حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلام ہی اللہ تعالیٰ کی ستاری کا یہ تصورپیش کرتا ہے

اسلام ہی اللہ تعالیٰ کی ستاری کا یہ تصورپیش کرتا ہے جس کا اظہار اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ لیکن اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں لے لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ پردہ پوشی کو پسند فرمایا ہے اور بندے کو یہ کہہ کر بخش دیا کہ تمہاری میں نے اس دنیا میں بھی پردہ پوشی فرمائی تھی یہاں بھی پردہ پوشی کرتے ہوئے بخش دیتا ہوں تو اس بات سے ہم بے لگام ہو جائیں کہ بُرے اور بھلے کی تمیز نہ رہے کیونکہ بخشے تو جانا ہی ہے، کیا فرق پڑتا ہے۔ برائیاں بھی کر لیں اور گناہ بھی کرلیں۔ جو چاہے کرتے پھریں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ مومنوں پر اللہ تعالیٰ کے پردے اس قدر ہیں کہ وہ شمار سے باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو، مومن کو اس کی پردہ پوشی فرمانے کے لئے پردوں میں لپیٹا ہوا ہے۔ ایک مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے پردے ایک ایک کرکے پھٹتے جاتے ہیں یہاں تک کہ اگر وہ مستقل گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو لکھا ہے کہ کوئی پردہ بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو چھپاؤ تووہ اپنے پروں سے اسے گھیر لیتے ہیں۔ یہ دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح ستاری فرما رہا ہے۔ لیکن اگر انسان اللہ تعالیٰ کے سلوک پر اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش نہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ کیا سلوک فرماتا ہے۔ یہ ایک لمبی حدیث ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ فرشتوں کے اس بندے کو چھپانے کے بعد اگر وہ شخص توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس کے پردوں کوجو اُٹھ گئے تھے واپس لوٹا دیتا ہے بلکہ ہر پردے کے عوض مزیدنو(9) پردے عطا فرما دیتا ہے تاکہ اس کی بخشش کے سامان ہوتے رہیں۔ اس کی پردہ پوشی ہوتی رہے۔ لیکن اگر بندہ توبہ نہ کرے اور گناہوں میں ہی پڑا رہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم کس طرح اسے ڈھانپیں یہ تو اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ تو ہمیں بھی گندہ کررہا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کہے گا کہ اسے الگ چھوڑ دو اور پھر اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کے ہر عیب اور گناہ کو جو اس نے اندھیروں میں بھی کیا ہو ظاہر کر دیتا ہے۔ (کنز العمال کتاب الاخلاق قسم الاقوال تتبع العورات من الاکمال جلد 3 صفحہ 184 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)یعنی خداتعالیٰ کی پردہ پوشی نہیں رہتی۔ پس ہر مومن کو ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کرنے والا بنائے تاکہ ہمیشہ اس کی ستّاری سے حصہ پاتے رہیں۔

(خطبہ جمعہ ۲۷؍مارچ ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۷؍اپریل ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button