خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ستمبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے موضوع کی بابت کیابیان فرمایا
جواب:فرمایا:اس وقت میں ایک ایسے وجود کا ذکر کرنے لگا ہوں جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رضاکےمطابق گزارنے کی کوشش کی۔یہ ذکرہےمکرمہ امۃالقدوس صاحبہ کا جوحضرت ڈاکٹرمیرمحمداسماعیل صاحبؓ کی بیٹی اورصاحبزادہ مرزا وسیم احمدصاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔حضرت مصلح موعودؓ کی بہو تھیں۔ یہ رہتی توقادیان میں تھیں لیکن کچھ عرصہ سے ربوہ میں اپنی بیٹیوں کےپاس آئی ہوئی تھیں۔ ربوہ میں گذشتہ دنوں96سال کی عمرمیں بقضائےالٰہی ان کی وفات ہوگئی۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ کےفضل سے9/1کی موصیہ تھیں۔ ان کی زندگی کےکچھ حالات کاذکرکروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرمہ امۃ القدوس صاحبہ کےنکاح کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:1951ء کے جلسہ سالانہ کے افتتاح پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے حضرت مرزاوسیم احمدصاحب کا نکاح ان کےساتھ پڑھا اور فرمایا کہ میں بعض حالات کی وجہ سے افتتاح یا جلسہ سے پہلےدو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ایک ان کاتھا،ایک حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیٹی کا تھا…اس جلسہ پرآپؓ نے یہ دونکاح پڑھے۔اوران کی طرف سےوکیل ان کےچچازادبھائی سیدداؤداحمدصاحب مقررہوئےاورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اس نکاح میں یہ بھی فرمایاتھاکہ عموماً میں اپنی لڑکیوں کےنکاح واقفین زندگی سے ہی پڑھتا ہوں۔ پیرمعین الدین صاحب کےساتھ امۃالنصیر صاحبہ کانکاح ہواتھا۔جب ان کی شادی ہوئی تو حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحبؓ کی بیگم صاحبہ کی درخواست پرحضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓرخصتانہ کےوقت لڑکی والوں کی طرف سے شریک ہوئےتھےاپنے بیٹےکی طرف سےشامل نہیں ہوئے، بارات لےکےنہیں آئےبلکہ لڑکی والوں کی طرف سے شامل ہوئے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مرزاوسیم احمدصاحب کی قادیان روانگی اورمکرمہ امۃالقدوس صاحبہ کی خدمت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر مرزا وسیم احمد صاحب کو فرمایا تھا جبکہ آپ شادی کے سلسلہ میں آئے ہوئے تھے۔ اور شادی کو ابھی چند دن ہوئے تھے اور اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانے کے لیے کاغذات تیار کروا رہے تھے تو جیسا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں اتارچڑھاؤ آتا رہتاہےان دنوں میں ایسی کھچاوٹ پیداہوگئی کہ حضرت مصلح موعودؓنے انہیں کہاکہ بیوی کےکاغذات توبنتےرہیں گےتم اس کوچھوڑواورواپس فوری طور پر قادیان چلےجاؤکیونکہ وہاں حضرت مسیح موعودؑکےخاندان کاکوئی فردہونا چاہیے۔ اورفوری طور پر سیٹ بُک کرواؤجہازکی،اگرجہازمیں سیٹ نہیں بھی ملتی تو تمہارا فوری جانا ضروری ہے، چاہے چارٹرڈ جہاز کراکے جانا پڑے۔ آپؓ نے فرمایا:کیونکہ اگرتم وہاں نہیں ہوگےاوراپنانمونہ پیش نہ کیااورقربانی نہ دی تولوگ پھرکس طرح قربانی دیں گے۔جہاں یہ قربانی مرزاوسیم احمدصاحب کی تھی وہاں صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ کی بھی قربانی تھی۔یہ پتہ نہیں تھاکہ کب کاغذات مکمل ہوں گے، حالات کشیدہ ہیں اورکہیں حالات مزیدخراب نہ ہوتےجائیں۔لیکن خلیفہ وقت کاحکم تھااس لیےبڑی خوشی سےاپنے خاوندکورخصت کیا اور دین کودنیاپرمقدم رکھا۔جب حضرت مصلح موعودؓمیاں وسیم احمدصاحب کوروانہ کرنے کےلیےلاہورایئرپورٹ پر آئے تھے توڈاکٹرحشمت اللہ صاحب نے بتایا کہ جب تک جہاز نظروں سےاوجھل نہیں ہوگیاحضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ ایئرپورٹ پرکھڑےمسلسل جہازکودیکھتے رہےاور دعائیں کرتے رہے۔ پھرجب شادی کےایک سال کےبعدان کےکاغذات مکمل ہوگئےتوکہتی ہیں میں قادیان جانے لگیں توحضرت مصلح موعودؓ نے خاص طورپرمجھےہدایت کی تھی کہ ام ناصرکےمکان میں رہناجہاں حضرت مسیح موعودؑ کےکثرت سےقد م پڑےہیں اوران کےصحن میں حضورنے درس بھی دیا ہواہے۔صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ نے قادیان جاکر جماعت کی خواتین کو،عورتوں کواکٹھا کرنے میں،آرگنائز کرنے میں، درویشوں کی بیوی بچوں سےہمدردی کرنے میں بڑاکرداراداکیا۔اوران کی وجہ سےوہاں کی عورتوں کوبڑی تسلی ہوتی تھی۔
سوال نمبر۴: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ اماءاللہ قادیان کے مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے لندن پہنچنے کے بعد پہلا خطبہ جمعہ 04مئی84ء میں دیا اور دنیا کے احمدیوں کو حضرت مسیح موعودؑ کےالفاظ میں من انصاری الی اللہ کہہ کر پکارا اور اشاعت اسلام کے لیے ایک وسیع پروگرام کا اعلان کیا اور یہ بھی فرمایاکہ ان اغراض کو پورا کرنے کے لیے ایک بڑےکمپلیکس کی ضرورت ہے۔ دو نئے مراکز یورپ کے لیے بنانے کا پروگرام ہے۔ ایک انگلستان میں اورایک جرمنی میں۔اس کےلیےاللہ تعالیٰ روپیہ اپنے فضل سےمہیاکرےگا۔ اورلوگوں کوتحریک کی کہ اس میں شامل ہوں۔ چنانچہ قادیان کی لجنہ نے ایک مرتبہ پھروالہانہ لبیک کہا اور صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ جو صدرلجنہ بھارت تھیں۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ اللہ تعالیٰ کےفضل سےلجنہ اماءاللہ بھارت نے حضورؒکی آواز پرلبیک کہتےہوئےاس تحریک میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہے اور زیور اور نقدی جس کےپاس جوکچھ تھاپیش کردیا ہے۔ خودانہوں نے بھی اپناسارازیورپیش کردیا۔لجنہ بھارت کی طرف سے پہلے قادیان کی لجنہ کےوعدہ جات حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی خدمت میں بھجوائے گئے۔ اس پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے 10؍اگست84ءکےخطبہ جمعہ میں قادیان کی لجنہ کاذکرکرتےہوئےفرمایاکہ قادیان کی لجنات کےمتعلق مجھےایک رپورٹ ملی ہےاوراس کا مجھے انتظار تھا۔کیونکہ جب تحریک جدیدکی قربانیوں کا آغاز ہوا تھا تو قادیان کی مستورات کو غیرمعمولی قربانی کےمظاہرہ کی توفیق ملی تھی۔اب توبہت تھوڑی خواتین وہاں رہ گئی ہیں۔ لیکن جتنی بھی ہیں مجھےانتظارتھاکہ ان کےمتعلق بھی اطلاع ملےکیونکہ ان کاحق ہےکہ وہ قربانی کےمیدان میں آگےرہیں۔اورقادیان کانام جس طرح اُس زمانہ میں خواتین نے اونچا کیا تھا آج پھر اُسے اونچا کریں۔ تو الحمدللہ کہ وہاں کی رپورٹ بھی موصول ہوئی ہے۔صدرلجنہ اماءاللہ بھارت اطلاع دیتی ہیں کہ میں نے قادیان کی لجنہ وناصرات کےوعدے نئےمراکزکےلیےحضورکی خدمت میں 16 جولائی کولکھےتھے۔انہوں نے لکھاکہ حضورکےخطبات نے ایک تڑپ یہاں کی عورتوں میں پیداکردی اورمحض اللہ کےفضل سےجوکچھ ان کےپاس تھاانہوں نے پیش کردیاہے۔لیکن پیاس ہےکہ ابھی نہیں بجھی۔اتنی شدیدتڑپ ابھی ہےکہ اورہوتوخداکے کاموں کےلیےاور بھی پیش کردیں۔یہ خط صاحبزادی امۃ القدوس کاخلیفۃ المسیح الرابعؒ کوتھا۔1991ءمیں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہندوستان تشریف لےگئے،قادیان تشریف لےگئےتوآپ نے فرمایاکہ خداتعالیٰ کےفضل کے ساتھ ہندوستان کی لجنات میں سب کےمتعلق تومیں نہیں کہہ سکتالیکن قادیان کی لجنہ کےمتعلق کہہ سکتاہوں کہ مالی قربانی میں یہ بےمثل نمونے دکھانے والی ہیں۔قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہےلیکن میں نے ہمیشہ دیکھاہےکہ جب بھی کوئی تحریک کی جائےتویہاں کی خواتین اوربچیاں ایسےولولےاورجوش کےساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرادل چاہتاہےکہ ان کوروک دوں۔کہ بس کروتم میں اتنی استطاعت نہیں ہے۔اورواقعتاًمجھےخوشی کےساتھ ان کافکربھی لاحق ہوجاتاہے۔لیکن پھرمیں سوچتاہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کیں وہ جانتاہےکہ کس طرح ان کوبڑھ چڑھ کرعطاکرناہے۔وہی اللہ اپنے فضل کےساتھ ان کےمستقبل کودین اوردنیاکی دولتوں سےبھردےگا۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرمہ امۃالقدوس صاحبہ کےاوصاف اورخدمات دینیہ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو جب قادیان بھجوایا تو یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ لجنہ کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ آپ وہاں جاتےہی پہلے جنرل سیکرٹری قادیان بنیں۔پھر1955ءمیں صدرلجنہ مقامی اورپھرصدرلجنہ بھارت منتخب ہوئیں۔59ءمیں لجنہ مقامی کی صدارت کےلیےکسی اور کا انتخاب ہوا اورآپ صدرلجنہ بھارت کے طور پر کام کرتی رہیں۔ اللہ کےفضل سے1999ءتک اس خدمت پر فائز رہیں۔ اس کے بعد اعزازی ممبر رہیں۔ اپنے عرصہ خدمت کےدوران ہندوستان کی مجالس کے دورےبھی کیے۔ ان کی خدمات کا عرصہ 46سال بنتا ہے۔ لجنہ کےکام کو آرگنائز کرنے کے لیے آغاز میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں۔خط لکھتیں تاہم اس کاجواب نہ آتا۔پھرصاحبزادہ مرزاوسیم احمدصاحب کےنام سےایک ایڈریس دیاگیا۔اس طرح آہستہ آہستہ آپ نے جماعتوں کومتحدکرناشروع کیا۔ہندوستان میں بہت ساری لوکل زبانیں ہیں۔ایک دقت یہ بھی آئی کہ لوکل زبانوں میں خطوط موصول ہوتےتھے۔چنانچہ معلمین سےان کےتراجم کرائےجاتے۔ پھرآہستہ آہستہ حضرت مرزاوسیم احمدصاحب کےساتھ مل کربیرونی جماعتوں کےدورےبھی شروع کیے اور اس طرح انہوں نے ان جماعتوں کوجن کوپارٹیشن کے بعد کافی زیادہ مددکی ضرورت تھی، آرگنائز کرنے کی ضرورت تھی، آرگنائز کیا…خلافت رابعہ میں بھارت سے موصول ہونے والے دعائیہ خطوط کےخلاصہ جات کی ایک ٹیم بھی انہوں نے بنائی اور حضور ؒکو خلاصے لکھے جاتے تھے۔ اس پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بڑی خوشنودی کا اظہار کیا۔ قرآن کی بہت زیادہ خدمت کی ہے۔قادیان کی250سےزائد بچیوں کوقرآن پڑھایا، سکھایا۔ سکول کی لڑکیاں قرآن پڑھنے پہلےصبح صبح آتیں،پھر دوپہرکوآتیں اور گروپس میں آتیں۔ بھارت میں جن بچیوں نے ایف اےیاایف ایس سی کیاہوتاتھاتوپڑھائی سے وقفہ کےدوران وہ 3،3ماہ قادیان میں رہائش اختیارکرتیں۔ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہماری امی انہیں صبح، دوپہر اور شام ترجمہ قرآن پڑھاتیں۔ لجنات کوبہت منظم کیا۔ بہت محنت سےانہوں نے کام سکھایا۔خلافت سےتعلق کی واقعاتی رنگ میں تلقین کرتی تھیں۔ اورجب واقعات بیان کرتی تھیں تواس سےبچیوں کا، عورتوں کاخلافت سےتعلق بڑھتاتھا۔غیرمعمولی وصف مہمان نوازی تھا۔ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہمارےاباکاہمیشہ ساتھ دیا۔ بہت غریبانہ حالات تھے۔دوپہرکوصرف مونگ کی دال ہوتی تھی۔ اور ابا نے دودھ دہی کےلیے ایک بھینس رکھی ہوئی تھی۔ کوئی مہمان آتاتوجوکچھ کھانے کےلیےمیسر ہوتا، جو پکا ہوتاوہ بلاتکلف پیش کردیتیں۔جو مہمان آتا اس کوموسم کےاعتبارسےشربت اورچائےبھی پیش کیاکرتیں۔بعدمیں جب کشائش ہوئی تواسی لحاظ سے کھاناپیش کرتیں۔اورلوگ اپنا گھرسمجھ کر آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ ایک اچھی بیوی تھیں۔ہروقت ساتھ دینے والی،مشکل وقت میں ساتھ کھڑی ہونے والی،کبھی کسی چیزکی ڈیمانڈ نہیں کی، جو بھی ان کےخاوندکی طرف سےمیاں وسیم احمدصاحب کی طرف سےگزارہ ملتاخوشی سےاسی میں گزارہ کرتیں۔
٭…٭…٭