اللہ تعالیٰ کی صفت لطیف
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۷؍اپریل۲۰۰۹ء)
قرآن کریم میں سورۂ انعام کی آیت 104میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَاللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ کہ آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں ہاں وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے اور وہ بہت باریک بین اور ہمیشہ باخبر رہنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’بصارتیں اور بصیرتیں اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتیں‘‘۔ (شحنۂ حق، روحانی خزائن جلد2صفحہ 398)
تمہاری نظریں، تمہارا عقل و شعور اس کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یعنی خداتعالیٰ کی تلاش میں اگر یہ کوشش ہو کہ وہ ہمیں نظر آ جائے تو یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لطیف ہے۔ وہ ایک ایسا نور ہے جو نظر نہیں آ سکتا۔ ہاں جن پر پڑتا ہے ان کو ایسا روشن کر دیتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی تائیدات اور نشانات کا اظہار کرنے والے وجود بن جاتے ہیں اور یہ نور سب سے زیادہ انبیاء کو ملتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدرسول اللہ ؐکو یہ نور ملا۔ لیکن جوآنکھوں کے اندھے تھے، جن کی بصارتیں بھی کمزور تھیں، جن کی بصیرتیں بھی کمزور تھیں انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آیا اور وہ آپؐ کے فیض سے محروم رہے۔ جو بڑے بڑے عقلمند سمجھے جاتے تھے اور سرداران قوم تھے ان کو تو خداتعالیٰ کا نور نظر نہ آیا لیکن غریب لوگ جن کی لگن اور کوشش سچی تھی، جو چاہتے تھے کہ خداتعالیٰ کا نور ان تک پہنچے انہیں آنحضرتﷺ میں خداتعالیٰ کے نور کاپرتَو نظر آگیا۔
پس خداتعالیٰ کے نور کے نظر آنے میں کسی دنیاوی عقل، کسی دنیاوی تعلیم،کسی دنیاوی وجاہت، بادشاہت یا رتبے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ جو بڑی باریک بینی سے اپنی صفت لطیف کے تحت ہر دل پر نظررکھے ہوئے ہے اور اس بات سے با خبر ہے کہ نور کی تلاش کرنے والوں کے دل میں اس تلاش کی جو چاہت ہے وہ سچی چاہت ہے تو وہ خود ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ نور اور روشنی جو انبیاء لاتے ہیں اسے نظر آ جاتی ہے اور اس کے لئے روحانیت کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں۔ چاہے دنیاوی لحاظ سے وہ شخص کچھ بھی حیثیت نہ رکھنے والا ہو۔
پس اگر خواہش سچی ہو تو اللہ تعالیٰ خود اپنی صفات کے اظہار سے بندے کی ہدایت کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ جیساکہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ اپنے نور کا اظہار اپنے انبیاء کے ذریعہ کرتا ہے جو اس کی توحید کے قیام کے لئے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا نور لے کر یہ توحید کی روشنی چاروں طرف پھیلاتے ہیں اور سب سے زیادہ یہ روشنی آنحضرتﷺ کے ذریعہ دنیا میں پہنچی کیونکہ خداتعالیٰ کی ذات کا سب سے زیادہ ادراک انسان کامل کو ہی ہوا اور آپؐ اس کامل ادراک کی وجہ سے خداتعالیٰ کے رنگ میں مکمل طور پر رنگین ہوئے اور خداتعالیٰ کی صفات کے پرتَوبن گئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اپنے شعری کلام میں فرمایا۔ کہ
’’نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اِک نور تھے‘‘
اور اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے غلام صادق کو آپؐ کی غلامی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس نور سے منور کیا۔ جیسا کہ آپؑ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ
آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں
دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
جب سے یہ نور ملا نور پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
پس آج خداتعالیٰ کا کلام کہ وَ ھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَار انہیں پر پورا ہوتا ہے جو اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کو پانا چاہتے ہیں اور وہ آنحضرتﷺ کی غلامی میں آئے ہوئے زمانے کے امام کو قبول کرتے ہیں اور پھر خداتعالیٰ اپنے وجود کے ہر روز نئے رنگ میں جلوے دکھاتا ہے اور انہیں دیکھ کر پھر حقیقی توحید کی پہچان بندے کو ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ کی غلامی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے آپؑ کا وجود مل گیا اور جب وجو د مل گیا تو آپؑ خداتعالیٰ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ بن گئے اور آنحضرتﷺ کی غلامی کی وجہ سے آپؑ بھی سچی توحید کی پہچان کروانے والے بن گئے۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراءالوراء ہے۔‘‘ (بہت چھپی ہوئی۔ بہت دُور ہے)۔ ’’اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ لَاتُدْرِکُہٗ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ۔ یعنی بصارتیں اور بصیرتیں اس کو پا نہیں سکتیں اور وہ ان کے انتہا کو جانتا ہے اور ان پر غالب ہے۔ پس اس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے۔ کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی باطل معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بتوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے ایسا ہی اَنْفُسی باطل معبودوں سے پرہیز کرے۔ یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور ان کے ذریعہ سے عُجب کی بلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے۔ پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خود ی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحیدِ کامل حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جو شخص اپنی کسی قوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحّد کہلا سکتا ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 147-148)
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی روشنی حاصل کرنے اور خالص توحید قائم کرنے کے لئے ایک بندے کی کوشش کہ پہلے اپنے اندر کے جھوٹے معبودوں کو باہر نکالے۔ کسی کو یہ زعم ہو کہ میں دولت رکھتا ہوں، میں قوم کا لیڈر ہوں اور مسلمان بھی ہوں اس لئے خداتعالیٰ کو پا لیا، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں تویہ غلط ہے۔ اگر کسی کو یہ زعم ہے کہ میں دینی علم رکھنے والا ہوں، روحانیت میں مَیں بڑا پہنچا ہوا ہوں اور ایک قوم میرے پیچھے ہے اور اس وجہ سے مجھے خداتعالیٰ کا فہم و ادراک حاصل ہو گیا ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ ان سب باتوں کے پیچھے ایک چھپا ہوا تکبر ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی کام جو ہے وہ نیک نیتی سے نہیں کیا جاتا، چاہے خداتعالیٰ کے نام پر نظام عدل قائم کرنے کی کوشش کی جائے یا دین کو پھیلانے کی کوشش کی جائے یا دین کو پھیلانے کا دعویٰ کیا جائے یا شریعت قائم کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ دلوں کے تکبر دُور نہیں ہوئے۔ اپنے اندر باطل معبودوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس وجہ سے زمانے کے امامؑ کا بھی انکار ہے۔ اس لئے راستے میں حائل پردے خداتعالیٰ کے نور کے پہنچنے میں روک بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ جہاں وہ ایسا نور ہے جو پاک دلوں میں داخل ہوتا ہے وہاں وہ باریک بینی سے دلوں کے اندرونے دیکھ کر ہر وقت باخبر بھی رہتا ہے کہ کس کے دل میں کیا ہے۔ اور جس کا دل باطل معبودوں سے بھرا ہوا ہو، جن آنکھوں میں دنیاوی ہوا و ہوس ہو وہاں خداتعالیٰ کا نور نہیں پہنچتا۔ پس اگر حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان وَھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارَ یعنی وہ خود آنکھوں تک پہنچتا ہے، سے فیض پانا ہے تو اپنے دلوں کو پاک کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دیتا رہے۔