اِسراف سے بچو(قسط دوم۔ آخری)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۷؍جنوری۱۹۱۶ء)
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسراف نہ کرو۔ اس لیے اسراف کرنا اور اسراف کرنے والے کی مدد کرنا دونوں گناہ ہیں۔ مثلاً جیسا شراب پینے والا گناہ گار ہے ایسا ہی پلانے والا بھی گناہ گار ہے
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍ ستمبر ۲۰۲۴ء]
غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عبادالرحمٰن وہ ہوتے ہیں جو اپنے مالوں میں اسراف نہ کرتے ہوں۔ وہ اپنے مالوں کو ریا اور دکھاوے کے لئے خرچ نہ کرتے ہوں بلکہ فائدہ اور نفع کے لئے صَرف کرتے ہوں۔ پھر اپنے مالوں کو ایسی جگہ دینے سے نہ روکیں جہاں دینا ضروری ہو اور ان کا قوام ہو یعنی درمیانی ہو۔ نہ اپنے مالوں کو اِس طرح لٹائیںجواللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت نہ ہو اور نہ اِس طرح روکیں کہ جائز حقوق کو بھی ادا نہ کریں۔ یہ دو شرطیں عبادالرحمٰن کے لئے مال خرچ کرنے کے متعلق ہیںلیکن بہت لوگ ہیں جو یا تو اسراف کی طرف چلے جاتے ہیں یا بخل کی طرف۔
اِسراف کی مرض اِس زمانہ میں بہت بڑھی ہوئی ہے۔
بخل کی مرض بھی ہے مگر یہ مسلمانوں میں کم ہے اور آجکل تو مسلمان کی تعریف اور علامت ہی یہی مقرر کی گئی ہے کہ جو کچھ اس کے پاس آتا ہو کھا پی جائے اور جس قدر مال اُس کے پاس ہو سب خرچ کر دے۔ بخل ہنود کی طرف منسوب کیا جاتا ہے مگر مسلمان وہی سمجھا جاتا ہے جو دین و دنیا کے لئے کچھ نہ بچائے اور سب کچھ کھا جائے لیکن کیا اُلٹ بات ہے۔ ادھر
قرآن کریم تو کہتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو اسراف نہ کرے مگر آجکل مسلمان وہ سمجھا جاتا ہے
جو سب کچھ بیچ کر کھا جائے جتنا کوئی زیادہ اسراف کرے اتنا ہی ولی اللہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو کبھی اسراف نہیں کرتا۔ مگر اِس زمانہ میں بہت لوگ ایسے ہیں کہ جتنی ان کی آمدنی نہیں ہوتی اس سے زیادہ خرچ کر دیتے ہیں اور بہت ایسے ہیں کہ جب ان کوکہا جائے کہ تم اپنی بیوی بچوں کو کیوں خرچ نہیں دیتے تو کہہ دیتے ہیں کہ تنخواہ تھوڑی ہے ہم شریف آدمی ہیںاپنے اخراجات چلائیں یا ان کو دیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اسی کا نام شرافت ہے تو پندرہ کروڑتنخواہ والا بھی بیوی بچوں کے لئے کچھ نہیں بچا سکتا کیونکہ
یورپ نے عیش و عشرت کے سامان اس کثرت سے پیدا کردیئے ہیں کہ جس قدر بھی روپیہ ہو بہت جلدی صَرف ہوجاتا ہے
لیکن وہ لوگ جو بیوی بچوں کے لئے خرچ کرنے والے ہوتے ہیں وہ تو دس دس اور پندرہ پندرہ روپے کے ملازم ہو کر بھی کرتے ہیں اور جو نہیں کرنا چاہتے وہ سینکڑوں روپیہ کی آمدنی کے ہوتے ہوئے بھی نہیں کرتے اور دوسرے ہی فضول اخراجات میں روپیہ کو ضائع کر دیتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کو اپنے باپ کی بہت سی دولت مل گئی اُس نے اپنے دوستوں اور آشنائوں کو بلا کر پوچھا کہ مجھے دولت کو خرچ کرنے کا طریق بتائو۔ کسی نے کچھ بتایا، کسی نے کچھ۔ لیکن اُسے کوئی پسند نہ آیا۔ ایک دن وہ بازار سے گزر رہا تھا کہ بزاز کے کپڑے پھاڑنے کی اُسے آواز آئی جس کو اس نے بہت پسند کیا اور اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ
میرے سامنے کپڑے کے تھان لا کر پھاڑاکرو۔
اِس طرح اُس نے کپڑے پھڑوانے شروع کئے اور چرچر کی آواز سننے لگااور ہزار ہاروپیہ اس پر خرچ کر دیا۔تو خرچ کرنے کے لئے تو وہ بھی کہتا تھا کہ کپڑے کے پھٹنے کی بڑی مزیدار آواز ہے جو کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن کیا یہ بھی کوئی خرچ کرنا تھا۔ پس کسی مال کو ناجائز اور فضول طور پر خرچ کرناکوئی بھی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس کروڑوں کروڑ روپیہ بھی ہو تو وہ بھی سب کچھ خرچ کر کے کنگال اور نادار بن سکتا ہے اور ایسا اکثر دنیا میں ہوتا ہے۔
ہاں روپیہ کا جائز طور پر اور ٹھکانے پر خرچ کرنا مشکل ہے اور بہت مشکل ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول ہے کہ روپیہ کمانا آسان ہے مگر خرچ کرنا بہت مشکل ہے۔ واقعہ میں یہ بہت ہی سچا قول ہے۔ دنیا میں بہت لوگ ہیں جو بہت بہت روپیہ کماتے ہیں لیکن اُنہیں خرچ کرنا نہیں آتا اس لئے کنگال ہی رہتے ہیں۔ اور بہت ایسے ہیں جو کم کماتے ہیں مگر چونکہ اُنہیں خرچ کرنا آتا ہے اس لئے آسودہ رہتے ہیں۔
غرض مسلمانوں میں یہ ایک بہت بڑی مرض ہے
اور یہ مرض یہاں بھی بعض لوگوں میں ہے یہاں ایک شخص نے لڑکوں کے افسر کو کہا تھا کہ میرا لڑکا جو خرچ کرنے کے لئے مانگے اُسے دے دینا اور دکانداروں کو بھی کہہ گیا کہ کوئی چیز مانگے تو دے دینا۔ اس لڑکے نے بیس روپیہ کی ایک مہینہ میں فرنی وغیرہ ہی کھا لی۔ اِس قسم کے بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ لڑکے بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں۔ شاید دکاندار ایسے لڑکوں کے ساتھ یہ برادرانہ محبت سمجھ کر کرتے ہوں۔ مگر میں تو کہتا ہوں یہ برادران یوسف کاسلوک ہے وہ بھی اپنے بھائی کو بیچ کرکھا گئے تھے اور اس قسم کے لوگ بھی بیچ کر کھا جانا چاہتے ہیں اور کوئی محبت اور برادرانہ ہمدردی نہیں کرتے۔ برادرانہ سلوک تو یہ ہے کہ کھانے والوں کو مفت دیں اور ان سے کچھ نہ لیں۔ لیکن اس طرح کرنا کہ پہلے دیتے جانا اور پھر قیمت لینے کے لئے اس کے پیچھے پڑنا کوئی ہمدردی نہیں ہے۔گو بعض لوگ جو غریب ہیں اُنہیں اُدھار لینا پڑتا ہے اور انہیں دینا چاہئے لیکن ایسی صورت میں جبکہ ان کے گھر آٹا نہ ہو اور وہ فاقہ کشی کر رہے ہوں یا کپڑا نہ ہو اور سخت حاجتمند ہوںیا اور کوئی ایسی ہی ضروری بات ہو ایسا دیا ہوا قرض اگر کوئی ادا نہ کر سکے تو دوسرے ادا کرنے کی طرف توجہ کر سکتے ہیں۔ لیکن
اگر کوئی کسی کو مٹھائی کھلاوے اور پھر ایسے قرض کے لئے چارہ جُو ہو تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ اُس کا قرض ادا کرے۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسراف نہ کرو۔ اس لیے اسراف کرنا اور اسراف کرنے والے کی مدد کرنا دونوں گناہ ہیں۔ مثلاً جیسا شراب پینے والا گناہ گار ہے ایسا ہی پلانے والا بھی گناہ گار ہے۔جو دکاندار قرض پر مٹھائی دے کر دوسرے کو مسرف بناتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے خود مٹھائی کھلائی ہے۔ اس شخص نے مانگی میں نے دے دی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ
میں نے خنزیر خود نہیںکھایا بلکہ اَور کو کھلایا ہے تو کیا کھلانے والا بدتر نہیں ہوگا۔ ضرور ہو گا۔
میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں میں ابھی تک اسراف کی مرض چلی آتی ہے لیکن یہ لطف کی بات ہے اسراف کرنے والوں کا پتہ دیر سے معلوم ہوتا ہے مگر بخل کرنے والے پر بہت جلدی آواز ے کسے جاتے ہیں۔ اسراف کرنے والے کے ساتھی پہلے پہلے اسے کوئی ہدایت نہیں کرتے لیکن جب وہ تباہ ہو چکتا ہے تو وہ بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے احتیاط نہیںکی۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اب جو تم یہ کہتے ہو پہلے اس کے ساتھ کیوں شامل ہوتے تھے۔ ایسی باتوں پر بولنے کی مجھے تو عادت نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو عام طور پر کہہ دیا کرتے تھے لیکن میں انتظار کرتا ہوں اور کرنے والے کو کسی رنگ میں سمجھا دیتا ہوںپھر انتظار کرتا ہوں شاید بعض لوگ یہ جانتے ہوں کہ مجھے اُن کے حالات کا پتہ نہیں لیکن خدا کے فضل سے مجھے ان کی نسبت اِتنا پتہ ہوتا ہے اگر اُنہیں اِس کا پتہ ہو جائے تو حیران ہو جائیں۔
بہت لوگ ہیں جن کی عادتیں جتنی مجھے معلوم ہیں اُتنی اُنہیں خود بھی نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے معاملات میں خاموش رہا کرتے تھے یہی بات مجھے پسند آئی ہے اِس لئے میں اِسی کی پیروی کرتا ہوں۔
پس تم لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ خود اسراف سے بچو اور دوسروں کو بچائو۔ حضرت خلیفۃ المسیح ہمیشہ فرماتے تھے کہ ایسی چیزیں جن کاانسان محتاج نہیںمثلاً مٹھائی وغیرہ کسی کو قرض نہیں دینی چاہئے لیکن اب تک بعض لوگوں کو نصیحت نہیں حاصل ہوئی۔ اب میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہے جو مصیبت میں ہے تو اُسے قرض بے شک دو یہ اچھا کام ہے۔ مثلاً کوئی آٹے والا ہے یہ کسی غریب اور مفلس کو آٹا قرض دیتا ہے تو وہ قابل تعریف ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی کی مددکرتا ہے اسی طرح اگر کوئی کپڑے والا
کسی ایسے آدمی کو کپڑا قرض دیتا ہے جو کمانے والا ہے تو وہ قابل شکریہ ہے اس کا قرضہ اگر وہ ادا نہ سکے تو دوسروں کا فرض ہے کہ اُس کی جگہ ادا کردیں۔
اِسی طرح اگر کوئی اور ضروری چیز قرض دیتا ہے تو اچھا کرتا ہے۔ لیکن ایسی اشیاء جیسے مٹھائی اور دودھ ہے قرض دینا دوسرے کو اسراف کی عادت ڈالنا ہے۔ ایسا مت کرو کیونکہ اِس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ اور وہ جو اسراف کراتا اور دوسرے پر بوجھ لادتا ہے وہ بھی اچھا نہیںکرتا۔
خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اسراف اور بخل دونوں سے بچائے اور ان کے درمیانی راستہ پر چلنے کی توفیق دے۔اٰمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (الفضل ۲؍ فروری ۱۹۱۶ء)
٭…٭…٭