مکتوب

مکتوب افریقہ(جولائی و اگست ۲۰۲۴ء)

(بر اعظم افریقہ کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)

کینیا میں حکومت مخالف تحریک

جون ۲۰۲٤ء میں کینیا حکومت کی طرف سے متنازعہ فنانس بل کے خلاف نوجوانوں نے احتجاج شروع کیا۔ بعدازاں مظاہرین نےاپنے مطالبات کو وسیع کرتے ہوئے حکومت سے عدم مساوات، بدعنوانی اور اشرافیہ کی سیاست سے نمٹنے کا مطالبہ کیا۔ مشتعل مظاہرین نے ۲٥؍جون کو نیروبی میں کینیا پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔ گورنر کے دفتر کو آگ لگا دی۔ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے براہ راست گولیاں برسائیں جس سے درجنوں لوگ مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ جولائی میں یہ تحریک نیروبی سے نکل کر سارےملک میں پھیل گئی۔ مظاہرین کی طرف سے صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس پر صدر ولیم روٹو نے اعلان کیا کہ وہ ۲۰۲٤ء کے فنانس بل پر دستخط نہیں کریں گے، جس میں روٹی، ڈائپرز اور اسمارٹ فونز پر نئے ٹیکس شامل تھے نیز سرکاری عہدیداروں کی مراعات اور درجنوں بے کار ریاستی اداروں پر اخراجات کم کرنے کا عزم کیا۔صدر نے متعدد حکومتی وزراء کو بھی برطرف کیا۔ ۱۸؍جون سے ۱۲؍جولائی کے درمیان فسادات کے ۹۷؍واقعات ہوئے، جن میں سپر مارکیٹ، ریستوران اور دکانوں پر حملے بھی شامل ہیں۔ مختلف واقعات میں ۸۲؍افراد کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔

سیرا لیون میں کم عمری میں شادی پر پابندی

۲؍جولائی ۲۰۲٤ء کو سیرا لیون کے صدر نے کم عمر بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون پر دستخط کر دیے۔ قانون کے مطابق شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال ہے اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۰۷ء کے چائلڈ رائٹس ایکٹ کے تحت شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کی گئی تھی لیکن رواجی شادی اور طلاق ایکٹ (۲۰۰۹ء) نے والدین کی رضامندی سے کم عمری کی شادی کی اجازت دی تھی تاہم اب یہ اجازت منسوخ کر دی گئی ہے۔ نئے قانون کے مطابق کم عمری میں شادی کرنے والے لڑکے،بچوں کے والدین اور شادی میں شرکت کرنے والے افراد کو پندرہ سال تک کی قید یا چار ہزار ڈالرز تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔نیز نابالغ کے ساتھ صحبت یا کسی بچے کی شادی میں مدد اور حوصلہ افزائی کرنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق نئی قانون سازی سے لڑکیوں کو بہتر طور پر تحفظ فراہم ہوگا۔

ایسے معاملات میں جہاں اس نئے قانون کے نافذ ہونے سے پہلے کسی نابالغ کی شادی ہوئی ہو، وہ فریق جو شادی کے وقت نابالغ تھا اسےبھی شادی کی منسوخی کے لیے درخواست دائر کرنے کی اجازت ہے۔ نکاح کی تنسیخ کی صورت میں دوران نکاح پیدا ہونے والے بچے کی قانونی حیثیت متاثر نہیں ہو گی۔ ملک میں مروجہ طریق کے مطابق لڑکیوں کی بڑی تعداد کی شادی اٹھارہ سال سے پہلے کردی جاتی ہے۔

افریقہ میں مونکی پاکس کے متاثرین میں اضافہ

افریقہ میں Mpox کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔کانگو، نائیجیریا،برونڈی،کینیا،روانڈا، یوگنڈا، آئیوری کوسٹ وغیرہ میں کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اگست کے آخری ہفتے میں تقریباً چارہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ افریقہ میں بیماریوں کے کنٹرول کے مراکز کے سربراہ ڈاکٹر جین کیسیا نے بریفنگ میں بتایا کہ ابھی تک افریقہ میں منکی پاکس کے کُل کیسز اور اموات بالترتیب ۲۲؍ہزار۸٦۳؍اور ٦۲۲؍ہو گئی ہیں۔ متاثرہ ممالک میں کانگو سرفہرست ہے۔یورپی یونین اور امریکہ نے کانگو کے لیے ویکسین کی تقریباً تین لاکھ ۸۰؍ہزارخوراکوں کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن یہ ضرورت کا محض پندرہ فیصد ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ کانگو میں مونکی پاکس کے پھیلاؤ کو ختم کرنا ضروری ہے، جو اس وقت عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال کا مرکز ہے۔ ۲۰۲۲ء میں بیماری کے افریقہ سے باہر پھیلاؤ کےوقت امیر ممالک نے بہت تیزی سے علاج اور ویکسین فراہم کی تھی تاہم اس بار ویسی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ ڈاکٹر جین کیسیاکے مطابق ویکسین کی پہلی کھیپ یکم ستمبر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جس میں امریکہ کی طرف سے پچاس ہزار خوراکیں اور GAVIکی طرف سے پندرہ ہزار خوراکیں شامل ہوں گی۔کانگو نے جاپان سے ویکسین کی کم از کم دو ملین خوراکوں کی بھی درخواست کی ہے۔ نائیجیریا میں مونکی پوکس (Mpox) کے کیسز کی تعداد ٤۸؍تک پہنچ گئی ہے۔ ابھی تک یہ وائرس ابوجا اور ۲۰؍دیگر ریاستوں میں پایا گیا ہے۔ NCDC کے مطابق بڑھتے ہوئے کیسز کے باوجود کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔ نائیجیریا کو اگست کے آخر میں امریکہ سے ویکسین کی دس ہزارخوراکیں موصول ہوئیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کو مزید روکنے کے لیے بین الاقوامی مسافروں کے لیے ہیلتھ ڈیکلریشن فارم متعارف کرایا گیا ہے۔ جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وبا سے نمٹنے میں مدد کے لیے اپنے فوجی ذخائر سے ایم پی اوکس ویکسین کی ایک لاکھ خوراکیں عطیہ کرے گا۔ نیز اپنے افریقی شراکت داروں کی مدد کے لیے عالمی ادارہ صحت کی مالی معاونت بھی کرے گا۔ مونکی پاکس وائرس (MPXV) کی وجہ سے پھیلتی ہے، جو جسمانی تعلق یا محض چھونے سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ بیماری کی علامات عام طور پر پانچ سے اکیس دن بعد ظاہر ہوتی ہیں، بشمول بخار، جسم میں درد، اعضا میں سوجن اور جلد کے زخم وغیرہ۔ شدید صورتوں میں، چہرے، سینے، ہاتھوں اور نازک اعضاء پر دردناک زخم اور چھالے بن سکتے ہیں۔ بیماری کی صورت میں اینٹی وائرل ادویات مدد دیتی ہیں۔

مشرقی،وسطیٰ اور مغربی افریقی ممالک میں سیلاب اور شدید بارشوں سے تباہی

مشرقی افریقہ میں سوڈان گذشتہ دو ماہ سے شدید بارشوں سے نبردآزما ہے جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر سیلاب آچکا ہے۔ جون سے اگست کے درمیان ہونے والی شدید بارشوں سے سوڈان میں سیلاب کے ساٹھ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سینکڑوں کی تعداد میں افراد اور مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہزاروں گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ اگست کے آخری عشرہ میں تباہ کن بارشو ں اور سیلاب کے نتیجہ میں سوڈان کی بحیرہ احمر کی ریاست میں اربعات ڈیم ٹوٹ گیا جس سے کم از کم تیس افراد ہلاک اور ٦٤؍لاپتہ ہوئے۔ ڈیم کے قریب رہنے والے پچاس ہزار افراد شدید متاثر ہوئے۔بارشوں کے نتیجے میں کئی مرکزی شاہراہیں ختم ہو گئی ہیں۔ طوفانی بارشوں سے شہروں میں اور دریا ئی پانی میں اضافے سے بھی سیلاب کا امکان زیادہ ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت میں موجود انسانی بحران سیلاب سے شدید ہوتا جا رہا ہے۔

وسطی اور مغربی افریقہ کے متعدد ممالک بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم برسات میں غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال کا شکار ہوئے۔ان میں چاڈ، آئیوری کوسٹ، عوامی جمہوریہ کانگو، لائبیریا، نائیجر، نائیجیریا، مالی اور ٹوگو شامل ہیں۔

بارشوںسے نائیجیریا کی چھتیس میں سے انتیس ریاستیں متاثر ہوئی ہیں۔اگست میں ہونے والی بارشوں کے نتیجہ میں شمالی نائیجیریا کی ریاست Adamawa کے گیارہ گاؤں میں دس ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے۔ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر،کھیتی باڑی اور گھروں کو نقصان پہنچا۔ کم از کم چھ افراد کی موت واقع ہوئی۔ حکومت دریائے بینو کے نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کو نقل مکانی کیمپوں میں منتقل کر رہی ہے۔

نائیجر میں اس سال شدید بارشیں ہوئیں جس سے سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔اگست میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے نتیجہ میں ہلاکتوں کی تعداد ۲٦٥؍تک پہنچ گئی ہے۔ چھ لاکھ سے زائد افراد اور ہزاروں کی تعداد میں گھر متاثر ہوئے ہیں۔ ماہ ستمبر میں بھی جنوبی نائیجر میں معمول سے بہت زیادہ بارشیں متوقع ہیں۔مالی میں بھی بارشوں کے بعد حکومت نے ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہے۔عالمی اداروں کے مطابق مغربی افریقہ(مالی، نائیجر، نائیجیریا) میں امسال دس لاکھ کے قریب لوگ بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں۔

ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان کشیدگی میں کمی

صومالیہ کے ایک حصہ پر علیحدگی پسندوں نے ’’صومالی لینڈ‘‘کے نام سے الگ ملک قائم کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے جسے تا حال کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔چند ماہ قبل ایتھوپیا نے صومالی لینڈ کی بندر گاہ استعمال کرنے کے لیے ایک مفاہمت پر دستخط کیے ہیں۔جسے صومالیہ نے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا تھا اور معاہدہ کی صورت میں جنگ کا اعلان کیا۔ متنازعہ معاہدے کے تحت، صومالی لینڈ اپنی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ایتھوپیا کو ۲۰؍کلومیٹر (۱۲؍میل) زمین لیز پر دے گا تاکہ میرین فورس بیس قائم کی جا سکے۔بدلے میں، ایتھوپیا صومالی لینڈ کی آزادی کو تسلیم کرے گا۔ ایتھوپیا کو تجارتی مقاصد کے لیے بندر گاہ کی اشد ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کے لیے جولائی میں ترکی کے وزیر خارجہ نے ایتھوپیا اور صومالیہ کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس تنازعہ کا پائیدار اور قابل عمل حل ممکن ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق وہ ایک ایسا انتظام چاہتے ہیں کہ جوصومالیہ کے راستے ایتھوپیا کی سمندری رسائی کو یقینی بنائے گا۔ بدلے میں، ایتھوپیا صومالیہ کی علاقائی سالمیت اور سیاسی خودمختاری کو تسلیم کرے گا۔

مشرقی کانگو میں پُر تشدد واقعات میں اضافہ،
بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی،
ہمسایہ ممالک سے کشیدگی

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (DRC) کا مشرقی علاقہ عرصہ تیس سال سے تنازعات کا شکار ہے۔ سونے اور معدنیات کی دولت سے مالا مال یہ علاقہ باہمی لڑائی اور تشدد کی بنا پر انتہائی پسماندہ ہے۔دسمبر۲۰۲۳ء میں ہونے والے متنازعہ انتخابات کے بعد مشرقی کانگو میں ایک بار پھر پُر تشدد جھڑپیں شروع ہو گئیں جس میں متعدد شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔تشدد پسند تنظیموں میں سب سے نمایاں M23 نامی گروپ ہے۔کانگو الزام عائد کرتا ہے کہ روانڈا اور یوگنڈا کی حکومتیں اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ دوسرا گروپ الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز (ADF) ہیں جو ISIS سے منسلک شدت پسند گروپ ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد غیر ریاستی مسلح گروپ خطے میں سرگرم ہیں۔ فروری ۲۰۲٤ء کے بعد جھڑپوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ مارچ ۲۰۲٤ء میں، اقوام متحدہ نے رپورٹ کیا کہ کانگو کے مشرقی حصہ میں بد امنی سے کانگو میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد ۷.۲ ملین تک پہنچ گئی ہے۔ خاص طور پر شمالی کیوو، اٹوری، اور جنوبی کیوو صوبے متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کانگو کے ۲۳.٤؍ملین باشندے خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ کانگو کی طرف سے روانڈاپر دہشتگردوں کی معاونت کرنے کے الزام کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی کافی بڑھ گئی۔ تاہم انگولا نے مداخلت کرتے ہوئے کانگو اور روانڈا کے وزرائے خارجہ سے مل کر جولائی اور اگست میں جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ معاہدے کے بعد اگرچہ پرتشدد واقعات میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی لڑائی جاری ہے۔اقوام متحدہ کاامن قائم رکھنے کا ادارہ بھی اس جنگ بندی کے سلسلہ میں معاونت کر رہا ہے۔

افریقہ میں ترکی کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ

ترکی کی جانب سے افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن دو دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور اس عرصے میں بر اعظم افریقہ میں ترکی کے سفارت خانوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔حا ل ہی میں متعدد افریقی ممالک اور مغربی ممالک کے درمیان دوریاں بھی بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔ اس تناظر میں ترکی اپنے آپ کو مغرب کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

ترکی نے صومالیہ، لیبیا، کینیا اور کئی دیگر افریقی ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ ترکی افریقہ میں توانائی کے شعبے میں بھی دلچسپی لیتا نظر آتا ہے اور اس حوالے سے صومالیہ میں تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے ایک منصوبہ ستمبر یا اکتوبر میں شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ترکی اسی طرح کے ایک منصوبے پر لیبیا میں بھی کام کر رہا ہے۔ ترک امور کے ایک فرانسیسی ماہر کے مطابق تعمیرات اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں ترکی ایک ’’قابل اعتماد پارٹنر‘‘کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں ترک کمپنیاں انفراسٹرکچر کے شعبے میں افریقہ میں متعدد ایسے منصوبوں سے منسلک تھیں جن کی مجموعی لاگت ۸٥.٥؍بلین ڈالر بنتی تھی۔علاوہ ازیں ترکی کی قومی فضائی کمپنی ٹرکش ایئر لائنز افریقہ کے مختلف ممالک میں ٦۲؍شہروں تک پروازیں چلاتی ہے۔افریقہ میں ترکی کا اثرو رسوخ بڑھنے کی ایک وجہ انقرہ اور کئی افریقی ممالک کا اسلام کی وجہ سے مشترکہ مذہبی پس منظر بھی ہے۔ترکی کی مذہبی تنظیم ٹرکش معارف فاؤنڈیشن اس وقت افریقہ میں ۱٤۰؍تعلیمی ادارے چلا رہی ہے، جن میں مجموعی طور پر ۱۷؍ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اور ٦۰؍ہزار افریقی طلبہ ترکی میں بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ترکی میں مذہبی امور کے حکومتی ادارے کی جانب سے افریقہ میں فلاحی سرگرمیوں اور مساجد اور مذہبی تعلیم کے لیے تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

(شہود آصف۔ استاد جامعہ احمدیہ گھانا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button