خدا تعالیٰ کی امانت سے کیا مراد ہے؟
اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا۔یعنی ہم نےاپنی امانت کو جس سے مراد عشق و محبت الٰہی اور مورد ابتلا ہو کر پھر پوری اطاعت کرنا ہے آسمانوں کے تمام فرشتوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور پہاڑوں پر پیش کیا جو بظاہر قوی ہیکل چیزیں تھیں سو ان سب چیزوں نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اُس کی عظمت کو دیکھ کر ڈر گئیں مگر انسان نے اس کو اٹھا لیاکیونکہ انسان میں یہ دو خوبیاں تھیں ایک یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس پر ظلم کر سکتاتھا۔ دوسری یہ خوبی کہ وہ خدائے تعالیٰ کی محبت میں اس درجہ تک پہنچ سکتا تھا جو غیر اللہ کو بکلی فراموش کر دے۔
(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۶،۷۵)
ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا۔ پس سب نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر ے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا۔ یہ دونوں لفظ انسان کے لیے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لیے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا۔ اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے اس لئے اُس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خرائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۳۹)
وہ امانت جو فرشتوں اور زمین اور پہاڑوں اور تمام کواکب پر عرض کی گئی تھی اور انہوں نے اٹھانے سے انکار کیا تھا وہ جس وقت انسان پر عرض کی گئی تھی تو بلاشبہ سب سے اوّل انبیاء اور رسولوں کی روحوں پر عرض کی گئی ہو گی کیونکہ وہ انسانوں کے سردار اور انسانیت کے حقیقی مفہوم کے اوّل المستحقین ہیں۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۱۶۹)