متفرق مضامین

ایک دردناک محاصرے کی داستان

(ولید احمد۔ متخصص تاریخ و سیرت جامعہ احمدیہ جرمنی)

شعب ابی طالب کا واقعہ ہے۔ آپؐ کو، آپؐ کے خاندان کو، آپؐ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا۔ بچے بھی بھوک پیاس سے بِلک رہے تھے، کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پاؤں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو۔ یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت کی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منصب نبوت عطا ہوئے تقریباً سات سال ہوچکے تھے۔ کفار مکہ نےان سالوں میں ہر ایک قسم کی کوشش کر کے دیکھ لی تھی۔ہر مرتبہ انہیں یہ لگتا تھا کہ اس نئے دین کے ماننے والے لوگ ان کی سختی کی تاب نہیں لا سکیں گے اور آنحضرت ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر ان کے ساتھ آملیں گے لیکن ان کی ہر تدبیر الٹی پڑ رہی تھی اور یہ ظلم و زیادتی مسلمانوں کو ایمان اور یقین میں مزید بڑھاتی چلی جارہی تھی۔دھونس، دھمکی، لالچ اور مظالم کی ہر ایک لہر کے بعد یہ دین پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلتا چلا جارہا تھا اور یہ بات کفار مکہ کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔ ان کا صبر جواب دے چلا تھا اور وہ دن رات اسی تدبیر میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح اس سلسلہ کا خاتمہ ہوجائے۔وہ نبی کریم ﷺ کے چچا کے ذریعہ سے نہ صرف کھل کر اپنی بات پہنچا چکے تھے بلکہ بات نہ ماننے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی دے چکے تھے۔کمزور مسلمانوں پرظلم و ستم کا سلسلہ بھی بدستور جاری تھا اور اہل مکہ براہ راست آپ ﷺسے اس کام سے باز آجانے کا مطالبہ بھی کرچکے تھے۔ لیکن آخراہل مکہ نے یہ محسوس کیا کہ ان سب کوششوں کے باوجود بھی وہ مسلسل ناکام ہوتے چلے جارہے ہیں اور اسلام کی قوت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ  جیسے با اثر اورطاقتور وجود بھی اسلام کے پیغام کو قبول کرکے ایمان لاچکے ہیں۔حبشہ میں موجود مسلمان بھی اب امن و سکون سے رہ رہے ہیں اور اسلام کا پیغام مکہ سے باہر بھی پھیلنا شروع ہوچکا ہے۔ہر ایک محاذ پر ان شرمناک ناکامیوں کے باعث کفارِمکہ کے دلوں میں غیظ و غضب کا ایک لاوا پک رہا تھا اور بالآخر انہوں نے باہم مشورہ کے بعد آپ ﷺ اور آپؐ کے خاندان کو تنہا کرنے کے لیے قومی اتفاق رائے سے آپ کے خاندان اور مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔گویا تمام قوم نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی اب ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ نہ تو ان کے ساتھ کوئی معاشرتی تعلق رکھا جائے گا، نہ کوئی لین دین کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے لیےکسی بھی قسم کے شہری حقوق تسلیم کیے جائیں گے۔یہ ظالمانہ طریق گو آج کے دور میں بھی بہت سے مصائب کی بنیاد بن سکتا ہے لیکن اس زمانے اور قبائلی ماحول کے پیش نظر تویہ محصوری ایسے ہی تھی جیسے کسی قوم کو اجتماعی قید کی سزا دے دی جائے۔چنانچہ اس تین سالہ دور میں مسلمانوں کے شب و روز قریش کے اس ظالمانہ قانون کے باعث نہایت کرب و تکلیف میں گزرے۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کا مکمل معاشی، سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کردیا گیا اور سختی کےساتھ ان طے شدہ امور پر کاربند رہنے کو یقینی بنایاگیا۔گویا اب صرف مرد ہی نہیں بلکہ بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی اس ظلم و بربریت کی چکی میں پس رہے تھے۔مسلمانوں کو اللہ پر ایمان لانے کی پاداش میں اجتماعی سزا دی جارہی تھی اور یہ حصار ستم ابھی تین سال تک جاری رہنا تھا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:’’جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے گزشتہ ظلموں سے مسلمانوں کے دل نہیں ڈرے۔ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقع نہیں ہوا بلکہ وہ خدائے واحد کی پرستش میں اور بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں اور بتوں سے ان کی نفرت ترقی ہی کرتی چلی جاتی ہے تو انہوں نے پھر ایک مجلس شوری قائم کی اور فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ کلی طور پر مقاطعہ کر دیا جائے ‘‘۔ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ نمبر 125)

چنانچہ 7؍نبوی کے پہلے ہی مہینے محرم میں بائیکاٹ کا یہ معاہدہ لکھا گیا، اس پر سردارانِ مکہ کے دستخط کروائے گئےاوربالآخر یہ عہد نامہ مکمل عمل درآمد کے لیے خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردیا گیا۔ گویا سماجی، اخلاقی اور قانونی دائروں سے بھی آگے نکل کر اسے ایک مذہبی نفرت اور جنون کا رنگ دے دیا گیا تاکہ قوم کے افراد اس معاہدے کی پوری پابندی کریں۔چنانچہ معاہدہ میں یہ لکھا گیا کہ بنو ہاشم اور بنومطلب سےنہ کوئی رشتہ کرے گا اور نہ ہی کسی قسم کی خرید و فروخت ان سے کی جائے گی۔نہ ان سے کسی بھی معاملہ میں میل جول رکھا جائے گا اور نہ ان سے کلام کیا جائے گا جب تک کہ وہ محمد (ﷺ) کو ہمارے حوالے نہ کردیں۔ (طبقات الکبریٰ جزء 1 صفحہ 148 العلمیہ)مزید الفاظ چند کتب میں یوں بھی ملتے ہیں کہ جب تک کہ وہ آپ ﷺ کو قتل کے لیے ہمارے حوالے نہ کردیں۔ (سیرت الحلبیہ جزء 3 طبعہ ثانیہ بیروت صفحہ 382، البدایہ والنھایہ جزء 3 بیروت 2013ء صفحہ 306، المواہب اللدنیا جزء1 مکتبہ التوفیقیہ مصرصفحہ 147)

اکثر سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ اس عہد نامے کو منصور بن عکرمہ نے تحریر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس ظالم شخص کو اس طرح سے سزا دی کہ اس کی انگلیاں آنحضرت ﷺ کی دعا کے نتیجے میں فالج کا شکار ہوگئیں۔

شعب ابی طالب میں محصوری

حضور اکرم ﷺ کے چچا ابو طالب جو اس معاہدے کی طاقت اور حالات کی نزاکت کو خوب سمجھتے تھے خوب غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب نبی کریم ﷺ کامکہ میں رہنا ہرگزخطرہ سے خالی نہیں ہے۔چنانچہ آپؓ نے رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کومکہ سے متصل ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں منتقل ہوجانے کا مشورہ دیا۔ آپ ﷺ نے اس رائے کو قبول فرمایا اور فوراً اپنے رشتہ داروں اور چند دیگر مسلمانوں سمیت اس گھاٹی میں پناہ گزیں ہوگئے۔ یہ گھاٹی ابو طالب ہی کی ملکیت تھی اور اس علاقے کی جغرافیائی ساخت کے سبب قدرتی طور پر اس میں ایسی پناہ گاہیں موجود تھیں جن کی وجہ سے یہاں رہنا مکہ کی نسبت زیادہ محفوظ تھا۔لیکن دوسری جانب اس جگہ میں رہنا کچھ آسان بھی نہیں تھا۔سچ تو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے یہ تین سال بےحد تکلیف، پریشانی اور مسلسل فاقوں میں گزرے۔یہ دور ایسا تکلیف دہ تھا کہ گویا اصحاب کہف کے زمانے سے مشابہ تھا۔روزانہ صبح کو شام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اور آج بھی ان واقعات کو پڑھ کر دل پر ایک لرزہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہ ایسی دکھ بھری داستان ہے جس کو پڑھ کر انسان اپنی پریشانیوں کو معمولی اور حقیر سمجھنے لگتا ہے۔اس بظاہر محفوظ گھاٹی میں بھی آپ ﷺ پر حملے کا خطرہ ہمیشہ ہی لاحق رہتا تھا جس کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں ابو طالب آپ ﷺ کو بستر کی جگہ بدل بدل کر سلایا کرتے تھے۔ (شرح زرقانی علی مواھب اللدنیۃ جزء 2 صفحہ 14)

دوسری طرف اپنے اصحابؓ کو تکلیف میں دیکھ کر پیارے آقاؐ کے دل کی کیا حالت ہوتی ہوگی ؟اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔غذا کی تنگی سے ہر کوئی متأثر تھا۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے بچوں کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں جنہیں سن کر آپ ﷺ کا ہمدرد دل تو بے چین ہوتا ہی تھا لیکن اہل مکہ کے شریف دل بھی ان مظلوم آوازوں کا درد محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔

یہ محاصرہ ایسا سخت تھا کہ کفار مکہ کے مقرر کردہ نگران نہ تو مسلمانوں کو باہر کسی سے خرید و فروخت کرنے کی اجازت دیتے اور نہ ہی ضرورت کا کوئی سامان اندر جانے دیتے۔اگر کوئی شخص رحم کھا کرخفیہ طور پر کوئی چیز بھجوانا بھی چاہتا تو اطلاع ملنے پر اسے بھی ضبط کرلیا جاتا۔حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے،محصورین کے لیے کھانے کا سامان بھیجتے تھے۔ایک مرتبہ ابو جہل نے آپ کو سامان لے جاتے ہوئے دیکھ لیا اور آپ کو وہیں سختی سے روک دیا اور کہا کہ اگر تم یہاں سے آگے بڑھے تو میں پورے شہر میں تمہیں ذلیل و رسوا کردوں گا۔(تاریخ طبری جزء 2طبعہ ثانیہ 1967ء دار المعارف مصر صفحہ 336)

پھر ابو لہب تھا جو تاجروں کو یہ کہتا کہ محمدؐ کے ساتھیوں کو مہنگے دام پر سامان بیچوتاکہ وہ کچھ خرید نہ سکیں اور اگر کوئی نقصان ہوگا تو اسے میں پورا کردوں گا۔چنانچہ یہ سن کر وہ تاجر ایسی قیمت لگاتے جسے محصورین خریدنے کی طاقت نہ رکھتے اور بنا کچھ لیے ہی واپس لوٹ جاتے۔ اس وادی میں بھوک کی شدت کا اندازہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکی زبانی بیان شدہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو اپنی اس وقت کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس وادی میں سخت فاقہ کی حالت تھی۔ایک مرتبہ رات کو راستے پر چلتے ہوئے مجھے پیر کے نیچے کوئی گیلی چیز محسوس ہوئی اور بھوک کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ میں اسے جلدی سے نگل گیا اور میں آج تک نہیں جانتا کہ وہ آخر کیا چیز تھی۔(سیرت ابن ہشام جزء 1طبعہ ثانیہ 1955 صفحہ 377)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں:’’شعب ابی طالب کا واقعہ ہے۔ آپؐ کو، آپؐ کے خاندان کو، آپؐ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا۔ بچے بھی بھوک پیاس سے بلک رہے تھے، کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پاؤں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو۔ یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت کی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍مارچ 2006ء)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’آخری ایام میں جب آپؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا مسلسل تین سال تک آپ کا اور آپ کے صحابہ کا ایسا شدید بائیکاٹ کیا گیا کہ کسی سے سودا بھی مسلمان نہ خرید سکتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی روایت ہے کہ اتنی تنگی ہو گئی تھی کہ بعض دفعہ دنوں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ پاخانے سوکھ گئے اور جب پاخانہ آتا تو بالکل مینگنیوں کی طرح ہوتا کیونکہ بعض اوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے‘‘۔(خطبہ جمعہ24؍جولائی 1936ء،الفضل 2؍اگست 1936ء)

لیکن یہ امر حیران کن ہے کہ ان سختیوں کو بھی رسول کریم ﷺ نے تبلیغِ اسلام کے راستے کی روک نہیں بننے دیا۔تین سال کی اس محصوری کے دوران بھی جب حج کے ایام میں مسلمانوں کو گھاٹی سے باہر نکلنے اور لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا تو ان مواقع کو غنیمت سمجھتے ہوئےآپ ﷺ دعوت ِدین کی ذمہ داری کواحسن طور پر سرانجام دیا کرتے تھے۔

محاصرے سے رہائی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ظلم کے سبب معصوم بچوں کے بلکنے کی آوازیں نہ صرف محصورین کو پریشان کررہی تھیں بلکہ اب مکہ کی عام عوام میں بھی اس بائیکاٹ کے خلاف ایک قسم کی نفرت اور بےچینی پیدا ہو رہی تھی۔آخر ایک بہادر شخص ہشام بن عمرو نےجو طبیعت کے بہت نرم تھے اس عہد کے خلاف مکہ میں ایک تحریک شروع کردی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگرشریف لوگ بھی ان کے ہم آواز بننا شروع ہوگئے۔چنانچہ اس بارے میں تاریخ کی کتب میں ہشام بن عمرو کی ایک شخص زہیر بن ابی امیہ جو آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے کے ساتھ ہونے والی ایک گفتگو بھی محفوظ ہے۔ہشام نے زہیر سے کہا کہ کیا تم اس بات پر خوش ہو کہ تم یہاں مزے سے کھاؤ پیواور جو چاہے کپڑے پہنو اور جس عورت سے چاہو شادی کرو،اور دوسری طرف تمہارے ماموں زادجیسا کہ تم جانتے ہو کہ انہیں نہ تو کوئی چیز بیچی جاتی ہے اور نہ انہیں کچھ خریدنے دیا جاتا ہے۔زہیر نے اس پر کہا کہ ہاں میں یہ جانتا ہوں لیکن میں بھی مجبور ہوں، میں اکیلا اس بارے میں کیا کروں؟ہشام نے کہا کہ تم اکیلے نہیں ہو۔زہیر نے پوچھا میں کچھ سمجھا نہیں،اور کون ہے ؟اس پر ہشام نے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔(سیرت حلبیہ جزء 1 صفحہ 486 دار الکتب العلمیۃ،بیروت طبعہ ثانیہ1427ہجری)

سیرت ابن ہشام میں اس معاہدے کے توڑنے کی کوشش کے حوالے سے پانچ اشخاص کا ذکر ملتا ہے۔جن میں ہشام اور زہیر کے علاوہ مطعم بن عدی، ابو البختری بن ہشام اور زمعہ بن الاسود کے نام آتے ہیں۔(سیرت ابن ہشام جزء 1 طبعہ ثانیہ مصر 1955ء صفحہ 376)

ان چند افراد نے باہم مشورہ کے بعد بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ اس معاہدہ کو کسی طرح چاک کر دیا جائے تاکہ ظلم کی اس اندھیری رات کا خاتمہ ہوسکے۔چنانچہ ایک صبح زہیر نےاس غیر منصفانہ معاہدہ کے خلاف یہ عام اعلان کردیا کہ میں اب اس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھوں گا جب تک اس معاہدہ کو پھاڑ نہ ڈالوں۔ مگردوسری طرف ابو جہل تھا جو اپنی دشمنی اور عداوت میں بہت بڑھا ہوا تھا اس نے بھی گویا چیلنج کردیا کہ میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔زہیر کے اس جرأت مندانہ اعلان کے بعد مکہ سے دیگر شرفاء نے بھی اس عہد کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی۔

مکہ میں ابھی یہ ہنگامہ اور بحث چل ہی رہی تھی کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو جو اس وقت شعب ابی طالب میں موجود تھے الہاماً یہ اطلاع دی کہ مسلمانوں کے خلاف لکھے جانے والے اس معاہدہ کی دستاویز کو دیمک کھاچکی ہے اور اس میں سوائے اللہ تعالیٰ کے نام کے سب کچھ مٹ چکا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کو اس سے آگاہ کیا۔چچا نے حیران ہو کر پوچھا بھتیجے ہم میں سے تو کسی نے وہ عہد نامہ نہیں دیکھا، پھر تمہیں یہ خبر کس نے دی ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے اس بات سے مطلع فرمایا ہے۔یہ سنتے ہی ابو طالب خانہ کعبہ تشریف لے گئے جہاں اکابرینِ قریش موجود تھے۔آپ نے ان سے کہاکہ میرے بھتیجے نے مجھے بتایاہے کہ بائیکاٹ کا وہ معاہدہ جو تمہارے پاس موجود ہے اسے دیمک نے کھالیا ہے اور سوائے اللہ کے نام کے اس میں کچھ باقی نہیں رہا۔آپؓ کو رسول کریم ﷺ کے سچا ہونے کا اتنا یقین تھا کہ آپ نے کہا کہ تم اس صحیفہ کو لے کر آؤ اور میں جانتا ہو کہ میرا بھتیجا جھوٹ نہیں بولتا، اور اگر یہ بات سچ نہ ہوئی تو میں تمہارے راستہ سے ہٹ جاؤں گا اور محمدؐ کو تمہارے حوالے کردوں گا۔اس پر سردارانِ قریش خوش ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ یہ تو محمد ؐکو پکڑنےکا بہت ہی اچھا موقع ہے آخر اس تحریر کو تو ہم نے ایک بہت ہی محفوظ جگہ رکھا ہواہے اسے کیسے کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔لیکن کہیں نہ کہیں ان کے دل میں اس بات کا خوف بھی تھا کہ نبی کریم ﷺ تو کبھی جھوٹ نہیں بولتے اس لیے اس دستاویز کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔چنانچہ وہ فوراًاس صحیفہ کو اٹھا لائے اور جب سب کے سامنے اسے کھولاگیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب سے خبر پا کر اطلاع دی تھی بعینہٖ ویسا ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نام کو چھوڑ کر باقی تمام تحریر کو دیمک چاٹ چکی تھی اوراس کے علاوہ لکھی جانے والی تحریر کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔ یہ ایک بہت ہی بڑا معجزہ تھا جس کا ان سب لوگوں نے جو وہاں موجود تھے مشاہدہ کیا۔لیکن شریر دشمن ہر گز اس معاہدہ کو ختم کرنانہیں چاہتے تھے۔انہوں نے اپنے تکبر میں آکر اس بات کو ماننے سےصاف انکار کردیا۔لیکن اب بات ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور وہ افراد جو پہلے سے ہی اس ظالمانہ عہد کے خلاف تھے انہوں نے دوبارہ آوازاٹھائی اور بالآخر مطعم بن عدی نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس دستاویز کو اٹھایااور اسے وہیں سب لوگوں کی موجودگی میں پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔اس کے بعد یہ تمام لوگ مسلح ہو کر شعب ابی طالب گئےاور محصورین کو اپنی پناہ میں باہرنکال لائے اور یوں اس ظالمانہ بائیکاٹ سے نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحابؓ کوتین سال بعد رہائی نصیب ہوئی۔ (از سیرت ابن ہشام جزء 1طبعہ ثانیہ مصر1955ء صفحہ 377، سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحات186 تا189)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اب بظاہر تو آپؐ کے سچا ہونے کی بات ابو طالب نے کی ہے۔ لیکن تمام سرداران قریش کا خاموش ہو جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کو بھی یقین تھا کہ آپؐ سچ کہنے والے ہیں، بلکہ یہ بھی یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا بھی سچا ہے جس نے یہ خبر دی ہے۔ لیکن خدا کو نہ ماننا، اس کے لیے تو تکبر اور ڈھٹائی تھی جو آڑے آتی تھی۔ کیونکہ اگر یہ یقین نہ ہوتا کہ واقعی کاغذ کو دیمک کھا گئی ہے یا ایسی کوئی بات ہے، خدا نے خبر دی ہے تو ہنسی مذاق میں ٹال سکتے تھے۔ لیکن بڑے سنجیدہ ہو کر سارے وہاں گئے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2005ء)

عام الحزن

ظلم کا یہ تین سالہ دور ایسا سخت تھا کہ بائیکاٹ کے ان تین سخت سالوں کی وجہ سے عموماً محصورین کی صحت پربہت برا اثر پڑا۔اور خاص طور پر حضور اکرم ﷺ کی اہلیہ حضرت خدیجہؓ اور چچا ابوطالب کی صحت تو اس مسلسل سختی کے باعث بہت ہی خراب ہوگئی۔ چنانچہ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد آپ ﷺ کے دین کے یہ دوسچے مددگار یکے بعد دیگرے وفات پاگئے۔ اس تکلیف کے باعث جو آنحضرت ﷺ کو اس سال پہنچی 10؍نبوی کے سال کو ’عام الحزن‘ یعنی غم کے سال کا نام دیا گیا۔وفات کے وقت ابو طالب کی عمر تقریباً اسّی سال تھی اور آپ نے اپنی پوری زندگی نبی کریم ﷺ سے ایسی محبت کرکے دکھائی جس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہےیہاں تک کہ مرتے دم تک بھی آپ ﷺکا بھرپور ساتھ دیا۔ ابو طالب کی وفات کے چند دنوں بعد ہی حضرت خدیجہؓ نےوفات پائی۔آپؓ بھی اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریکِ رنج و راحت رہیں اور وفات کے وقت آپؓ کی عمر 65؍سال تھی۔(ماخوذازسیر ت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحات192تا195)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی چہیتی بیوی جس نے اسلام کے لئے ہر چیز قربان کر دی تھی یعنی حضرت خدیجہؓ ان کی وفات انہی مظالم کے باعث ہوئی۔ ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ جن بی بی کے بیسیوں غلام تھے اور جو لاکھوں روپے کی مالک اور جو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں، جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھاتی تھیں بڑھاپے میں ان کو کئی کئی فاقے کرنے پڑتے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے وغیرہ۔ اُس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہو گا۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ فوت ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب بھی انہی تکالیف کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ ان حالات میں تو ایک عام انسان تو درکنار بہادر سے بہادر اور جری سے جری انسان کے ساتھ بھی اگر ایسی حالت ہوتی تو اس کے دل کا غصہ انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اگر ایسی ہی وفادار بیوی انہی حالات میں کسی اور شخص کی ضائع ہوتی تو وہ ان وفاداریوں اور قربانیوں کو یاد کر کے اور ان بچوں پر نگاہ ڈال کر جنہیں بے نگران چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہوتی، بہادر سے بہادر انسان بھی قسم کھاتا کہ اس صدمہ کے عوض قریش کی ہر عورت کو بھی قتل کرنا پڑا تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا۔لیکن رسول کریم ﷺ نے کیا کیا؟ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں جب رسول کریم ﷺ نے قریش کی ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپؐ اس قدر غصہ میں آئے کہ میں نے آپ کو اس قدر غصہ میں کبھی نہ دیکھا تھا اور آپ نے سخت غصہ کی حالت میں دریافت کیا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اور پھر فرمایا کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، ضعیفوں، بیماروں اور مذہبی لیڈروں پر کبھی ہاتھ مت اٹھا ؤ۔ کجا وہ سلوک اور کجا یہ۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بہادری کا مفہوم یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتایا۔ مگر میں اپنی جماعت سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا ان میں بھی وہی جرأت اور وہی رحم ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دکھایا ؟‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جولائی 1936ء،الفضل 2؍اگست 1936ء)

پس سیرت کے ان واقعات کو پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ کیا ہم کہیں دین کی راہ میں پیش آنے والی چھوٹی سی پریشانی یا مصیبت پر گھبرانے والے تو نہیں ہیں۔کیا ہم ابتلاؤں اور آزمائشوں کے آجانے پر مایوس تو نہیں ہوجاتے؟سرور کونین ﷺ اور آپؐ کے اصحاب کو اس راہ میں جو انتہائی درجہ کی تکالیف اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا شعب ابی طالب تو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے جس کے بعد اپنے ایمان کی خاطر انہوں نے ہر ایک طرح کی قربانی پیش کرکے اپنی وفاداریوں کو ہر ایک میدان میں ثابت کیا اور ان سب قربانیوں کے باوجود ان کے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری ظاہر نہیں ہوئی۔اور پھر اسی صبر اور شکر کی طاقت نے ایک ایسا رنگ پکڑا کہ بالآخر وہ فتوحات کی عظیم الشان منزلوں تک پہنچ گئے اور دنیا ان کے قدموں میں ڈھیر کردی گئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button