اس زمانہ میں سب سے مقدم اشاعت علم دین ہے
مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اُٹھاتاہے۔اسی طرح مرید اپنے مرشد سے۔ لیکن شاگرد اگر اُستاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ یہی حال مرید کاہے۔ پس اس سلسلہ میںتعلق پیداکر کے اپنی معرفت اور علم کوبڑھاناچاہئے۔طالب ِحق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہرگز ٹھہرنا نہیں چاہئے ورنہ شیطان لعین اَو رطرف لگا دے گا۔ اور جیسے بند پانی میں عفونت پیداہو جاتی ہےاسی طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لیے سعی نہ کرےتو وہ گر جاتاہے۔ پس سعادت مند کا فرض ہے کہ وہ طلب دین میں لگارہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺسے بڑھ کر کو ئی انسان کامل دنیا میںنہیںگزرا۔ لیکن آپ کو بھی رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طہ: ۱۱۵) کی دعا تعلیم ہوئی تھی۔ پھر اَور کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کرکے ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے۔ جوںجوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اُسے معلو م ہوتاجاوے گا کہ ابھی بہت سی باتیںحل طلب باقی ہیں۔ بعض امور کو وہ ابتدائی نگاہ میں (اس بچے کی طرح جو اقلید س کے اشکال کو محض بیہودہ سمجھتاہے )بالکل بیہودہ سمجھتے تھےلیکن آخروہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے۔ اس لیے کس قدر ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کو بدلنے کے ساتھ ہی علم کو بڑھانے کے لیے ہر بات کی تکمیل کی جاوے۔تم نے بہت ہی بیہودہ باتوں کو چھوڑکر اس سلسلہ کو قبول کیا ہے۔اگر تم اس کی بابت پُورا علم اوربصیرت حاصل نہ کرو گے تو اس سے تمہیں کیا فائدہ ہواتمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی۔ذراذراسی بات پر شکوک اورشبہات پیداہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگاجانے کا خطرہ ہے۔
(ملفوظات جلد۳صفحہ۱۹۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
بعض لوگ اگر کچھ تھوڑا بہت دین کے معاملہ میں خرچ بھی کرتے ہیں تو ایک رسم کے پیرایہ میں نہ واقعی ضرورت کے انجام دینے کی نیت سے جیسے ایک کو مسجد بنواتے دیکھ کر دوسرا بھی جو اس کا حریف ہے خواہ نخواہ اس کے مقابلہ پر مسجد بنواتا ہے اور خواہ واقعی ضرورت ہو یا نہ ہو مگر ہزارہا روپیہ خرچ کرڈالتا ہے۔ کسی کو یہ خیال پیدا نہیں ہوتا جو اس زمانہ میں سب سے مقدم اشاعت علم دین ہے۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۶۱)