الٰہی سلسلوں کی مخالفت کا بد انجام
گذشتہ پچاس سالوں(1974ء تا 2024ء) میں جماعتِ احمدیہ کی الٰہی تائیدات اور مخالفین کی ناکامی و ہلاکت کی ایمان افروز داستان
بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے دل پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا
ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی سلسلوں کا آغاز ہوا تو ایک طرف اللہ کے فرستادوں اور انبیاء کی مخالفت ہوئی اور الٰہی سلسلوں کے معاندین و مخالفین نے ہردم کوشش کی کہ وہ طاقت و قوت کے زعم سے اِس الٰہی سلسلہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ اِس کے لیے انبیاء اور اِن پر ایمان لانے والوں کو تکالیف دی جاتی رہیں۔ اِن کے راستوں پر کانٹے بچھائے گئے۔ اِن انبیاء پر ایمان لانے والوں کو قتل کی نہ صرف دھمکیاں دی جاتی رہیں بلکہ بعضوں کو شہید بھی کر دیا گیا مگر اِن شہید مومنین کا خون اِن الٰہی سلسلوں کی فلاح و بہبود و ترقیات کے لیے کھاد کا کام کرتا رہا تو دوسری طرف اِن الٰہی سلسلوں کو قائم کرنے والا اور ان الٰہی سلسلوں کے راہنماؤں یعنی انبیاء کی حفاظت کرنے والا اللہ تعالیٰ خود اِن سلسلوں کی ترقی کی ضمانت بنا رہا اور دشمن سے اِن کی حفاظت بھی فرماتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے اِن نمائندوں کو درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے:
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَاؕ وَیَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ۔وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیۡثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیۡثَۃِ ۣاجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ۔( ابراہیم: 25 تا 27)کیا تو نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمہ طیّبہ کی ایک شجرہ طیّبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ وہ ہر گھڑی اپنے ربّ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے اور اللہ انسانوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور ناپاک کلمے کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے جو زمین پر سے اُکھاڑ دیا گیا ہو۔ اس کے لئے (کسی ایک مقام پر) قرار مقدر نہ ہو۔
قرآن کریم میں ایک اَور جگہ پر مخالفین کی حالت زار کا ذکر یوں کیا:اَوَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا۔( الرعد: 42)کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ یقیناً ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے فیصلہ کو ٹالنے والا کوئی نہیں اور وہ حساب (لینے) میں بہت تیز ہے۔
پھر اسی مضمون کو سورۃ الانبیاء آیت 45 میں فرمایا: اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕاَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۔پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں؟ تو کیا وہ پھر بھی غالب آسکتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے ایک اَور جگہ اپنے طاقتور ہونے اور غلبہ دینے اور دلوانے کا ذکر یوں فرمایا:کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ۔(المجادلہ: 22) اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد قارئینِ الفضل کو یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی سلسلوں کی مخالفت کے بد انجام کی داستان بہت طویل ہے۔ اس کو قلم بند کرنے کے لیے ایک ایسا دفتر درکار ہے جو مختلف کمروں، بالکونیوں اور راہداریوں پر مشتمل مختلف الماریوں سے مزین ہو جن میں اس داستان کو مختلف پیرایوں میں بیان شدہ کتب سے سجایا گیا ہو۔ اس داستان کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کے مخالفین کے بد انجام سے ہوتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوتا ہوا خاتم الانبیاء حضرت سیدنا محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ علیہ السلام،حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی نبی ہیں اور جماعت احمدیہ ایک الٰہی سلسلہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت شامل حال رہی ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی رہے گی۔
مخالفینِ احمدیت کا اخلاقی انحطاط
آج مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائےاحمدیت کے دور میں مخالفین احمدیت کے بد انجام کو بیان کرنا ہے۔ بالخصوص 1974ء کے بعد جب پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور آج مخالفین احمدیت پاکستان میں اپنی اِس نام نہاد کامیابی پر 50 سالہ جشن منانے جارہے ہیں۔ ان 50 سالوں میں ذلت، ناکامی، اسلامی تعلیم سے دُوری اور اخلاقی اور روحانی گراوٹ پوری قوم کے حصہ میں آئی ہے۔ معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حالت کا جنازہ نکل چکا ہے۔عدالتیں دنیا کی نچلی سطح پر ہیں۔1974ء کے بعد کوئی سیاسی حکومت ایسی نہیں جس نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہو۔ نوجوان نسل کے اخلاق زوال پذیر ہیں۔ گھر گھر لڑائی جھگڑا،قتل و غارت،گالی گلوچ روز کا معمول بن چکا ہے۔ کفر سازی کی فیکٹریاں ہر محلے اور ہر بازار میں پنپ رہی ہیں۔ مدرسوں میں جنت کے حصول کا لالچ دے کر اپنے مخالفین کو قتل کرنا عام ہے۔ تخریب کاری اور دہشتگردی کے اڈے جگہ جگہ قائم ہیں۔ جہاں نوجوان بالخصوص کچے اور ناپختہ ذہن کے مالک نوجوانوں کو قتل و غارت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مساجد جو امن کی جائے پناہ سمجھی جاتی رہی ہیں وہاں سے دہشت گردی کے پیغامات دیے جاتے ہیں۔عیسائیوں کے گرجوں،ہندوؤں کے مندروں اور احمدیوں کی مساجد کو گرانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اقلیتیں محفوظ نہیں، ان کے قبرستان محفوظ نہیں،ان کے مُردے محفوظ نہیں۔
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!
بحیثیت قوم اس بد انجام کا ذکر مختلف ٹی وی چینلز کے اینکرزاور وی لاگرز اپنے اپنے پروگرامز میں برملا طور پر کرتے ہیں کہ ہم جماعت نہیں۔ ہم بھیڑ ہیں، ہم بکھری ہوئی بھیڑیں ہیں، ہم ہجوم ہیں وغیرہ وغیرہ۔
1974ء میں جماعتِ احمدیہ کی پوزیشن
اب ذرا موازنہ کر کے دیکھیں کہ ان 50 سال میں اللہ تعالیٰ نے افضال اور اپنی رحمتوں اور برکتوں کی جو بارش جماعت احمدیہ پر نازل کی ہے اس کا کوئی حساب اور اندازہ ہی نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثا لث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ 1974ء کے دوسرے دن 27؍دسمبر کو جن افضال الٰہی اور برکات کا ذکر فرمایا تھا۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 50 سے زیادہ ممالک میں جماعت قائم ہو گئی ہیں…اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام 15 نئی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں… قرآن کریم کے سات زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں…علم کی روشنی سے انسانی دلوں کو منور کرنے کے لیے اس وقت جماعت مختلف ممالک میں( پاکستان اور ہندوستان سے باہر) سکول چلا رہی ہے۔ 16 چھوٹے کالج (انٹرمیڈیٹ کالج)کام کر رہے ہیں…وقف جدید کے تحت دیہات میں نو مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔نصرت جہاں آگے بڑھو کے تحت 16 ہسپتال کام کر رہے ہیں۔( خلاصہ ازخطبات ناصر جلددوم صفحہ 32 تا 50)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اسی خطاب میں جماعت کی کیفیت یوں بیان فرمائی:اس وقت جماعت احمدیہ ایک کمزور جماعت ہے اس میں کوئی شک نہیں۔اس وقت دنیاداروں کی نگاہ میں جماعت احمدیہ ایک دھتکاری ہوئی جماعت ہے اس سے بھی ہم انکار نہیں کرتے۔اس وقت جماعت احمدیہ کو کوئی سیاسی اقتدار حاصل نہیں اور نہ اس کے دل میں سیاسی اقتدار کی خواہش ہے۔ لیکن اس بات سے بھی نہ ہم انکار کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو انکار کرنا ہوگا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق نوع انسانی نے صرف جماعت احمدیہ کی کوششوں کے نتیجہ میں اور مہدی معہود کی قائم کردہ جماعت کے ذریعے امت واحدہ بن کر ایک خاندان بن جانا ہے۔ دوسری کوئی تحریک اس میں کامیاب نہیں ہوگی۔ رحمۃللعالمین کو عملاً رحمۃ للعالمینؐ ثابت کرنے کے لیے ہماری تمام تر کوششیں اور ہماری زندگی کا ہر سانس وقف ہے۔اس کے بغیر تو زندگی میں ہمیں کوئی مزا ہی نہیں آتا اور نہ مجھے مزا آتا ہے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جماعت میں سے کسی کو بھی مزہ نہیں آتا ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو کر ہماری زندگی ہی نہیں رہتی۔خدا تعالیٰ کی طرف پیٹھ پھیر کر ہمیں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے۔ ہماری زندگی کا لطف تو ہمارے اس احساس میں ہےکہ ہماری تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں اور گناہوں کے باوجود خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور خدا نے بڑے پیار کرنے والے باپ کی طرح اور پیار کرنے والی ماں کی طرح ہمیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔(خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 21)
پچاس سال بعد جماعت کی پوزیشن
1974ء سے 2024ء تک 50 سالوں میں غیر تو جشن منا رہے ہیں۔ اصل میں جشن منانے کا حق تو ہمارا ہے۔ ہمارا جشن اور ہماری خوشی کا اظہار تو اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر شکر ادا کرنے سے ہوتا ہے۔یہ تو اپنی موت آپ مر رہے ہیں صرف اس بات پر خوش ہیں کہ ہم نے احمدیوں کو کلمہ طیبہ پڑھنے سے روک کر غیر مسلم قرار دے دیا۔ لیکن آج اس کلمہ پاک کی محبت پہلے سے بہت بڑھ کر ہمارے دلوں میں جاگزیں ہوچکی ہے۔ہم اسلام کے پروانے ہیں جو اپنی جانیں اسلام کی روشنی پر نچھاور کر دیں گے۔ ہم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانباز سپاہی ہیں جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپؐ کے نور کی حفاظت، آپؐ کے نام کی سر بلندی کے لیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں،بائیں آگے اور پیچھے لڑیں گے۔ 1974ء میں صرف 15؍نئی مساجد تعمیر ہوئی تھیں۔آج ہمارے امامِ ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2024ء کے دوسرے روز یہ نوید سنائی کہ صرف ایک سال میں 106؍نئی مساجد جماعتِ احمدیہ کو تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے اور 42؍بنی بنائی مسا جد امام اور مقتدیوں سمیت اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی جھولی میں ڈالی ہیں۔ جب سے خلافت لندن منتقل ہوئی ہے تب سے دنیا بھر میں دس ہزار سے زائد مساجد یا تو نئی تعمیر ہوچکی ہیں یا بنی بنائی جماعتِ احمدیہ کو ملی ہیں۔ ایک طرف اللہ کے گھر مسمار کرنے والے ہیں۔ مسجدوں کے میناروں اور محرابوں کو نقصان پہنچانے والے ہیں تو دوسری جانب اللہ کی مدد و نصرت سے اللہ کے گھر دنیا بھر میں تعمیر کرنے والے ہم ہیں۔1974ء میں جماعت احمدیہ کا وجود صرف 50 ممالک تک تھا اور اب 50 سال گزرنے کے بعد یہ تعداد 214؍تک پھیل چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام “ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتا ہم دیکھ رہے ہیں۔ 1974ء میں صرف سات زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہوئے تھے۔ 50 سال گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد 78؍تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ کئی دیگر زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کا کام جاری ہے۔ 1974ء میں پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ افریقہ میں جماعت احمدیہ کے 76؍سکول اور 16؍ ہسپتال تھے۔آج پرائمری اور سیکنڈری سکولز کی تعداد 14؍ ممالک میں 701؍اور ہسپتالوں وکلینکس کی تعداد 13؍ممالک میں 163؍سے زائد ہے۔ 1974ء میں بھارت اور پاکستان میں ایک ایک جامعہ احمدیہ تھا جہاں مربیان و مبلغین تیار ہو کر اللہ کے نور کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے تیار ہوتے تھے اور آج دنیا بھر میں سات سال کی تعلیم دینے والے اور چار سال کی تعلیم دینے والے جامعات کی تعداد درجن سے زائدہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:’’میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں ‘‘واقعۃً اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مبارک تاریخی فقرہ کی لاج رکھی اور جماعت احمدیہ دشمنوں کے تمام شانوں کو چت کرتے ہوئے دن دگنی رات چوگنی کے سفر پر رواں دواں ہے۔ جماعت احمدیہ کو جو انٹرنیشنل شہرت (Fame) خلافتِ خامسہ کے مبارک دور میں حاصل ہوئی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ملکوں کی پارلیمنٹس سے جو خطاب فرمائے ان سے جماعت احمدیہ کا تعارف قریہ بقریہ اور ملک ملک ہوا۔ سکولز، کالجز،یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات اور مختلف کمیونٹیز کے نمائندے اسلام کے بارے میں سوالات اور معلومات اگر دریافت کرتے ہیں تو جماعت احمدیہ کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے مبلغین اور نمائند گان سے رابطہ کرتے ہیں۔ اس کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۲؍اگست 2024ء کے خطبہ جمعہ میں غیر از جماعت شاملین جلسہ کے جو ایمان افروز تاثرات بیان فرمائے وہ الفضل انٹرنیشنل کی 23؍اگست کی اشاعت میں شائع ہوچکے ہیں۔ جیسے روڈرگزآئی لینڈ سے آئی ہوئی مہمان آگاتھے میری صاحبہ نے کہا کہ تقریباً 44؍ہزار شرکاء کے ساتھ یہ جلسہ میرے لیے روڈرگزجزیرے کی پوری آبادی کے جمع ہونے کے مترادف ہے اور بیلیز کے مہمان کاش سانکونا نے کہا کہ جماعت احمدیہ ایک بہت بڑا مضبوط درخت ہے جس کی بہت سی پھلدار شاخیں ہیں (الفضل انٹرنیشنل 23؍اگست 2024ء )
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
ایک عبرت ناک انجام ہم نے یہ دیکھا کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین اورمعاندین کی شدید مخاصمت سے قرآن و حدیث کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ سے ملا دیا اور فریق ثانی اپنے اعمال کی وجہ سے دشمنانِ رسول سے جا ملے۔ تاریخِ اسلام ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ سمیت تکالیف برداشت کرنی پڑی۔ بعضوں کو شہید کیا گیا۔ بعض قید کر دیے گئے جائیدادیں لوٹی گئیں مگر یہ استقامت کے پہاڑ بن کر کھڑے رہے۔
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے ان کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی
معاندین احمدیت کا بد انجام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کے معاندین و مخالفین کی فہرست بہت طویل ہے۔ جن میں ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی عبرت ناک موت مرا۔ پنڈت لیکھرام پشاوری بھی ایک غیبی ہاتھ کا شکار ہوا۔پادری عبداللہ آتھم، مولوی محمد حسین بٹالوی جس کی جوتیاں بٹالہ سٹیشن پر قادیان جانے والوں کو روکتے ہوئے گھس جایا کرتی تھیں اب اس کی قبر کا نام و نشان بھی بٹالہ کے قبرستانوں میں موجود نہیں اور اس کے نواسے کو احمدیت کی قبولیت کی توفیق مل چکی ہے۔ مولوی رشید احمد گنگوہی،مولوی غلام دستگیر قصوری،ماسٹر سعد اللہ لدھیانوی اور مولوی کرم دین وغیرہ وغیرہ کس کس کا نام لکھوں اور کس کس کے عبرت ناک انجام کی داستان قلم بند کروں۔ یہ سب مجھے اس مختصر سے مضمون میں قلم بند کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ مَیں اپنی نوجوان نسل کے ایمان و ایقان کی بڑھوتری کے لیے قریب زمانہ کے تین طاقتور دشمنوں کا ذکر قدرِ تفصیل سے کرنا چاہوں گا اور وہ یہ ہیں۔
نمبر 1:شاہ فیصل سعودی عرب
نمبر2: ذوالفقار علی بھٹو،وزیراعظم پاکستان
نمبر 3:جنرل محمد ضیاء الحق ،صدرِ پاکستان
1974ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے واقعہ کے بعد اِن 50 سال میں دشمنانِ احمدیت اور ان کے بدانجام کا ذکر کریں تو بظاہر دو نام ہی ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں ان میں اول۔ ذوالفقار علی بھٹو اور دوم۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا۔لیکن اگر شاہ فیصل سعودی عرب کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا۔ 1973ء میں سعودی عرب کے اس بادشاہ کی ترغیب پر ذوالفقارعلی بھٹو نے لاہور میں مسلم ممالک کے سربراہوں کی ایک کانفرنس بعنوان اسلامی سربراہی کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ جماعت احمدیہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا آغاز اسی سمٹ کے ذریعہ شاہ فیصل کی شہ پر ہوا تھا۔اللہ تعالیٰ کو اُس وقت کے اس فرمانروا کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور ایک سال کے اندر اندر 25؍مارچ 1975ء کوا پنے سوتیلے بھائی کے بیٹے کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ 1974ء میں آئین میں کی گئی دوسری ترمیم کے کئی سال بعد اُس وقت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے ایک سے زائد دفعہ انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ فیصلہ سعودی عرب کے دباؤ کے تحت اور سیاسی اغراض کے لیے کیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی قارئین کے لیے ازدیادِ ایمان کا موجب ہوگا کہ اِس اسلامی سربراہی کانفرنس میں اسلامی ممالک کے جن سربراہوں نے شرکت کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ کی حامی بھری۔اُن تمام کو عبرت ناک اور بھیانک انجام سے گزرنا پڑا اور درج ذیل مشہور افکار غیر طبعی موت مرے۔ شاہ فیصل کے اس بہیمانہ قتل کے محض پانچ ماہ بعد بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمٰن کو فوج قتل کر کے ملک پر قابض ہو گئی۔اس کے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ شیخ مجیب کی صرف دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ بیرون ملک ہونے کے باعث بچ گئیں۔ دوسرے نمبر پر مَیں مصر کے صدر انور سادات کا ذکر کروں گا جو اِس کانفرنس میں شریک تھا اور مصر کے اینول ڈے پر فوج کی پریڈ کا مشاہدہ کرنے کے دوران خالد اسلامبولی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ پھر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات نے فلسطین کی نمائندگی میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت اختیار کی تھی۔2004ء میں ان کی موت زہر دینے سے ہوئی۔اسلامی سربراہی کانفرنس میں جن سربراہوں نے شرکت کی ان میں ایک لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی بھی تھے جن کو بیس اکتوبر 2011ء کو باغیوں نے جن میں فوجی بھی شامل تھے بمباری کر کے قتل کیا اور’’سرت ‘‘مقام پر ایک ہجوم نے اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عبرت انگیز وعبرت ناک انجام
اب اس اسلامی سربراہی کانفرنس کے روح و رواں پاکستان کی طاقت کے منبع وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہولناک انجام کا ذکر کرنا ہے۔ جس نے شاہ سعودی عرب فیصل کی ایما پر 90 سالہ مسئلہ حل کرنے کے لیے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آغاز کیا۔
مولوی مفتی محمود بتاتے ہیں:اسمبلی میں قرارداد پیش ہوئی اور اس پر بحث کے لیے پوری اسمبلی کو کور کمیٹی کی شکل دے دی گئی۔ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کی دونوں جماعتیں خواہ لاہو ری ہوں یا قادیانی ان کو اسمبلی میں لایا جائے اور ان کا موقف سنا جائے… جب اسمبلی ہال میں مرزا ناصر آیا تو قمیض پہنے ہوئے اور شلوار و شیروانی میں ملبوس بڑی پگڑی، طرہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی تو ممبران نے دیکھ کر کہا۔ کیا یہ شکل کافر کی ہے؟ اور جب وہ بیان پڑھتا تھا قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا تھا تو درود شریف بھی پڑھتا تھا اور تم اسے کافر کہتے ہو اور دشمن رسول کہتے ہو ؟(ہفت روزہ لولاک لائلپور 28؍دسمبر 1975ء صفحہ18)
الطاف حسین قریشی مدیر اردو ڈائجسٹ لاہور نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ بحث چھ ستمبر تک چلتی رہی اور کچھ طے نہ پایا کہ دستوری ترمیم کے الفاظ کیا ہوں گے۔سات ستمبر کو چار بجے تک ایک غیر سرکاری مسودے پر مختلف پارلیمانی قائدین کے مابین گفت و شنید ہوتی رہی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ خفیہ کارروائی کے نتیجے میں ایک بل تیار ہو جاتا اور اس پر قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں غور ہوتا اور اس کے بعد اسے بحث و تمحیص کے لیے ایوان میں پیش کر دیا جاتا…( لیکن) پانچ بجے کے قریب بل پڑھ کر سنایا گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی رات سینیٹ کا اجلاس طلب ہوا اور اس ایوان میں بھی کچھ وقت نہ لگا۔ایسی روا روی اور گہما گہمی میں کچھ بھی غور و فکر نہ ہوا اور دوسری آئینی ترمیم میں چند بنیادی خامیاں رہ گئیں۔(اردو ڈائجسٹ لاہور دسمبر 1975ء صفحہ57)
الطاف حسین قریشی نے مزید لکھا :جناب بھٹو نے مذہبی جذبہ کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا تھا پھر کیا وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا؟ واقعات اس کٹھن سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ (اردو ڈائجسٹ لاہور مارچ ۱۹۷۶ء )
فیصلہ پر غیروں کا رد عمل
جمعیت علمائے اسلام کے صدر مولوی زاہر القاسمی نے وزیراعظم بھٹو کی درازی عمر کی دعا کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ… وزیراعظم بھٹو کے جرأت مندانہ اور بروقت اقدام کے سبب پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے یہ بات کل شام ایک مقامی ہوٹل میں جمعیت کے زیر اہتمام استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی…مولوی قاسمی نے کہا کہ اب پاکستانی پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہنے میں فخر محسوس کر سکتے ہیں۔انہوں نے وزیراعظم بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اسلامی اتحاد کی علامت قرار دیا۔
بادشاہی مسجد کے خطیب مولوی عبد القادر آزاد نے کہا کہ مسٹر بھٹو نے جتنی اسلام کی خدمت کی ہے اتنی دوسرے کسی پاکستانی نے نہیں کی۔اس موقع پر منظور کی گئی قرارداد میں…ملک بھر کے عالموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ 13؍ستمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد وزیراعظم بھٹو کی درازی عمر کے لیے دعا کریں۔(اخبار جنگ 11؍ستمبر 1972ء )
فیصلہ پر جماعت کا رد عمل
جماعت احمدیہ نے 1974ء میں قومی اسمبلی میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک محضر نامہ پیش کیا جس میں قومی اسمبلی کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا :پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے معاملات پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرے جن کے متعلق فیصلہ کرنا اور غور کرنا… قرآن کریم کی تعلیم اور ارشادات کے بھی سراسر منافی ہے اور بہت سی خرابیوں اور فساد کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ (محضر نامہ صفحہ 10 ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز یو کے )
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی۔ اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہوگا مجھے پریشان کیا اور مَیں نے بڑی دعائیں کیں۔یہ بھی دعا کی کہ اے خدا! خفیہ اجلاس ہے پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے… بتا! میں کیا کر وں…اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَسِّعْ مَکَانَکَ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھزِئِیْن۔کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرو اور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں۔ان منصوبوں کے دفاع کے لیے تیرے لیے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی۔(الفضل 11؍دسمبر 1974ء )
پھر امام جماعت احمدیہ نے احباب جماعت کو یہ دعا کرنے کی تحریک فرمائی۔وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لَا یَرْحَمْنَا کہ اے اللہ! ہم پر کوئی ایسا شخص مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے۔( افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1975ء از الفضل 21؍فروری 1976ء )
فیصلہ کرنے والے کا انجام
اسمبلی کے سربراہ یعنی بھٹو کو چند سال بعد 18؍مارچ 1978ء کو پنجاب ہائی کورٹ نے قتل کے ایک کیس میں سزائے موت سنا دی اور 6؍فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے اس سزا کی توثیق کر دی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے الہامِ الٰہی کی بنا پر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جماعت کا ایک شدید مخالف 52؍سال کی عمر میں عبرت ناک موت کا شکار ہوگا۔ چنانچہ کراچی کے اخبار’’وحدت ‘‘ نے لکھا کہ بھٹو کی سزائے موت کو ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا جائے تاکہ قادیانی یہ نہ کہیں کہ مرزا صاحب کی پیش گوئی پوری ہو گئی۔
آتش فشاں لاہور مئی 1981ء کے صفحہ 12 پر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ حضر ت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کا انٹرویو شائع ہوا جس میں آپ نے اس اخبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :کراچی کے کسی اخبار میں چھپا بھی تھا کہ کم سے کم اس کو ایک سال مہلت دینی چاہیے ورنہ مرزائی کہیں گے ہماری پیشگوئی پوری ہوگئی۔
لیکن علماء کی ان اپیلوں کے باوجود 3؍اپریل 1979ء کو فیصلہ کرنے والی اسمبلی کے سربراہ کو 52؍سال کی عمر میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والی عدالت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین سے کچھ عرصہ بعد انٹرویو میں پوچھا گیا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھٹو کو پھانسی لگانے کا سامان اس کے وکیلوں اور قانونی مشیروں نے کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ سب سے بڑی منصف خدا کی ذات ہے بھٹو کا فیصلہ آسمانوں پر لکھا جا چکا تھا۔(ماہنامہ مون ڈائجسٹ اپریل 1984ء صفحہ 22 )
فیصلہ کرنے والی اسمبلی
ان اراکینِ اسمبلی کے بارے میں ضیاء حکومت نے ایک قرطاس ابیض شائع کیا اور ان میں سے بیشتر کے ایسے شواہد مہیا کیے جس نے انہیں خائن، راشی، جھوٹا، بدمعاملہ، بدعنوان، شرابی، زانی، اغوا میں ملوث، رسہ گیر، تخریب کار وغیرہ قرار دیا۔ (قرطاس ابیض بھٹو کا دور حکومت جلد سوم صفحہ ۱۸۲تا ۱۸۵)
ایک عظیم الشان پیش گوئی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي۔کہ بنی اسرائیل 72؍فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی لیکن ایک فرقہ کے سوا سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرقہ جو میری اور میرے اصحاب کی سنت پر عمل پیرا ہوگا۔
مولوی مودودی اس پیشگوئی کی وضاحت یوں کرتے ہیں: اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طور پر بیان کر دی گئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگی اور دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی۔ (ترجمان القرآن جنوری۔ فروری 1945ء صفحہ 176 مرتبہ سید ابو الاعلیٰ مودودی )
پیشگوئی کا ظہور 72؍اور ایک
مولوی اختر علی خان نے لکھا:آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں امت کے 72؍فرقے متحد و متفق ہیں۔حنفی اور وہابی، دیوبندی،بریلوی،شیعہ، سنی، اہل حدیث سب کے علماء، تمام پیر اور تمام صوفی اسی مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائی کافر ہیں اور انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ اقلیت قرار دو۔ (اخبار زمیندار پانچ نومبر 1954ء صفحہ 2 تحریر مولوی اختر علی خان )
پاکستانی اخبارات کی سرخیاں
جماعت احمدیہ کے خلاف 72 فرقوں کا اجماع:
نوائے وقت نے لکھا :اسلام کی تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماعِ امت نہیں ہوا۔اجماع امت میں ملک کے بڑے بڑے علمائےدین اور حاملانِ شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کے سیاسی رہنما کما حقہ متفق ہوئے ہیں اور صوفیاء کرام اور عارفین باللہ برگزیدان تصوف و طریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے کہ قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی 72 فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں۔(نوائے وقت 6؍اکتوبر 1974ء صفحہ 4)(ماخوذ از ’’7؍ستمبر 1974ء یوم الفرقان‘‘)
علمائے اسلام نے متفقہ فیصلہ کے مطابق اپنا 72؍ہونا اور جماعت احمدیہ کا 73واں ہونا تسلیم کر لیا ہے۔ حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے کہ 72 ناری ہوں گے جبکہ ایک فرقہ ناجی ہوگا۔ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ ایک جماعت ہوگی اور جماعت احمدیہ ایک جماعت ہے جس کا ایک واجب الاطاعت امام ہے۔ پورے عالَمِ اسلام میں سوائے جماعت احمدیہ کے کوئی بھی فرقہ ایسا نہیں جس کا ایک واجب الاطاعت امام ہو۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار
جنرل ضیاء الحق کا بد انجام
اب اس مضمون کے آخر پر اس 50 سالہ دور میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والے تین دشمنوں میں سے آخری دشمن جنرل محمد ضیاء الحق صدر پاکستان کے ساتھ اللہ کے سلوک کا ذکر کرنا مقصود ہے جو عمومی طور پر اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کے مخالفین سے کرتا چلا آیا ہے۔ جنرل ضیاءالحق جماعت احمدیہ کا شدید ترین معاند تھا۔1982ء میں جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح منتخب ہوئے تو جماعت کی ترقی اور تبلیغی سرگرمیوں میں بہت تیزی آنے لگی اور ملک میں کثرت سے لوگ احمدیت کی طرف مائل ہونے لگے تو اوائل دسمبر 1983ء میں لندن میں ایک سیرت کانفرنس میں جنرل ضیاء کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں جنرل ضیاء نے احمدیت کو کینسر قرار دے کر اسے جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دوسری طرف اسی سال کے آخر پر جلسہ سالانہ کی افتتاحی تقریر میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور آپؑ کے حواریوں کے ساتھ فرعون کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلاموں کا بھی فرعونِ وقت سے یہی جواب ہے کہ تم سے جو ہو سکتا ہے کر گزرو۔ ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔حضور ؓکے خطاب سے قبل حضور کی عظیم الشان جلالی نظم پڑھی گئی جس کا طرح یہ تھا۔
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفتِ ظلمت و جور ٹل جائے گی
آہِ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رخ پلٹ جائے گا رُت بدل جائے گی
اس پر جنرل ضیاء نے بدنام زمانہ آرڈیننس کے ذریعہ ہر احمدی کو پابند کر دیا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا۔اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے روک دیا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قید و بند اور جرمانے کا سزاوار ٹھہرائے جانے کا اعلان ہوا اور منصوبہ یہ بنایا گیا کہ اسلم قریشی کے اغوا اور قتل کے الزام میں مرزا طاہر احمد کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جائے۔ مگر الٰہی تقدیر کے مطابق حضور رحمہ اللہ پاکستان سے ہجرت کر کے 29؍اپریل 1984ء کو بحفاظت لندن پہنچ گئے۔اس پر جنرل ضیاء بہت سیخ پا ہوا۔ ہزاروں احمدیوں کو جیلوں میں بند کر دیا۔وقت کا فرعون اپنی طاقت کے نشے میں چُور بے گناہ احمدیوں سے ان کے تمام حقوق سلب کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔حضور رحمہ اللہ نے ایک خطبہ میں ضیاء کو متنبہ کیا کہ وہ احمدیوں پر ظلم بند کر دے وگر نہ الٰہی تقدیر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی۔مگر ضیاء بجائے ظلم بند کرنے کے اور آگے بڑھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں یکم جولائی 1988ء کے خطبہ جمعہ میں واضح طور پر اعلان فرمایا :جہاں تک صدر پاکستان ضیاء کا تعلق ہے… ہم انتظار کرتے ہیں کہ خدا کی تقدیر دیکھیں کہ کیا ظاہر کرے لیکن چیلنج قبول کریں یا نہ کریں چونکہ تمام ائمۃ المکفرین کے امام ہیں اور تمام اذیت دینے والوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس ایک شخص پر عائد ہوتی ہے۔جنہوں نے معصوم احمدیوں پر ظلم کیے ہیں۔
آپ رحمہ اللہ نے مورخہ 12؍اگست 1988ء کے خطبہ جمعہ میں اپنی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ شخص اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔ آپ نے فرمایا یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا ایک قسم کا مقدر بن گئی ہے۔چنانچہ اس خطبہ کے پانچویں روز ہی 17؍اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق امریکی ساخت کے مضبوط ترین ہوائی جہاز سی 130 کے ذریعے بہاولپور فوجی اڈے سے واپس آتے ہوئے ایک فضائی حادثہ میں 28؍اعلیٰ فوجی افسران کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔اس کی لاش ٹکڑے ٹکڑے ہو کر جل کر بکھر گئی اور ائمۃ المکفرین مقامِ عبرت کا نشان بن گیا۔
تم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی جس نے توڑا تھا سر کبرِ نمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
حضرت موسیٰؑ کا مقابلہ کرنے والے فرعون نے آخری وقت پر توبہ کر کے اپنی لاش بچا لی تھی مگر مسیح محمدی کا مقابلہ کرنے والا یہ فرعون ایسا بد بخت تھا کہ اسے توبہ کی بھی توفیق نہ ملی اور “خدا اڑا دے گا خاک ان کی کرے گا رسوائے عام کہنا” کامصداق بن کر ہمیشہ کی ذلت کا طوق پہن کر واصل جہنم ہوا۔ اس شخص نے اپنے 11؍سالہ دَورِ اقتدار میں جس بے دردی کے ساتھ مذہب کا کارڈ استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں آج 38؍سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان جس دہشت گردی اور فرقہ واریت کا شکار ہے اس کی تمام تر ذمہ داری اس شخص پر ہے۔ اس کی ہلاکت سے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بعد گیارہ ان شاءاللہ بڑی شان سے پورا ہوا۔ وہاں یہ بات بھی ازدیادِ ایمان کا باعث بنی کہ آج تک اس کی قبر جہاں وہ مدفون ہے کا علاقہ “جبڑا چوک‘‘ کے نام سے اس لیے موسوم ہو گیا کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نہ بچا ما سوائے اس کے ڈنچر کے جو وہ پہنا کرتا تھا۔ مجھے اسلام آباد پاکستان میں آٹھ سال تک خدمت بجا لانے کا موقع ملا ہے وہاں بسوں اور ویگنوں والے جبڑا چوک،جبڑا چوک کی صدائیں بلند کر کے سواریوں کو متوجہ کر کے یہاں اتارتے اور بسوں پر سوار کرتے ہیں۔ میں ایک دفعہ اس کی قبر پر اس کا دردناک انجام دیکھنے کے لیے گیاتو ایک کتے کو اس کی قبر پر بیٹھا پایا۔ تھوڑی دیر تک ایک بوڑھا شخص ایک گھٹڑی اٹھائے، بیٹھنے کے لیے چونکی ساتھ لیے حاضر ہوا اور کتے کو بھگا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ مَیں نے اس سے پوچھا آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں۔ تو وہ بوڑھا بولا کہ مَیں آرمی کا ملازم ہوں اور شام کو مَیں ملازمت سے فارغ ہو کر اس قبر کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے یہاں آتا ہوں۔ اس کی اسلام کی بہت ’’خدمات‘‘ ہیں مگر قوم نے اس کی خدمات کی قدر نہیں کی اور حکومت نے اس قبر کا کوئی مجاور بھی مقرر نہیں کیا ہے۔اسی وجہ سے کتے اور دیگر جانور یہاں آرام کرتے اوراس قبر کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایسے ہی دشمنانِ احمدیت کے متعلق فرماتے ہیں۔
مقابل پر مرے یہ لوگ ہارے
کہاں مرتے تھے پر تو نے ہی مارے
شریروں پر پڑے ان کے شرارے
نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے
انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی
جنرل ضیاءالحق کے انجام کے متعلق
روزنامہ جنگ لاہور کا حقیقت افروز تبصرہ: آج سے پانچ سال قبل پاکستان میں پہلی مرتبہ جناب دولتانہ نے قادیانی مسئلہ کو اٹھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد آج تک وہ اقتدار کی کرسی سے محروم رہے۔ پھر جناب ایوب خان نے اپنے اقتدار کے ڈوبتے ہوئے دور میں اسی مسئلہ کا سہارا لینا چاہا انہوں نے اپنے بارےمیں مرزائیت سے بریت کے بیانات اخبارات اور ریڈیو پر نشر کیے۔صدر کے ایما پر اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نے مرزا غلام احمد قادیانی کی اہم کتاب کو ضبط کیا مگر یہ ان کے متزلزل اقتدار کو طول نہ دے سکابلکہ رسوا ہو کر اقتدار سے علیحدہ ہوئے۔ پھر بھٹو جن کی پارٹی اور حکومت بذات خود مرزائیوں کی امداد اور اعانت سے برسرِاقتدار آئی تھی نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو اور ڈولتے ہوئے اقتدار کو سنبھالا اور طول دینے کے لیے اپنی محسن مرزائی جماعت کی گردن پر وار کیا۔ ایسا وار کہ 90 سالہ مسئلہ حل کر ڈالا۔بھٹو کا خیال تھا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے بعد اب انہوں نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے ہیں اور اب وہ تاحیات پاکستان کے وزیراعظم رہیں گے۔ لیکن ان کا یہ خیال شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔اب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے مرزائیت سے بریت کا اعلان واشگاف الفاظ میں کیا ہے اور مرزائیوں کو کلیدی آسامیوں سے علیحدہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ لیکن ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے۔کیونکہ ماضی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جنہوں نے بھی قادیانی مسئلہ کو اٹھایا یا چھیڑا وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کے پس پردہ کون سے عوامل یا غیبی طاقت کار فرما ہیں وہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ (روزنامہ جنگ لاہور 13؍ دسمبر 1983ء )
ضیاءالحق ہو، بھٹو ہو کہ ہو احرار کا ٹولہ
اڑا وہ خاک بن کے جس نے اس سے ٹھانی ہے
حوادث اور زلازل میں حصارِ عافیت ہے یہ
خزاں کے دور میں یہ بالیقین اک رت سہانی ہے
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں:بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے دل پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب ہوگی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا۔( انوار الاسلام ، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ 54)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک دوست کے سوال کے جواب میں فرمایا :اس دور میں احمدیوں پر ظلم کرنے والے تین ایسے کردار ہیں جو غیر معمولی اہمیت اختیار کرگئے ایک فیصل،ایک بھٹو، ایک ضیاء۔ تینوں غیر طبعی موت مارے گئے تینوں قتل ہوئے ہیں اور یا پھانسی لگے ہیں مگر ان کا جو مرنا ہے ایک ہی طرح کا ہے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی اگر یہ ہیرو تھے تو خدا تعالیٰ کا اچھا احسان ہے ان لوگوں پر۔ تو صرف بھٹو کی بات نہیں ہے یہ دو بھی شامل ہیں ساتھ اور یہ تین ہیں جن کو کہتے ہیں تین مین آرکیٹیکٹ۔
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھرعالَم کو اک عالَم دکھاتی ہے
وہ بنتی ہے ہوا اور ہر خسِ رَہ کو اُڑاتی ہے
وہ ہو جاتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے
کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے
کبھی ہو کر وہ پانی اُن پہ اک طوفان لاتی ہے
٭…٭…٭
( حنیف احمد محمود۔نائب مدیر الفضل انٹرنیشنل)