آنحضور ﷺ کی بے مثال سخاوت
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ کَانَ النّّبِیُﷺ اَحْسَنَ النَّاسِ وَاَجْوَدَالنَّاسِ‘‘ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں میں سے حسین ترین اور سب انسانوں میں سے زیادہ سخی اور سب سے بہادر تھے۔ (بخاری،کتاب الادب باب حسن الخلق والسخاء …)
پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر، معزز، سخی اور نورانی وجود کسی کو نہیں دیکھا۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد جلد اوّل ذکر صفۃ اخلاق رسول اللہﷺ)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپؐ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی۔ جب جبرئیل آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اس وقت آپؐ کی سخاوت اپنی شدت میں تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبیﷺ یکون فی رمضان)
آپؐ کی سخاوت کا عمومی رنگ بھی ایسا تھا کہ جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ مَیں آگے بعض روایات سے پیش کروں گا۔ لیکن صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان میں تو اس سخاوت کارنگ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ یہ کبھی عام حالات میں بھی نہیں ہوا کہ کبھی کسی نے مانگا ہو اور آپؐ نے نہ دیا ہو۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا ہو اور آپؐ نے نہ کہا ہو۔ اگر ہوتا تو عطا فرما دیتے ورنہ خاموش رہتے، یا اس کے لئے دعا کر دیتے۔ (شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی الفصل الثانی قیما اکرمہ اللّٰہ تعالیٰ بہ من الاخلاق الزکیۃ)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ بعض انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپؐ نے مزید عطا فرمایا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپؐ نے کچھ اور عطا فرمایا یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے پاس جو مال ہوتا ہے اسے تم سے روک کر نہیں رکھتا۔ (بخاری،کتاب الز کاۃ، باب الأستعفاف عن المسألۃ)
پھر ایک روایت میں حضرت سھلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک د فعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لباس کی ضرورت محسوس کرکے ایک صحابیہؓ نے ایک خوبصورت چادر کڑھائی کرکے آپؐ کی خدمت میں پیش کی۔ اور عرض کی کہ یہ میں نے آپؐ کے لئے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے تاکہ آپؐ اس کو استعمال فرمائیں۔ (کیونکہ آپؐ سب کچھ دے دیا کرتے تھے، اپنے لئے نہیں رکھتے تھے)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ آپ ؐ اندر گئے اور وہ چادر پہنی اور باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے کہا کیا عمدہ چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے۔ اس پر لوگوں نے اس کو کہا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہن لیا ہے اور آپ ؐ کو اس کی ضرورت بھی ہے تو تم نے پھر یہ چادر کیوں مانگ لی۔ حالانکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اس پر اس نے کہا کہ یہ مَیں نے پہننے کے لئے نہیں مانگی، مَیں نے تویہ اپنے کفن کے لئے مانگی ہے۔ (بخاری،کتاب الجنائز، باب من استعد الکفن فی زمن النبیﷺ) (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍مارچ ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم اپریل ۲۰۰۵ء)