خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2023ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا بصیرت افروز خطاب

ہر شعبۂ زندگی میں ان صحابیات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قوت قدسی سے فیض پا کر ایسے نمونے قائم کیے جو مثال بن کر ہمیشہ چمکتے رہیں گے

عبادت کے اعلیٰ معیار ضرور حاصل کرنے چاہئیں لیکن ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ اس حد تک جاؤ جس میں باقاعدگی رہے اللہ کو سب سے پیارا دین وہ ہے جس پر اس کا بندہ دوام اختیار کرے (الحدیث)

آج بھی اسلام کے پھیلانے کے لیے یہی اصول لاگو ہو گا کہ ہماری عورتیں اور مرد ہر قربانی کے لیے تیار رہیں اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ آج اسلام کی تبلیغ کا کام اور اسے دنیا میں پھیلانے کا کام ہمارے سپرد ہے اور ہمیں بے خوف و خطر ہو کر اس فریضےکو سرانجام دینا چاہیے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:اللہ کی قسم! اللہ نے مجھے اس سے بہتر بدل نہیں عطا فرمایا۔ وہ ایمان لائی جب لوگوں نے انکار کیا اور اس نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی اور اپنے مال سے میری مدد کی جب لوگوں نے اپنا مال مجھ سے روکے رکھا اور اللہ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے نہ دی

بہت سی احمدی خواتین ہیں جو اپنے مال اور زیور کی پروا نہ کرتے ہوئے بے دریغ قربانی کرتی ہیں اور بغیر کسی انقباض کے دین کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں بلکہ بعض دفعہ ان کو روکنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں میں بھی جماعت احمدیہ میں اضافہ فرماتا چلا جائے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت دے

صحابیات میں یہ تڑپ بھی رہتی تھی کہ پہلے دن سے ہی اپنے بچوں کے اندر خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور تعلق پیدا کریں صحابیاتِ رسولؐ وہ مائیں تھیں جنہوں نے ایمان اپنے بچوں کی رگوں میں دوڑا دیا تھا اور یہی وہ ایمان کا معیار ہے جو اسلام کی ترقی کا ذریعہ ہے

اور یہی وہ معیار ہے جو ہمیں اپنے اندر اور اپنی اولادوں کے اندر پیدا کرنا ہے تا کہ اسلام کی نشأة ثانیہ میں ہم اپنا کردار ادا کر سکیں آج بھی جماعت میں ایسی عورتیں ہیں جو دین کی خاطر اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں

آج سب سے زیادہ اس بات کی ضرور ت ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے کی کوشش کی جائے۔ عشق رسول میں بڑھتے چلے جانے کی کوشش کی جائے۔ تربیت اولاد کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ ان کی گھٹی میں دین کی اہمیت اس طرح ڈالیں کہ وہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں

صحابیاتِ رسولؐ کی عبادتوں کے اعلیٰ معیار، غیرمعمولی عشقِ رسولؐ، کامل اطاعتِ رسولؐ، مالی و جانی قربانی، توکّل علی اللہ اور مثالی تربیتِ اولاد پر مبنی ایمان افروز واقعات کا بیان

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2023ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب

(فرمودہ مورخہ29؍جولائی 2023ء بروزہفتہ بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ)آلٹن، ہمپشئر، یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج میں نے آپ کے سامنے بیان کرنے کے لیے

صحابیات کے کچھ واقعات

لیے ہیں۔ ان واقعات کو پڑھ کر اور سن کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح

ہر شعبۂ زندگی میں ان صحابیات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قوت قدسی سے فیض پا کر ایسے نمونے قائم کیے جو مثال بن کر ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔

مَیں صرف چند مثالیں پیش کروںگا بلکہ بیان کر سکوں گا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ صحابیات کے تمام شعبہ ہائے زندگی کی مثالیں بیان کی جائیں کجا یہ کہ تمام مثالیں بیان ہوں اور واقعات بیان ہوں۔ بہرحال چند ایک مثالیں جو میں نے لی ہیں وہ بیان کرتا ہوں۔ ان میں صحابیات کی عبادات اور تعلق باللہ کے معیاروں کے واقعات ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے معیار کے واقعات ہیں۔ مالی قربانیوں کے معیار کی بعض مثالیں ہیں۔ جان کی قربانی اور دین کی خاطر اپنے بچوں کی بھی جان کی قربانی کے معیار قائم کرنے کے واقعات ہیں۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کے بارے میں کیا طریق تھا اس کی ایک دو مثالیں ہیں۔ یہ وہ عورتیں تھیں جو اسلام لانے سے پہلے دنیا سے پیار کرنے والی تھیں۔ بہت زیادہ دنیاوی خواہشات رکھتی تھیں لیکن جب دین قبول کیا تو پھر اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کے لیے قربان کر دیا۔

ان صحابیات کے عبادتوں کے معیار کیا تھے، یا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ کس قدر کوشش کیا کرتی تھیں اور اللہ تعالیٰ کا ان سے تعلق کیسا تھا

اس بارے میں بہت سی روایات ہیں۔

حضرت حمنہ بنت جحشؓ کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک رسّی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ رسی کیا ہے؟ عرض کیا گیا یا رسول اللہؐ! یہ حمنہ بنت جحش کی ہے جو نماز ادا کرتی ہیں۔ جب تھک جاتی ہیں تو اس کے ذریعےسہارا لیتی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چاہیے کہ جتنی طاقت ہے اتنی نماز پڑھے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔

ایک اَور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو لوگوں نے کہا یہ زینب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں کے لیے ہے۔ وہ نماز پڑھتی ہیں۔ جب وہ تھک جاتی ہیں یا وقفہ کرتی ہیں تو اس کو پکڑ لیتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھول دو۔ پھر فرمایا چاہیے کہ تم میں سے جب کوئی ہشاش بشاش ہو تو نماز پڑھے۔ جب تھکاوٹ محسوس ہو یا وقفہ کرے تو بیٹھ جائے۔

(سنن ابو داؤدکتاب الصلاۃ باب النعاس فی الصلاۃحدیث: 1312)
(فتح الباری جلد 3 صفحہ 45 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے ان کا یہ شوق تھا لیکن اسلام جو اعتدال کا حکم دیتا ہے اس کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبادت کے معیار ضرور حاصل کرنے چاہئیں لیکن اپنے آپ کو اتنی تکلیف میں نہ ڈالو کہ اپنے جسم کی تکالیف کا بھی خیال نہ ہو اور دوسرے یہ کہ

عبادت کے اعلیٰ معیار ضرور حاصل کرنے چاہئیں لیکن ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ اس حد تک جاؤ جس میں باقاعدگی رہے۔

یہ نہیں کہ آج تو ساری رات لگا دی نفل پڑھتے رہے اور کل سوتے رہے اور فرض کا بھی خیال نہ رہا۔ اس باقاعدگی اور دوام کی ہدایت کے بارے میں ایک روایت میں یوںذکرملتا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میرے پاس ایک عورت تھی۔ آپؐ نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا یہ عورت ساری رات سوتی نہیں نماز پڑھتی رہتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمہیں چاہیے وہ کام کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا لیکن تم اکتا جاؤ گے اور

اللہ کو سب سے پیارا دین وہ ہے جس پر اس کا بندہ دوام اختیار کرے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب احب الدین الی اللّٰہ ادومہ حدیث: 43)

باقاعدگی رہے اس پر عمل کرنے کی۔

پھر ایک صحابیہ کی عبادت کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنی والدہ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ میری والدہ کو روزے سے اس قدر محبت تھی کہ ہر پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتی تھیں۔

(طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 217 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

پھر ایک روایت ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارثؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے۔ حضرت زینب بنت جحشؓ نے کوئی بات کہی تو حضرت عمرؓ نے ان کو ڈانٹ دیا، سختی سے بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! ان کو چھوڑ دو۔ وہ تو اَوَّاھَۃٌہیں یعنی جو خوفِ خدا اور محبت کی وجہ سے بہت آہیں بھرتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ تم اس کی آہ کے نیچے آجاؤ۔ ایک آدمی نے پوچھا اور یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ کسی آدمی نے پوچھا کہ اَوَّاہکیا ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ سے ڈرنے والا اور بہت دعائیں کرنے والا اور تضرّع اختیار کرنے والا۔

(الاصابہ جلد 8 صفحہ 154 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 227)

(حلیۃ الاولیاء جلد2 صفحہ 49 مکتبۃ الایمان المنصورۃ 2007ء)

پس یہ وہ معیار تھے جو عورتوں نے بھی حاصل کیے اور اللہ تعالیٰ نے کوئی تخصیص نہیں رکھی کہ یہ معیار صرف مردوں کو ملتے ہیں عورت کو نہیں مل سکتے۔ بلکہ ایک عورت کی نیکی کے معیار کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی اور ان کی آہ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ کتنے خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں۔

پھر

عشقِ رسول ؐکی غیر معمولی مثالیں

ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں جن کا اظہار خواتین سے ہوا۔ عبادات کا تو یہ معیار ہے کہ ان کو روکنا پڑتا ہے۔ عبادت میں میانہ روی اختیار کرو۔ یہ نہیں کہ توجہ دلائی جائے۔پھر عشق رسول کی باتیں آتی ہیں۔ یہاں بھی خواتین کے معیار ہیں۔ یہی وہ معیار تھے جس نے مردوں میں وہ جذبہ پیدا کیا جس سے وہ عشق رسول اور دین کی خاطر قربانی میں بڑھے۔ ایسے ہی ایک واقعہ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے انداز میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’احد کی جنگ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شہید ہونے کی خبر پھیل گئی اور جب کمزور اور بزدل لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ کر مدینہ کی طرف آرہے تھے تو مدینہ کی عورتیں احد کے میدان کی طرف دیوانہ وار دوڑی جاتی تھیں اور بعض عورتیں تو میدانِ جنگ تک جاپہنچیں۔ ایک عورت کے متعلق آتا ہے کہ جب و ہ میدانِ جنگ میں پہنچیں تو انہوں نے ایک مسلمان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خیریت کے متعلق پوچھا تو اس شخص نے جواب دیا کہ بی بی! تمہارا باپ مارا گیا ہے۔ اس نے کہا میں تم سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھ رہی۔ مَیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس شخص نے اس کے باپ ،بھائی، بیٹااور خاوند چاروں کے مرنے کی اطلاع اسے دی اور بعض روایات میں آتا ہے کہ اس نے اس کے تین رشتہ داروں یعنی باپ، بھائی اور خاوند کے مرنے کی اطلاع دی لیکن ہر دفعہ اس عورت نے یہی کہا کہ میں تم سے رشتہ داروں کے متعلق نہیں پوچھتی، مَیں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیریت سے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہ میدانِ جنگ کی طرف بھاگ پڑی اور وہ فقرہ جو وہ کہتی تھی اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کتنی محبت تھی۔ وہ احد کے میدان کی طرف دوڑی جاتی تھی۔ اسے جو سپاہی ملتا اسے کہتی مَافَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ وسلم) ارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیا کیا۔‘‘ مصلح موعودؓ کہتے ہیں ’’یہ فقرہ خالص طور پر عورتوں کا فقرہ ہے کوئی مرد اپنے پاس سے یہ فقرہ نہیں بنا سکتا کیونکہ جب کسی عورت کا بچہ یا اس کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ کہتی ہے ارے تم نے یہ کیا کیا، تم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ پس یہ فقرہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا ایک زنانہ آواز ہے اور کوئی مؤرخ ایسا جھوٹا فقرہ نہیں بنا سکتا کیونکہ عورتوں کے سِوا یہ فقرہ کسی اَور کے منہ سے نہیں نکل سکتا۔ وہ عورت یہ کہتی جاتی تھی کہ ہائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیا کیا کہ آپ شہید ہو گئے اور ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اسے صحابیؓ کے بتا دینے پر بھی تسلی نہ ہوئی اور اصرار کیا کہ تم مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو۔ جب اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نظر آئے تو وہ بھاگتی ہوئی آپؐ کے پاس پہنچی اور آپؐ کا دامن پکڑ لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا بی بی! مجھےافسوس ہے کہ تیرا باپ اور تیرا بھائی اور تیرا خاوند لڑائی میں مارے گئے۔ اس عورت نے جواب دیا

جب آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کسی اَور کی موت کی پرواہ نہیں۔‘‘

(فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد18صفحہ 399تا400)

یہ تھی وہ عشق رسول کی حقیقت جو قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین سے ہم نے سیکھی یا انہوں نے ہمیں بیان کی، دکھائی اور صرف یہ ایک مثال نہیں بلکہ اَور بھی ایسی مثالیں ہیں ۔

ایک بوڑھی خاتون کے عشق رسول کے بارے میں ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں او ربچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعد بن معاذؓ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے۔ شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ احد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ اس بڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر ادھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعد بن معاذؓ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اسے صدمہ ہو گا۔ اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں او رتسلی دیں۔ اس لئے جونہی ان کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا یا رسو ل اللہؐ! میری ماں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ماں! آپؐ نے فرمایا۔‘‘ اس لیے کہا کہ آپؐ اس کو بھی افسوس کریں۔ آپؐ نے اسے، ماں کو دیکھ کر فرمایا۔ ’’ بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔ بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر ادھر دیکھتی رہی۔ آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔ وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہؐ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو! وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔‘‘ اس کا سہارا تھا اس کا بیٹا، وہ مر گیا، شہید ہو گیا لیکن ’’کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور آپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہو گا۔ تو دیکھو! عورتوں کی یہ عظیم الشّان قربانی تھی جس سے اسلام دنیا میں پھیلا۔‘‘

(قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ…، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 441)

اور

آج بھی اسلام کے پھیلانے کے لیے یہی اصول لاگو ہو گا کہ ہماری عورتیں اور مرد ہر قربانی کے لیے تیار رہیں اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ آج اسلام کی تبلیغ کا کام اور اسے دنیا میں پھیلانے کا کام ہمارے سپرد ہے اور ہمیں بے خوف و خطر ہو کر اس فریضےکو سرانجام دینا چاہیے۔

پھر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اَور انداز دیکھیں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلیمؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کی ایک چٹائی بچھاتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں اس چمڑے کی چٹائی پر ہی قیلولہ کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے تو انہوں نے یعنی حضرت ام سلیمؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال لیے اور انہیں ایک شیشی میں اکٹھا کر لیا پھر انہیں ایک خوشبو میں ملا لیا۔

(صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب من زار قوما فقال عندھم حدیث: 6281)

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 14 صفحہ 138 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر آتے اور ان کے بچھونے پر استراحت فرماتے جبکہ وہ وہاں نہ ہوتیں۔ کہتے ہیں ایک دن آپؐ تشریف لائے اور حضرت ام سلیم کے بچھونے پر سو گئے۔ چنانچہ حضرت ام سلیم ؓکو بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہوئے ہیں۔ آپؐ کے گھر اور بچھونے پر سو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں تو ام سلیم آئیں اس وقت حضور کو پسینہ آیا ہوا تھا۔ بستر پر، چمڑے کے ٹکڑے پر حضور کا پسینہ جمع ہو گیا۔ انہوں نے اپنی صندوقچی کھولی، اپنا بکس کھولا اور اس پسینے کو جذب کر کے اس میں سے ایک شیشی نکالی اور اس میں نچوڑنے لگیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکے اور فرمایا: اے ام سلیم !تم کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم اس پسینہ سے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب طیب عرقہ والتبرک بہ حدیث 6056)

صحابیات کس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی تھیں

چاہے وہ ذاتی معاملات ہوں۔ اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ نے اپنے والد حضرت ابوسفیان کے انتقال کے بعد اور ام المومنین حضرت زینب بنت جحش ؓنے اپنے بھائی کے وصال کے تین دن بعد خوشبو لگائی اور ارشاد فرمایا خدا کی قسم! مجھے اس کی ضرورت نہ تھی مگر میں نے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جو عورت اللہ عز وجل اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی کے مرنے کا سوگ تین راتوں سے زیادہ کرے سوائے شوہر کے کہ اس کےسوگ کی مدت چار ماہ دس دن ہے۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓکہتی ہیں کہ میں حضرت ام حبیبہؓ کے پاس گئی جب ان کے والد ابوسفیان کا انتقال ہوا۔ پس انہوں نے خوشبو دار چیز منگوائی جس میں زردی تھی یا کچھ اَور۔ اور اس میں سے خلوب یا کچھ اَور میں سے کچھ ایک لڑکی کو لگائی اور پھر اپنے رخسار پر ملی۔ سنگھار کیا۔ اس کے بعد فرمایا واللہ! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں ہے مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ پر اور آخری دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین راتوں سے زیادہ بناؤ سنگھار سے رکے سوائے اپنے شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے اور دس دن اس نے اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الطلاق باب احداد المتوفی عنھا زوجھا حدیث: 2299)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت کے بارے میں

ایک صحابیہ کے واقعہ کا یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیسؓ جو پہلے پہل ہجرت کرنے والی عورتوں میں سے تھیںانہوں نے کہا مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ آ کر شادی کا پیغام دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے اپنے غلام اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے شادی کے لیے پیغام دیا۔ اور میں نے سن رکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو کوئی مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے اسامہ سے بھی محبت رکھنی چاہیے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس سلسلےمیں گفتگو کی تو میں نے کہا میں اپنا معاملہ آپؐ کو سونپتی ہوں آپؐ جس سے چاہیں میری شادی کر دیں۔

(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 6 صفحہ 183 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2004ء)

پھر ایک نوجوان لڑکی کے عشقِ رسول اور کامل اطاعت کا واقعہ سنیں۔ ایک روایت میں آتا ہے ابوبرزہ اسلمی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی سے کہا۔ اپنی بیٹی مجھے دے دو۔ اس نے کہا زہےنصیب یا رسول اللہ! بہت بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی ذات کے لیے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، کوئی اپنے لیے رشتہ نہیں مانگ رہا۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ ؐ! پھر کس کے لئے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلیبیب کے لیے۔ یہ سیاہ فام میں مسلمان غلام تھے۔ اس انصاری نے کہا یا رسول اللہؐ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کر لوں۔ چنانچہ وہ اس کی ماں کے پاس آیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس کی بیوی نے کہا بہت خوب، بڑی اچھی بات ہے اور کیا چاہیے۔ اس انصاری نے وضاحت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے نکاح کا پیغام نہیں دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیبیب کے لیے پیغام دیا ہے۔ اس نے کہا کیا؟ جلیبیب کے لیے؟ وہ غلام؟ ہرگز نہیں ۔بخدا! میں کسی صورت میں اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی نہیں کروں گی۔ جب وہ انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتانے کے لیے جانے لگا جو اس لڑکی کی ماں نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ اس نے انکار کر دیا ہے تو وہاں لڑکی آ گئی اور اس لڑکی نے کہا تمہارے پاس میرے لیے کس نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے؟ اس کی ماں نے سارا واقعہ بیان کیا تو اس لڑکی نے کہا کیا آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ردّ کریں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آپ میرا نکاح وہاں کریں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خدا تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس کا باپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپؐ اس رشتےسے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح جلیبیب سے کر دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ جنگِ احد میں ان کے یہ خاوند شہید ہو گئے تو ان کی اس بیوہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرو برکت کی دعا کی اور اس دعا کی برکت تھی کہ مدینہ کی مالدار بیواؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 663تا664 حدیث 20022 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

(السیر اعلام النبلاء جزء 26 صفحہ 435 باب غزوہ احد مطبوعہ دار الرسالہ العالمیۃ 2014ء)

پس یہ تھے نوجوان لڑکیوں کے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو پورے کرنے کے معیار۔

پھر

مالی قربانی کے بعض واقعات

ہیں۔ سب سے پہلے تو حضرت خدیجہؓ کا ذکر آتا ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قربان کر دیا۔ تمام مال آپؐ کو دے دیا۔ اپنے غلام دے دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بھی حضرت خدیجہؓ کی کس قدر عزت تھی اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے کر گئے ہوں اور حضرت خدیجہؓ کا ذکر نہ فرمایا ہو اور اس کی تعریف نہ بیان فرمائی ہو۔ ایک روز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا تو مجھے غیرت محسوس ہوئی اور میں نے کہا وہ ایک بڑھیا ہی تو تھی، اللہ نے آپؐ کو اس سے بہتر بدل عطا فرمایا اور بہت سی بیویاں ہیں آپؐ کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں

اللہ کی قسم! اللہ نے مجھے اس سے بہتر بدل نہیں عطا فرمایا۔ وہ ایمان لائی جب لوگوں نے انکار کیا اور اس نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی اور اپنے مال سے میری مدد کی جب لوگوں نے اپنا مال مجھ سے روکے رکھا اور اللہ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے نہ دی۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آئندہ میں کبھی ان کے بارے میں کوئی بری بات نہیں کہوں گی۔

(اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 86 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)

حضرت مصلح موعودؓ حضرت خدیجہؓ کے بارے میں تاریخ سے واقعات بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خدیجہؓ جب ایمان لائیں تو ان کو کیا معلوم تھا کہ اس ایمان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے کیاکچھ برکات مقدر کر رکھی ہیں۔ بےشک انہوں نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے اپنا تمام مال قربان کردیا۔ یہاں تک کہ وہ مکہ کی متموّل ترین عورت ہوتے ہوئے غربت اور تنگدستی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئیں اور پھر شعبِ ابی طالب میں متواتر تین سال تک انہوں نے ایسی ایسی تکالیف برداشت کیں کہ انہی کے نتیجہ میں آپؓ وہاں سے نکلتے ہی انتقال فرما گئیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو ایسا نوازا کہ آج تک عالمِ اسلام ان کا نام عزت اور ادب کے ساتھ لے رہا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی ایسی محبت ڈالی کہ جنگِ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے داماد ابو العاص جو ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے قید ہوکر آئے تو آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے جو ابھی مکہ میں ہی تھیں ان کے فدیہ کے طور پر اپنے گلے کا ہار اتار کر بھیج دیا۔ یہ وہ ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپؐ کو حضرت خدیجہؓ یاد آ گئیں اور آپؐ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ اگر تم چاہو تو خدیجہؓ کی یہ یادگار ان کی بیٹی کے پاس محفوظ رہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ 26تا27۔ ایڈیشن2004ء)یعنی انہیں واپس کر دو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ ؓکی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود بھی مالی قربانی میں کم نہیں تھیں۔ ان کے بارے میںبھی بہت سی روایات ملتی ہیں۔ چنانچہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کا ایک سب سے نمایاں وصف جُود و سخا تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ نے ان کی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے تو شام ہوتے ہوتے سب خیرات کر دیے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا۔ اتفاق سے اس دن روزہ رکھا ہوا تھا۔ لونڈی نے عرض کی کہ افطار کے لیے کچھ نہیں ہے۔ فرمایا: پہلے سے کیوں نہیں یاد کرایا۔

(سیر الصحابہؓ جلد6 صفحہ 49 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

پھر

ازواجِ مطہرات کی مالی قربانیوں کے بارے

میں ایک روایت یوں ملتی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواجِ مطہرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم میں سے کون سب سے جلدی آپؐ سے ملنے والی ہے۔ آپؐ نے فرمایا تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی۔ تو انہوں نے سرکنڈا لیا، ایک سوٹی لی اور اس کو ماپنے لگیں۔ پس حضرت سودہؓ ان میں سب سے زیادہ لمبے ہاتھ والی تھیں۔ پس ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے ان کی مراد صدقہ تھا اور وہ حضرت زینب ؓتھیں جو ہم میں سے سب سے جلد آپ سے ملنے والی تھیں اور وہ بہت زیادہ صدقہ دیا کرتی تھیں۔

(صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب حدیث: 1420)

(الاصابہ جلد 8 صفحہ 154 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)

غزوۂ تبوک میں صحابیات کی مالی قربانی کا ذکر یوں بیان ہوا ہے۔ عورتوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کی۔ ام سنان اسلمیہ کہتی ہیں مَیں نے حضرت عائشہؓ کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک کپڑا بچھا ہوا دیکھا جس میں خوشبو، بازو بند، کنگن، کانٹے اور انگوٹھیاں تھیں اور پازیب بھی تھیں جو سب عورتوں نے مسلمانوں کے جہاد کے لیے دی تھیں۔

(کتاب المغازی للواقدی جلد3 صفحہ 992 باب غزوہ تبوک مطبوعہ عالم الکتب)

آج بھی اس بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ

بہت سی احمدی خواتین ہیں جو اپنے مال اور زیور کی پروا نہ کرتے ہوئے بے دریغ قربانی کرتی ہیں اور بغیر کسی انقباض کے دین کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں بلکہ بعض دفعہ ان کو روکنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں میں بھی جماعت احمدیہ میں اضافہ فرماتا چلا جائے اور ان کے اموال و نفوس میں برکت دے۔

پھر

صحابیات نے کس طرح اپنی جان کی قربانیاں پیش کیں،

اس بارے میں بھی ہمیں تاریخ میں واقعات ملتے ہیں جو یقیناً ہمارے ایمانوں میں ایک نئی روح پھونکنے والے ہیں۔ صدیاں گزرنے کے باوجود ہمارے ایمانوں کو تازگی بخشنے والے ہیں۔ حضرت عمارؓ کے والدین کے ساتھ کفار نے جو ظالمانہ سلوک کیا اس کا تاریخ میں ذکر آتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓنے اس واقعےکو اپنی ایک تقریر میں تاریخ سے بیان کیا کہ ’’آپ کے والد یاسرؓ اور آپ کی والدہ سمیہؓ کو بھی کفار بہت دکھ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ ان دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے ان دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپؐ کا دل درد سے بھر آیا۔ آپؐ ان سے مخاطب ہو کر بولے صَبْرًا اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّةُ۔ اے یاسر کے خاندان! صبر سے کام لو۔ خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے۔ اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوں میں پوری ہو گئی کیونکہ یاسرؓ مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر اِس پر بھی کفار کو صبر نہ آیا اور انہوں نے ان کی بڑھیا بیوی سمیہؓ پر ظلم جاری رکھے۔ چنانچہ ابوجہل نے ایک دن غصہ میں ان کی ران پر زور سے نیزہ مارا‘‘ حضرت سمیہؓ کے ’’جو ران کو چیرتا ہوا ان کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے انہوں نے جان دے دی۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 195تا196)

قرونِ اولیٰ کی خواتین کے ایمان کا کیا معیار تھا

اور کس طرح اپنے خاوندوں کی محبت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قربان کرتی تھیں۔ اس بارے میں پہلے بھی دو واقعات بیان کر چکا ہوں۔ ایک واقعہ سنیں جو زندہ خاوند کا ہے۔ ایک ایسی عورت کاواقعہ ہے جس نے خدا تعالیٰ کے مقابلے میں نہ صرف اپنے خاوند کی محبت کو ٹھکرایا بلکہ اسے ملامت بھی کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں متعدد جنگیں ہوئیں مگر ان سب سے زیادہ خطرناک جنگ وہ تھی جب یہ خبر آئی کہ روما کی فوجیں عرب پر حملہ کرنے کے لیے آ رہی ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا اپنے واقعہ میں کہ عرب کے مقابلےمیں روما کی اس وقت ایک ایسی ہی طاقت تھی جیسے انگریزوں کے زمانےکی جب انگریزوں کی تمام دنیا پہ حکومت تھی۔ جس طرح انگریزوں کی طاقت ہے یا آجکل ہم امریکہ کی طاقت سمجھ لیں۔ یعنی اتنی بڑی طاقت تھی جو کسی دس بارہ لاکھ کی آبادی کے مقابلے پر حملہ کر دے۔ بہت بڑی طاقت چھوٹی طاقت کے اوپر حملہ کر دے۔ اس وقت روما کی حکومت میں لبنان کا ملک شامل تھا، آرمینیاتھا، سارا ترکی شامل تھا، روس کے کچھ حصےشامل تھے، آسٹریا تھا، ہنگری تھا، لیبیا تھا، افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو حصے تھے وہ بھی روما کے ماتحت تھے۔ ان سب ملکوں کی کل آبادی اس وقت دو کروڑ تھی لیکن ان کے مقابلےمیں عرب کی کل آبادی دو اڑھائی لاکھ تھی۔ پھر وہ روپے والے امیر لوگ تھے۔ بڑی طاقت تھی۔ غرض مسلمانوں پرسب سے زیادہ نازک موقع اس وقت آیاجب انہوں نے یہ خبر سنی کہ روما کی حکومت عرب پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایاکہ بجائے اِس کے کہ روما کی فوجیں ہم پر حملہ آور ہوں مناسب ہوگاکہ ان کے مقابلےکے لیے ہم خود باہر جائیں۔ چنانچہ آپؐ دس بارہ ہزار افراد پر مشتمل ایک فوج ساتھ لے کر روما کے لشکر کے مقابلےکے لیےنکل کھڑے ہوئے۔ اس موقعےپر آپؐ نے حکم دے دیاکہ سب مخلص مومن اس جنگ کے لیے چل پڑیں۔ اِس سے قبل آپؐ نے خود ایک صحابی کو کسی کام کے لیے باہر بھیجا تھا۔ جب آپؐ مقابلےکے لیے مدینہ سے روانہ ہوگئے تو وہ صحابی واپس آئے۔ اور جس کام کے لیے بھیجا گیا تھا اس سے مدت کے بعد وہ گھر واپس آئے تھے۔ جب مدینے پہنچے تو انہیں صرف اتنا پتہ لگاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینےسے باہر گئے ہوئے ہیں۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی دُور سے آتا ہے اور دیر کے بعد گھر آتا ہے تو قدرتی طور پر وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے۔ وہ صحابی بھی گھر آئے اور چاہا کہ بیوی سے پیار کریں مگر اس نے پرے ہٹا کر کہاکہ تجھے شرم نہیں آتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جنگ کے لیے باہر گئے ہوئے ہیں اور تجھے بیوی سے پیار سوجھ رہا ہے۔ اِس کا اِس صحابی پہ اتنا اثر ہوا کہ وہ اسی وقت گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کے لیے باہرچلے گئے۔ اب یہ خدا کی محبت اور اس کے خاوند کی محبت کا مقابلہ تھا۔ یہ نہیں کہ اس صحابیہ کو اپنے خاوند سے محبت نہیں تھی بلکہ جب یہ سوال آ گیاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں اور ان کا خاوند آرام میں ہے تو وہ برداشت نہ کر سکیں۔(ماخوذ از قرون اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز…،انوار العلوم جلد21صفحہ 623تا624)پس انہوں نے اپنے خاوند کو بھیجا کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اسلام کو تمہاری جان کی ضرورت ہے۔ جاؤ اور اپنی جان قربان کرو۔

پھر دین کی خاطر ایک عورت اپنی جان قربان کرنے کے لیے کس طرح بے خوفی کا مظاہرہ کرتی ہے اس بارے میں ذکر آیا ہے کہ حضرت ام شریکؓ نے جب اسلام قبول کیا تو مشرک رشتہ داروں نے ان کو ان کے گھر سے پکڑ لیا اور ان کو ایک بدترین مست اور شریر اونٹ پر سوار کر دیا اور ان کو شہد کے ساتھ روٹی دیتے رہے اور پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیتے تھے اور انہیں سخت دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے جس سے ان کے ہوش و ہواس جاتے رہے۔ انہوں نے تین دن تک یہی سلوک روا رکھا اور پھر کہنے لگے جس دین پر تم قائم ہواس کو چھوڑ دو۔حضرت ام شریکؓ کہتی ہیں کہ میں ان کی بات نہ سمجھ سکی۔ ہاں چند کلمے سن لیے۔ پھر مجھے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا کہ توحید کو چھوڑ دو۔ فرماتی ہیں

مَیں نے کہا اللہ کی قسم! میں توحید پر قائم ہوں چاہے مر جاؤں۔

(طبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 123 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء )

پھر

تکالیف برداشت کرنے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل اور کامل ایمان

کا ایک واقعہ یوں ملتا ہے حضرت زنّیرہؓ رومی اسلام میں سبقت لے جانے والی خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اسلام کے آغاز میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ مشرکین آپ کو اذیتیں دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ بنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابوجہل آپ کو اذیت دیا کرتا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بنو عبدالدار کی لونڈی تھیں یا عبدالدار کی لونڈی تھیں بہرحال لونڈی تھیں۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کی بینائی چلی گئی۔ اس پر مشرکین نے کہا لات اور عزیٰ، یہ اس زمانے میں مشرکوں کے دو بڑے بت تھے، نے ان دونوں کے انکار کی وجہ سےزنّیرہ کو اندھا کر دیا ہے۔ اس پر حضرت زنّیرہؓ نے کہا۔ لات اور عزیٰ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان دونوں کی عبادت کون کرتا ہے۔ یہ بت ہیں انہوں نے مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ تو آسمان سے ہے یعنی خدا کی منشا ہے۔ بیماری مجھ پہ آئی ہے اور میرا رب میری بینائی لوٹانے پر قادر ہے۔ اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ اس نے بینائی لی ہے تو لوٹا بھی سکتا ہے۔ میری نظر بغیر کسی علاج کے ٹھیک کر سکتا ہے۔ لکھا ہے کہ اگلے دن انہوں نے اس حالت میں صبح کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی بینائی لوٹا دی تھی۔ نظر آنے لگ گیا۔ صبح اٹھیںتو آنکھیں بالکل صاف تھیں۔ ٹھیک تھیں۔ اس پر قریش نے کہا کہ یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جادو کی وجہ سے ہوا ہے کہ رات کو اس نے کوئی جادو کر دیا تو تمہاری نظر واپس آ گئی۔ لیکن وہ مانے نہیں۔ انہوں نے کہا: نہیں یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پہ فضل ہوا ہے۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ نے ان کی تکالیف دیکھیں جو ان کو پہنچائی جاتی تھیں تو آپؓ نے ان کو خرید لیا۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کو خریدا اور آزاد کروا دیا۔

(اسد الغابہ جلد 7 صفحہ124 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1994ء)

یہ تھیں وہ خواتین جنہوں نے توحید کے قیام اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنے عہد کو پورا کیا۔

اسی طرح ایمان پر قائم رہنے اور جان کی قربانی کے لیے تیار رہنے کا ایک واقعہ یوں ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ بنو مؤمّل کی ایک لونڈی کے پاس سے گزرے۔ وہ لونڈی مسلمان تھی۔ عمر بن خطاب اس کو ایذا دے رہے تھے تا کہ وہ اسلام کو چھوڑ دے۔ حضرت عمرؓ ان دنوں ابھی مشرک ہی تھے، اسلام نہیں لائے تھے اور وہ انہیں، اس لونڈی کو مارا کرتے تھے یہاں تک کہ جب وہ تھک جاتے تو کہتے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے تمہیں صرف تھکاوٹ کی وجہ سے چھوڑا ہے۔ اتنا مارتے تھے کہ حضرت عمرؓ تھک جاتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اسلام سے انکار نہیں کیا۔ اس پر وہ کہتیںاللہ تمہارے ساتھ بھی اسی طرح کرے گا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسے بھی خرید کر آزاد کر دیا تھا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 236 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

پھر

ایک عورت کے اپنے بیٹوں کو دین کی خاطر جان قربان کرنے کے واقعہ

کا ذکر یوں ملتا ہے:’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی توکسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا۔ اونٹ ہاتھی سے ڈرتاہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا اور بہت سے مسلمان مارے گئے۔ آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں جب تک دشمن کو شکست نہ دے لیں۔ ایک عورت حضرت خنساءؓ اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کرکے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو! تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائیداد تباہ کر دی تھی…اور جب تمہارا باپ مرا تو اس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی۔ میں اس وقت جوان تھی تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی۔‘‘ کوئی سکھ نہیں دیا اس نے مجھے زندگی میں۔ ’’پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کو ئی حسنِ سلوک بھی نہ کیا تھا۔اوراگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکار ہو جاتی توکوئی اعتراض کی بات نہ تھی۔ مگر میں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گزاری۔ اب کل فیصلہ کُن جنگ ہونے والی ہے۔‘‘ اپنے بیٹوں کو کہا کہ اب جنگ ہونے والی ہے اور مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یا موت یا جیت۔ تو کہتی ہیں ’’میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں۔‘‘ یہ اتنی ساری باتیں بتا کے کہ کس طرح میں نے تمہیں پالا کہ میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں۔ ’’کل کفر او ر اسلام میں مقابلہ ہوگا اگرتم فتح حاصل کئے بغیر واپس آئے تو میں خداتعالیٰ کے حضور کہوں گی کہ میں ان کو اپناکوئی بھی حق نہیں بخشتی۔ اس طر ح اس نے اپنے چاروں بیٹوں کو جنگ میں تیار کرکے بھیج دیا اورپھر گھبراکر خود جنگل میں چلی گئی اوروہاں تنہائی میں سجدہ میں گرکر اور رو روکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگی اوردعایہ کی کہ اے میرے خدا! میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کے لئے بھیج دیا ہے لیکن تجھ میں یہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہو گئی اور اس کے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آ گئے۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ ایمان بالآخرة کی تفصیل میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہ جرأت اور بہادری ایمان بالآخرة ہی کا نتیجہ تھی۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے اورہم خواہ مارے بھی جائیں تب بھی پرواہ نہیں کیونکہ دنیا بچ جائے گی اوراسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ 338-339۔ ایڈیشن2004ء)ہماری قربانیاں بھی ضائع نہیں جائیں گی کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کی وجہ سے انعامات سے نوازے گا۔ پس یہ سوچ تھی کہ ہماری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہم نے اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنا ہے۔

پھر

صحابیات میں یہ تڑپ بھی رہتی تھی کہ پہلے دن سے ہی اپنے بچوں کے اندر خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور تعلق پیدا کریں۔

اس کے لیے کس طرح کوشش کرتی تھیں۔اس بارے میں بھی واقعات ملتے ہیں۔ چنانچہ ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے :حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے حمل سے تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ میں مکےسے نکلی اور میں حمل کی مدت پوری کر چکی تھی۔ چنانچہ میں مدینے پہنچی اور قبامیں اتری اور قبا میں میں نے اس کو یعنی بیٹے کو جنا۔ پھر میں اس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے اس کو آپؐ کی گود میں رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور منگوائی اور اس کوچبایا پھر اس کے منہ میں ڈالی اور جو پہلی چیز اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب تھا۔ پھر اس کو کھجور کے ذریعے گھٹی دی گئی۔ پھر آپؐ نے اس کے لیے دعا کی اور اس کے لیے برکت چاہی اور عبداللہ بن زبیر وہ پہلا بچہ تھا جو ہجرت کے بعد اسلام میں پیدا ہوا۔

(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبی ﷺ واصحابہٖ الی المدینۃ حدیث: 3909)

بچپن میں کس طرح تربیت کیا کرتی تھیں؟ اس بارے میں روایت میں آتا ہے۔ حضرت ثابتؓ کہتے ہیں حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت انس ؓکہتے ہیں کہ آپؐ نے ہمیں سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا پھر مجھے کسی کام کے لیے بھیجا۔ مجھے بلایا اور بڑی رازداری سےایک کام بتایا اور اس کے لیے بھیجا۔ کہتے ہیں میں گھر کچھ تاخیر سے گیا، لیٹ ہو گیا گھر جانے میں۔ اپنی ماں کے پاس آیا تو اس نے کہا تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟ اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام سے بھیجا تھا۔ انہوں نے پوچھا آپؐ کا کیا کام تھا جس کے لیے تم گئے تھے۔ میں نے کہا یہ راز ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پھر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز ہرگز کسی کو نہ بتانا۔

بچپن میں ہی ماں یہ تربیت کر رہی ہے۔ یہ راز نہیں بتانا۔ مجھے بھی نہیں بتانا۔ حضرت انس ؓکہتے ہیں بخدا! اگر میں وہ کسی کو بتاتا تو اے ثابت! تجھے ضرور بتاتا۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل انس بن مالکؓ حدیث 6378)جب یہ واقعہ بیان کر رہے تھے تو حضرت ثابتؓ نے پوچھا وہ کیا تھا؟ آپ نے کہا نہیں۔ میری ماں نے روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا۔ پھر ماں نے مزید تلقین کر دی تو میں نہیں بتا سکتا۔پس یہ تھا تربیت کا وہ طریق کہ راز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔ یقیناً آپ نے منع بھی فرمایاہو گا جیساکہ میں نے کہا کسی سے ذکر نہیں کرنا اور جب ماں نے پوچھا تو اسے بھی بتانے سے انکار کر دیا اور ماں بھی جو تربیت یافتہ تھی اس نے اپنے بیٹے کو مزید پکّا کیا کہ کبھی کسی سے اس راز کا ذکرنہ کرنا۔ پس

یہ تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر عہدے داروں کو جماعتی رازوں کی خود بھی حفاظت کرنی چاہیے اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کرنی چاہیے۔

اوّل تو بچوں کے سامنے عام باتیں کرنی ہی نہیں چاہئیں کیونکہ جماعتی راز بھی اور ذاتی راز بھی امانت ہوتے ہیں۔ جو بات پبلک میں کہنے والی نہیں وہ کسی غیر متعلقہ کے سامنے بھی نہیں کہنی چاہیے اور جماعتی باتوں یا ایک دوسرے کے رازوں کو گھروں میں بیان کرنے سے بچوں کی تربیت پہ اثر پڑتا ہے اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے اور بعض دفعہ معاشرے کا امن بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اس طرف توجہ کرنے اور احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ تاریخ کے واقعات میں سے

تربیت اولاد اور اس کے نتیجے میں مضبوطی ایمان

کے ایک واقعےکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’آدھی رات کے بعد پھر وادئ عقبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے۔ اب آپؐ کے ساتھ آپؐ کے چچا عباسؓ بھی تھے۔ اِس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد تہتر تھی۔ ان میں باسٹھ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی امِ عمارہؓ بھی تھیں۔ چونکہ مصعبؓ کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں۔ یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے۔ بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے۔ امِ عمارہؓ جو اس دن شامل ہوئیں انہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ ان کا بیٹا خبیبؓ ‘‘بعض جگہ حبیب بھی لکھا ہے ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اسے بلا کر پوچھا کہ کیا تُو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہاں ہاں۔ پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے۔‘‘ کوئی ہاتھ پاؤں کاٹ دیا جائے۔ ’’تب مسیلمہ نے پھر ان سے پوچھا۔‘‘ ایک ہاتھ کٹ گیا تو پھر پوچھا ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ پھر اس نے آپؓ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دیا۔ ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خبیبؓ کہتا تھا کہ نہیں۔ اِسی طرح اس کے سارے اعضا کاٹے گئے اور آخر میں اِسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا۔ خودامِ عمارہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئیں۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 220-221)

یہ ام عمارہ کی تربیت تھی جس نے بچے کو اپنے ایمان میں اس طرح پکا کیا ہوا تھا۔ پس

یہ وہ مائیں تھیں جنہوں نے ایمان اپنے بچوں کی رگوں میں دوڑا دیا تھا اور یہی وہ ایمان کا معیار ہے جو اسلام کی ترقی کا ذریعہ ہے اور یہی وہ معیار ہے جو ہمیں اپنے اندر اور اپنی اولادوں کے اندر پیدا کرنا ہے تا کہ اسلام کی نشاة ثانیہ میں ہم اپنا کردار ادا کر سکیں۔

پس یہ صرف سننے والی کہانیاں نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے بھی دین کی ترقی اور خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑنے کے لیے ان مثالوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ عبادات کے معیار، عشقِ رسول کے معیار، مالی و جانی قربانیوں کے معیار ہم نے قائم کرنے ہیں۔ بےشک آج بہت سی احمدی خواتین مالی قربانیوں کے بہت اعلیٰ نمونے دکھا رہی ہیں جیساکہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے لیکن خاص طور پر مالی لحاظ سے جو کشائش رکھنے والیاں ہیں ان کو اپنی حالتوں کو دیکھنے کی ضرور ت ہے۔ جن کے خاوند روک بنتے ہیں انہیں کہہ دیں، اپنے خاوندوں کو کہہ دیں کہ دین کے معاملے میں ہم تمہاری کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پس جہاں جانی قربانی کا سوال ہے تو آج گو جماعت احمدیہ کو ہی دین کی خاطر جان قربان کرنے کا امتیاز حاصل ہے اور یہ بھی ماؤں کی تربیت کا اثر ہے۔ یقیناً مردوں کی قربانیوں کا ثواب ان کی ماؤں کو بھی ملتا ہے لیکن مجھ تک یہ بات پہنچی کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جب اولاد کو قربان کرنے کا عہد دہراتی ہیں تو اس سوچ میں پڑ جاتی ہیں کہ اس عہد کو دہرائیں بھی کہ نہ۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ

آج بھی جماعت میں ایسی عورتیں ہیں جو دین کی خاطر اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔

مجھے خطوط بھی لکھتی ہیں۔ دعا کے لیے بھی کہتی ہیں اور بچوں کی تربیت بھی اس نہج پر کرتی ہیں کہ وہ دین کی خاطر جانیں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔ ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت دجال نے ہر طرف اپنے شیطانی حربوں کے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔

آج سب سے زیادہ اس بات کی ضرور ت ہے کہ اپنی عبادتوں کے معیار بلند تر کرنے کی کوشش کی جائے۔ عشق رسول میں بڑھتے چلے جانے کی کوشش کی جائے۔ تربیت اولاد کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ ان کی گھٹی میں دین کی اہمیت اس طرح ڈالیں کہ وہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔

اپنی دعاؤں میں اس قدر زور اور درد پیدا کریں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے اور ہمارے بچے دنیا کی ہوا و ہوس میں پڑنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے دین کے سیکھنے، اس سے تعلق پیدا کرنے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ دل میں پیدا کرنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت کو یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آج عورتوں کی اس طرف توجہ ہی مردوں کی اصلاح کا بھی باعث بنی رہےگی۔ اللہ کرے کہ سب عورتیں اور مرد اور بچے اور بوڑھے مل کر وہ احمدی معاشرہ پیدا کرنے والے بن جائیں جو صحیح اسلامی معاشرہ ہے اور جس کے قائم کرنے کے لیے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

٭٭دعا٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button