ہمیشہ یتیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بھی یتیموں کی خبرگیری کی طرف بہت توجہ دیتے تھے اور دارالیتامیٰ میں اتنے یتیم تھے، دارالشیوخ کہلاتا تھا توان کے بارہ میں روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ بخار میں آرام فرما رہے تھے اور شدید بخار تھا۔ نقاہت تھی،کمزور ی تھی۔ کارکن نے آ کر کہا کہ کھانے کے لئے جنس کی کمی ہے اور کہیں سے انتظام نہیں ہو رہا۔ لڑکوں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا فوراً تانگہ لے کر آؤ اور تانگے میں بیٹھ کر مخیر حضرات کے گھروں میں گئے اور جنس اکٹھی کی اور پھر ان بچوں کے کھانے کا انتظام ہوا۔ تو یہ جذبے تھے ہمارے بزرگوں کے کہ بخار کی حالت میں بھی اپنے آرام کو قربان کیا اور یتیم بچوں کی خاطر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اور یہ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ آپ کو تو اپنے آقاﷺ کی یہ خوشخبری نظروں کے سامنے تھی کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا اس طرح جنت میں ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں ہوتی ہیں۔ شہادت کی اور درمیانی انگلی آپ نے اکٹھی کی۔ تو یہ نمونے تھے ہمارے بزرگوں کے۔
(خطبہ جمعہ ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍دسمبر ۲۰۰۳ء)
میرے پر یہ تاثر ہے خدا کرے کہ یہ تاثر صحیح ہو کہ یہاں اس ملک(غانا)میں عموماً اپنے بہن بھائیوں اور یتیم بچوں کی اچھی نگہداشت کی جاتی ہے۔ اللہ کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں ان تمام مومنوں کے حق میں پوری ہوں جو یتیموں سے احسان کا سلوک کرتے ہیں۔ اور کسی احمدی کا گھر یہ حق ادا نہ کرکے کبھی بدترین گھر کے زمرے میں نہ آئے۔ اللہ کرے کہ یتیموں کی پرورش کا اعلیٰ خلق ہر احمدی گھرانے میں تمام دنیا میں قائم ہو جائے، کبھی یہ نہ ہو کہ احسان کرکے پھر احسان جتانے والے بھی پیدا ہو جائیں بلکہ اس محاورے پر عمل کرنے والے ہوں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ یعنی پھر بھول جاؤ کہ کوئی نیکی کی بھی تھی۔
پھر یتیم بچوں سے حسن سلوک کرنے والوں کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور خوشخبری بھی دی ہے۔ حضرت ابوامامہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یتیم بچے یا بچی کے سر پر محض اللہ کی خاطر دست شفقت پھیرا اس کے لئے ہر بال کے اوپر جس پر اس کا مشفق ہاتھ پھرے نیکیاں شمار ہوں گی۔ اور جس شخص نے اپنے زیر کفالت یتیم بچے یا بچی سے احسان کا معاملہ کیا وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے(آپؐ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر دکھایا)۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۲۵۰۔ بیروت)
(خطبہ جمعہ ۱۹؍مارچ ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍اپریل ۲۰۰۴ء)
دوسری جگہ یتیموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَلۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَلۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا(النساء:10) یعنی اور جو لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ اپنی کمزور اولاد چھوڑ گئے تو ان کا کیا بنے گا، ان کو اللہ کے ڈر سے کا م لینا چاہئے اور چاہئے کہ وہ صاف اور سیدھی بات کریں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زندگی اور موت کا تو کسی کونہیں پتہ، اس لئے اللہ کا خوف رکھتے ہوئے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کی جزا دیتا ہے تم یتیموں کا خیال رکھو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کو بھی ہر قسم کے ہم و غم سے محفوظ رکھے۔
پس ہمیشہ یتیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور خاص طور پر جو دین کی خاطر جان قربان کرتے ہیں ان کا تو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے تاکہ ان کے بچوں کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔
(خطبہ جمعہ ۱۶؍نومبر ۲۰۰۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍دسمبر ۲۰۰۷ء)