افلاک بھی خدا تعالیٰ کے آپؐ سے خاص پیار کے نتیجہ میں پیداکئے گئے
آپؐ کے نزول سے جو نئے زمین و آسمان پیدا ہوئے، جس میں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی درجہ کا قرب پا کر انسانوں کی نجات اور خدا تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کا مقام بھی حاصل کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنکا مقام عطا فرمایا۔ آپؐ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا۔ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ افلاک بھی خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص پیار کے نتیجہ میں آپؐ کے لئے پیداکئے گئے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علُوِّ شان کے لئے ہم اس حدیثِ قدسی کو صحیح تسلیم نہ کریں۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کرآنحضرت ﷺ کے اس مقام کو پہچانا ہے۔ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک میں کیا مشکل ہے؟ قرآنِ مجید میں ہے خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرۃ: 30)، زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے۔ تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے افلاک بھی ہوں؟…‘‘۔ (اگر زمین میں سب کچھ عام انسانوں کے لئے ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص آدمیوں کے لئے افلاک کی پیدائش بھی کر سکتا ہے)۔ فرمایا کہ ’’… دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضامندی کے موافق کام لے۔ اور جن پر اس کا تصرف نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں، سورج، چاند، ستارے وغیرہ‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 213۔ ایڈیشن1988ء)
آپ کے بے شمار معجزات ہمیں روایات میں ملتے ہیں جن سے آپؐ کے مرتبہ اور خدا تعالیٰ کے آپ سے خاص سلوک کا پتہ چلتا ہے جس کی مثالیں پہلے کبھی نہیں ملتیں، لیکن ان سب باتوں کے باوجود کافروں کے اس مطالبے پر جو انہوں نے آپ سے کیا کہ ہمارے سامنے آپ آسمان پر چڑھیں اور کتاب لے کر آئیں جسے ہم پڑھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلّا بَشَرًارَّسُوْلًا (بنی اسرائیل: 94)۔ ان کو کہہ دے کہ میرا ربّ ان باتوں سے پاک ہے۔ مَیں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔ پس آپ کا مقام گو سب انسانوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ آپ انسانِ کامل ہیں، لیکن جہاں تک بشر رسول ہونے کا سوال ہے، آپﷺ سے بھی خدا تعالیٰ نے وہی سلوک فرمایا جو باقی رسولوں سے فرمایا۔ یعنی جہاں، جس طرح باقی رسولوں کی اُن کی قوموں نے مخالفت کی، آپ سے بھی کی اور آپ کیونکہ تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لئے ہیں اس لئے آپ کی مخالفت اُس زمانہ میں آپ کی زندگی میں بھی کی گئی اور اب بھی کی جا رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ باقی انبیاء کا بھی استہزاء ہوا تو آپ کا بھی استہزاء ہوا اور کیا جا رہا ہے۔ لیکن سعید فطرت لوگ پہلے بھی انبیاء کو مانتے رہے۔ آپؐ کو بھی آپؐ کے زمانہ میں مانا بلکہ سب سے زیادہ مانابلکہ آپ کی زندگی میں عرب میں پھیلا اور عرب سے باہر قریب کے علاقوں تک اسلام پھیل گیا۔ اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ تمام دنیا میں پھیل گیا اور آج تک پھیلتا چلا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب دنیا کی اکثریت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہو گی۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جنوری ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍فروری۲۰۱۱ء)