بچوں کا الفضل

نرم اور پاک زبان کا استعمال

زین بہت غصہ میں تھا اور غصہ میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔’محسن اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ میں بھی دیکھ لوں گا۔ اس طرح تو آئندہ اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں کھیلے گا‘۔ وہ غصہ میں اسی طرح بولے جارہا تھا کہ احمدوہاں پہنچ گیا۔ احمد اس کا سب سے اچھا دوست تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو ہمیشہ ہر بات بتاتے تھے۔ زین کو غصہ کی حالت میں دیکھ کر اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟

زین کہنے لگا : میں آج محسن کے ساتھ کرکٹ کھیلنے گیا۔ اس نے مجھے خاص طور پر بلایا تھا کیونکہ اس کے ابا نے اس کو بڑی مہنگی نئی بال منگوا کر دی تھی۔ وہ بیٹنگ کر رہا تھا۔ میں نے بال پھینکی تو اس نے زور کا شاٹ لگایا اور بال بہت دُور چلی گئی۔ اس کے بعد ہم دونوں بال ڈھونڈتے رہے مگر ملی نہیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ مجھے کہنےلگا کہ تم نے بال ہی ایسی کرائی تھی کہ میں یہ شاٹ کھیلنے پر مجبور ہو گیا، اس لیے بال کا گم جانا تمہارے ذمے ہے اور تم مجھے نئی بال خرید کر دو۔

زین واقعہ سنا رہا تھا اور غصہ سےمزید لال ہو رہا تھا۔ احمد بھی بڑی دلچسپی اور حیرانی سے پورا واقعہ سن رہا تھا۔

اب بھلا بتاؤ! زین کہنے لگا۔ کیا یہ کوئی عقل کی بات ہے۔ شاٹ اس نے ماری، اس میں میری ذمہ داری کیسے ہوگئی؟ میں تو کسی صورت اس کو نیا بال نہیں خرید کر دوں گا۔میں نے بھی آگے سے اس کو ایسی باتیں سنائی ہیں جو اس نے پہلے کبھی نہ سنی ہوں گی۔ آئندہ کبھی ایسا نا معقول مطالبہ نہیں کرے گا۔

احمد نے جو اب تک بڑے غور سے زین کی باتیں سن رہا تھا، جب یہ سنا کہ زین نے محسن سے بات کرتے ہوئے نازیبا الفاظ استعمال کیے ہیں تواس نے اپنے رخ کو دوسری طرف پھیر لیا مگر خاموش رہااور کچھ نہ بولا۔ زین کو احمد کا رخ پھیرنا اچھا نہ لگا مگر اس نے اپنی بات مکمل کی اور پھر احمد کو ہی کوسنے لگا: تم تو اپنے آپ کو میرا دوست کہتے ہو۔ پھر کچھ بولتے کیوں نہیں؟ یہ کیسی دوستی ہے تمہاری کہ ایک اور لڑکا تمہارے دوست کے ساتھ ایسی بات کرے اور تمہیں محسوس تک نہ ہو۔

زین اس کے بعد بھی کافی بولتا رہا مگر جب اس نے دیکھا کہ احمد اس کی ہر بات خاموشی سے سن تو رہا ہے مگر کوئی جواب نہیں دے رہا تو آخر میں صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ کچھ تو کہو۔ آج کی لڑائی میں آخر میرا کیا قصور ہے؟

احمد اب پہلی مرتبہ بولا۔ اس کے لہجے میں سختی نہ تھی بلکہ انتہائی دھیمی مگر پختہ آواز میں کہنے لگا: میرے دوست! مجھے تکلیف تو بہت ہوئی ہے اور تم نے سچ کہا ہے کہ محسن کا مطالبہ بھی بہت ہی نامعقول تھا۔ مگر اس سے زیادہ مجھے یہ تکلیف ہوئی کہ تم نے اس کو گالی دی۔ زین جھٹ سے بولا :مگر اس نے غلط بات کہی تھی۔ غلط بات پر تو غصہ جائز ہے۔

احمد نے انتہائی تحمل سے جواب دیا :گالیاں دینے والے یہی کہا کرتے ہیں کہ ’غلط بات پر ہی تو گالی دی تھی‘ مگر دوسرے کا غلط فعل ہمیں بھی غلط فعل کی اجازت تو نہیں دیتا۔ تم نے درست کہا ہے کہ اس نے عجیب مطالبہ کیا۔ اگر تم اس سے سختی سے پیش آنے کی بجائے نرم اور پاک زبان سے بات کرتے تو شاید وہ تمہاری بات سنتا اور تمہیں بتاتا کہ آخر وہ ایسی بات کیوں کر رہا ہے؟مگر تم نے آگے سے نامناسب الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیے۔ اگر تم صحیح بھی تھے تو اپنے دوسرے عمل سے اپنے آپ کو غلط بنا لیا۔

احمد یہ ساری باتیں اتنے پیارےاور نرم لہجے میں کر رہا تھا کہ زین نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے سامنے مزیدغصہ کا اظہار نہ کر سکا اور بالآخر اس کا غصہ جانے لگا اور وہ احمد کی باتوں کو غور سے سننے لگا اور آہستہ آہستہ شرمندہ بھی ہوگیا۔

جب احمد نے اپنی بات مکمل کر لی تو زین نے کہا:اچھا پھر اب کیا کریں؟

احمد بولا کہ آؤ ہم محسن کے پاس چلتے ہیں۔

وہ دونوں جب محسن کےپاس پہنچے تو وہ اپنے گھر کے باہر گیٹ کے پاس ہی بیٹھا رو رہا تھا۔ وہ اس کو دیکھ کر بھاگتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کیا ہوا ؟محسن نے جب زین کو دیکھا تو فوراً کہنے لگا: کیا اب مزیدباتیں سنا کر میرا دل دکھانے آئے ہو؟

اس پر زین شرمندگی سے کہنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔ تمہارا مطالبہ مجھے بہت عجیب معلوم ہوا تھا اور میں نے غصہ میں بہت کچھ کہہ دیا۔ مجھے معاف کر دو میرے دوست۔ احمد نے مجھے سمجھایا ہے کہ میں نے غلطی کی ہے اور میں تم سے یہاں معافی مانگنے ہی آیا ہوں۔

اس پر محسن کہنے لگا کہ اگر تمہیں احساس ہے تو ٹھیک ہےمگر آئندہ احتیاط کرنا۔ زین بھی کہنے لگا کہ ہاں میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی گالی نہیں دوں گا اور نہ ہی اپنی زبان سے کسی کا دل دکھاؤں گا۔

محسن یہ بات سن کر خوش تو تھا مگر ابھی بھی کچھ بے چین لگ رہاتھا۔ احمد ہوشیار تھا۔وہ فوراً اس کی کیفیت کو سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ محسن اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ بال گم جانے پر تم اتنے پریشان کیوں ہو گئے تھے؟ تب محسن کہنے لگا کہ اصل میں ابا نے جب مجھے نئی بال لا کر دی تو ساتھ کہا تھا کہ بال پہلے ہی دن نہ گما دینا میں بہت مہنگا بال تمہارے لیے لے کر آیا ہوں۔ جب بال گم گئی تو مجھے بہت ڈر لگا کہ ابا مجھ سے ناراض ہوں گے اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے کہ میں نیا بال خریدوں اس لیے میں نے پریشانی میں زین کو کہہ دیا کہ تمہاری غلطی ہے تم مجھے نیا بال لا کر دو۔

احمد جو ان تینوں میں سب سے سمجھ دار تھا کہنے لگا کہ دیکھو محسن !جہاں زین نے غلطی کی وہاں تم نے بھی تو غلطی کی۔ اگر پریشانی تھی تو ہم تمہارے دوست ہیں تم ہم سے بات کرتے۔ محسن سمجھ گیا اور معافی مانگنے لگا۔ اس پر احمد نے اور زین دونوں نے اپنی جیب سے کچھ پیسے نکالے او ر محسن کو دیے اور کہنے لگے کہ آؤ! ہم تمہارا نیا بال خرید لائیں۔ محسن خوشی سے ان دونوں کے گلے لگ گیا۔ وہ تینوں دکان کی طرف روانہ ہوئےاور احمد نے ان کو سمجھایا کہ دیکھو اگر نرم اور پاک زبان کا استعمال کیا جائے اور پیار اور محبت سے لوگوں سے بات کی جائے تو ہر قسم کی لڑائی سے بچا جاسکتا ہے۔ (م ط بشیر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button