجوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ سندھی زبان کے علاوہ اردو زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹ بھی آپ سے راہنمائی لینے کے لیے آتے تھے۔ سندھی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جو تعلیمی ماہرین اور شاگردوں کی راہنمائی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
ایک احمدی مکرم پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب تھے جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیتے ہوئے ایم ایس سی زوآلوجی کیا۔اورپھر زوآلوجی میں پی ایچ ڈی کی۔دنیابھر کے رسائل میں پروفیسر صاحب کے دو سو پچاس کے قریب ریسرچ پیپر شائع ہوئے ہیں۔ آپ کا پہلا تحقیقی مقالہ 1972ء میں شائع ہوا جو رپٹائلز (Reptiles)کے بارے میں ان کا مضمون تھا۔ سانپوں، چھپکلیوں اور کیڑوں وغیرہ کے بارے میں بہت ریسرچ کیا کرتے تھے اور جو قدرت کے حشرات الارض ہیں ان کے بارے میں بڑی تحقیق تھی۔انہی خدمات کے بدلہ میں 2002ء میں انہیں پاکستان میں Zoologist Of The Yearکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔کچھ سائنسدان امریکہ اور کینیڈا سے ان سے ملنے آئے اور کہا کہ پاکستان میں رپٹالوجی(reptology) میں شریف خان صاحب سے بڑا اَور کوئی ماہر نہیں ہے۔
ایک احمدی خاتون مکرمہ ڈاکٹر شمیم ملک صاحبہ تھیں جن کے شوہر مکرم مقصود احمد ملک صاحب کو 2010ء میں لاہور میں شہید کردیا گیا تھا۔مکرمہ شمیم صاحبہ نے پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی۔ کالج میں پڑھاتی تھیں۔ پروفیسر ہوئیں۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے عہدے تک ترقی پائی۔ زندگی میں ہی پنجاب یونیورسٹی میں ان پر ایک thesisبھی لکھا گیا۔موصوفہ اپنے شعبہ میں اس قدر ممتاز تھیں کہ thesis عموماًشخصیات پر بعد از وفات لکھے جاتے ہیں لیکن ان پر ان کی زندگی میں لکھا گیا۔
پھر ایک مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب تھے، ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ اس کے بعد 1966ء میں یونیورسٹی آف پشاور سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر1973ء میں لاٹروب یونیورسٹی (La Trobe University)ملبرن آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں بھی اور باہر بھی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھاتے رہے ہیں۔ گھانا میں کیپ کوسٹ یونیورسٹی (Cape Coast University)میں جب پڑھاتے تھے۔بہت اچھے ریسرچ سکالر تھے۔آپ نے گورنمنٹ کے ایک ادارہ میں ملازمت اختیار کی۔اور پھر Sustainable Development Policy Institute میں شمولیت اختیار کی۔ آپ اس ادارے میں بہت مقبول ہوئے اور کمال اخلاص سے کام کیا۔ آپ نے اشیائے طعام، نظام نکاسی اور دیگر اشیائے زینت (بیوٹی پروڈکٹس) وغیرہ میں موجود خطرناک کیمیکل کے خاتمہ کے لیے کام کیا اور اس کام میں بین الاقوامی طور پر کافی شہرت حاصل کی اور اس حوالے سے کئی کتب تصنیف کیں۔ان کی وفات پر پاکستان کے علاوہ جرمنی، سویڈن، برکینا فاسو، امریکہ،آذربائیجان، سوئٹزر لینڈ، نائیجیریا، مصر، بحرین اور بہت سے ممالک کے سائنس دانوں اور حکومتی وزارتوں کے نمائندوں نے اور یونیورسٹیز کے چانسلرز اور پروفیسرز نے، سول سوسائٹی کے این جی اوز کے صدران نے تعزیت کے پیغامات بھیجے تھے۔ مثلاً مسٹر چارلس جی براؤن (Charles G. Brown)صدر ورلڈ الائنس فار مرکری فری ڈینٹسٹری (World Alliance for Mercury-Free Dentistry)واشنگٹن ڈی سی امریکہ نے لکھا کہ ڈاکٹر محمود خواجہ انتہائی منفرد دانشور اور بہت نایاب سماجی کارکن تھے۔ جدید سائنس اور زہریلے مادوں پر ان کی شان دار سائنسی تحریریں اسکالرشپ کو ترقی دینے اور سرکاری اور نجی شعبوں کو کام کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ کام کرنے والی ان کی کئی دہائیوں پر محیط کاوشوں نے اقوام کے درمیان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے، سول سوسائٹی کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور پاکستان میں زہریلے مواد کو کم کرنے میں مدد کی۔ انہیں 2019ء میں پی بی سی (The Pacific Basin Consortium for Environment and Health chairman) کا ایوارڈ ملا۔ ڈاکٹر محمود کے کارناموں میں ایک بین الاقوامی طبی تنظیم کا صدر ہونا بھی شامل ہے۔ وہ اب تک منتخب کیے گئے صدور میں سے واحد ڈاکٹر ہیں جو فزیشن نہیں تھے بلکہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔
مثال میں پیش کیے گئے ان سب افراد کا پاکستان میں مخصوص جماعتی حالات میں اس قدر اعلیٰ مناصب پر پہنچنااور خود کو منوانااورتمام تر مخالفت کے باوجود اہل وطن کی خدمت پر کمربستہ رہنا ان نابغوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف اور اعلان ہے۔ورنہ اگر پاکستان اپنے پیاروں سے منہ نہ موڑتا، ان کی ناقدری نہ کرتا، محسن کشی کے نچلے درجہ تک نہ چلا جاتا تو ہر سال دنیا کے مختلف ملکوں کے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر احمدی عورتوں اور مردوں کے تعلیمی اعزازات کی طویل فہرست میں کم از کم ایک حصہ تو پاکستان کے نام ہوتا۔ کیونکہ یہ وہی روشن دماغ اور ملک و قوم کے معمار افراد تھے جن کو جب پاکستان میں ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا، تو وہ اپنا سب کچھ لٹا کر ایمان بچانے نکل پڑے اور خدا نے انہیں اپنی سنت کے مطابق بےنصیب نہیں رکھا ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ اہل مکہ نے مسلمانوں پر ہزار ہا ظلم ڈھائے، اورمعصوم مردو عورتوں پر ہر ستم روا رکھا، جسمانی، مالی اور ذہنی تشدد کو انتہا تک پہنچایا، حتی کہ نبی کریمﷺ کو اپنی اس پیاری جنم بھومی اور محبوب بستی سے ہی رات کی تاریکی میں نکلنا پڑا، مگر جب اہل مکہ کو قحط سالی کی تکلیف پہنچی تو بھوک سے ستائےہوؤں کو امداد بھی اسی دست سخا سے ملی۔
سات ستمبر1974ء کی غیر منصفانہ قانون سازی پر نصف صدی ہورہی ہے، مگر جماعت احمدیہ نے پاکستان سے وفا کرنے اور اس کو فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ اس کی سب سے بڑی مثال خلفائے احمدیت کی وہ دعائیں ہیں جو پاکستان کے لیے ہیں۔ امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دعاؤں کی تحریک کے متعلق بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ اپنےخطبہ جمعہ فرمود ہ 23؍مارچ 2012ء فرماتے ہیں: ’’پاکستان میں بھی 23؍مارچ کو یوم پاکستان منایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے بھی پاکستانی احمدیوں کو میں کہوں گا کہ دعا کریں کہ جس دور سے آج کل ملک گزر رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو بچائے۔ احمدیوں کی خاطر ہی اس کو بچائے۔ کیونکہ احمدیوں نے اس ملک کو بچانے کی خاطر بہت دعا ئیں کی ہیں۔‘‘(خطبات مسرور جلد دہم صفحہ 190)’’…جو ملک کی حالت ہے وہ بھی ظاہر و باہر ہے۔ اس لئے آج کے، اس دن کے حوالے سے پاکستانی اپنے ملک پاکستان کے لئے بھی بہت دعائیں کریں، اللہ تعالیٰ اس کو اس تباہی سے بچائے جس کی طرف یہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 13؍اپریل 2012ء صفحہ 5)
8؍اکتوبر 2005ءکو پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں آنے والے ہولناک زلزلہ کے بعدحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نہ صرف صدر اوروزیراعظم پاکستان اور صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش اور دعاؤں سے بھرپور خطوط لکھے بلکہ جماعت کو بھی ریلیف کے کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’وطن کی محبت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہر پاکستانی احمدی اس کڑے وقت میں اپنے بھائیوں کی مدد کرے۔ عملی طور پر بھی اور دعاؤں سے بھی۔ اپنی تکلیفوں کو بھول جائیں اور دوسرے کی تکلیف کا خیال کریں۔ جماعت احمدیہ نے پہلے دن سے ہی جب سے کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے ہمیشہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے قربانیاں دی ہیں اس لیے یہ تو کبھی کوئی سوچ نہیں سکتا کہ ایک احمدی کا کوئی مسلمان بھائی تکلیف میں ہو یا ملک پر کوئی مشکل ہو اور ایک احمدی پاکستانی شہری دور کھڑا صرف نظارہ کرے اور اس تکلیف کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پس جماعت احمدیہ نے اس ملک کے بنانے میں بھی حصہ لیا ہے اور انشاءاللہ اس کی تعمیر و ترقی میں بھی ہمیشہ کی طرح حصہ لیتی رہے گی۔ کیونکہ آج ہمیں ’’وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے‘‘ کا سب سے زیادہ ادراک ہے۔ آج احمدی جانتا ہے کہ وطن کی محبت کیا ہوتی ہے۔ اور جس جس ملک میں بھی احمدی بستا ہے وہ اپنے وطن سے، اپنے ملک سے خالص محبت کی عملی تصویر ہے۔ اس لیے اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ پاکستانی احمدی ملک کے وفادار نہیں ہیں تو یہ اس کا خام خیال ہے۔جماعت احمدیہ پاکستان بھی اپنے ہموطنوں کی، جہاں تک ہمارے وسائل ہیں، مصیبت زدوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
لیکن میں پھر بھی ہر پاکستانی احمدی سے کہتا ہوں، ان کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان حالات میں جبکہ لاکھوں افراد بےگھر ہو چکے ہیں، کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، حتی المقدور ان کی مدد کریں، جو پاکستانی احمدی باہر کے ملکوں میں ہیں، ان کو بھی بڑھ چڑھ کر ان لوگوں کی بحالی اور ریلیف کے کام میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے۔ وہاں کی ایمبیسیوں نے جہاں جہاں بھی فنڈ کھولے ہیں اور جہاں ہیومینیٹی فرسٹ نہیں ہے، ان ایمبیسیز میں جا کر مدد دے سکتے ہیں۔‘‘( خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 611۔612)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وطن کے لیے دعاؤں کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’آج 14؍اگست بھی ہے جو پاکستان کا یوم آزادی ہے۔ اس لحاظ سے بھی دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو حقیقی آزادی نصیب کرے اور خود غرض لیڈروں اور مفاد پرست مذہبی رہنماؤں کے عملوں سے ملک کو محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ عوام الناس کو عقل اور سمجھ بھی عطا کرے…۔احمدی جنہوں نے ملک کے بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، قربانیاں دی ہیں ان پر ظلم کیے جا رہے ہیں لیکن بہرحال پاکستانی احمدیوں نے جہاں بھی وہ ہوں ملک سے وفا کا اظہار ہی کرنا ہے اور اسی لئے دعا بھی کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو سلامت رکھے اور ظالموں اور مفادپرستوں سے اس ملک کو نجات دے۔ ملک کی بقاء اور سالمیت کو خطرہ باہر سے زیادہ اندر کے دشمنوں سے ہے۔ خودغرض اور مفاد پرست لیڈروں اور علماء سے ہے…پاکستانی احمدیوں کو اپنے ملک کے لئے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستانی احمدیوں کو بھی حقیقی آزادی نصیب فرمائے اور یہ ملک قائم رہے۔‘‘( خطبات مسرور جلد 13 صفحہ 487تا488)
عالمی عدالت انصاف سے منسلک ایک احمدی قانون دان کا 1974ء کی قانون سازی اور احمدیوں کی ملک سے وفاپر تجزیہ ہے کہ اس وقت تو پاکستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ملک نے اپنے ہی ایک عضو کو کاٹنے کی کوشش کی ہے اور اس غیر دانشمندانہ فعل کی وجہ سے پاکستان کا ہی نقصان ہے اور احمدیوں کوملکی ترقی کی دوڑ سے الگ کرنا،خود ملک کے لیے اس کے جسم سے بہت تیزی سے خون رسنے کے مترادف ہے اور اس ایک غلط فیصلہ نے ملک کو ہی نازک صورت حال سے دوچار کردیا ہے، جوپاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی جائزوں میں سب کے سامنے ہے۔
بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دشمنی پر کمربستہ ایک شخص کو منظوم عربی کلام میں متوجہ کیا تھا،کسی حد تک آج یہی صورت حال پاکستان پر بھی صادق آتی ہے کہ تُونے میرے مقام کو شناخت کیا پھر منکر ہو گیا۔پس یہ کیسا جہل ہے جو علم کے بعد دیدہ و دانستہ وقوع میں آ یا۔تُونے اس دوستی کو کاٹ دیا جس کا درخت ہم نے ایّامِ کود کی میں لگایا تھا۔مگر میرے دل نے دوستی میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔
(’راہب منصور‘)
٭…٭…٭