غزوہ خندق کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍ستمبر۲۰۲۴ء
٭… اس جنگ میں عرب کی مختلف جماعتیں اور گروہ اکٹھے مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے اس لیے اسے جنگِ احزاب کہا جاتا ہے
٭… قریش کے ساتھ سازباز کرنے کے بعد یہود کا یہ وفد عرب کے دوسرےقبائل کے پاس گیا اور سب سے پہلے بنو غطفان کے پاس پہنچا
٭… سب قبائل نے مل کر مدینے پر چڑھائی کرنے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار کیا
٭…حضرت سلمانؓ نے یہ مشورہ دیا کہ ہم فارس کی زمین میں جب گھوڑوں کی جماعت سے ڈرتے تو ان کے آگے خندق کھود دیتے تھے
٭…ہرچند کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا ہوگا لیکن اس پر عمل کرنے کا فیصلہ آنحضرتﷺ نے الہاماً ہی فرمایا ہوگا
٭…پاکستان کے احمدیوں اور دنیا کے حالات کے لیے دعاؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ستمبر۲۰۲۴ء بمطابق۶؍تبوک ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۶؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
آج مَیں غزوہ خندق یا جسے غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں کا ذکر کروں گا جو ۵؍ہجری بمطابق فروری، مارچ۶۲۷؍عیسوی میں ہوئی تھی۔
اس کے بعد حضورِانور نے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۱۰تا ۲۶کی تلاوت فرمائی اور ان آیاتِ کریمہ کا ترجمہ پیش فرمایا۔
ترجمہ پیش کرنےکےبعد حضورِانور نے
اس جنگ کی وجہ تسمیہ
بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے جنگِ خندق اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس جنگ میں عرب کے دستور کے برخلاف مسلمانوں نے پہلی بار خندق کھود کر شہر کا دفاع کیا تھا۔ اسی طرح
اسے جنگِ احزاب بھی کہتے ہیں اورقرآن کریم نے بھی اسے یہ نام دیا ہے۔
احزاب دراصل حزب کی جمع ہے جس کے معنی جماعت اور گروہ کے ہیں چونکہ اس جنگ میں عرب کی مختلف جماعتیں اور گروہ اکٹھے مل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے اس لیے اسے جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔
اس جنگ کی وجہ یہ بنی کہ ربیع الاوّل چار ہجری میں یہود کا قبیلہ بنو نضیر اپنی عہدشکنی، بغاوت اور نبی کریمﷺ کو قتل کرنے جیسی سازشوں کی وجہ سے مدینے سے جِلاوطن کردیا گیاتھا اور یہ قبیلہ خیبر میں جاکر آباد ہوگیا تھا۔ ابھی چار مہینے گزرے تھے کہ احسان فراموش اور سازشی کردار کے حامل یہود نے آنحضرتﷺ اور اسلام کے خلاف انتہائی خوف ناک منصوبہ بنایا۔ چنانچہ ان کا سردار حُیی بن اخطب اپنے سرکردہ ساتھیوں کے ساتھ مکّے گیا اور وہاں ابوسفیان اوردیگر قریشی عمائدین سے ملاقات کی اور مسلمانوں کے خلاف انہیں اپنے تعاون کایقین دلایا اور یہ تجویز دی کہ ہمیں چاہیے کہ ہم سب مل کر مسلمانوں کے خلاف ایک معاہدہ کریں۔
ابوسفیان نے یہود کے ان سرداروں کا خیرمقدم کیا اورکہا کہ تم لوگ اپنے گھر آئے ہواور تمام لوگوں میں ہمیں سب سے زیادہ وہ محبوب ہے جو محمد(ﷺ) کے خلاف ہماری مدد کرے۔
قریش کے ساتھ سازباز کرنے کے بعد یہود کا یہ وفد عرب کے دوسرےقبائل کے پاس گیا اور سب سے پہلے بنو غطفان کے پاس پہنچا۔ یہ قبیلہ بھی مسلمانوں سے سخت بیر رکھتا تھا۔
یہود نے انہیں قائل کرنے کےلیے دیگرباتوں کے علاوہ خیبر کی ایک سال کی کھجوریں دینے کا وعدہ کیا۔
بنو غطفان نے یہود کی حمایت کا فیصلہ کیا اور اپنی طرف سے چھ ہزار فوج کی ضمانت دی۔ اس کے بعد یہود کا یہ وفد بنو سُلَیم کے پاس پہنچا جو پہلے ہی مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے عزائم رکھتا تھا اور ناکام ہوچکا تھا، جب اسے اتنے بڑے حملےکا علم ہوا تو اس نے بھی بخوشی حامی بھرلی۔ اسی طرح بنو فزارہ اپنے سردار عیینہ کی سربراہی میں رسول اللہﷺ سے لڑائی کرنےکے لیے آمادہ ہوگیا۔ عیینہ نے اپنے دوست قبیلے بنو اسد کو دعوت دی چنانچہ وہ بھی اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی کے لیے تیار ہوگئے۔ اسی طرح بعض اور قبائل بھی یہود کے اس اتحاد کا حصّہ بن گئے۔ یہ تمام قبائل اپنی بہادری اور جنگی مہارت کی وجہ سےعرب بھر میں شہرت رکھتے تھے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ یہودی لوگ بڑے ہوشیار اور چالاک تھے اور اس قسم کے سازشی کاموں میں خوب مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کی مفسدانہ کوششیں بارآور ہوئیں اور قبائلِ عرب یکجان ہوکر مسلمانوں کے خلاف میدان میں نکل آئے۔
حضرت مصلح موعودؓ اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ خیبر عرب میں یہود کا بہت بڑا مرکز اور قلعہ بند شہر تھا۔ یہاں پہنچ کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلانا شروع کیا۔
ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبردست قبائل کے ایک اتحادِ عام کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس اتحاد میں مکّے اور اس کے ارد گرد کے قبائل بھی تھے، اور نجد اور مدینے سے شمال کی طرف علاقوں کے قبائل بھی تھے اور یہود بھی شامل تھے۔
ان سب قبائل نے مل کر مدینے پر چڑھائی کرنے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار کیا۔
قریشِ مکّہ چارہزار کا لشکر لےکر روانہ ہوئے جن کی قیادت ابوسفیان کر رہا تھا۔ سواروں کی کمان خالد بن ولید کے ہاتھوں میں تھی۔ بنو سلیم کے سات سَو آدمی بھی قریش کے ساتھ آملے اور ان کی قیادت سفیان بن عبدِ شمس کے ہاتھ میں تھی۔ بنو اسد طلیحہ بن خویلد کی قیادت میں روانہ ہوئے۔ بنو فزارہ کے ایک ہزار افراد نکلے جن کی قیادت عیینہ کر رہا تھا۔ بنو اشجع اور بنو مرّہ کے چارچار سَوآدمی نکلے۔ بنو غطفان کی طرف سے چھ ہزار فوجیوں کا وعدہ تھا اور یہود کی طرف سے دو ہزار کی ریزرو فوج تھی۔ یوں مختلف قبائل کی ان افواج کی مجموعی تعداد کم سے کم دس ہزار اور بعض روایات کے مطابق چوبیس ہزار تک بیان کی گئی ہے۔
ان سب کی قیادت ابو سفیان بن حرب کے ہاتھ میں تھی۔ یہ اُس وقت تک کی عرب کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مہم تھی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اگر دس ہزار کے اندازے کو بھی صحیح تسلیم کیا جاوےتوپھر بھی اس زمانے کے لحاظ سے یہ تعداد اتنی بڑی تھی کہ غالباً اس سے پہلے عرب کی قبائلی جنگ میں اتنی بڑی تعدادکبھی کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئی۔سامانِ خورونوش اور سامان جنگ بھی ہر طرح کافی و شافی تھا۔ یہ لشکر شوال ۵ ہجری بمطابق فروری اور مارچ ۶۲۷ عیسوی میں مدینے کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مختلف مؤرخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہوسکتا۔ یقیناً چوبیس ہزار والا اندازہ زیادہ صحیح ہے۔ اور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ بیس ہزار کا تو ضرور ہوگا۔ مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا اس قصبے کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی چڑھائی نہیں تھی۔ مدینے کے مرد جمع کرکے جس میں بوڑھے، جوان اور بچّے بھی شامل تھے صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے۔
اس کے برخلاف دشمن کی فوج بیس سے چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جب کفار کی تیاریوں کی اطلاع رسول اللہﷺ کو ملی تو آپؐ نے فیصلہ فرمایا کہ خندق کھودی جائے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کا شعبہ جاسوسی بھی اس ساری صورت حال سےبےخبر نہ تھا اور
چاروں طرف سے خبریں آنحضرتﷺ تک پہنچ رہی تھیں۔
قریش اور یہود کے اس خوف ناک منصوبے کی اطلاع مدینے میں پہنچی تو آنحضرتﷺ نے صحابہ کو جمع کیا اور انہیں دشمن کے بدارادوں کی خبر دی اور مشورہ کیا کہ آیا مدینے سے نکل کر مقابلہ کیا جائے یا مدینے میں رہ کر اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کیا جائے۔ روایات کے مطابق
حضرت سلمانؓ نے یہ مشورہ دیا کہ ہم فارس کی زمین میں جب گھوڑوں کی جماعت سے ڈرتے تو ان کے آگے خندق کھود دیتے تھے۔
یہ رائے سب کو اچھی لگی اور آنحضرتﷺ نے مدینے میں رہتے ہوئے دفاع کرنے اور خندق کھودنے کا ارشاد فرمایا۔ بعض کتبِ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھودنے کا یہ فیصلہ صرف حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے کے باعث نہ تھا بلکہ
اللہ تعالیٰ نے الہاماً نبی کریمﷺ کو یہ طریق بتایا تھا
کیونکہ عرب کے لیے یہ طریق بالکل نیا تھا۔
اس ضمن میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ جب کفار کا لشکر خندق کو عبور کرنے سے عاجز آگیا تو ابوسفیان نے رسول اللہﷺ کو ایک خط لکھا تھا جس میں لات اور عزیٰ وغیرہ بتوں کا ذکر کرکے یہ لکھا کہ خندق کھود کر تم لوگ مقابلے سے کترا رہے ہو۔ اس خط کے جواب میں آنحضورﷺ نے ابو سفیان کو لکھا کہ تمہارا خط ملا اور مَیں جانتا ہوں کہ
تم سدا سے اللہ تعالیٰ کے خلاف غرور میں مبتلا ہو
اور یہ جو تم نے اپنے لشکرِ جرار کے ساتھ مدینے پر ایسا حملہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس سے تم ہمارا نام ونشان مٹادینے کا عزم کیے ہوئے ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو تمہارے ناپاک عزائم کے خلاف حائل ہوگیا ہے اور وہ اپنا ایسا فیصلہ کردے گا کہ تم لات اور عزیٰ کا نام تک بھول جاؤ گے۔ جو تم نے یہ کہا ہے کہ خندق کھودنے کا مجھے کس نے بتایا ہے تو یہ طریق مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے۔ سنو! انجام کار اللہ تعالیٰ ہمیں کامیاب کرے گا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ
آنحضرتﷺ کے اس خط سے واضح ہوتا ہے کہ ہرچند کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا ہوگا لیکن اس پر عمل کرنے کا فیصلہ آنحضرتﷺ نے الہاماً ہی فرمایا ہوگا۔
یہ تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور نے
پاکستان کے حالات کے متعلق دعا کی تحریک
کرتےہوئے فرمایا کہ آج کل پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں۔ پاکستانی احمدی خود بھی دعاؤں کی طرف توجہ دیں، صدقات کی طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرے، مخالفین کے شر سے انہیں بچائے اور شریروں کے شر ان پر الٹائے۔
عمومی طور پر دنیا کی بہتری کے لیے بھی دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی فتنہ و فساد سے بچائے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں
٭…٭…٭