ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۹؍مارچ۲۰۰۴ء)
بنیادی اخلاق جن کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے کے بارے میں مَیں نے سلسلہ خطبات شروع کیا ہوا ہے اس سلسلے میں آج احسان کا مضمون میں نے لیا ہے۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے عدل کے بارے میں بتایا تھا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مومن ایک منزل پر آ کر رک نہیں جاتا بلکہ آگے بڑھتا ہے تو ہماری انتہاء صرف عدل قائم کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے قدم بڑھانا ہے۔ ایک دنیادار کہے گا کہ جب عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار قائم ہو گئے تو پھر کیا رہ گیا ہے۔ یہ تو ایک معراج ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہئے۔ اور جب یہ قائم ہو جائے تو دنیا کی نظر میں اس سے زیادہ کوئی نیکیوں پر قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ اس بارے میں کل مَیں نے اپنی تقریر میں بھی کچھ عرض کیا تھا کہ عدل کے معیار اس حد تک لے جاؤ کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل سے کام نہ لو۔
بہرحال ایک جگہ پر کھڑے ہو جانا دنیا کی نظر میں تو یہی اعلیٰ معیار ہے۔ لیکن کامل ایمان والوں کی نظر میں یہ اعلیٰ معیار نہیں بلکہ اس سے آگے بھی اللہ تعالیٰ کی حسین تعلیم کی روشنیاں ہیں۔ اور عدل سے اگلا قدم احسان کا قدم ہے۔ لیکن یاد رکھو یہ قدم تم اس وقت اٹھانے کے قابل ہو گے جب تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہو گی، جب تم میں بنی نوع انسان سے انتہاء کی محبت پیدا ہو گی۔ اور یہ باتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل یقیناً ان پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے۔ ہر موقع پر دوست اور محبت کرنے والے کا حق ادا کرنے کے لئے وہ اس کے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ او راللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے احسان کرنا بھی ایک بہت بڑا حُکم اور خُلق ہے۔
اب اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک بہت بڑی نشانی بتائی ہے کہ وہ احسان کرنے والا ہو، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے بہت محبت کرتا ہے۔ لیکن فرمایا کہ یہ احسان کرنے کا خلق یونہی پیدا نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے خالصتاً اللہ تعالیٰ کا ہونے کی ضرورت ہے۔ یعنی تقویٰ کی اعلیٰ سے اعلیٰ منازل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت میں ان منازل کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تقویٰ کی تین منازل کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا کہ جب تم اس حد تک تقویٰ اختیار کر لو تو تم پھر احسان کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔
یاد رکھیں ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو، اللہ تعالیٰ اس کا دوست اور ولی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر مشکل سے اس کو نکالے۔ تو جب تم اپنے تقویٰ کے معیار کو اس حد تک لے جاؤ گے کہ احسان کرنے والے بن سکو، پھر تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے اور جو اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
پھر قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان کی مختلف شکلیں بیان فرمائی ہیں۔ کہیں فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور یہ بھی احسان کرناہے۔ لیکن یہ خداتعالیٰ پر احسان نہیں بلکہ یہ تمہارا اپنے پر احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس وجہ سے بہت سی بلاؤں سے محفوظ رکھے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اپنے قریبیوں کے ساتھ جس طرح بعض دفعہ تم بغیر کسی ذاتی فائدہ کے، حسن سلوک کرتے ہو، جس طرح تم اپنے بیوی بچوں، بہن بھائیوں یا قریبی دوستوں کی مدد کرتے ہو اور بے نفس ہو کر کرتے ہو، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق سے بھی حسن سلوک کرو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو، ان کے کام آؤ، جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہو ان کے لئے بھی پسند کرو، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نعمت سے نوازا ہے کہ تمہیں اس زمانے کے امام اور مسیح اور مہدی علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اپنے ہم قوموں کو بھی یہ روشنی وسیع پیمانے پر دکھانے کی کوشش کرو یہ بھی تمہارا ان پر احسان ہو گا۔ ہر پاک دل کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے آؤ۔ تو یہ بھی تمہارا قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہو گا اور تم اللہ تعالیٰ کے محبوب بھی بن رہے ہو گے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اپنے میں شامل کرکے پھر یہ تعلق چھوڑ نہیں دینا بلکہ ان سے پختہ رابطہ اور تعلق بھی رکھنا ہے۔ تو اس سوچ کے ساتھ ہر احمدی کو احسان کے اعلیٰ ترین خُلق کو دنیا میں رائج کرنا چاہئے۔… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کرنے کا طریق بھی ہمیں بتا دیا، اس بارے میں ایک روایت ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے کہ جَزَاکَ اللہ خیرًا کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس نے شکریہ ادا کرنے کی انتہا کردی۔ (ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی ثناء بالمعروف)
تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احسان کرنے والے کو صرف تکلفاً جزاک اللہ کہنا کافی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی دعا ہے جو تمہارے دل سے نکلنی چاہئے کیونکہ احسان کرنے والے کا ممنون احسان ہونے کے بعد اس کا احسان تبھی اتارا جا سکتا ہے۔ کہ تمہارے دل سے اس شکریہ کی آواز نکلے جو عرش تک پہنچے، اللہ ہمیں ایسی دعاؤں کی توفیق دے جن سے پاک معاشرہ قائم ہو جائے۔
پھر حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں اللہ تعالیٰ اس پر اپنا دامن رحمت پھیلا دے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اول یہ کہ کمزوروں پر رحم کرنا دوسرے والدین سے محبت و شفقت کرنا، تیسرے خادموں اور نوکروں سے احسان کا سلوک کرنا۔