ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۷۴)
طبعاً یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ وجودی پیدا کہاں سے ہوئے۔ قرآن شریف اور اسلام میں تو ان کا پتہ نہیں ملتا مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو صرف دھوکا لگا ہوا ہے۔جو راستباز اکابر گذرے ہیں وہ اصل میں فنائے نظری کے قائل تھے۔اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان ہر ایک فعل اور حرکت اور سکون میں توجہ اﷲ کی طرف رکھے اور اس قدر فانی اس میں ہو کہ گویا اور کسی شئے کی قدرت اور حرکت بذاتہ اُسے نظر نہ آوے۔ہر ایک شئے کو فانی جان لے اور اس قدر تصرف الٰہی اُسے نظر آوے کہ بلا ارادۂ الٰہی کے اور کچھ نہیں ہو رہا۔اسی مسئلہ میں غلطی واقع ہو کر آخر فنا وجودی تک نوبت آگئی اور یہ کہنے لگے کہ سوائے خدا کے اور کوئی شئے نہیں ہے۔اپنے آپ کو بھی خد اماننے لگے۔اس خیال سے یہ مذہب پھیلا ہے کہ فناء نظری کے شوق میں اولیاء اﷲ سے کچھ ایسے کلمات نکلے ہیں کہ جن کی اُلٹی تاویل کرکے یہ وجودی فرقہ بن گیا ہے۔فناء نظری تک انسان کا حق ہے کہ محبوب میں اور اپنے آپ میں کوئی جدائی نہ سمجھے اور ؎
من تُو شُدم تُو من شُدی۔ من تن شُدم تُو جاں شُدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
کا مصداق ہو۔کیونکہ محب اور محبوب کا علاقہ فنائِ نظری کا تقاضا کرتا ہے اور ہر ایک سالک کی راہ میں ہے کہ وہ محبوب کے وجود کو اپنا وجود جانتا ہےلیکن فنائِ وجودی ایک من گھڑت بات ہے جسے ذوق شوق، محبت، صدق اور وفا اور اعمالِ صالحہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔فنائِ نظری کی مثال وہی ہے جو ماں اور بچے کی ہے کہ اگر کوئی بچے کو مکی مارے تو درد ماں کو ہوتاہے۔سخت تعلق جو محبت کا ہے یہ اس سے بھی دردناک ہے اور یہ ایک سچی اور حقیقی محبت ہوتی ہے لیکن وجودی کا مدّعا جھوٹا ہے۔یہ وہ کرے جو خدا تعالیٰ پر محیط ہو۔وجودی چونکہ ترکِ ادب کا طریق اختیار کرتا ہے۔اس لیے طاعت،محبت، عبادتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 92-93،ایڈیشن 1984ء)
تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں امیر خسرودہلوی کایہ شعر آیاہے۔
مَنْ تُوْشُدَمْ تُومَنْ شُدِیْ، مَنْ تَنْ شُدَمْ تُوجَاں شُدِیْ
تَاکَسْ نَگُوْیَدْ بَعْد اَزِیْں مَنْ دِیْگَرَمْ تُودِیْگَرِیْ
ترجمہ:میں تو بن گیا تو میں بن گیا،میں تن بنا تو جاں بن گیا، تا بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اور ہوں اور تو کوئی اور ہے۔