ہر احمدی کو ہمیشہ قناعت اور سادگی کی طرف توجہ دینی چاہئے
ان حالات میں خاص طور پر احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہر طبقہ کے احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں۔ تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے، دین کی خاطر مالی قربانی کی بھی توفیق ملے گی، اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت کی بھی توفیق ملے گی، ان کی خدمت کرکے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی توفیق ملے گی اور دنیا کے کاموں میں فنا ہونے سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی عبادات بجا لانے کی بھی توفیق ملے گی۔ اور آخر کو انسان نے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی حاضر ہونا ہے، اسی طرح زندگی چلتی ہے۔ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی بہترین جگہ ہے اور یہ بہترین جگہ اس وقت حاصل ہو گی جب دنیاداری کو چھوڑ کر میری رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور میرے احکامات پر عمل کرو گے۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھْوٌ وَّ لَعِبٌ۔ وَاِنَّ الدَّارَالْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ۔ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(العنکبوت:۶۵)۔ یعنی اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشا کے سوا کچھ بھی نہیں اور یقینا آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے کاش کہ وہ جانتے ۔
فرمایا کہ مومنوں کو چاہئے کہ اس دنیا کی زندگی اور اس کی چکا چوند ہی اپنی زندگی کا مقصد نہ سمجھ لیں۔ یہ تو کافروں کا کام ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ اصل مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ نہ کہ دنیا کے پیچھے دوڑنا۔ اور جب تک انسان میں قناعت پیدا نہ ہو، سادگی پیدا نہ ہو وہ ہمیشہ مالی لحاظ سے اپنے سے بہتر کو دیکھ کر بے چین ہوجاتا ہے۔ اگر قناعت ہو گی تو اس کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہو گی کہ فلاں کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس بات پر عمل کرے گا کہ نیکیوں میں اپنے سے بہتر کو دیکھو اور رشک کرو اور پھر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور ہمیشہ یہ سامنے رہے گا کہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہمارے لئے چاہتا ہے کہ ہم اس کے احکامات پر عمل کرکے اس کا قرب حاصل کریں۔ باربار اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ یہاں بھی یہی کہا کہ کاش تم جانتے کہ دنیا کی طرف بڑھ کر کس تباہی کی طرف تم جا رہے ہو۔ دنیا کی سہولیات اور چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا کوئی گناہ نہیں، بلکہ ضرور اٹھانا چاہئے۔ لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے غلط راستے اپنانا، جو کچھ اپنے پاس ہے اس پر قناعت نہ کرنا اور دوسرے سے حسد کرنا، اپنی زندگی کو سادہ بنا کر اپنے اخراجات کو کنٹرول کرکے دین کی ضروریات کے لئے قربانی نہ دینا برائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال برائی نہیں ہے بلکہ وہ سوچ جس کے تحت بعض ایسے کام کئے جاتے ہیں وہ برائی ہے۔ اور ہر احمدی کو بہرحال اس سے بچنا چاہئے۔
بعض لوگ لازمی چندہ جات یا وعدہ والے چندوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں لیکن اپنی خواہشات کو کم نہیں کرتے۔ اگر قناعت اور سادگی ہو گی تو چندوں کے بوجھ کو کبھی بھی محسوس نہیں کرے گا۔ تو ہر احمدی کو ہمیشہ قناعت اور سادگی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر یہ پیدا ہو جائے تو ہم بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہمارے پاس رقم بھی موجود ہو جائے گی، ہمارے دل بھی وسیع ہو جائیں گے۔
(خطبہ جمعہ ۳۰؍اپریل ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍مئی ۲۰۰۴ء)