مذہبی رواداری سے متعلق بے مثل اسلامی تعلیمات
اسلامی تعلیمات میں خواہ مظلومیت ہو،محکومیت ہو یا حاکمیت ہر حالت میں معاشرے کا بہترین وجود بننے کی تعلیم دی گئی ہے
معاشرہ کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ معاشرہ اجتماعی زندگی کی اساس ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو روز اول سے انسانی معاشرے نے مختلف شکلیں بدلی ہیں۔ ابتدا میں جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو وہ جانوروں کا شکار کر کے اور جڑی بوٹیاں، پھل اور پودے وغیرہ کھاکر اپنی زندگی بسر کرتا تھا۔ اس معاشرے کو تاریخ نے شکاریوںکے معاشرے کا نام دیا ہے۔
انسانی معاشرے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے گروہ کو مضبوط رکھتا ہے اور ان میں پھوٹ نہیں پڑنے دیتا۔ بالکل اسی طرح حیوانات بھی اپنی گروہی زندگی کو قائم رکھتے ہیں۔ حیوانات اور پرندوں کے گروہی ارکان میں باہمی تعاون پایا جاتا ہے۔ معاشرہ چاہے انسانی ہو یا حیوانی ایک نظام کے تحت چلتا ہے اور اسی نظام کو معاشرتی نظام کہتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک مکان اور اس کے اجزا اینٹ، مٹی، گارا وغیرہ۔اس نظام میں اونچ نیچ کی تقسیم، افراد کو اختیارات کا حصول، لوگوں کو حاصل آزادی اور پابندی کے بارے میں رضامندی پر مبنی فیصلے موجود ہوتے ہیں۔
انسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اگر ہم غور کریں تو دیگر جانداروں کے برعکس بنی نوع انسان مجبور ہیں کہ وہ ایک معاشرے کی شکل میں زندگی بسر کریں کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک طویل عرصے تک نہ تو خود کروٹ بدل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی چیز اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی وہ یہ جانتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں ؟ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ معاشرتی زندگی اور معاشرہ ہی انسانی بقا کو یقینی بنا سکتے ہیں ورنہ انسان اکیلا کبھی زندہ ہی نہ رہ پائے۔
معاشرے میں رہنے والے تمام افراد اپنی بنیادی ضروریات کے پیش نظر ایک دوسرے کی بنیادی احتیاجات مثلاً خوراک لباس، اور رہائشی سہولیات کے ساتھ ساتھ معاشرتی میل جول اور لاتعداد نفسیاتی تقاضوں میں شامل ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از ہم سب)
ایک معاشرہ کے قیام کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی موجودگی اس کے کامل ہونے کی واضح دلیل ہے۔ان تعلیمات میں ایک معاشرہ میں زندگی گزارنے کے لیے اہم اصول پائے جاتے ہیں جن کا تعلق سیاسی، معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی پہلوؤں سے ہے۔معاشرے میں موجود افراد انسانیت کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا (النساء:2)اے لوگو! اپنے ربّ کا تقوى اختىار کرو جس نے تمہىں اىک جان سے پىدا کىا اور اسى سے اس کا جوڑا بناىا اور پھر ان دونوں مىں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھىلا دىا اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم اىک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھى خىال رکھو ىقىناً اللہ تم پر نگران ہے۔
دنیا میں مختلف اقوام پائی جاتی ہیں بظاہر مختلف اقوام اور رنگوں کی تقسیم پائی جاتی ہے لیکن انسانیت قدر مشترک ہے۔اس حوالے سے قرآن کریم میں ہے کہ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ۔اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔(الحجرات:14)اے لوگو! ىقىناً ہم نے تمہىں نر اور مادہ سے پىدا کىا اور تمہىں قوموں اور قبىلوں مىں تقسىم کىا تاکہ تم اىک دوسرے کو پہچان سکو بلا شبہ اللہ کے نزدىک تم مىں سب سے زىادہ معزز وہ ہے جو سب سے زىادہ متّقى ہے ىقىناً اللہ دائمى علم رکھنے والا (اور) ہمىشہ باخبر ہے۔
انسانیت میں عزت وتکریم تقویٰ کی بنیاد پر ہے رنگ ونسل کی تقسیم صرف پہچان کے لیے ہے۔اس طرح معاشرے میں مدارج کی تقسیم اقوام اور رنگ ونسل کے معیار سے بالا ہے۔ اور ان میں مساوات پائی جاتی ہے۔قرآن کریم میں ہے:لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(التین :5)یقیناً ہم نے انسان کو موزوں سے موزوں حالت میں پیدا کیا ہے۔
سب انسان آپس میں مساوی ہیں ان کے حقوق و فرائض برابر ہیں کسی کے رنگ و نسل کے فرق سے انسانی مرتبے میں کوئی فرق نہیں آتا ہے،رنگ ونسل اور قبیلہ وغیرہ فضیلت کا معیار نہیں ہے، اس بات کو سب سے زیادہ جامع انداز میں دین اسلام نے ہی پیش کیا ہے۔
انسانیت کی مثال اس خطبہ میں ہے جورسول کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ، وَاِنَّ اَبَاکُم وَاحِدٌ،اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ، وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ، وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوٰی، اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُم۔(بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، جلد۴، صفحہ ۲۸۹۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء ۳/۱۰۰۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱)اے لوگو! بے شک تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:فَاسْتَفْتِہِمْ أَہُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَّنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاہُم مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ (الصافات:12) پس تُو ان سے پوچھ کہ کیا پیدائش کے لحاظ سے ان کو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا ان کے سوا نظام عالم جو ہم نے بنایا ہے؟ ہم نے ان کو ایک چپکنے والی مٹی سےبنایا ہے۔
ایک دوسری آیت میں ہے:فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَلٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (الروم :31)پس تو اپنی ساری توجہ دین کے لیے مخصوص کر دے ایسی صورت میں کہ تجھ میں کوئی کجی نہ ہو تو اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت کو اختیار کر وہ فطرت جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔اللہ کی پیدائش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔یہی قائم رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔
تمام انسا ن فطرتی طور پر ایک ہی جیسے ہیں۔لیکن کوئی بھی جان دوسرےکا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔فرمایا :اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى(النجم:39) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔اورہر ایک کو اس کی کوشش کے مطابق ملے گا۔ فرمایا :وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى(النجم:40)اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی۔ مزید فرمایا :وَاَنَّ سَعۡیَہٗ سَوۡفَ یُرٰی۔ ثُمَّ یُجۡزٰٮہُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰی(النجم:4۲،4۱) اوروہ اپنی کوشش کا نتیجہ ضرور دیکھ لے گا۔ اور اس کو پوری جزا مل جائے گی۔
اسلام نے انسانیت کے اعتبار سے مساوات قائم کرتے ہوئے محنت اور کوشش کی بنیاد پرنتائج کی تقسیم کو بیان کیا ہے۔جس قدر کوئی سعی اور کوشش کرے گا اسی کے مطابق ثمرات حاصل کرے گا۔گویا اسلام نےثقافتی،تمدنی،معاشرتی اور معاشی تقسیم کے ساتھ ساتھ امن و آشتی پرمشتمل ایک حسین جنت نظیر صحت مند معاشرے کے قیام کی تعلیمات دی ہیں۔
دنیا میں مذہبی اختلاف کی موجودگی بھی عیاں ہے۔ اسلام نے معاشرہ میں مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بےنظیرتعلیم دی۔فرمایا :لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ (البقرة :257)یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔اللہ تعالیٰ نے دین کے بارے میں جبر نہ کرنے کے اصول کی بنیاد یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جو خالق و مالک ہے جب وہ اپنی مخلوق پر مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں کرتا تو پھرانسانوں کو کس طرح دین میں جبر و اکراہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ فرمایا:وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًاؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔ (يونس:100)اور اگر تىرا ربّ چاہتا تو جو بھى زمىن مىں بستے ہىں اکٹھے سب کے سب اىمان لے آتے تو کىا تُو لوگوں کو مجبور کرسکتا ہے حتى کہ وہ اىمان لانے والے ہو جائىں۔
رسول کریمﷺ نے دعوت اسلام دیتے ہوئے ہر مخاطب کو یہ آزادی دی کہ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُر (الکہف:30)یعنی جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔آپؐ نےکسی کے دین ومذہب میں ہرقسم کی مداخلت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ۔ (الكافرون:7)تمہیں اپنے دین کی آزادی ہے اور مجھے اپنے دین کا اختیار۔
اسلام نے دیگر مذاہب و اقوام کے ساتھ عدل و احسان کی اس پاکیزہ تعلیم پرعمل کرکے رواداری کے بہترین نمونے پیش کیے۔ بے شک قیام عدل کی خاطر اسلامی تعلیم میں ظلم کا بدلہ لینے کی بھی اجازت ہے لیکن زیادہ پسندیدہ عفوہے۔ جس کا اجر خدا نے خود اپنے ذمہ لیا ہے۔(الشوریٰ:41)
مسلمانوں کوبطوردفاع غیر مذہب کے صرف ان لوگوں سے جنگ کی اجازت دی ہے جو ازخودمسلمانوں پرحملہ آور ہوں۔ مگر ان کے ساتھ بھی زیادتی کی اجازت نہیں۔ (البقرة:191)
غیرمسلموں سے انصاف اور احسان
اس کےبرعکس جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ کوئی شرانگیزی یا جنگ وغیرہ بھی نہیں کرتے، قرآن شریف نےان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے معاملات طے کرنےکی تعلیم دی اور فرمایا:لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔(الممتحنة:9)اللہ تمہىں ان سے منع نہىں کرتا جنہوں نے تم سے دىن کے معاملہ مىں قتال نہىں کىا اور نہ تمہىں بے وطن کىا کہ تم اُن سے نىکى کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پىش آؤ۔ ىقىناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔
چنانچہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کی (مشرک )والدہ مکہ سےانہیں ملنے مدینہ آئیں۔ تو انہوں نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ کیا مجھے مشرک والدہ کی خدمت اورحسن سلوک کی اجازت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ماں ہے۔(بخاری کتاب الادب باب 7)
ایک دفعہ مدینہ میں کسی یہودی کا جنازہ آرہا تھا۔ نبی کریمؐ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ کسی نے عرض کیا کہ حضورؐ! یہ یہودی کا جنازہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کیا اس میں جان نہیں تھی۔ کیا وہ انسان نہیں تھا؟(بخاری کتاب الجنائز باب48)
حضرت یعلیٰ بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کے ساتھ کئی سفر کیے۔ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو۔ آپؐ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے۔(مستدرک حاکم جزء1صفحہ371)
غیرمسلموں سے بے انصافی کی ممانعت
غیرقوموں اور مذاہب کی مذہبی زیادتیوں کے جواب میں بے انصافی سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدۃ:9)اورکسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
غیر مسلموں کوتبلیغ کی آزادی
اسلام نے غیر مذاہب والوں کو اپنے دین کی تبلیغ کی مکمل آزادی دیتے ہوئے فرمایا:قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ۔ (البقرة:112)تُو کہہ کہ اپنى کوئى مضبوط دلىل تو لاؤ اگر تم سچے ہو۔
اسی طرح فرمایا: لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّیَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ (الانفال:43)تاکہ کھلی کھلی حجت کی رُو سے جس کی ہلاکت کا جواز ہو وہی ہلاک ہو اور کھلی کھلی حجت کی رُو سے جسے زندہ رہنا چاہیے وہی زندہ رہے۔
گویا ہر مذہب و ملت کو دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔
دیگر مذاہب کےعبادت خانوں کی آزادی
اسلام ہر مذہب و ملت کو عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ فرمایا:وَلَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ۔(الحج :41)اور اگر اللہ کى طرف سے لوگوں کا دفاع اُن مىں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کىا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دىے جاتے اور گرجے بھى اور ىہود کے معابد بھى اور مساجد بھى جن مىں بکثرت اللہ کا نام لىا جاتا ہے اور ىقىناً اللہ ضرور اُس کى مدد کرے گا جو اس کى مدد کرتا ہے ىقىناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔
دیگر مذاہب کے افراد کے مطالبہ پناہ پرامن مہیا کرنا
اسلام نے دشمن قوم حتٰی کہ مشرکین کا امن کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ فرمایا:وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ۔(التوبۃ:6)اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام الٰہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچادے یہ (رعایت) اس لیے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
دیگرمذاہب کی قابل احترام ہستیوں اور ان کے شعائر کا احترام
قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (الانعام:109)اور تم ان کو گالیاں نہ دوجن کووہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔ ورنہ وہ بھی اللہ کو دشمنی کی راہ سے نادانی میں گالی دیں گے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کے شعائر کے احترام کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَ لَا الۡہَدۡیَ وَ لَا الۡقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رِضۡوَانًاؕ وَ اِذَا حَلَلۡتُمۡ فَاصۡطَادُوۡا ؕ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۘ وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ۔(المائدة:3)اے لوگو جو اىمان لائے ہو!شعائراللہ کى بے حرمتى نہ کرو اور نہ ہى حرمت والے مہىنہ کى اور نہ قربانى کے جانوروں کى اور نہ ہى قربانى کى علامت کے طور پر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کى اور نہ ہى ان لوگوں کى جو اپنے ربّ کى طرف سے فضل اور رضوان کى تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصدکر چکے ہوں اور جب تم اِحرام کھول دو تو (بے شک) شکار کرو اور تمہىں کسى قوم کى دشمنى اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہىں مسجدِ حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زىادتى کرو اور نىکى اور تقوىٰ مىں اىک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زىادتى (کے کاموں ) مىں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ىقىناً اللہ سزا دىنے مىں بہت سخت ہے۔(ماخوذ از ’’شروط عمریہ قرآن و سنت کے آئینے میں‘‘)
مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسول اللہؐ اور حضرت موسیٰؑ کی فضیلت کا تنازعہ کھڑا ہوا تو رسول کریم ؐنے فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؑپر فضیلت مت دو۔(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف)
میثاق مدینہ
رسول کریم ﷺ نے اہل مدینہ کے یہود، مشرکین اور عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ امن و صلح میثاق مدینہ کے نام سے کیا، جو اسوۂ رسولﷺ کا ایسا روشن اور تاریخ ساز باب ہےجس میں موجود تمام مذاہب مسلمان، یہود اور مشرکین وغیرہ کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی گئی۔
یہ معاہدہ حقوق انسانی، مساوات اور حریت ضمیر و مذہب کا عظیم شاہکار، قرآنی تعلیم کا خلاصہ اور سنت رسولﷺ کا حاصل ہے۔ اس معاہدہ کی مذہبی آزادی سے متعلق شقوں کا ذکر یہاں مناسب ہوگا۔
1۔ اس معاہدہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔
2۔ معاہدہ کی دوسری اہم شق یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدہ کی رُو سے ’’اُمّتِ واحدہ‘‘ ہوں گے۔ (ظاہر ہے مذہبی آزادی اور اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کے بعد امت واحدہ سے مراد وحدت اور امت کا سیاسی تصور ہی ہے۔)
3۔ معاہدہ کی تیسری بنیادی شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے۔ یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔
4۔ معاہدہ کی چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کے مدینہ پر حملہ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی۔ مسلمان اپنے اخراجات کے ذمہ دار اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہوں گے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔
5۔ پانچویں شق کے مطابق فریقین ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے۔(السیرة النبویة لابن ہشام جلد2صفحہ147تا150)(ماخوذ از ’’شروط عمریہ قرآن و سنت کے آئینے میں‘‘)
غیر مذہب یا قوم میں بھی جو خوبی یا نیکی پائی جاتی ہواس کی قدر کرنی چاہیے۔ چنانچہ فرمایا:وہ سب (لوگ) برابر نہیں۔اہل کتاب ہی میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو (اپنے عہد پر)قائم ہے۔وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کو پڑھتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں۔(آل عمران:114)
یہودونصاریٰ کی دیانت کی تعریف اس طرح کی کہ ’’اور اہلِ کتاب میں سے وہ بھی ہے کہ اگر تُو ڈھیروں ڈھیر امانت بھی اس کے پاس رکھوا دے تو وہ ضرور تجھے واپس کر دے گا۔ اور اُن میں ایسا بھی ہے کہ اگر تُو اس کو ایک دینار بھی دے تو وہ اسے تجھے واپس نہیں کرے گا ‘‘(آل عمران:76)
بعض نیک فطرت خداترس عیسائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’اور جب وہ اُسے سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اتارا گیا تو تُو دیکھےگا کہ ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے ربّ!ہم ایمان لائے پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کرلے۔‘‘(المائدہ:84)
معاہدات کی پابندی
اسلام نے غیرمذاہب اور اقوام سے معاہدات کو پورا کرنے کی تعلیم دی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہ کی تمہارے لیے اُن سے دوستی کا کچھ جواز نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد چاہیں تو مدد کرنا تم پر فرض ہے۔ سوائے اس کے کہ کسی ایسی قوم کے خلاف (مدد کاسوال) ہو جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو چکا ہو۔‘‘(الانفال:73)معاہدہ کی پاسداری اور پابندی ضروری ہے۔غیرمذہب ملک کے شہری کے طور پرجو بھی معاہدہ کیا جائے اس کو پورا کرنا چاہیے۔
پھر اسلام نے محض عدل کی ہی تعلیم نہیں دی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احسان کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ (النحل:91) اسلام غیرقوموں سے تمدنی تعلقات قائم کرنے، انصاف اور نیکی کا سلوک کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ اور یہ اعلیٰ درجہ کی تمدنی تعلیم دی:’’اللہ تم کو ان لوگوں سے نیکی کرنے اور عدل کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دینی اختلاف کی وجہ سے نہیں لڑے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(الممتحنۃ:9)
مکہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد رسول کریمؐ نے عدل کی شاندار مثالیں قائم فرمائیں۔
ایک دفعہ ایک مسلمان سے ایک ذمّی قتل ہوگیا۔ نبی کریمؐ نے قصاص کے طور پر مسلمان کوقتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں جو اس غیرمسلم کا حق دلواؤں اور اس کا عہد پورا کرکے دکھاؤں۔(نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ جلد4صفحہ336)اس کے بعدآپؐ نے بنوخزاعہ کے قاتلوں کو قصاص دینے یا خون بہا قبول کرنے کا پابند کیا اور یوں عملاً عدل و انصاف کو قائم فرمایا۔
فتح مکہ کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نامی نے کچھ زیور وغیرہ چرالیے۔اسلامی تعلیم کے مطابق چور کی سزااس کے ہاتھ کاٹنا ہے۔عورت چونکہ معزز قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اس کے خاندان کو فکر ہوئی اور انہوں نے رسول اللہؐ کے بہت پیارے اور عزیز ترین فرد اسامہ بن زیدؓ سے حضورؐ کی خدمت میں سفارش کروائی کہ اس عورت کو معاف کردیا جائے۔اسامہؓ نے جب رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا توآپؐ کے چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کیا تم اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم کے بارےمیں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ اسامہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ شام کو نبی کریم ؐ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا’’تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حدقائم کرتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا۔(بخاری کتاب المغازی باب49)
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ ایک شخص کی غلطی کے بدلے دوسرے کو سزادینا ناجائز ہے۔ایک دفعہ باپ بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص پرکسی دوسرے شخص کی وجہ سے زیادتی نہ ہو اور پھر یہ آیت پڑھی لاَتَزِرُوَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْرٰی کہ کوئی جان دوسری کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔(ابوداؤدکتاب الدیات باب 2)
مفتوح قوم کے مشرک سرداروں سے حسن سلوک
ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھررسول اللہؐ سے جنگیں کرتا رہا۔فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریمؐ کے اعلان عفو اورامان کے باوجودایک دستے پر حملہ آور ہوکر حرم میں خون ریزی کا باعث بنا۔اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہراتھا۔ فتح مکہ کے بعد جان بچانے کے لیے وہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔اس کی بیوی رسول اللہؐ سے اس کے لیے معافی کی طالب ہوئی تو آپؐ نے کمال شفقت سے معاف فرمادیا۔وہ اپنے شوہر کو واپس لانے کے لیے گئی تو خود عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہ آتا تھا۔چنانچہ اس نے دربار نبویؐ میں حاضرہوکر اس کی تصدیق چاہی۔اس کی آمد پررسول اللہؐ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک فرمایا۔ پہلے تو آپؐ دشمن قوم کے اس سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہوگئے پھر عکرمہ کے پوچھنے پر بتایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔(مؤطا امام مالک کتاب النکاح باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ)عکرمہ نے پوچھا کہ کیا اپنے دین (حالت شرک)پر رہتے ہوئے آپؐ نے مجھے بخش دیا ہے آپؐ نے فرمایا ہاں۔اس پر مشرک عکرمہ کا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اُٹھا اے محمدؐ ! آپؐ واقعی بے حد حلیم وکریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔رسول اللہؐ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کرعکرمہ مسلمان ہوگیا۔(السیرۃالحلبیہ جلد3صفحہ92داراحیاء التراث العربی بیروت)
مشرکین کا ایک اورسردار صفوان بن اُمیّہ تھا جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں پرحملہ کرنے والوں میں شامل تھا۔یہ بھی عمر بھر رسو ل اللہؐ سے جنگیں کرتا رہا۔اپنے جرائم سے نادم ہوکر فتح مکہ کے بعد بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے چچا عمیر بن وہبؓ نے رسول اللہؐ سے اس کے لیے امان چاہی۔ آپؐ نے اپنا سیاہ عمامہ بطورعلامتِ امان اُسے عطافرمایا۔عمیرصفوان کو واپس مکہ لایا۔اس نے پہلے تو رسول اللہؐ سے اپنی امان کی تصدیق چاہی پھراپنے دین پر رہتے ہوئے دو ماہ کے لیے مکہ میں رہنے کی مہلت چاہی آپؐ نے چار ماہ کی مہلت عطافرمائی۔
محاصرہ طائف سے واپسی پر رسول اللہؐ نے تالیف قلب کی خاطر اسے پہلے سو اونٹ کا انعام دیا۔ پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ گویا کل تین صد اونٹ عطافرمائے۔صفوان بےاختیار کہہ اُٹھا اتنی بڑی عطا ایسی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں دے سکتا۔چنانچہ وہ بھی مسلمان ہوگیا۔(السیرۃالحلبیہ جلد3صفحہ109بیروت)
فتح مکہ کے بعد بنو ثقیف کا وفد طائف سے آیا،تو نبی کریمؐ نے ان کو مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضع کا اہتمام کروایا۔بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن شریف میں مشرکین کونجس یعنی ناپاک قراردیا گیا ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس آیت میں دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے،جسموں کی ظاہری گندگی مرادنہیں۔(احکام القرآن للجصاص جلد3صفحہ109)
وفد ثقیف کے بعض لوگ تو مدینہ میں اپنے حلیفوں کے پاس ٹھہرے۔ بنی مالک کے لیے نبی کریم ؐ نے خود خیمہ لگا کر انتظام کروایا اور آپؐ روزانہ نماز عشاء کے بعد جاکر ان سے مجلس فرماتے تھے۔( ابوداؤد کتاب شہر رمضان باب 9)
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ وہ وفد ثقیف کو اپنا مہمان رکھنا چاہتے ہیں رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ان کے اکرام وعزت سے نہیں روکتا، مگر ان کی رہائش وہیں ہونی چاہیے جہاں وہ قرآن سن سکیں۔چنانچہ حضورؐ نے سب کے لیے مسجد میں خیمے لگوادیے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں اورقرآن سنیں۔(دلائل النبوۃ للبیھقی صفحہ57)
رسول کریمؐ نے غیرحربی مشرکین سے ہمیشہ حسن معاملہ کا طریق اختیار فرمایا۔ ایک دفعہ مشرک مہمان کی خود مہمان نوازی کی اور اسے سات بکریوں کا دودھ پلایا۔(ترمذی کتاب الاطعمہ)
ایک دفعہ ریشم کا لباس تحفہ آیا تورسول کریمؐ نے حضرت عمرؓ کو دیا انہوں نے عرض کیا کہ ریشم تومردوں کے لیے منع ہے وہ اسے کیا کریں گے؟ فرمایا کسی اور کو دے دیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے مشرک بھائی کو بطورتحفہ دے دیا۔(بخاری کتاب اللباس باب25)
ایک شریف النفس مشرک سردار مطعم بن عدی(جو غزوۂ بدر کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے)کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگرآج وہ زندہ ہوتے اور بدر کے قیدیوں کی آزادی کے لیے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر تمام قیدیوں کو (بلامعاوضہ) آزاد کردیتا۔(بخاری کتاب المغازی باب 19) (ماخوذ از’’ریاست مدینہ کے خد و خال‘‘)
غیرمذاہب کے مُردوں کا احترام
حضرت یعلیٰ بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کے ساتھ کئی سفر کیے۔ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو آپؐ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے۔(مستدرک حاکم جلد 1صفحہ371)چنانچہ بدر میں ہلاک ہونے والے24؍مشرک سرداروں کو بھی آپؐ نے خود میدان بدر میں ایک گڑھے میں دفن کروایا تھا۔جسے قلیب بدر کہتے ہیں۔(بخاری کتاب المغازی باب 3)
الغرض نبی کریمؐ نے بحیثیت انسان غیرمسلموں کے حقوق قائم کرکے دکھلائے۔ ان کےمُردوں تک کا احترام کیا۔حالانکہ وہ مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کرتے رہے مگر آپؐ نے انتقام لینا کبھی پسندنہ کیا۔(ماخوذ از’’ریاست مدینہ کے خد و خال‘‘)
اسلامی تعلیمات میں خواہ مظلومیت ہو،محکومیت ہو یا حاکمیت ہر حالت میں معاشرے کا بہترین وجود بننے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اختلاف مذہب کے باوجود ایک صحت مند معاشرہ قائم کرنا چاہیے۔رسول کریم ﷺنے اپنے عمل سے ایسا کرکے دکھایا۔ ہمیں چاہیے کہ اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئےاختلاف مذہب کے باوجود اپنے آپ کو معاشرے کا صحت مند وجود بنائیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(’اےکے قمرؔ ‘)
٭…٭…٭