بیعت کنندہ اپنے اموال کو اللہ اور رسول ؐسے مقدّم نہ سمجھے
ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے اس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے۔ جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوار ادا کرے … ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہیے تا خدا تعالیٰ بھی انہیں مدد دے۔ اگربے ناغہ ماہ بماہ ان کی مدد پہنچتی رہے گو تھوڑی مدد ہو تو وہ اس مدد سے بہتر ہے جو مدت تک فراموشی اختیار کر کے پھر کسی وقت اپنے ہی خیال سے کی جاتی ہے۔ ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے۔ عزیزو ! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کےلئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۸۳)
مالی عبادت جس قدر انسان اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اپنے اموال مرغوبہ میں سے کچھ خدا کے لئے دیوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِسی سورت میں فرمایا ہے وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ(البقرۃ:۴) اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ(آل عمران:۹۳) لیکن ظاہر ہے کہ اگر مالی عبادت میں انسان صرف اسی قدر بجا لاوے کہ اپنے اموال محبوبہ مرغوبہ میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیوے تو یہ کچھ کمال نہیں ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ ماسویٰ سے بکلّی دست بردار ہو جائے اور جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا کا ہو جائے یہاں تک کہ جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہو۔
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۹-۱۴۰)
پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہؔ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے۔
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۶)