’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘(قسط دوم۔ آخری)
۱۹۷۴ء کے بعد تحریک جدید کے ذریعہ تبلیغ حق کےنئے دور کا آغا ز اورالہام
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
کے مطابق پیغام مسیح موعودؑ زمین کے کناروں تک پہنچنے کے معجزانہ نظارے
یہ محض ایک الہام نہیں۔ یہ ایک عظیم الشان وعدہ ہے جس کے پورا ہونے کی کہانیاں زمین کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں۔ ایک پیشگوئی ہے جو ہر خطہ ارض پر اپنی چمکار دکھلا رہی ہے۔ ایک تاریخ ہے جو خدائی نصرت و تائید سے بھرپور ہے
دنیا کے کناروں سے کیا مراد ہے؟
زمین تو عرف عام میں گول ہے، اور گول چیز کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس الہام میں دنیا کے کناروں سے مراد ہر جگہ ہو سکتی ہے یعنی زمین کے چپے چپے پر تیری تبلیغ پہنچے گی۔
وہ معروف مقامات جنہیں دنیا کا کنارہ کہا جاتا ہے جہاں آبادیاں ختم ہو جاتی ہیں اور سمندر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔
ناروے کے شہر شون کے شمال میں ایک مقام End of the world کہلاتا ہے اس مقام پر نارویجین سمندر دنیا کے ۲۰؍ فیصد حصے کے مالک بحراوقیانوس سے ملتا ہے اور خشکی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سکینڈے نیوین ممالک جن میں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک شامل ہیں وہاں مشن کھولا گیا اور اس طرح دنیا کے آخری کنارے تک خدا تعالیٰ نے تبلیغ کو پہنچا دیا۔بعض احمدی مبلغین نے خاص اس بورڈ کے سامنے کھڑے ہو کر غیروں کو مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچایا۔ (الفضل آن لائن 24؍مارچ 2022ء)
قطب شمالی کے قریب واقع ملک فن لینڈ کو دنیا کا آخری سراکہا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ، روس اور کینیڈاکے شمالی علاقوں کو بھی آخری کنارا کہا جاتا ہے۔ نیز قطب جنوبی اور براعظم انٹارکٹکا کو بھی دنیا کا آخری کنارا سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف چند سائنس دان رہتے ہیں جو سائنسی تحقیقات کرتے ہیں۔
کینیڈا کے غیرآباد علاقے میں بلکہ انتہائی شمال کے غیر آباد برفانی علاقوں میں جہاں صرف اطلاعاتی چوکیوں کا عملہ رہتا ہے یا خال خال اسکیموز کی بستیاں ہیں جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کے نسخے تقسیم کر کے اور اطلاعاتی مراکز کی لائبریریوں میں انہیں رکھوا کر قطب شمالی کی سمت میں آخری انسانی آبادی تک قرآنی پیغام کی اشاعت کا کارنامہ سر انجام دینے کی توفیق پائی ہے۔(دورہ مغرب 1400ھ صفحہ 452)
24؍جون 1993ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قطب شمالی کے قریب ترین علاقہ نارتھ کیپ پہنچے۔ جو کرہ ٔارض کا بلند ترین مقام ہے۔ حضورؒنے قافلے کے ساتھ تاریخ میں پہلی دفعہ مغرب و عشاء اور پھر اگلے دن ساری نمازیں باجماعت یہاں ادا کیں۔ 25؍جون کو حضورؒ نے اس جگہ جمعہ پڑھایا۔ اور باقی نمازیں ادا کیں۔ اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ دجال کے زمانہ میں غیر معمولی لمبے دن ہوں گے اور وقت کا اندازہ کر کے نمازیں ادا کرنا۔
فجی جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، اسے بھی کنارا کہا جاتا ہے۔اس ڈیٹ لائن سے جماعت احمدیہ کی مسجد چار کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جزائر فجی میں قریبا ًآٹھ مساجد بن چکی ہیں۔کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے سورج جاپان میں طلوع ہوتا ہے۔
بحر الکاہل میں موجود ریاست ساموانے دسمبر 2021ء میں اپنے معیاری وقت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس طرح یہ ریاست دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا دیکھتی ہے۔
دنیا کے کناروں سے ایک مراد یہ بھی لی گئی ہے کہ شمال میں یورپ،مشرق میں ایشیا٫، مغرب میں شمالی،وسطی اور جنوبی امریکہ، اور جنوب میں افریقہ۔ زمین کے معروف کناروں سے ہٹ کر میں اس شخص کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں جس نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر مسیح موعودؑ کا پرچم لہرایا۔ میری مراد عبد الوحید وڑائچ صاحب ہیں جو سرگودھا پاکستان کے رہنے والے تھے اور پھر جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہوئے انہوں نے Mount Everest سمیت دنیا کی 9؍بلند ترین چوٹیوں پر لوائے احمدیت لہرایا اور یہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ احمدیت کا جھنڈا جو مسیح موعود کے پیغام کی ایک جذباتی شکل ہے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچا کیونکہ وہ بھی ایک لحاظ سے زمین کے کنارے ہی ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل 22؍جون 2021ء)
احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا
جب سلطنت برطانیہ دنیا پر حکومت کرتی تھی تو یہ دعویٰ بھی کرتی تھی کہ برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا پھر وہ سمٹ گئی اور آج صرف جماعت احمدیہ یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس پر سورج غروب نہیں ہوتا۔آپ دنیا کے نقشے پر شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک نظر دوڑائیں تو جتنے ممالک اور خطے ساحل سمندر پر موجود ہیں وہ سب زمین کے کنارے کہلا سکتے ہیں۔ان کی بھاری اکثریت میں حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چند جزائر ایسے ہوں جو ابھی اس نور سے منور نہیں ہوئے، کوئی بعید نہیں کہ چند سالوں میں وہاں بھی حضوؑر کا پیغام پہنچ جائے۔اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی تعداد 192؍ہے مگر آج جماعت احمدیہ 214؍ملکوں میں ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا بلکہ طلوع بھی سب سے پہلے احمدیوں پر ہوتا ہے۔
سب سے پہلے سورج کہاں طلوع ہوتا ہے؟
یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ دنیا میں سورج سب سے پہلے کہاں طلوع ہوتا ہے؟ جاپان بھی ہے،نیوزی لینڈ بھی ہے،روس بھی ہے اور کریباتی جزائر بھی۔ ماہرین کے مطابق بحر اوقیانوس میں واقع کریباتی یا کریباس جزائر میں سورج نیوزی لینڈ سے بھی پہلے طلوع ہوتا ہے۔31؍جنوری سے 15؍مئی اور پھر 27؍ستمبر سے 13؍نومبر( مجموعی طور پر 153؍دن )دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے مسلمانوں میں یہاں احمدیوں کی مسجد ہے۔ (الفضل آن لائن 23؍مارچ 2022ء) روس کے مختلف علاقوں میں 16؍مئی سے 26؍ستمبر (134؍دن) سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے۔نیوزی لینڈ میں 14؍نومبر سے 30؍جنوری تک سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا ہے روس کے انتہائی مشرق میں واقع جزیرہ نما کامچاٹکا میں بعض مہینوں میں سورج سب سے پہلے طلوع ہوتا ہے ان سب ملکوں میں جماعت موجود ہے۔
قادیان سے زمین کے کناروں تک
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خداتعالیٰ نے جو خبردی تھی کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔یہ الہام مختلف رنگوں میں پورا ہوتا رہا مگر خلافت خامسہ میں اس الہام نے ایک نیا جلوہ دکھایا اور 16؍دسمبر 2005ء کو قادیان کی مسجد اقصیٰ سے معجزانہ طور پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کی صورت میں مسیح موعودؑ کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچنے لگی اور یہ پیغام جلسہ کے خطابات کے علاوہ پانچ خطبات جمعہ اور ایک خطبہ عیدالاضحی کی صورت میں گونجتا رہا۔ اور تمام خطابات پہلی مرتبہ قادیان سے ایم ٹی اے پر براہ راست نشر ہوئے۔ (ہفت روزہ البدر قادیان 19؍مئی 2022ء صفحہ 22)
اس کے تین ماہ بعد 28؍اپریل 2006ء کو زمین کے کنارے فجی سے حضور کا خطبہ جمعہ زمین کی تمام بلندیوں اور پستیوں میں نشر ہوا جسے فجی کے نیشنل ٹی وی نے بھی Live نشر کیا۔ حضور نے 2؍مئی 2006ء کو جزیرہ تاویونی پر لوائے احمدیت لہرایا جہاں سے Date Lineگزرتی ہے۔ پس قادیان سے زمین کے کناروں تک اور زمین کے کناروں سے تمام دنیا تک مسیح موعودؑ کے پیغام کا ابلاغ احمدیت کے مواصلاتی اور فضائی دور کا ایک نیا سنگ میل ہے۔
یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ مختلف قوموں کے نزدیک زمین کے جو بھی کنارے ہیں خواہ وہ فجی ہو یا ماریشس یا آئرلینڈ یا قطب شمالی کے قریب امریکہ اور کینیڈا کے علاقے۔ ان سب جگہوں پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کا پیغام پہنچانے کا اعزاز بخشا ہے۔اور سب جگہوں سے حضور کے خطبات جمعہ اور دیگر خطابات براہ راست نشر ہوتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘دیکھو کس شان سے پورا فرمایا ہے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی۔ کل پرسوں کی بات ہے ہم ریڈیو کی باتیں کرتے تھے تو اپنےاندر یہ قدرت نہیں پاتے تھے کہ ہم کوئی انٹرنیشنل ریڈیو ہی قائم کرسکیں کجا وہ دن اور کجا وہ تین سال کے عرصے میں یہ احمدیت کے قافلے کا پھلانگتا ہوا سفر جو پہلے زمین پر چھلانگیں مار رہا تھا اب آسمانوں پر اڑنے لگا ہے اور آسمان سے پھر زمین پر اترتا ہے اور پیغام لے کر پھر ا پنے سفر پر رواں دواں ہوتا ہے۔ یہ نظام خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور اس الہام کی برکت ہے۔‘‘(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 27؍جون 1997ء)
الہام کا پس منظر
یہ الہام کن حالات میں ہوااور اس کے پورا ہونے کے کتنے امکانات تھے یہ بھی روحانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔اس الہام کے پس منظر کا جائزہ لینے کے لیے ہم اس سے چارسال پہلے یعنی 1894ء سے لے کر 1897ء کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہؐ جس مہدی کی مدتوں سے منتظر تھی اس کی علامات میں سے ایک کسوف و خسوف کا نشان تھا۔ یہ مارچ اپریل 1894ء میں ظاہر ہوا۔ بعض سعید روحوں نے اسے دیکھ کر حضرت اقدسؑ کو قبول کیا مگر عام طور پر امت مسلمہ نے اس نشان کو رد کر دیا۔ علماء نے طرح طرح کے عذر ایجاد کیے۔ حدیث کو حدیث ماننے سے انکار کر دیا۔ روایت کو جھوٹا قرار دے دیا اور چاند سورج گرہن کے لیے وہ تاریخیں تجویز کیں جو قانون قدرت کو جڑھ سے اکھاڑنے کے لیے کافی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جواب میں بہت دلائل پیش کیے، کئی کتب لکھیں، متعدد چیلنج دیے مگر ماننے والے بہت کم اور انکار کرنے والے ہزاروں گنا کثرت میں تھے۔
1890ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کا الہامی اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے عام طور پر مسلمان برہم تھے مگر 1895ء میں حضورؑ نے یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ حضرت مسیحؑ کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے۔ اس اعلان نے مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ دونوں قومیں شعلہ جوالہ بن گئیں۔
1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا گورو نانک صاحب کو مسلمان ولی اللہ ثابت کر دیا تو سکھ برادری بھی آپ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک طوفان بد تمیزی برپا ہو گیا۔ چند سعید لوگ حضور کی کتاب ’’ست بچن ‘‘پڑھ کر احمدی ہو گئے مگر قومی اعتبار سے اس کا رد عمل بہت خوفناک تھا۔ سکھ لیڈر اس کتاب کے جواب کے لیے لیکھرام کے پاس بھی گئے مگر اس نے پہلی شرط یہ لگائی کہ چولہ بابا نانک جس پر کلمہ طیبہ اور دیگر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اسے جلا دیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا اور سکھ مذہب کی اہم کتاب جنم ساکھی کے نئے ایڈیشن میں یہ لکھ دیا گیا کہ بابا صاحب کا چولہ آسمان پر اڑ گیا ہے اور پھر واپس کبھی بھی نہیں آئے گا۔ ایک سکھ نے خبط قادیانی کے نام سے کتاب لکھی اور حضرت رسول کریم ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام پر سخت حملے کیے۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 602)
1896ء میں حضورؑ نے ایک تبلیغی خط والی کابل امیر عبدالرحمان کے نام لکھا جو حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب شہید لے کر گئے تھے جس پر امیر نے جواب دیا کہ ایں جا بیا۔ یعنی کابل میں آ کر دعویٰ کرو تو معلوم ہو جائے گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس کے بعد کابل گئے اور انہوں نے امیر کو خوب بھڑکایا اور واپس آ کر کہا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آ سکیں گے۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 548)اس کے بعد امیر نے حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب ؓکو شہید کر دیا اور 1903ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کو بھی مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کے جرم میں سنگسار کر دیا۔
1896ء میں ہی حضورؑ نے ہندوستان کے تمام علماء اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا جس کے نتیجے میں ان کے مریدوں میں نفرت کی لہر اور بھی بلند ہو گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ 1906ء تک ان مخالف علماء کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جو زندہ تھے وہ کسی نہ کسی بلاء میں گرفتار تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 551)
پادری عبداللہ آتھم سے حضور ؑکا مباحثہ ( جنگ مقدس)1893ء میں ہوا تھا جس کے آخر پر حضورؑ نے عبداللہ آتھم کی ہلاکت کی پیشگوئی کی مگر وہ دل میں رجوع کر کے خدا کے فوری غضب سے تو بچ گیا مگر اخفائے حق کے جرم کا مرتکب ہوتا رہا اور 27؍جولائی 1896ء کو بالآخر ہاویہ میں جا گرا۔ اس واقعہ نے عیسائی دنیا کو اپنی تپش اور نفرت میں اور بھی بڑھا دیا اور بالآخر اسی موت کے بدلہ کے طور پر اگست 1897ء میں پادری مارٹن کلارک نے حضورؑ کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کر دیا۔
1897ء میں نائب سفیر سلطان ترکی حسین کامی قادیان آئے۔ وہ ترکی کی مزعومہ خلافت عثمانیہ کے لیے انگریزوں کے مد مقابل حضور کی تائید حاصل کرنے کے متمنی تھے۔ مگر حضورؑ کو کشفاً بتایا گیا کہ سلطنت ترکی کی حالت اچھی نہیں اور ان حالتوں کے ساتھ انجام بخیر نہیں ہے۔ اس پر اس نے واپس جا کر حضورؑ کے خلاف اخبار میں ایک غضب آلود مضمون شائع کروایا اور کثرت سے چرچا بھی کیا۔ اس طرح گویا حضورؑ نے مسلمانوں کی طاقتور سلطنت عثمانیہ سے دشمنی بھی مول لے لی۔
حضورؑنے 1893ء میں شاتم رسول لیکھرام کی چھ سال میں ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی۔ 6؍مارچ 1897ء کو جب یہ پیشگوئی عظیم شان سے پوری ہوئی تو ہندو اور آریہ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ الزام لگایا کہ آپؑ نے اسے قتل کروایا ہے۔ آپؑ کے گھر کی تلاشی لی گئی اور تلاشی لینے والے تھانے دار نے کہا کہ مرزا ہمیشہ بچتا رہا ہے اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ آپ کے قتل کی سازشیں کی گئیں اور قاتلوں کے لیے انعام مقرر کیے گئے۔ مولوی بٹالوی صاحب نے لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ لیکھرام کے قتل میں مرزا صاحب شریک ہیں۔ اس سلسلہ میں گرفتاری کی کوششیں بھی کی گئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 598)
1898ء کے شروع میں ایک مولوی ملا محمد بخش جعفر زٹلی نے ایک اشتہار شائع کر کے حضور ؑکی وفات کی جھوٹی خبر مشہور کر دی۔ (تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 9)وسط 1898ء میں حضورؑ پر حکومت پنجاب نے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ دائر کیا۔1898ء کے آخر پر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخبری پر حضورؑ کے خلاف مقدمہ دائر ہوا اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب مجھے قتل کرا دیں گے۔
یہ بھی یاد رہے کہ حضرت مسیح موعودؑ پر براہین احمدیہ کی ابتدائی جلدوں کی اشاعت کے بعد کفر کافتویٰ لگ گیا تھا۔ (عالمی فتنہ تکفیر کے متعلق رسو ل کریم ﷺ کی پیشگوئیاں۔دوست محمد شاہد۔ صفحہ16) اس کے بعد 1890ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے ہندوستان میں گھوم کر دوصد علما٫ سے کفر کے فتاویٰ حاصل کیے اور غلیظ ترین گالیاں دیں۔(حیات طیبہ صفحہ102 شیخ عبد القادر )
یہ واقعات چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جان مال اور عزت سخت خطرے میں تھی اور مخالفین نے ہر طرف سے گویا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ہندوستان کی تمام مذہبی قومیں مسلمان، عیسائی، ہندو، آریہ اور سکھ آپ کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی مقدمات دائر کر کے حکومت کے ذریعہ آپ کو سزا دلوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ جماعت احمدیہ 1889ء میں قائم ہو چکی تھی مگر اس کی تعداد نہایت کم تھی۔ چند ہزار ہو گی مگر ابھی تک اس کا کوئی باقاعدہ نام بھی نہیں تھا۔ موجودہ نام 1901ء میں رکھا گیا۔ ان حالات میں کسی کا یہ سوچنا کہ وہ دشمن کے شر سے بچ جائے گا، مخالفین ناکام و نامراد ہوں گے، اور وہ زمین کے کناروں تک عزت اور شہرت پائے گااور قبول کیا جائے گا دنیا کی نظر میں ایک دیوانے کی بڑسے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
پیغام کہاں کہاں پہنچ چکا تھا
یہ بھی ضروری ہے کہ جائزہ لیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں حضور کا پیغام کہاں کہاں پہنچ چکا تھااور جماعت کی کیا صورت حال تھی اس الہام کے وقت ابھی جماعت کا کوئی نام نہیں تھا اور نوزائیدہ شکل میں تھی۔ اس لیے ہندوستان میں احمدی تو موجود تھے مگر کوئی نظام جماعت نہیں تھا۔ احمدی مالی قربانی بھی کرتے تھے مگر چندوں کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ حضور ؑحسب ضرورت تحریک کرتے اور احباب لبیک کہتے۔ کوئی مبلغ،کوئی مربی نہیں تھا۔ کوئی اخبار یا رسالہ نہ تھا۔ الحکم اخبار 1897ء کے آخر پر ہفت روزہ کے طور پر امرتسر سے جاری ہوا اور ریویو آف ریلیجنز اردو اور انگریزی میں 1902ء میں جاری ہوا۔
ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ حضور ؑکا ذکر برطانیہ میں ہو تا کیونکہ ہندوستان پر انگریز حکمران تھے اور انڈیا کی ساری خبریں وہاں پہنچتی تھیں۔ یوکے میں جماعت کی تاریخ کا آغاز 1913ء میں سمجھا جاتا ہے جب حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ یہاں آئے تھے جبکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پیغام یوکے اور یورپ کے دوسرے ممالک میں آپؑ کے دعویٰ مجددیت کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بغرضِ اتمام حجت ایک خط اور انگریزی اشتہار جس کی آٹھ ہزار کاپیاں چھپواکر ہندوستان اور انگلستان میں موجود مشہور اور معزز پادری صاحبان نیز مختلف سوسائٹیز اور مذاہب کے لیڈران تک جہاں جہاں اس زمانے میں اس پیغام کا پہنچنا ممکن تھا بھجوایا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یوکے میں Charles Bradlaugh کے نام سے ایک پولیٹیشن جو ایک دہریہ تھا اس کو آپؑ کی دعوت 1885ء میں موصول ہوئی تھی۔ اس کا ذکر برطانیہ کے ایک اخبار Cork Constitution نے اپنی 8؍جون 1885ء کے شمارے میں کیا تھا۔ اسی طرح The Theosophical Society کے ایک بانی Henry Steel Olcott کو بھی یہ دعوت 1886ء میں موصول ہوئی تھی۔ جس کا ذکر اس نے اپنے اخبار The Theosophist کے ستمبر 1886ء کے شمارے میں میں کیا تھا۔
مئی 1897ء میں حضورؑ نے تحفہ قیصریہ کے نام سے ایک تبلیغی خط ملکہ وکٹوریہ انگلستان کو بھجوایا مگر اس پر بھی کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔
شاہ انگلستان جارج پنجم کے دَور حکومت کے ابھی صرف دو ہی سال ہوئے تھے کہ سنہ 1912ء میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا پہلا مبلغ ’’ووکنگ‘‘ میں اترا،اور پوری تیاری کے ساتھ برطانوی عوام کو دعوت اسلام دینے لگا۔ابھی ایک اور سال گزرا ہوگا کہ احمدیہ مشن،شہر سے متصل ایک گلی میں قائم ہوگیا۔ یہ مقام بکنگھم پیلس اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں سےمحض چند گھڑیوں کی مسافت پر تھا۔یوں برطانوی سلطنت کے مرکز میں احمدیہ مشن نے تبلیغ اسلام کاکام شروع کردیا۔
ایک محقق لکھتا ہے کہ ’’برطانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور یہاں مشن کے قیام کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی پہلی منظم کوشش بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اوائل میں احمدیہ مشنریوں کی آمد کے ساتھ ہوئی۔ ‘‘
(Ron Geaves, Islam and Britain: Muslim mission in an age of empire, p67, Bloomsbury,۔London, 2018)
(بحوالہ الفضل انٹر نیشنل۲۷؍ستمبر۲۰۲۲ء)
حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتے ہی اشتہارات کے ذریعہ عالمگیر نشان نمائی کا اعلان کیا تھا اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی راہنماؤں کو اپنے پیغام سے مطلع کیا۔اگست۱۸۸۸ء میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں:’’یہ دعویٰ بفضلہ تعالیٰ وتوفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لئے اشتہارات تقسیم کیے گئے۔ اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اورجرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے۔ چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔ چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ 649)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام مشہور لیڈروں تک حضور ؑکا دعویٰ پہنچ گیا تھا لیکن ان میں سے کسی نے قبولیت کی خواہش ظاہر نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ساری قوموں تک بھی حضور ؑکا پیغام پہنچ گیا۔ کیونکہ ان سب قوموں کی زبانوں تک ہی رسائی کے لیے ایک بہت بڑا نظام درکار تھا۔اب یوکے میں ۴۵؍ کے قریب مساجد ہیں۔افغانستان میں حضور ؑکا پیغام پہنچ چکا تھا۔کینیڈا کے اخبارات نے 1903ء میں پگٹ اور ڈوئی کے سلسلہ میں حضور کے چیلنج کی خبریں شائع کیں (الفضل آن لائن 25؍مارچ 2022ء) یہاں ۳۴؍مساجد ہیں۔فن لینڈ میں 1903ء میں پگٹ کے معاملہ میں اور پھر حضور کی وفات پر خبریں چھپیں۔(الفضل آن لائن5؍جنوری 2021ء)یہاں کچھ عرصہ قبل جماعت نے پہلی مسجد تعمیر کرنے کے لیے ایک عمارت خریدی ہے۔(الفضل انٹرنیشنل۲۶؍اگست۲۰۲۴ء)
مشرق بعید میں جو سعید روحیں حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی میں احمدیت سے مشرف ہوئیں ان میں سے چند نام یہ ہیں چین میں حضرت قاری غلام مجتبیٰ و قاری غلام حم صاحبؓ۔ حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب نے 1899ء میں ہانگ کانگ میں ازالہ اوہام پڑھی اور پھر قادیان آ کر دستی بیعت کی۔(الحکم 21؍دسمبر 1934۔و الفضل انٹر نیشنل 18؍ستمبر 2020ء)آسٹریلیا میں حضرت صوفی حسن موسیٰ صاحبؓ نے ستمبر 1903ء میں بیعت کی۔یہاں پانچ مساجد ہیں۔نیوزی لینڈ سے حضرت پروفیسر کلیمنٹ ریگ صاحبؓ نے مئی 1908ء میں حضورؑ کی زیارت کی اور واپس جا کر بیعت کر لی۔2013ء میں نیو زی لینڈ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کا افتتاح ہوا۔
جاپان اور روس میں حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے تبلیغی خطوط کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔امریکہ کو بھی نئی دنیا کہا جاتا ہے اور ایک لحاظ سے وہ دنیا کا کنارا بھی ہے۔ امریکہ میں الیگزنڈر وب حضورؑ کی خط و کتابت کے نتیجے میں مسلمان ہو گئے اور انہی کے ذریعے مسٹر اینڈرسنہ ٫1904 میں احمدی ہوئے جن کا نام حضورؑ نے احمد تجویز فرمایا۔ 1902ء تا 1907ءڈاکٹر ڈوئی کے ساتھ خط وکتابت اور چیلنج اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔بعد ازاں امریکہ میں باقاعدہ مشن 1920ءمیں قائم ہوا۔اس وقت امریکہ میں 56؍سے زیادہ مساجد اور 60؍مشن ہاؤسز ہیں۔
روس کے قطب شمالی کے علاقے بھی دنیا کے کنارے کہلاتے ہیں۔ روس کے مفکر اور عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کے ساتھ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی معرفت خط و کتابت ہوتی رہی اور جب اس کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بھیجا گیا تو اس نے اس پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا۔
عرب دنیا میں کئی سعید روحیں احمدی ہو چکی تھیں پہلے دو عرب احمدی صحابی تھے پہلے عرب احمدی حضرت الشیخ محمد بن احمد مکی ؓتھے انہوں نے 10؍جولائی 1891ء کو دستی بیعت کی آپ خاص مکہ شہر کے رہائشی تھے دوسرے شام کے محمد سعید شامی طرابلسیؓ تھے ۔حضورؑ نے پہلی دفعہ عربی کتاب التبلیغ میں عربوں کو براہ راست مخاطب کیا اور ایک موقع پر عربی اخبار نکالنے کی خواہش بھی ظاہر فرمائی۔( ملفوظات جلد 4 صفحہ 166،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
پیغام پہنچنے سے متعلق غیر معمولی نظارے
حضرت مسیح موعود ؑکو جب یہ وعدہ دیا گیا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا تو اس میں لازماً اس طرف بھی اشارہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت تمہارے ساتھ ہو گی۔ اور یہ بھی کہ الٰہی سنت کے مطابق پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لیے الٰہی جماعت کی محنت اور کاوش بھی ضروری ہوگی۔ چنانچہ اس کے عین مطابق جماعت احمدیہ جان مال وقت عزت اور اولادوں کی قربانی کر کے اس مقدس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا رہی ہے۔ اس راہ میں شہادتیں بھی ہو ئیں، بہت دکھ سہے، بیوی بچوں کو چھوڑا، بھوک پیاس برداشت کی، زخم کھائے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر کوئی کمی نہ چھوڑی اور خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق قربانیوں کا بہترین پھل اور صلہ عطا کیا مگر اس کا ایک ایمان افروز پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سی ایسی جگہوں پر جماعت کا پیغام اس طرح بھی پہنچا کہ اس کے لیے کوئی خاص محنت اور جد و جہدنہیں کرنی پڑی بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر اور تجلی کے طفیل ان ملکوں میں احمدیت کا آغازہوامثلاًحضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ کو ایک شخص نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب آئینہ کمالات اسلام دی جس کے ذریعہ افغانستان میں ان کی عظیم قربانی کی داغ بیل پڑی۔
گھانا میں ابتدائی تبلیغ کے لیے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ گھانا میں قصبہ اکرافو کے ایک مسلمان یوسف نیارکو Yousuf Nyarkoصاحب نے 1920ء میں خواب میں دیکھا کہ وہ ایک سفید آدمی کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نےا پنے خواب کا ذکر مسٹر عبدالرحمان پیڈروMr. Abdur Rahman Pedro صاحب کے ساتھ کیا جو نائیجیریا کے رہنے والے تھے۔ عبدالرحمان صاحب نے انہیں بتایا کہ میں نے ایک مسلم مشن کے متعلق پڑھا ہے جس کا مرکز ہندوستان میں ہے اور ایک برانچ لندن میں بھی ہے۔ یوسف صاحب نے اپنے خواب کی اطلاع جب چیف مہدی آپا کو دی تو انہوں نے مسلمانوں کی ایک میٹنگ منعقد کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ احمدیت کے مرکز کو ایک خط لکھا جائے کہ ان کے لیے کوئی مبلغ بھجوایا جائے۔پہلے گھانین احمدی چیف مہدی آپا نے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان تاجر سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ جو اس وقت لندن میں تھے کا پتہ لیا اور ان سے خط و کتابت کی اور کچھ رقم جمع کر کے سفید مبلغ منگوانے کے لیے لندن مشن کو بھیج دی۔چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر مارچ 1921ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ لندن سے گھانا پہنچے۔اب یہاں 700؍سے زیادہ مساجد ہیں۔ (الفضل آن لائن 22؍دسمبر 2022ء)
گیمبیا کا مشن بھی اسی طرح قائم ہوا۔گیمبیا کی ایک لڑکی اعلیٰ تعلیم کے لیے سیرالیون گئی۔ وہاں اسے کسی دکان پر نماز کی ایک کتاب ملی جس میں عربی زبان کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی تھا۔ اس لڑکی نے اپنے ملک میں کبھی ایسی کتاب نہ دیکھی تھی۔ اس نے وہ کتاب خرید لی اور گیمبیا میں اپنے ایک عزیز کو بھجوادی۔ یہ کتاب صدر انجمن احمدیہ قادیان کی شائع شدہ تھی۔ ایک نوجوان مسٹر بارہ انجائے (Bara Injoy) نے قادیان میں جماعت سے رابطہ کیا اور مزید دینی کتب کے لیے درخواست کی۔ اسے جماعت نے مزید کتب ارسال کیں اور بتایا کہ آپ کے قریبی ملک نائیجیریا میں ہمارا مشن ہے۔ وہاں رابطہ کرکے مزید لٹریچر اور معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس زمانہ میں مکرم نسیم سیفی صاحب نائیجیریا کے مشنری انچارج تھے۔ سب سے پہلے نائیجیریا سے ایک معلم مکرم حمزہ سنی الوصاحب گیمبیا تشریف لائے اور تقریباً ایک سال تک بانجل میں تبلیغ کرتے رہے۔ ان کے بعد گھانا سے ایک لوکل معلم مکرم سعید جبریل چند ماہ کے لیے تشریف لائے۔ اس زمانہ میں چونکہ گیمبیا میں باقاعدہ جماعت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے مکرم سعید صاحب اپنے گلے میں ایک بیگ ڈالے رکھتے تھے جس پر احمدیت لکھا ہوا تھا اور گھوم پھر کر لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہتے۔اس طرح پڑھے لکھے نوجوانوں کا مرکز احمدیت قادیان کے ساتھ بذریعہ خط و کتابت اچھا خاصارابطہ قائم ہوگیا اور وہاں سے اخبارات و رسائل بھی باقاعدگی کے ساتھ آنے شروع ہوگئے۔(ارض بلال از منور احمد خورشید مبلغ سلسلہ )
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ1983ء میں مشرق بعید کے دورہ پر تھے کہ آپ کو ایک خط ملا کہ طوالو میں بھی مشن کھولیں۔ اگلے دن مکرم افتخار ایاز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھے طوالو اور ایک اور ملک سے ملازمت کی آفر ہوئی ہے مجھے مشورہ دیں ۔حضور ؒنے فرمایا کہ طوالو کے لیے میں سوچ رہاتھا خدا نے تمہیں اسی لیے بھیجا ہے۔
انڈونیشیا کے 4؍نوجوان 1923ء میں دینی تعلیم کے لیے ہندوستان آئے تو قادیان آ کر حضرت مصلح موعودؓ سے دینی تعلیم کی درخواست کی۔ اسی دوران انہوں نے احمدیت قبول کرلی اور وہاں سے اپنے ملک میں تبلیغ شروع کر دی۔اب 390؍ سے زیادہ مساجد ہیں۔(الفضل آن لائن 22؍دسمبر 2022ء)
جاپان میں باقاعدہ مشن 1935ءمیں صوفی عبد القدیر نیاز صاحب کے ذریعہ قائم ہوا۔چین میں ہمارے پہلے مبلغ صوفی عبد الغفور صاحب 1935ءمیں پہنچے مگر احمدیت کا پیغام 1924ءمیں پہنچ چکا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ کئی احمدی تھے مگر ان کا رابطہ مرکز سے نہیں تھا ۔(خطبات محمود جلد 8 صفحہ 312) فجی کے پہلے احمدی حاجی محمد رمضان صاحب تھے جو 1959ء میں شامل جماعت ہوئے۔
کنواری اقوام احمدیت سے رابطے میں
اس الہام کا ایک غیر معمولی مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان اقوام تک بھی اسلام کا پیغام پہنچے گا جہاں اس سے پہلے کبھی نہیں پہنچا اور اس کی تائید سابقہ پیشگوئیاں بھی کرتی ہیں حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی آمد ثانی کی جو پیشگوئیاں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک پیشگوئی اس تمثیل پر مشتمل ہے کہ کنواری اقوام حضرت مسیح پر ایمان لے آئیں گی۔ (انجیل متی باب 25۔ وضاحت کے لیے دیکھیے ماہنامہ خالد جنوری 1984ء )
مذہبی اصطلاح میں کنواری اقوام سے مراد وہ قومیں ہیں۔ جن میں آج تک دین حق کا پیغام نہیں پہنچا اور اس لحاظ سے گویا بالکل کنواری ہیں اور اس کا دلہا اسلام ہے۔ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے 1983ء میں مشرق بعید کے دورہ کے بعد فجی اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کو کنواری اقوام قرار دیا اور ان کے احمدیت کے ذریعہ دین حق میں داخلہ کی پیشگوئی فرمائی۔ (الفضل 29؍نومبر1983ء)
2006ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز آسٹریلیا کے پہلے دورہ پر تشریف لے گئے تو 22؍اپریل 2006ء کو برسبن میں لوکل Aboriginal Community کے ایک ممبر نے حضور کو خوش آمدید کہا اور روایتی طور پر ہتھیار اور میوزک آلات دکھا کر حضور کو خوش آمدید کہا۔ (الفضل 8؍مئی 2006ء صفحہ 5)
حضور انور کے دورہ آسٹریلیا 2013ء میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان قدیم اقوام کی طرف سے نہایت محبت اور بشاشت کا سلوک ہوا۔ 23؍اکتوبر 2013ء کو تقریب عشائیہ میں جب ایڈریسز کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے Aunty Robyn Williams جو آسٹریلیا کی قدیم قوم Aboriginalکے قبائل Ugambeاور Mulanjali کی ایک بزرگ خاتون ہیں، نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حضور کو خوش آمدید کہا مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا۔ ایک مقامی آرٹسٹ کا تحفہ پیش کیا۔
موصوفہ نے بتایا کہ اسے کوئی عام آدمی چھو یا بجا نہیں سکتا لہٰذا انہوں نے ممبر آف پارلیمنٹ سے درخواست کی کہ وہ خود اسے حضور انور کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کریں۔ چنانچہ ممبر پارلیمنٹ نے اسے حضور انور کی خدمت میں پیش کیا۔ کئی ایڈریسز کے بعد حضور انور خطاب کے لیے تشریف لائے تو خطاب کے آغاز سے قبل فرمایا کہ تمام مہمان مقررین کے ایڈریسز کے بعد تالیاں بجائی گئی ہیں لیکن Aunty Robyn کے ایڈریس کے بعد تالیاں نہیں بجائی گئی تھیں۔ تو اب سب سے پہلے آنٹی Robyn کے لیے تالیاں بجائیں۔ چنانچہ سارے ہال نے تالیاں بجائیں۔
بزرگ خاتون ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے قبیلہ میں عزت دی جاتی ہے۔ موصوفہ نے تقریب کے بعد اس بات کا اظہار کیا کہ آج کی اس تقریب میں جو مجھے عزت دی گئی ہے میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ہمارا ابورجنیز کا فلیگ بھی لگایا گیا۔ ایسی عزت تو ہمیں کبھی کسی نے نہیں دی۔ موصوفہ حضرت بیگم صا حبہ مدظلہا العالی سے بھی ملی تھیں۔ جب مل کر باہر آئیں تو روتی جارہی تھیں اور یہی کہتی تھیں کہ آج مجھے آپ سب نے بہت عزت دی ہے۔(الفضل 22؍نومبر 2013ء)
الٰہی راہنمائی
دنیاکے درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں بغیر کسی ظاہری رابطہ کے مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچا۔ کسی رؤیا،کشف یا القاکے ساتھ۔ یہ محض خدا کی قدرت ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ ایک بزرگ شیراز سے آئے اور مسیح موعود ؑکی بیعت کی انہوں نے بتایا کہ مجھے حضور کی کوئی کتاب نہیں ملی نہ کوئی احمدی ملا نہ کوئی مبلغ۔رسول اللہ ﷺ خواب میں آئے اور فرمایا کہ امام مہدی قادیان میں ہیں اور رسول اللہؐ کے ساتھ ان کی شکل بھی دیکھی۔ بڑی مشکل سے قادیان کو تلاش کیا اور دیکھتے ہی پہچان لیا۔ (سیرۃ المہدی جلد1 روایت نمبر754) اس قسم کے واقعات مسلسل ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور ان پر مشتمل کئی کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں صرف مکاشفہ یا الہامی رہنمائی کے ذریعہ جماعت احمدیہ تک رسائی ہوئی۔
دشمنوں کے ذریعہ تبلیغ
خدا کی عجیب شان ہے اور وہ اپنے وعدے عجیب رنگ میں پورے کرتا ہے بے شمار لوگ ایسے ہیں جن تک احمدیت کا پیغام دشمنوں کے ذریعہ پہنچا دشمن نے الزام لگائے اور لوگوں میں خدا نے تحقیق کا شوق پیدا کر دیا اسی لیے مسیح موعودؑفرماتے تھے کہ مخالف ہمارے ڈھنڈورچی ہیں اور ہمارا پیغام وہاں وہاں پہنچا دیتے ہیں جہاں ہمارا یا کسی احمدی کا جانا ممکن نہیں ہوتا۔
یہ محض چند مثالیں ہیں اور اس بات کا کافی ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ یہ وعدہ خدا کی طرف سے تھا جو تمام نامساعد حالات میں پورا ہوا۔بیسیوں ایسے واقعات ہیں جہاں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی مشیت ہی نظر آتی ہے۔الغرض یہ محض ایک الہام نہیں۔ یہ ایک عظیم الشان وعدہ ہے جس کے پورا ہونے کی کہانیاں زمین کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں۔ ایک پیشگوئی ہے جو ہر خطہ ارض پر اپنی چمکار دکھلا رہی ہے۔ ایک تاریخ ہے جو خدائی نصرت و تائید سے بھرپور ہے۔ مسیح موعود ؑکی صداقت کا ایک کھلا کھلا ثبوت ہے جس کی ایک عالم گواہی دے رہا ہے۔ ایک نور سے لکھی ہوئی تحریر ہے جو خاکدان عالم پر نقش کی گئی ہے۔ صلحائے عرب اور ابدال شام بھی اب اس پر درود بھیج رہے ہیں اور عجم کے لوگ بھی اس کے ایک اشارہ پر جانیں قربان کرنے پر تیار ہیں۔دنیا کے 214؍ملکوں میں اس کا پرچم لہراتا ہے اور ہر جھنڈا اس کا الہام یاد کراتا ہے۔
آج مسیح موعودؑ کے مخالف بھی اس الہام کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مولوی صاحب کا ایک کلپ گردش کر رہا ہے وہ کہتے ہیں:’’ہم ملائیشیا میں گئے وہاں قادیانی، انڈونیشیا میں گئے وہاں قادیانی اور دنیا کا آخری کوناجنوب میں وہاں کیپ ٹاؤن ساؤتھ افریقہ کا آخری شہر وہاں قادیانی، ہمارے والد صاحب گئے ہیں اور یہ ہمارے بھائی جاوید گئے ہیں شمالی آخری کونا ناروےوہاں پر قادیانی اور دنیا کےمشرق میں آخری کنارہ آسٹریلیا،جزائر فجی وہاں قادیانی۔دنیا کا مغربی کنارہ گھانا وہاں پر قادیانی۔‘‘
آخر پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حضورؑ کے اس الہام سے ملتا جلتا ایک دعویٰ ایک اَور شخص نے بھی کیا تھا قریبا ًاسی زمانہ میں جب امریکہ کے ڈاکٹر ڈوئی کو حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام نے اس کی گمراہی پر خبردار کرتے ہوئے متنبہ فرمایا تھا ۔اس نے اپنی جماعت کے سامنے اپنے تخیل کا اظہار کیا:مجھے ابھی برقی توانائی کے امکانات کی وسعت کا اندازہ نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بولنے والے کا چہرہ لوگوں کو دکھانے کا ذریعہ بن جائے اور روشنی کی مدد سے مقرر کو تقریر کرتے ہوئے دکھانے کے قابل ہوجائے۔ممکن ہے کہ میں یہاں اپنے گرجے میں کچھ بولوں اور تمام امریکہ میری آواز سن سکے۔ ایک دن ایسا ضرور ہوگا۔ میں یہاںہو ںگا اور زائن کے گرجے میں بولوں گااور دنیا کے ہر کونے تک میری آواز پہنچا کرے گی۔(Leaves of Healing, Vol 16, No 1, Pg 15)
خدا کی شان ہے کہ کسی فاسق و فاجر کی پیشگوئی کو بھی پورا کردے، مگر اپنے حقیقی مرسل اور اس کی جماعت کے حق میںبرقی توانائی اور دیگر سائنسی ترقی سے یہ تو ہونا ہی تھا اور یہ ہوا۔ لیکن یہ ایک ایسے رنگ اور پہلو سے ہورہا ہے کہ سب منظر ہی بدل چکا ہے، خدا ئے قادر کی تقدیرِخاص اپنا جلوہ دکھاچکی ہے اور وقت کے دھارے نے سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جو شخص زائن کے منبر سے بولنا چاہتا تھا نہ وہ رہا اور نہ ہی اس کی اسلام مخالف تقاریر۔ اس کا عبرتناک انجام دنیا بھر کے لیے ظاہر ہوگیا۔اور خدا نے ظاہر کر دیا کہ اس کا سچا فرستادہ کون ہے۔
روشنی کی محتاج دنیا کے لیے خدا ئے قادر نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے جانشین حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے مقدر فرمایا کہ آپ اسی شہرِ صیہون میں موجودہوتے ہوئے، مسجد کے منبر سےخطبہ ارشاد فرمائیں، اور مشرق و مغرب کی سب آبادیاں اور ساری دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہو۔
کہاں قادیان کی غیر معمولی اور چھوٹی سی بستی اور قادیان کے چند لوگ اور کہاں دنیا کے دور دراز جزائر جو سمندروں سے گھرے ہوئےہیں۔ سرسبز و شاداب علاقے جو فصلوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی جو پانیوں اور برفوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ وہ صحرا جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ پرانی دنیا ہو یا نئی دنیا ہو۔ گنجان آبادیاں ہوں یا آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرح ساحلی اور ریتلے علاقے۔ سب جگہ قادیان اور اس کے مقدس نبی کا نام گونجتا ہے اور گونجتا رہے گا جب تک کہ انسان اس کرہ ارض پر موجود ہے۔ اور ایک وقت آئے گا کہ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا(الزمر 70) ساری زمین اپنے رب کے نور سے منور ہو جائے گی۔
٭…٭…٭