انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات ہماری ہجرت(حصہ اول)
(حضرت سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ )
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ ۱۸۸۹ء میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے گھر پیدا ہوئے، اور ۱۹۰۳ء میں قادیان دارالامان میں مسیح پاک علیہ الصلوٰة والسلام کی پاک صحبت و قربت میں آگئے۔ آپ ۱۹۶۷ء میں اپنی وفات تک جماعت کے لیے خدمت کے ہر میدان میں وقف رہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی تحریک پر آپ ۱۹۱۳ء میں حصول تعلیم کے لیے مصر اور بعض دیگر عرب ممالک کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے دعا کے ساتھ الوداع کیا۔
جب آپ تعلیم مکمل کرکے واپس آئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو نظارت امورعامہ کا کام سپرد کیا۔ ۱۹۵۴ء تک سلسلہ احمدیہ کی مختلف نظارتوں پر فائز رہے۔ نیز آخری ایام تک سلسلہ کی خدمات بجالاتے رہے۔
زیر نظر کتاب کے دیباچہ مرقومہ۱۲؍فروری ۱۹۴۹ء میں آپؓ لکھتے ہیں لاہور کے جلسہ سالانہ منعقدہ دسمبر ۱۹۴۸ء میں میری تقریر کا یہ پہلا حصہ ہے جو ہماری ہجرت سے متعلقہ گیارہ الہاموں اور چھ خوابوں پر مشتمل ہے جن میں واقعات ہجرت کی قبل از وقت مجمل اور مفصل دونوں طریقوں پر خبر دی گئی تھی۔
تنگی وقت کی وجہ سے صرف یہی حصہ جو آپ کے سامنے ہے، جلسہ میں بیان کیا جا سکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس کا دوسرا اور پھر تیسرا حصہ بھی عنقریب پیش نظر ہو جائے گا۔
مصنف بتاتے ہیں کہ یہ دونوں حصے بھی تاریخ احمدیت میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ان صفحات کو پڑھتے وقت دو ضروری باتیں قابل لحاظ ہیں ایک یہ کہ یہ کلمات وحی میں جو غیب کی خبریں دی گئی تھیں ان کی وضاحت مکاشفہ اور رؤیا کے ذریعہ بھی کی گئی ہے اور زیادہ حصہ کی تشریح ظہور اخبار غیبیہ سے نصف صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت پہلے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرما دی تھی۔
دوسری بات قابل توجہ یہ ہے کہ جب ان پیشگوئیوں کے ظہور کا وقت قریب آیا تو وہی غیب کی خبریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی گئی تھیں، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھی دی گئیں اور آپؓ کو بھی ان کے انکشاف و تشریحات کا موقع عطا فرمایا گیا اور آپ نے ان کے اعلان کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ اب اخبار غیبیہ کے ظہور کا وقت قریب ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کے فیض پانے کا سرچشمہ ایک ہی ہے اور تا ظاہر ہو کہ پسر موعود سے متعلق یہ حصہ پیش گوئی پورا ہو گیا کہ ’’وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور ہم اپنی روح اس میں ڈالیں گے…اور تا ثابت ہو کہ ’’اناالمسیح الموعود مثیلہ و خلیفتہ‘‘بالکل درست تھا۔
اپنی اس کتاب میں فاضل مصنف نے تین طرح کے انقلابات سے آغاز کیا ہے:
اول : موجودہ انقلاب یعنی احمدیت کے دائمی مرکز قادیان دارالامان سے ہجرت اور اس انقلاب کا براہ راست اثر جماعت احمدیہ پر پڑا۔
دوم: یعنی برصغیر کی تقسیم۔ اورہندوستان اور پاکستان کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کاقیام ہوا، نیز اسی طرز پر دنیا کے متفرق ممالک میں تقسیم اور آزادی کی رو چل رہی ہے
سوم: وہ ہمہ گیر انقلاب جس کی زد میں دنیا بھر کی اقوام ہیں۔
مگر بتایا کہ میری موجودہ تقریر اور یہ کتاب صرف پہلے انقلاب کے متعلق محدود رہے گی۔
ساٹھ صفحات کی اس کتاب میں تمہید کے بعد اس کے مصنف نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند الہامات درج فرمائے ہیں جو آپ پر اُس وقت نازل ہوئے جب آپ کنج تنہائی میں محو تسبیح و تحمید ذات الٰہی تھے۔
اس کے بعد مصنف نے ان الہامات کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض بتائی ہے اور بتایا کہ یہ غرض و غایت کیونکر پوری ہوگی؟ لیکن حقیقت پسندی کے طور پر مصنف آگے چل کر ان مایوس کن حالات کا بھی نقشہ پیش کرتے ہیں جو تقسیم ملک کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد اور مقامات مقدسہ کو درپیش تھے۔
مصنف نے صفحہ ۳۱ پر بتایا ہے کہ موجودہ انقلاب سے بہت پہلے اسی موعودہ ہجرت کے متعلق جماعت احمدیہ کے اندیشے اور اس کے متعلق ہماری تدبیریں کیا تھیں۔ اور بطور مثال ۱۹۳۸ءمیں یعنی ان واقعات کے رونما ہونے سے قریباً دس سال قبل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کی خط و کتابت درج کی ہے۔ جو کتاب کے صفحہ ۳۲ اور ۳۳ پر پڑھی جاسکتی ہے جس میں مرکز احمدیت کے آثارقدیمہ کے نشانات کو محفوظ کرنے، جماعت احمدیہ کے لٹریچر کو بیرونی ممالک میں بھیجنے اور محفوظ کرنے، اور ناگہانی ہجرت کی صورت میں نقل مکانی کی بعض ممکنہ تیاریوں کا ذکر تھا۔
لیکن مصنف نے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی ہے کہ پیش گوئیوں کے پورا ہونے سے پہلے تک ان کا تصور عام طور پر اجمالی ہی ہوا کرتا ہے۔ گو یہ الہامات اور خواب سلسلہ کے لٹریچر اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اذہان میں موجود تھے، اور ہجرت کا تفصیلی نقشہ خواہ مجملاً ہی سہی ان کے پاس تھا۔ لیکن افراد کے ذہن واقعات کو بیّن شکل میں ظاہر ہونے سے قبل اجمالی نقشہ سے تفصیل کے ساتھ سمجھنے سے قاصر ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ عالم غیب سے تعلق رکھنے والی باتیں تھیں انسانی دماغ کی سوچی سمجھی باتیں نہ تھیں کہ ذہن اپنا ساختہ پرداختہ جیسا اس نے بنایا ویسا اسے سمجھ بھی لیتا۔
آخر پر مصنف نے مختلف زمانوں کی پیش گوئیوں کے تسلسل اور یگانگت پر روشنی ڈالتے ہوئے احمدیت کے عظیم الشان مستقبل کا نقشہ کھینچا ہےکہ یہ اتفاق نہیں بلکہ آسمانی تدبیر ہے جس کا پہلے سے مکمل خاکہ عالم الغیب خدا ئے قدوس کے علم سے تیار ہوکر ہمیں تفصیل کے ساتھ سنایا اور بار بار سنایا گیا اور ہر نئے مرحلہ پر نئے سے نئے پیرایہ میں دکھلایاجاچکا ہے اور ہم جو اس موعود کے دامن کے ساتھ وابستہ ہیں ایک بہت بڑی حجت کے ماتحت ہیں۔ ہمارے لیے مایوس ہونے کامقام نہیں بلکہ خوش ہونے کا مقام ہے کہ وہ گھڑی قریب سے قریب ترآرہی ہے جس کا آغاز اِن جلال بھرے مژدہ نویدِ جانفزا سے ہوا تھاکہ
’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید۔وپائے محمؐدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔پاک محمد مصطفیٰ ؐنبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا…‘‘
اور آخر پر لکھا کہ یہاں ’’پہلا حصہ ختم ہوا۔ 18؍مارچ 1949ء‘‘
٭…٭…٭