ہنسنامنع ہے!
بھاری پتھر
ایک شخص کو مذاق کرنے کی بہت عادت تھی۔ ایک دفعہ اس نے اپنے ایک دوست کو امریکہ خط بھیجا۔ جس میں صرف یہ تحریر تھا میں خیریت سے ہوں۔ چند روز بعد امریکہ سے ایک بھاری پارسل موصول ہوا۔ جسے چھڑانے کے لیے اسے کافی پیسے ادا کرنے پڑے۔ پارسل کھولا تو اس میں ایک بڑا پتھر نکلا۔جس پر ایک چٹ لگی تھی۔ آپ کی خیریت کی اطلاع پا کر دل سے فکر کا یہ بھاری پتھر اتر گیا۔
بال
سلیم (اپنے دوست کلیم سے) میرے بھائی کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
کلیم: کیوں کیا وہ رستم زماں ہے؟
سلیم : نہیں، وہ گنجے ہیں۔
کیک
ماں (بچے سے) گڈو! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا، کہاں گیا؟
گڈو: مما! مجھے ڈر تھا کہ کہیں بلی نہ کھا جائے، اس لیے میں کھا گیا۔
بال کٹو ا لیں
کرایہ دار ( مالک مکان سے ) خدا کے لیے اس سال تو کھڑکیوں میں پٹ لگوا دیجیے، میں کمرے میں بیٹھتا ہوں تو تیز ہوا سے بال بکھر جاتے ہیں۔
مالک مکان (کرائے دار کے دیے ہوئے کرائے میں سے دس روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بولا): میرا اتنا خرچہ کرانے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ کسی حجام سے اپنے بال کٹوا لیں۔
بار ش اور کیچڑ
استاد (کمرۂ جماعت میں) پیارے بچو! تمام انسان مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔
ایک بچہ (معصومیت سے) استاد جی! توپھر انسان بارش میں کیچڑ کیوں نہیں بن جاتے۔
شیشے کی قیمت
گاہک (دکان دار سے) اس شیشے کی کیا قیمت ہے؟
دکان دار:صرف ایک ہزار روپے
گاہک: اتنا مہنگا کیوں، اس میں کیا خاص بات ہے؟
دکان دار: اسے اگر 100ویں منزل سے نیچے گرایا جائے تو یہ 99ویں منزل تک نہیں ٹوٹے گا۔
گاہک: واہ، واہ! جلدی سے پیک کر دو اسے۔
شوربہ
ہوٹل میں کھانا کھانے کے دوران ایک آدمی نے ویٹر سے شکایت کرتے ہوئے کہا: دیکھومیرے شوربے میں مکھی تیر رہی ہے۔
ویٹر اطمینان سے بولا: گھبرائیے نہیں جناب ! یہ زیادہ شوربہ نہیں پیئے گی۔