حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت عبداللہ بن جحشؓ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۳؍جنوری ۲۰۲۳ء)

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میںپہلے بیان ہو گا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو اَسد سے تھا اور قبیلہ کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ آپ بنی عبد شمس کے حلیف تھے جبکہ بعض کے نزدیک حَرْب بن اُمَیَّہ کے حلیف تھے۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ195 عَبْدُاللّٰہ بِنْ جَحَش،دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے قدو قامت کے بارے میںآتا ہے کہ نہ دراز قد تھے، نہ ہی پست قد تھے۔ آپ کے سر کے بال نہایت گھنے تھے۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 67ععَبْدُاللّٰہ بِنْ جَحَش، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

ایک مہم کے موقع پر آپ کو امیر مقرر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا وہ آپ کی سخت جانی، مستقل مزاجی اور بے خوفی کا اظہار کرتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہو گا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی امارت میں مکہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ کی طرف گئے۔(مسند احمد بن حنبل جلد1صفحہ 481-482مسند سعد بن ابی وقاص حدیث 1539 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر جزء 2صفحہ 365-366ذِكْرُ أَوَّلِ الْمَغَازِي وَهِيَ غَزْوَةُ الْأَبْوَاءِ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت1976ء )

اس مہم میں کامیابی کے بعد جو مالِ غنیمت ملا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سریہ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کے متعلق بعض کاخیال ہے کہ یہ پہلا مالِ غنیمت ہے جس کو مسلمانوں نے حاصل کیا۔

حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں منقسم کر کے بقیہ چار حصوں کو تقسیم کر دیا اور ایک کو بیت المال کے لیے رکھ لیا۔ یہ پہلا خُمس تھا جو اسلام میں اس دن مقرر ہوا۔(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 3صفحہ195 عَبْدُاللّٰہ بِنْ جَحَش، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

امام شعبی سے روایت ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جھنڈے کی ابتدا حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے کی۔ نیز سب سے پہلا مالِ غنیمت حضرت عبداللہ بن جحش ؓکا حاصل کیا ہوا تقسیم کیا گیا۔(حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء جلد1 صفحہ 108 عَبْدُاللّٰہ بِنْ جَحَش، دارالفکر بیروت 1996ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینؐ میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کُرز بن جابر یہ مکہ کا ایک رئیس تھا جس نے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل کے فاصلے پر تھی اچانک چھاپہ مارا۔ (یہ اَور مہم ہے) اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ ہانک کر لے گیا۔ اس کے اچانک حملے نے طبعا ًمسلمانوں کو بہت متوحش کردیا اور چونکہ رؤسائے قریش کی یہ دھمکی پہلے سے موجود تھی کہ ہم مدینہ پر حملہ آور ہوکر مسلمانوں کو تباہ وبرباد کر دیں گے، مسلمان سخت فکرمند ہوئے اورانہی خطرات کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کازیادہ قریب سے ہو کر علم حاصل کیا جاوے تاکہ اس کے متعلق ہرقسم کی ضروری اطلاع بروقت میّسر ہو جاوے اور مدینہ ہر قسم کے اچانک حملوں سے محفوظ رہے۔ (ہاں یہ جو پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ اسی مہم کے بارے میں آپ فرما رہے ہیں۔ ) پھر کہتے ہیں چنانچہ اس غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ مہاجرین کی ایک پارٹی تیار کی اورمصلحتاً اس پارٹی میں ایسے آدمیوں کو رکھا جوقریش کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے تاکہ قریش کے مخفی ارادوں کے متعلق خبر حاصل کرنے میں آسانی ہو اور اس پارٹی پرآپؐ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحشؓ کو مقرر فرمایا۔ اور اس خیال سے کہ اس پارٹی کی غرض وغایت عامة المسلمین سے بھی مخفی رہے آپؐ نے اس سریہ کو روانہ کرتے ہوئے اس سریہ کے امیر کوبھی یہ نہیں بتایا کہ تمہیں کہاں اورکس غرض سے بھیجا جارہا ہے بلکہ چلتے ہوئے اُس کے ہاتھ میں ایک سربمہر خط دے دیا اورفرمایا اس خط میں تمہارے لیے ہدایات درج ہیں۔ گو یہ حوالہ پہلے کچھ حد تک بیان ہو چکا ہے لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے حوالے سے نہیں بیان ہوا تھا۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ جب تم مدینہ سے دودن کا سفر طے کرلو تو پھر اس خط کوکھول کر اس کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کرنا۔ چنانچہ عبداللہ اوران کے ساتھی اپنے آقا ؐکے حکم کے ماتحت روانہ ہو گئے اور جب دو دن کا سفرطے کرچکے تو عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کھول کر دیکھا تو اس میں یہ الفاظ درج تھے کہ تم مکہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ میں جاؤ اوروہاں جا کر قریش کے حالات کاعلم لو اور پھر ہمیں اطلاع لاکر دو اور چونکہ مکہ سے اس قدر قریب ہوکر خبر رسانی کرنے کا کام بڑا نازک تھا۔

آپؐ نے خط کے نیچے یہ ہدایت بھی لکھ دی کہ اِس مشن کے معلوم ہونے کے بعد اگر تمہارا کوئی ساتھی اس پارٹی میں شامل رہنے سے متأمل ہو اور واپس چلا آنا چاہے تو اسے واپس آنے کی اجازت دے دو۔

عبداللہ نے آپؐ کی یہ ہدایت اپنے ساتھیوں کوسنا دی اورسب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم بخوشی اس خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ اس کے بعد یہ جماعت نخلہ کی طرف روانہ ہوئی۔ راستہ میں جب مقام بُحْرَان میں پہنچے تو سعد بن ابی وقاص اورعُتبہ بن غَزْوَان کا اونٹ کھو گیا اور وہ اس کی تلاش کرتے کرتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے اور باوجود بہت تلاش کے انہیں نہ مل سکے اوراب یہ پارٹی صرف چھ کس کی رہ گئی۔ (سعد بن ابی وقاص کے ضمن میں اس کا کچھ حصہ بیان ہوا تھا۔ )

پھر لکھتے ہیں کہ مسٹر مارگولیس اس موقع پر لکھتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عتبہ نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑ دیا اوراس بہانہ سے پیچھے رہ گئے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام پر جن کی زندگی کاایک ایک واقعہ ان کی شجاعت اور فدائیت پر شاہد ہے اورجن میں سے ایک غزوہ بئرِمعونہ میں کفار کے ہاتھوں شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصہ لے کر بالآخر عراق کا فاتح بنا، اس قسم کا شبہ کرنا اور شبہ بھی محض اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر کرنا مسٹر مارگولیس ہی کا حصہ ہے۔ لکھتے ہیں کہ پھر لطف یہ ہے کہ مارگولیس صاحب اپنی کتاب میں دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ مَیں نے یہ کتاب ہرقسم کے تعصّب سے پاک ہوکر لکھی ہے۔ بہرحال یہ جملہ معترضہ تھا۔ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ پہنچی اوراپنے کام میں مصروف ہو گئی اوران میں سے بعض نے اخفائے راز کے خیال سے اپنے سر کے بال منڈوا دیے تاکہ راہگیر وغیرہ ان کو عمرہ کے خیال سے آئے ہوئے لوگ سمجھ کر کسی قسم کا شبہ نہ کریں لیکن ابھی ان کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اچانک وہاں قریش کاایک چھوٹا سا قافلہ بھی آن پہنچا جو طائف سے مکہ کی طرف جارہا تھا اور ہر دو جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے ہو گئیں۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خفیہ خفیہ خبر رسانی کے لیے بھیجا تھالیکن دوسری طرف قریش سے جنگ شروع ہوچکی تھی اوراب دونوں حریف ایک دوسرے کے سامنے تھےاور پھر طبعاً یہ اندیشہ بھی تھاکہ اب جو قریش کے ان قافلہ والوں نے مسلمانوں کودیکھ لیا ہے تو اس خبر رسانی کا راز بھی مخفی نہ رہ سکے گا۔ ایک دقّت یہ بھی تھی کہ بعض مسلمانوں کو خیال تھا کہ شاید یہ دن رجب یعنی شہرِ حرام کاآخری ہے جس میں عرب کے قدیم دستور کے مطابق لڑائی نہیں ہونی چاہیے اور بعض سمجھتے تھے کہ رجب گزرچکا ہے اور شعبان شروع ہے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سریہ جُمَادَی الآخِر میں بھیجا گیا تھا اور شک یہ تھا کہ یہ دن جُمَادَی کا ہے یا رَجَبْ کا۔ لیکن دوسری طرف نخلہ کی وادی عین حرم کے علاقہ کی حد پر واقع تھی اور یہ ظاہر تھا کہ اگر آج ہی کوئی فیصلہ نہ ہوا تو کل کویہ قافلہ حرم کے علاقہ میں داخل ہو جائے گا جس کی حرمت یقینی ہو گی۔ غرض ان سب باتوں کو سوچ کر مسلمانوں نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ قافلہ پرحملہ کر کے یاتو قافلہ والوں کو قید کر لیا جاوے اور یا مار دیا جاوے۔ چنانچہ انہوں نے اللہ کانام لے کر حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں کفّار کاایک آدمی جس کا نام عمروبن حضرمی تھا مارا گیا اور دو آدمی قید ہوگئے لیکن بد قسمتی سے چوتھا آدمی بھاگ کرنکل گیا اور مسلمان اسے پکڑ نہ سکے اور اس طرح ان کی تجویز کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے قافلہ کے سامان پر قبضہ کر لیا اور چونکہ قریش کاایک آدمی بچ کر نکل گیا تھا اور یقین تھا کہ اس لڑائی کی خبر جلدی مکہ پہنچ جائے گی۔ عبداللہ بن جحش اور اُن کے ساتھی سامان غنیمت لے کر جلدی جلدی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے۔

لکھتے ہیں کہ مسٹر مارگولیس اس موقع پرلکھتے ہیں کہ دراصل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دستہ دیدہ دانستہ اس نیت سے شہرحرام میں بھیجا تھا کہ چونکہ اس مہینہ میں قریش طبعا ًغافل ہوں گے۔ مسلمانوں کوان کے قافلوں کو لُوٹنے کا آسان اور یقینی موقع مل جائے گا لیکن ہر عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی مختصر پارٹی کو اتنے دُور دراز علاقہ میں کسی قافلہ کی غارت گری کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا خصوصاً جبکہ دشمن کا ہیڈ کوارٹر اتنا قریب ہو اور پھر یہ بات تاریخ سے قطعی طورپر ثابت ہے کہ یہ پارٹی محض خبر رسانی کی غرض سے بھیجی گئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ علم ہوا کہ صحابہؓ نے قافلہ پر حملہ کیا تھا توآپؐ سخت ناراض ہوئے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جب یہ جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپؐ کو سارے ماجرا کی اطلاع ہوئی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں شہرِ حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی ہوئی۔ اورآپؐ نے مالِ غنیمت لینے سے انکار کر دیا۔

اس پر حضرت عبداللہؓ اوران کے ساتھی سخت نادم اور پشیمان ہوئے۔ اورانہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسولؐ کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ صحابہؓ نے بھی ان کو سخت ملامت کی اور کہا کہ تم نے وہ کام کیا جس کا تم کو حکم نہیں دیا گیا تھا اورتم نے شہرِ حرام میں لڑائی کی حالانکہ اس مہم میں تو تم کومطلقاً لڑائی کاحکم نہیں تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button