خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍اگست 2024ء
واقعۂ افک ’’میں صرف ایک پاک دامن اور نہایت درجہ متقی اورپرہیز گار عورت کی عصمت پر ہی حملہ کرنا مقصود نہ تھا بلکہ بڑی غرض بالواسطہ مقدس بانیٔ اسلام کی عزت کو برباد کرنا اور اسلامی سوسائٹی پر ایک خطرناک زلزلہ وارد کرنا تھی‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ)
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ’’میں اس بات کو نہیں بھول سکتی کہ حسّان آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تائید میں اور کفّار کے خلاف شعر کہا کرتا تھا‘‘
’’ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی؟‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)
’’ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ایک حضرت ابوبکرؓ سے کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)
’’صحابہؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکرؓ کا ہے اور وہی آپؐ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)
’’خلافت بادشاہت نہیں۔ وہ تو نورِ الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس لیے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔اس کا ضائع ہونا نورِنبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)
واقعۂ افک کے تناظر میں سیرت النبی ﷺکے بعض پہلوؤںکابیان
امام محمد بیلو صاحب آف سوڈان کی وفات پران کا ذکرِخیر اور نمازِ جنازہ غائب نیز سوڈانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
اللہ تعالیٰ ان کے حالات بھی بدلے اور ملک میں جیسا کہ میں نے کہا بڑا فساد پھیلا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اس فساد کو بھی ختم کرے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم فرمائے۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍اگست 2024ء بمطابق 30؍ظہور 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جرمنی جلسہ سے پہلے گذشتہ خطبات میں
سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے
ذکر ہو رہا تھا اور اس میں حضرت عائشہؓ کے
واقعۂ افک
کا بھی ذکر تھا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْاؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (النور:23) تب حضرت ابوبکر نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اسی بناء پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تاتخلق باخلاق اللہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں۔
ترکِ وعدہ پر بازپرس ہو گی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں واقعہ افک بخاری کی روایت کی روشنی میں بیان کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس معاملہ میں یہ روایت ساری روایتوں سے مفصل اورمربوط ہے اور جو باتیں دوسرے راویوں کی روایات سے الگ الگ ٹکڑوں کی صورت میں ملتی ہیں وہ اس روایت میں یکجا طورپر جمع ہیں۔ علاوہ ازیں اس روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خانگی زندگی پر ایک ایسی بصیرت افزا روشنی پڑتی ہے جسے کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اور صحت کے لحاظ سے بھی یہ روایت ایسے اعلیٰ ترین مقام پر واقع ہوئی ہے جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں سمجھی جا سکتی۔ اب غور کا مقام ہے کہ یہ کس قدر خطرناک فتنہ تھا جو منافقین کی طرف سے کھڑا کیا گیا۔
اس میں صرف ایک پاک دامن اور نہایت درجہ متقی اورپرہیز گار عورت کی عصمت پر ہی حملہ کرنا مقصود نہ تھا بلکہ بڑی غرض بالواسطہ مقدس بانی اسلام کی عزت کو برباد کرنا اور اسلامی سوسائٹی پر ایک خطرناک زلزلہ وارد کرنا تھی۔
اور منافقین نے اس گندے اور کمینے پراپیگنڈا کو اس طرح پر چرچا دیا تھا کہ بعض سادہ لوح مگر سچے مسلمان بھی ان کے دام تزویر میں الجھ کر ٹھوکر کھا گئے۔‘‘ ان کے مکرو فریب میں آ گئے۔ ’’ان لوگوں میں حَسَّان بن ثابِت شاعر اور حَمْنَہ بنت جَحْش ہمشیرہ زینب بنت جحش اور مِسْطَح بن اُثَاثَہ کانام خاص طور پر مذکور ہوا ہے۔ مگرحضرت عائشہؓ کایہ کمال اخلاق ہے کہ انہوں نے ان سب کو معاف کر دیا اوران کی طرف سے اپنے دل میں کوئی رنجش نہیں رکھی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ اس کے بعد جب کبھی حسان بن ثابتؓ حضرت عائشہؓ سے ملنے آتے تھے تووہ بڑی کشادہ پیشانی سے ان سے ملتی تھیں۔ ایک دفعہ وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت ایک مسلمان مسروق نامی بھی وہاں موجود تھے۔ مسروق نے حیران ہوکر کہا کہ ’’ہیں ! آپ حسان کو اپنی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دیتی ہیں ! حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ’’جانے دوبیچارہ آنکھوں کی مصیبت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ یہ کیا کم عذاب ہے۔‘‘بیماری ہو گئی تھی ان کو آنکھوں کی۔ پھر
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ’’میں اس بات کو نہیں بھول سکتی کہ حسّان آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تائید میں اور کفّار کے خلاف شعر کہا کرتا تھا۔‘‘
چنانچہ حسان کو اجازت دی گئی اوروہ اندر آکر بیٹھ گئے۔ اور حضرت عائشہؓ کی تعریف میں یہ شعر کہا۔
حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِیْبَۃٍ
وَتُصْبِحُ غَرْثٰی مِنْ لُحُوْمِ الْغَوَافِلِ
یعنی ’’وہ ایک پاک دامن عفیفہ خاتون ہیں اور صاحب عقل ودانش ہیں اور ان کی پوزیشن شک وشبہ کے مقام سے بالا ہے۔ اور وہ غافل بے گناہ عورتوں کاگوشت نہیں کھاتیں یعنی ان پر اتہام نہیں لگاتیں اورنہ ان کی غیبت فرماتی ہیں۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا۔ وَلٰکِنْ اَنْتَ۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ لَسْتَ کَذَالِکَ۔ یعنی ’’تمہارا اپنا کیاحال ہے؟ تم تو اس خوبی کے مالک ثابت نہیں ہوئے۔‘‘یعنی تم نے تو مجھ بے گناہ کے خلاف الزام لگانے میں شمولیت اختیار کی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’میو رصاحب‘‘ یہ اوریئنٹلسٹ ہے۔ اس کا حوالہ دے کے آپ لکھتے ہیں کہ ’’میور صاحب کی عربی دانی یا تعصّب کی مثال ملاحظہ ہو کہ اس شعر کے بالکل غلط اورخلافِ قواعد عربی معنی کرکے لکھتے ہیں کہ حسان نے عائشہؓ کے نازک بدن کی تعریف کی تھی۔ جس پر عائشہ نے شوخی کے ساتھ ان کی فربہی پر طعن کیا۔‘‘
آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’…میور صاحب نے اس قصہ کے بیان کرنے میں اَوربھی فاش غلطیاں کی ہیں۔ مثلاً لکھتے ہیں کہ صفوانؓ اورعائشہؓ راستے میں فوج کو نہ پہنچ سکے اورپھر بعد میں برسرِ منظرِ عام مدینہ میں داخل ہوئے۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط اور قطعاً بے بنیاد ہے کیونکہ حدیث وتاریخ سے متفقہ طورپر ثابت ہے کہ صفوان اور حضرت عائشہؓ چند گھنٹے کے بعد راستہ میں ہی اسلامی لشکر میں آملے تھے۔ ‘‘ آپ لکھتے ہیں کہ ’’مگر اس قدر غنیمت ہے کہ اصل اتہام کے متعلق میور صاحب نے حضرت عائشہؓ کی معصومیت کااعتراف کیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں :۔’’عائشہؓ کی قبل اوربعد کی زندگی بتاتی ہے کہ وہ اس اتہام سے بری تھیں۔‘‘ گوعقلی اور نقلی طور پریہ اتہام بالکل غلط اورجھوٹ قرارپاتا ہے کیونکہ سوائے اس سراسر اتفاقی واقعہ کے کہ حضرت عائشہؓ لشکر اسلامی کے پیچھے رہ گئی تھیں اور پھر صفوان کے ساتھ بعد میں پہنچیں اتہام لگانے والوں کے ہاتھ میں قطعاً کوئی بات نہیں تھی۔ یعنی نہ کوئی شہادت تھی اورنہ ہی کوئی اَورثبوت تھا اور ظاہر ہے کہ جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو اسے ہرگز سچا نہیں سمجھا جاسکتا۔ خصوصاً ایسے لوگوں کے متعلق جن کی زندگی ان کی طہارت نفس پر شاہد ہو مگر مسلمانوں کے مزید اطمینان کے لیے اور نیز اس غرض سے کہ آئندہ کے لیے ایسے معاملات میں ایک اصولی قاعدہ مقرر ہو جاوے خدائی وحی نازل ہوئی جس نے نہ صرف اس اتہام کو سراسر جھوٹا قرار دے کر حضرت عائشہؓ اور صفوان بن معطل کی بریت ظاہر فرمائی بلکہ آئندہ کے لیے اس قسم کے واقعات کے متعلق ایک ایسا اصولی قانون دنیا کے سامنے پیش فرمایا جس پر افراد کی عزت وآبرو اور سوسائٹی کے امن وامان اور ملت کے اخلاق کی حفاظت کا بڑی حد تک دارومدار ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ صفحہ 567-568)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کے سبب کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ
’’ہمیں دیکھنا چاہیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی؟
اس کا سبب یہ تونہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی۔ ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو، نہ قضا سے، نہ عہدوں سے، نہ اموال کی تقسیم سے، نہ لڑائیوں سے، نہ مخالف اقوا م پرچڑھائیوں سے، نہ حکومت سے،نہ اقتصادیات سے، اس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے۔‘‘ جب تعلق ہی نہیں ان چیزوں سے۔ ’’پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہِ راست بغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ نعوذ باللہ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کےلیے بھی تسلیم نہیں کر سکتا خصوصاً اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پرسے اِس گندے خیال کو رد کیا ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کے لیے لگایا گیا ہو۔
اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کے لیے یا ان کے سرداروں کے لیے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔
ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘ادنیٰ غور سے بھی معلوم ہوسکتا ہے ’’کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ایک حضرت ابوبکرؓ سے کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں۔
یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کے لیے فائدہ بخش ہو سکتی تھی۔ یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ورنہ خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا۔‘‘یعنی آپ کی سوکنیں جو تھیں، دوسری بیویاں جو تھیں ان کا تعلق ہو سکتا تھا۔ ’’اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے حضرت عائشہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کے لیے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مدِ مقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب بنت جحشؓ تھیں۔ ان کے علاوہ اَور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی۔‘‘کیونکہ وہی زیادہ بولا کرتی تھیں۔ ’’مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں زینبؓ کے اِس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگایا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینبؓ ہی تھیں۔(السیرۃ الحلبیۃ غزوة بنی المصطلق ) پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو ان کی سوتوں کوہی ہو سکتی تھی۔ اور وہ اگر چاہتیں تو اِس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے گر جائیں اور ان کی عزت بڑھ جائے۔‘‘یعنی دوسروں کی عزت بڑھ جائے۔ ’’مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا۔ اور اگر کسی سے پوچھا گیا’’ یعنی ان سوتوں میں سے یا دوسری بیویوں میں سے کسی سے پوچھا بھی گیا ‘‘تو اس نے حضرت عائشہؓ کی تعریف ہی کی۔
غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ پس
آپؓ پر الزام یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے۔ انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ آپؐ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکرؓ ہی ہے۔ پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے گر جائیں اور ان کے گر جانے کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپؓ سے بد ظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کر دیں جو انہیں آپؓ سے تھی۔ اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا‘‘قرآن شریف میں، سورۃ نور میں۔
’’حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکرؓ کا ہی مقام ہے۔ (ابوداؤد کتاب السنة باب فی التفضیل) حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے کہا: اے عائشہؓ! میں چاہتا تھاکہ ابوبکرؓ کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سِوا اَور کسی پر راضی نہیں ہونگے اس لیے میں کچھ نہیں کہتا‘‘(مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکرؓ) یعنی حضرت ابوبکر کو ہی چنیں گے۔
’’غرض صحابہؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکرؓ کا ہے اور وہی آپؐ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔
مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہو گئی اور طبعاً منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ آپؐ کے بعد کوئی خلیفہ ہو کر نظام اسلامی لمبا نہ ہو جائے اور ہم ہمیشہ کے لیے تباہ نہ ہو جائیں۔‘‘جو مخالفین تھے انہوں نے سوچا ’’کیونکہ آپؐ کے مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے ان کی کئی امیدیں باطل ہو گئی تھیں۔ تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دو قبیلے اَوس اور خزرج تھے اوریہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خونریزی کا بازار گرم رہتا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آپس میں صلح کی تجویز کی اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے تاج بننے کا حکم دے دیا گیا۔ اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اس کی بیعت کر آئے ہیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اَور لوگوں نے بھی مکہ جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی اور پھر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپؐ ہماری تربیت اور تبلیغ کے لیے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ انہی دنوں چونکہ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو بہت تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں اِس لیے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ سمیت مدینہ ہجرت کر کے آگئے (السیرة النبویة لابن ہشام نبذ من ذکر المنافقین و بدء اسلام ا لانصار العقبۃ الاولٰی) اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے جو تاج تیار کروایا جارہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا کیونکہ جب انہیں ‘‘ یعنی مدینہ والوں کو ’’دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیاتو انہیں کسی اَور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی۔
عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گو وہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیداہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آ جاتی۔ اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں بھی زک دی کہ مسلمانوں میں جونہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دیئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے؟ آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا؟ اور اس بارہ میں مسلمانوں کوکیا کرنا چاہیے؟ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اسے خوف پیدا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے جب اس نے غور کیا تو اسے نظر آیا کہ
اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کرسکتا ہے تو وہ ابوبکرؓ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہیں کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ اسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں۔
پس اس نے اپنی خیر اِسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کردیا جائے اور لوگوں کی نظروں سے گرادیا جائے بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے بھی آپ کو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اسے حضرت عائشہؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپؓ پر ایک نہایت گندہ الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارةً بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اِس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوجائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خراب ہوجائیں گے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑ جائے گا جس کا قائم ہونا اسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں برباد ہوجاتی تھیں …چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے اس لیے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا۔ وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں لیکن اب اس نے دیکھا کہ ابوبکرؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکرؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابوبکرؓ سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا اور اس نے چاہا کہ اِس کا ازالہ کرے۔ چنانچہ اِسی امرکا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کے لیے اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگادیا تا حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ سے نفرت پیدا ہو اور حضرت عائشہؓ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابوبکرؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہوجائے اور ان کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 519 تا 524 زیر تفسیر سورۃ النور آیت 36)
حضرت مصلح موعودؓ واقعہ افک کا حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے ساتھ تعلق بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’’سورة نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسوا کیا جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے جو تعلقات ہیں ان میں بگاڑ پیدا کیا جائے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں کیونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اٹھتی ہے تو وہ ابوبکرؓ ہی ہے اور اگر ابوبکرؓ کے ذریعہ سے خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی ابن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے معاً بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ
خلافت بادشاہت نہیں۔ وہ تو نورِ الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
اس لیے اس کا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔
اس کا ضائع ہونا نورِنبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے۔
پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک نہیں بلکہ متعدّد لوگوں کو خلافت پر قائم کرکے اس نُور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا۔ تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگاؤ نہ تم خلافت کومٹاسکتے ہو نہ ابوبکرؓ کو خلافت سے محروم کرسکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے جو نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹاسکتا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 526 زیر تفسیر سورۃ النور آیت 36)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء علیہم السلام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کسی امر پر اطلاع دیتا ہے تو وہ اس سے ہٹ جاتے ہیں یا اختیار کرتے ہیں۔ دیکھو! افک عائشہ رضی اللہ عنہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اول کوئی اطلاع نہ ہوئی یہاں تک نوبت پہنچی کہ حضرت عائشہ اپنے والد کے گھر چلی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر ارتکاب کیا ہے تو توبہ کر لے۔ ان واقعات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتاہے کہ آپؐ کو کس قدر اضطراب تھا مگر یہ راز ایک وقت تک آپؐ پر نہ کھلا لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے تبریہ کیا اور فرمایا اَلْـخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ (النّور : 27) تو آپؐ کو اس افک کی حقیقت معلوم ہوئی۔ اس سے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی فرق آتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ شخص ظالم اور ناخدا ترس ہے جو اس قسم کا وہم بھی کرے۔ اور یہ کفر تک پہنچتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ عالم الغیب ہیں۔ عالم الغیب ہونا خدا کی شان ہے۔ یہ لوگ سنت انبیاء علیہم السلام سے اگر واقف اور آگاہ ہوں تو اس قسم کے اعتراض ہرگز نہ کریں۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 316مطبوعہ 2022ء) جو آپ پر بھی اعتراض کرتے ہیں ان کا بھی آپ نے منہ بند کرایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سردارانِ اوس و خزرج کے درمیان صلح کروانے کا ذکر
بھی ملتا ہے۔ ان کی آپس میں رنجشیں کچھ زیادہ ہو گئی تھیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن کے بعد حضرت سعد بن معاذؓ کا ہاتھ پکڑا اور چند صحابہ کے ساتھ انہیں لے کر نکلے اور حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس پہنچے۔ وہاں تھوڑی دیر باتیں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ ؓنے کھانا پیش کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت سعد بن معاذؓ اور دیگر صحابہ نے اس میں سے کھایا۔ پھر آپؐ تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپؐ چند دن ٹھہرے رہے۔ کچھ دن کے بعدپھر آپؐ نے حضرت سعد بن عبادہؓ کا ہاتھ پکڑا اور چند صحابہ کو ساتھ لے کر اس دفعہ حضرت سعد بن معاذؓ کے گھر گئے۔ تھوڑی دیر باتیں کیں حضرت سعد بن معاذؓ نے کھانا پیش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت سعد بن عبادہؓ اور دیگر صحابہؓ نے کھایا۔ پھر آپؐ واپس تشریف لے گئے۔ ایسا آپؐ نے اس لیے کیا تاکہ ان کے دلوں میں جو اس بات کی وجہ سے کدورت آئی تھی وہ ختم ہو جائے۔
(کتاب المغازی واقدی جلد 1 صفحہ371 دارالکتب العلمیۃ)
یعنی ایک دفعہ ایک کو لے کر ایک کے گھر گئے پھر دوسری دفعہ دوسرے کو لے کر پہلے کے گھرمیں گئے تاکہ آپس میں رنجشیں ختم ہوں اور وہاں کھانا کھایا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو کھانا کھلایا اور اس طرح رنجشیں دور ہوئیں۔ یہ بھی آپؐ کا آپس میں محبت اور پیار پیدا کروانے کا، صلح کروانے کا ایک طریقہ تھا۔
روایات میں
الزام لگانے والوں کی تعداد
مختلف بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت میں حضرت عائشہؓ پر قذف کرنے والوں یعنی الزام لگانے والوں کی تعداد تین آئی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی ایک اَور روایت ہے جس کے مطابق ان کی تعداد تین سے دس تھی۔ ابن عُیَینہ نے ان کی تعداد چالیس لکھی ہے اور مجاہد نے دس سے پندرہ بیان کی ہے۔
(ماخوذ از الجامع لاحکام القرآن، تفسیر قرطبی جلد2 زیر آیت سورۃالنور : 12 صفحہ 2169 دار ابن حزم)
واقعہ اِفک میں شامل ہونے والوں کی سزا کے بارے میں
آتا ہے۔ سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مَردوں اور ایک عورت کے متعلق قذف کی سزا کا حکم دیا جنہوں نے فحشاء کے بارے میں بات کی تھی۔ وہ حضرت حسّان بن ثابت اور مِسْطح بن اُثَاثہ تھے۔ نُفَیلی کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جو ایک عورت ہے وہ عورت حَمْنَہ بنت جحش تھی۔
(سنن ابو داؤد کتاب الحدود باب حد القاذف حدیث4475)
علامہ ماوردی نے کہا ہے کہ افک والوں کو حد لگانے میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو بھی حد نہیں لگائی اور دوسرا قول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی، مِسْطَح بن اُثَاثہ، حسان بن ثابت اور حَمْنَہ بنت جحش کو حد لگوائی۔ امام قرطبی کہتے ہیں کہ روایات میں جو بات مشہور ہے اور علماء کے نزدیک معروف ہے وہ یہی ہے کہ حسان، مسطح اور حمنہ پر حد لگائی گئی لیکن ابن ابی پر حد لائے جانے کا تذکرہ نہیں ملتا۔
(الجامع لاحکام القرآن ،تفسیر قرطبی جلد2صفحہ2170-2171 دار ابن حزم)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک خطبہ میں اس کے بارے میں یہ بیان فرمایا تھا کہ ’’حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کوکوڑے لگے تھے جن میں سے ایک حسّان بن ثابت تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شاعرِ اعظم تھااور ایک مِسْطَح تھا جو حضرت عائشہؓ کا چچا تھا اور حضرت ابوبکرؓ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ وہ اس قدر غریب آدمی تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں ہی رہتا تھا۔ وہیں کھانا کھاتا اور آپؓ ہی اس کےلیے کپڑے بنواتے تھے اور ایک اَور عورت ان کے ساتھ تھی ان تینوں کو سزا ہوئی تھی۔‘‘
(خطبات محمودؓ جلد 18 صفحہ 279-280)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ نور آیت چھتیس کی تفسیر میں ابن سلول کو کوڑے لگانے کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ اس میں آپؓ کہتے ہیں کہ ’’لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اسے مل جائے گا۔ چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں شریک تھے انہیں اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے۔ پھر فرمایا وَ الَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اِس تمام فتنہ کا بانی ہے یعنی عبداللہ بن ابی ابن سلول، اسے نہ صرف ہم کوڑے لگوائیں گے بلکہ خود بھی عذاب دیں گے۔ چنانچہ اس وعید کے مطابق اسے کوڑوں کی سزا بھی دی گئی( السیرۃ الحلبیۃ باب مغازیہ ﷺغزوة بنی المصطلق ) اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اسے عذاب مل گیا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہوگیا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 524 زیرتفسیر سورۃالنور آیت36)
یہاں یہ باتیں تو ختم ہوتی ہیں
جرمنی کے جلسہ کے حوالے سے
صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ آنے والوں نے، اورجو غیر شامل ہوئے تھے یا جو لوگ پہلی مرتبہ آئے تھے۔ ان شامل ہونے والوں نے بڑے مثبت تاثرات کا اظہار کیا ہے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور ماحول کی بھی بڑی تعریف کی ہے۔ اسی طرح اس ذریعہ سے میڈیا کے ذریعہ سے اور خبروں کے ذریعہ سے کئی ملین لوگوں تک احمدیت اور اسلام کی حقیقی تعلیم کا پیغام بھی پہنچا ہے۔ جلسہ اس لحاظ سے بھی تبلیغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ جہاں ہم نہیں پہنچ سکتے وہاں اس ذریعہ سے تبلیغ پہنچ جاتی ہے، اسلام کا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے نیک اور دوررَس نتائج پیدا فرمائے اور احمدیوں کو بھی حقیقی رنگ میں ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعاؤں کی طرف توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور رحمتوں کی چادر میں ہمیں ہمیشہ لپیٹے رکھے۔
آخر میں مَیں
ایک مرحوم کا بھی ذکر
کروں گا۔ ان کا جنازہ پڑھاؤں گا ان شاء اللہ۔
امام محمد بیلو صاحب، سوڈان
کے تھے جو گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
صدر جماعت سوڈان نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی بیعت کا واقعہ یہ ہے کہ 1966ء میں نائیجیریا سے ایک احمدی امام عیسیٰ عبداللہ بن لیل صاحب ان کے ہاں مہمان بن کر آئے اور بستی والوں کو تبلیغ کی۔ مرحوم امام محمد بن بیلو کو سب سے پہلے بیعت کی توفیق ملی۔ ان دنوں میں خلیفۂ وقت یا مرکز سے سوڈان کا رابطہ ممکن نہ تھا تاہم یہ احمدی احباب احمدیت پر پختہ ایمان کے ساتھ قائم رہے۔ ان کی شدید مخالفت ہوئی۔ امام محمد بیلو صاحب احمدیوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ وہاں پر احمدی مسجد گھاس پھوس اور تنکوں سے بنی ایک جھونپڑی سی تھی جسے غیر احمدیوں نے نذر آتش کر دیا، آگ لگا دی اور احمدیوں کو گاؤں سے نکال دیا۔ اس پر یہ احمدی جنوب کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں بھی انہوں نے گھاس پھوس اور تنکوں کی ایک چھوٹی سی مسجد بنا لی۔ وہاں بھی مخالفت ہو گئی اور مخالفین نے احمدیوں کی مسجد کو جلا دیا اور احمدیوں کو وہاں سے نکال دیا۔ ان احمدیوں کی ایک پارٹی وہاں سے کہیں دور چلی گئی اور جو دوسری تھی وہ ڈوئم شہر کو چلی گئی۔ ان میں امام بیلو بھی تھے۔ وہاں یہ لوگ عبداللہ بن عَوَض قاسم صاحب کے ہاں مہمان بنے جو جامعہ بخت الرضا کے پرنسپل تھے مگر ان کے خاندان نے مخالفت کی اور ان احمدیوں کو وہاں سے نکال دیا۔ وہاں سے بھی بیچارے نکالے گئے۔
آخر کار انہوں نے نائیجیریا میں امام عیسی عبداللہ بن لیل صاحب کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جن کے ذریعہ یہ لوگ احمدی ہوئے تھے۔ چنانچہ ان غریب احمدیوں کا یہ قافلہ بیوی بچوں سمیت گدھوں اور جانوروں پر سوار ہو کر اور اکثر پیدل نائیجیریا کو روانہ ہوا۔ کوئی زادِ راہ ان کے پاس نہیں تھا۔ ویزے کے کاغذات وغیرہ بھی نہیں تھے۔ سفر کی مشکلات بہت تھیں۔ ہاں ایمان کی دولت صرف ان کے پاس تھی۔ ایمان انہوں نے اپنا سنبھال کے رکھا اور اسی جوش اور جذبے کے ساتھ یہ ہجرت کرتے رہے اور کبھی اپنے دین کو قربان نہیں کیا۔ آخر یہ نائیجیریا پہنچے اور وہاں امام عیسیٰ بن لیل صاحب کے پاس تیرہ سال تک رہے۔ اس کے بعد امام عیسیٰ صاحب نے ایک خواب کی بنا پر انہیں واپس سوڈان جانے کا مشورہ دیا۔ یہ بات انہیں اچھی نہ لگی تو امام عیسیٰ نے ان کو کہا کہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حکم ہوا ہے۔ اس پر یہ بادل نخواستہ واپس سوڈان جانے پر راضی ہو گئے۔ امام عیسیٰ صاحب کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ یہ لوگ تین سال کے بعد واپس سوڈان چلے جائیں گے۔ تین سال پورے ہونے پر یہ احمدی مہاجر واپس اپنے وطن کو نکلے۔ سب سے پہلے امام محمد بیلو واپس گئے۔ سوڈان میں یہ لوگ اپنے پہلے گاؤں کُنَیْزَہ جا کر مقیم ہوئے۔ یہ 2010ء کی بات ہے۔ ان احمدیوں کی سوڈان واپسی کے بعد نائیجیریا میں بوکو حرام نامی تنظیم ظاہر ہوئی۔ اگر یہ سوڈانی احمدی اس وقت نائیجیریا میں ہوتے تو خدا جانے یہ تنظیم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ اس وقت انہیں سمجھ آئی کہ نائیجیریا سے ان کی واپسی میں کیا الٰہی حکمت مضمر تھی۔ تاہم کُنَیْزَہ واپس آنے پر انہیں پھر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر ان کی مسجد جلا دی گئی جو انہوں نے چھوٹی سی بنائی تھی۔ ان کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے خلاف مقدمات دائر ہوئے۔ انہیں بستی سے پھر نکال دیا گیا۔ پھر آخر کار موجودہ جنگ شروع ہو گئی جس سے سوڈان کے پورے ملک کے ہی حالات خراب ہو گئے اور کوئی بھی وہاں محفوظ نہیں رہا۔
یہ احمدی بھی اپنی جان بچانے کے لیے اور امن کے لیے سوڈان کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے اور اس وقت بھی مختلف جگہوں پہ یہ لوگ بڑی تنگی اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے مغفرت کا سلوک فرمائے اور باقی احمدیوں کے ایمانوں کو مضبوط رکھے۔
اللہ تعالیٰ ان کے حالات بھی بدلے اور ملک میں جیسا کہ میں نے کہا بڑا فساد پھیلا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اس فساد کو بھی ختم کرے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم فرمائے۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں۔
مسلمان مسلمان کے بھائی ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اسلامی حکومتوں میں جو فساد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دور فرمائے اور احمدیوں کو حقیقی رنگ میں امن و سکون کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔