بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۸۲)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭… نماز میں سورۃ فاتحہ یا کسی اور سورت سے پہلےبسم اللہ جہراً پڑھنے کے بارے میں راہنمائی
٭… مسلمان جانوروں کا خون کیوں نہیں کھاتے؟
٭… ایک سے زائد مرتبہ کسی کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بارے میں راہنمائی
٭… کیا نماز کے دوران قرآن سامنے رکھ کر اس سے پڑھنا جائز ہے؟نیز چھوٹے ہوئے روزے اور فدیہ کی ادائیگی کے متعلق راہنمائی
٭…ڈاکٹروں کی ہڑتال کے بارے میں راہنمائی

سوال: ربوہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ نماز میں سورۃ فاتحہ یا کسی اور سورت سے پہلےبسم اللہ اونچی آواز میں پڑھنے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی بسم اللہ جہراً پڑھے تو اسے یہ کہہ کر منع کر دیا جاتا ہے کہ اس سے جماعت کے اتحاد اور اتفاق میں خلل واقع ہوگا۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: نماز میں سورت فاتحہ یا کسی دوسری سورت کو شروع کرنے سے پہلے ہم بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ لیکن اسے اونچی آواز سے نہیں پڑھتے بلکہ آہستہ آواز سے پڑھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث کی مستند کتب سے ایسا ہی ثابت ہے کہ حضورﷺ نمازوں میں سورت فاتحہ اور دیگر سورتوں کو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ آہستہ آواز میں ہی پڑھتے تھے۔ چنانچہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ، حضرت ابو بکراور حضرت عمررضی اللہ عنہما جب بھی نماز شروع کرتے تو الحمد للّٰہ ربّ العالمین سے شروع کرتے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب مایقول بعد التکبیر)

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ، حضرت ابوبکر،حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ میں نے کبھی بھی ان سے(سورت سے پہلے) بلند آواز میں بسم اللہ نہیں سنی۔ (سنن نسائی کتاب الافتتاح باب ترک الجہر بسم اللہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ بسم اللہ جہراً نہیں پڑھتے تھے۔خلفائے احمدیت نے بھی اسی طریق کو جاری رکھا اور بسم اللہ جہراً نہیں پڑھی۔اس لیے جماعتی یکجہتی کا تقاضا یہی ہے کہ نماز باجماعت میں امام الصلوٰۃ وہی طریق اختیار کرے جو آنحضرت ﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء سے ثابت ہے۔

لیکن اگر کوئی نماز میں بسم اللہ جہراً پڑھے تو ہم اسے غلط نہیں سمجھتے کیونکہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے اسے جہراً بھی پڑھا ہے۔اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:بسم اللہ جہراً اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے۔ ہمارے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب (اللّٰھم اغفرہ وارحمہ) جوشیلی طبیعت رکھتے تھے۔ بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔حضرت مرزا صاحبؑ جہراً نہ پڑھتے تھے۔ ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں۔ صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو۔ ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے۔ بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھاتو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے۔ مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے، کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے۔(بدر نمبر۳۲ جلد۱۱، ۲۳ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳)

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ ایک عمر گزار کر احمدی ہوئے تھے اور احمدیت سے قبل وہ بسم اللہ جہراً ہی پڑھا کرتے تھے اور چونکہ یہ طریق بھی آنحضورﷺ سے ثابت ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد سے نیز بہت سے اور کبار صحابہؓ جن میں حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ، حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ، حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوریؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ شامل ہیں، ان کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عمل وہی تھا جسے آپ کے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے اکثر اختیار فرمایا۔

پس اب ہمیں اس معاملہ میں بھی یکجہتی قائم رکھنے کے لیے اسی طریق پر عمل کرنا چاہیے جس پر آنحضور ﷺ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام نے اپنے اپنے وقت میں عمل فرمایا۔

اسی یگانگت کو قائم رکھنے کی خاطر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کے اس استفسار پر کہ بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ہے کہ حضورﷺ بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے، اگر حضور جہراً بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں فرماتے تو جہراً پڑھوں ورنہ چھوڑ دوں؟ حضورؓ نے فرمایا:بخاری اور مسلم میں آیا ہے کہ بالجہر نہیں پڑھی تو کیا پھر یہ دوسری کتابیں بخاری مسلم سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں؟(فرمودات مصلح موعودؓ دربارے فقہی مسائل صفحہ ۵۷،۵۶)

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میرے ایک ٹیچر نے مجھ سے پوچھا ہے کہ مسلمان جانوروں کا خون کیوں نہیں کھاتے،کیا اس میں صفائی کے علاوہ کوئی اور بھی وجہ ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۵؍ مارچ ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ پر درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اسلام ایک کامل اور فطرت کے عین مطابق مذہب ہے۔ اس لیے اس کے احکامات میں انسان کی روحانی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کا بھی بہت خیال رکھا گیا ہے۔

چنانچہ گرے ہوئے اور بہائے ہوئے خون کے بارے میں اسلام نے حکم دیا کہ اسے نہ کھایا جائے۔ اور یہ حکم بھی دراصل حفظان صحت کے اصول کے تحت ہی دیا گیاہے۔ کیونکہ خون میں بہت جلد سڑاند اور بیکٹیریا پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں ایسے فاسد مادے ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔ اس لیے اسلام نے اس کے کھانے سے منع فرما دیا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ جو بہت بڑے عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے ماہر طبیب بھی تھے وہ اس بارے میں فرماتے ہیں:خون باریک عضو کو ہلاک کرتا ہے اور اس میں زہر ہوتی ہے… اگر وید کو پڑھو۔ اس میں بھی تو لکھا ہے کہ خون میں اقسام اقسام کی زہریں ہوتی ہیں جو پیشاب کے ذریعہ خارج ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے کاربالک ایسڈ اور ٹومین تو عام مشہور ہیں جن سے فالج یا استرخاء اور تشنج پیدا ہوتے ہیں۔ (حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ ۱۹۰،۱۸۹)

یہPtomaineجو ہے یہPoisoningیاFood poisoningکی ایک قسم ہے جس سے صرف یوکے میں ایک تحقیق کے مطابق ہر سال ۲سے ۴ ملین لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اور یہ Poisoning عام طور پر بیکٹیریا، وائرس، کیمیکلز اور زہریلے پودوں اور کھانے پینے کی مختلف اشیاء مثلاً گوشت،پولٹری،Unpasteurised milkاور آلودہ پانی میں پائی جاتی ہے۔ اس کی کئی اور قسمیں بھی ہیں جن میںNorovirus, Clostridium Botulinum, Salmonella وغیرہ شامل ہیں۔

پس مذکورہ بالا قسم کے خون کے کھانے سے اسلام نے منع فرمایا ہے۔ لیکن جو خون جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کی شریانوں میں باقی رہ جاتا ہے، جو ایک طرح سے گوشت کا حصہ ہی ہوتا ہےیا بعض چھوٹے پرندے جن کو ذبح کرتے ہوئے بہت تھوڑا خون نکلتا اور ان کا گوشت پکانے کے بعد بعض اوقات کھاتے ہوئے باریک شریانوں میں خون نظر آ جاتا ہے۔تو ایسا خون حرام نہیں ہے اور اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: یوکے سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ اگر خلیفۂ وقت کسی کی نماز جنازہ حاضر ادا کر دیں اور تدفین کسی اور دن ہو تو کیا تدفین سے پہلے قبرستان میں اسی میت کی نماز جنازہ حاضر دوبارہ ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح جن جمعوں پر حضور بعض مرحومین کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں تو اس کے بعد باقی مساجد میں ان مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھنا بدعت کے مترادف تو نہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۵؍مارچ ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور نے فرمایا:

جواب: نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ جب ایک دفعہ ادا کر دی جائے تو پھر بغیر کسی وجہ کے دوبارہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آنحضور ﷺ جب کسی کی نماز جنازہ ادا کر دیتے تھے تو بعد میں صحابہؓ دوبارہ اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔ البتہ احادیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اگر کسی وفات یافتہ کی نماز جنازہ صحابہؓ نے پڑھ کر اسے دفن کر دیا اور حضور ﷺ کو اس شخص کی وفات کی خبر نہیں دی گئی تو حضور ﷺ نے ازراہ شفقت و ترحم اس شخص کی نماز جنازہ غائب ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب صُفُوفِ الصِّبْيَانِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْجَنَائِزِ۔ صحیح مسلم کتاب الجنائز بَاب الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ)

اس لیے اگر ایک مرتبہ خلیفۂ وقت کسی کی نماز جنازہ حاضر ادا کر دیں تو پھر دوبارہ اس کی نماز جنازہ حاضر ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ سوائے اس کے کہ تدفین کچھ دن بعد ہو رہی ہو اور اس وقت میت کے بعض ایسے قریبی عزیز بھی آ جائیں جو پہلے نماز جنازہ میں حاضر نہ ہو سکے ہوں تو ایسے قریبی عزیزوں کے جذبات کو مد نظر رکھ کر اگر دوبارہ نماز جنازہ پڑھ لی جائے تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ لیکن بغیر کسی جائز وجہ کے باربار نماز جنازہ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

باقی جن بزرگوں، شہیدوں یا بعض غیر معمولی قربانی کرنے والے وفات یافتگان کی نماز جنازہ غائب مَیں نماز جمعہ کے بعد ادا کرتا ہوں اگر دوسری مسجدوں میں نماز جمعہ ادا کرنے والے لوگ ان لوگوں کی نماز جنازہ غائب ادا کرنا چاہیں تو نہ یہ لازمی ہے اور نہ ہی منع ہے۔ لیکن ان مساجد میں ان کی دوبارہ نمازہ جنازہ غائب پڑھنا بدعت ہر گز نہیں ہے۔

سوال: صدر صاحب جماعت احمدیہ سیریا نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا نماز کے دوران قرآن کھول کر سامنے رکھ کر اس سے پڑھنا جائز ہے؟نیز جس شخص نے بغیر کسی عذر کے گذشتہ رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے اگلے رمضان تک نہیں رکھے، ان روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مریض کو چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ روزانہ کی بنیاد پر دینا چاہیے یا رمضان کے آخری دن بھی دےسکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۶؍مارچ ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے درج ذیل جواب عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: ۱۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ۔(سورۃ المزمل:۲۱) یعنی قرآن کریم میں سے جتنا میسر آئے پڑھ لیا کرو۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنی کتاب ذکر حبیب میں لکھتے ہیں:ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کیا ایسا کر سکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کر لیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اٹھا لیں۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا:’’اس کی کیا ضرورت ہے۔ آپ چند سورتیں یاد کر لیں اور وہی پڑھ لیا کریں۔‘‘(ذکر حبیب صفحہ۱۳۶، مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

پس جتنا قرآن کریم یاد ہو اسی کو نمازوں میں پڑھنا چاہیے، اور اگر استطاعت ہو تو قرآن کریم یاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن قرآن سے دیکھ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

۲۔ اگر کسی شخص کے رمضان کے کچھ روزےکسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جائیں توعذر دُور ہونے پراگلے رمضان کے آنے سے پہلے ان روزوں کی قضاء کر لینی چاہیے۔ چنانچہ احادیث میں امہات المومنین کا یہی طریق مذکور ہے۔(صحیح مسلم کتاب الصیام بَاب قَضَاءِ رَمَضَانَ فِي شَعْبَانَ) لیکن اگر کوئی ان روزوں کی قضاء نہیں کر سکا تو اگلے رمضان کے بعد بھی وہ ان روزوں کو رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے رمضان کے روزے پورے کرنے کے لیے اگلے رمضان سے پہلے کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ بلکہ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ۔(البقرہ: ۱۸۶) یعنی دوسرے ایام میں گنتی پوری کرنا ہوگی،کے الفاظ فرما کراسے انسان کی سہولت پر چھوڑا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیں اور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو مگر اس بہانہ سے فائدہ اٹھا کر جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ شخص گنہگار ہے جو بلا عذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ اس لیے ہر احمدی کو چاہیے کہ جتنے روزے اس نے کسی غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے یا اگر اس کے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے پانچ چھ سال سے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں بھی پورا کرے۔ تا عذاب سے بچ جائے۔(روز نامہ الفضل ربوہ، مورخہ ۸؍مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۔ فرمودات مصلح موعود دربارے فقہی مسائل صفحہ ۱۶۷، ۱۶۸)

۳۔اگر کوئی شخص بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان کے کچھ روزےنہیں رکھ سکتا تو اسے حسب استطاعت ان چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ساتھ ہی ادا کر دینا چاہیے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فدیہ کا ایک فائدہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اس سے روزے رکھنے کی توفیق ملتی ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لیے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہےتاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا ہی سے طلب کرنی چاہیے۔ خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔(البدرنمبر۷ جلد ۱ مورخہ ۱۲؍دسمبر۱۹۰۲ء صفحہ۵۲)

سوال: یوکے سے ایک ڈاکٹر صاحبہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ آج کل ڈاکٹروں کی ہڑتال کا چرچا ہے۔ جب لوگوں سے کہو کہ احمدیوں کے لیے ہڑتال منع ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ہڑتال تو ملازمین کا انسانی حق ہے، آپ کو اس کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ یہ تو ایک اجتماعی آواز کو کمزور کرنے والی بات ہے۔ اس کا کیا جواب دیا جائے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۶؍مارچ ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:

جواب: اگر قانون کسی ہڑتال کی اجازت دیتاہے تو ایسی پُرامن ہڑتال کرنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن اس میں بھی اس بات کا خیال رہنا چاہیے کہ اس میں کسی قسم کی توڑ پھوڑ نہیں ہونی چاہیے اور سرکاری اور عوامی املاک کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ کشمیریوں کے حق میں احتجاج ہوا تھا تو آپؓ نے اس وقت احمدیوں کو پُرامن جلسے جلوسوں میں شامل ہونے کی اجازت فرمائی تھی۔

لیکن اگر کسی ہڑتال کی حکومت کی طرف سے مناہی ہو تو اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایسی ہڑتال جس کے نتیجہ میں کسی جانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس میں بھی شامل نہیں ہونا چاہیے۔

باقی اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہڑتال کر کے مریضوں کو نقصان پہنچانے یا ان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی بجائے اپنے اپنے علاقوں کے ایم پی حضرات، جنہیں ووٹ دےکر لوگوں نے عوامی نمائندوں کے طور پر منتخب کیا ہوتا ہے، ان کے ذریعہ حکومت پر دباؤ ڈلوانا چاہیے، اور انہیں بتا نا چاہیے کہ ایک جونیئر ڈاکٹر بھی کئی سال کی پڑھائی اور ایک خطیر رقم خرچ کر کے اس ڈگری کو حاصل کرتا ہے، اسے اگر آپ چودہ پندرہ پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے اجرت دیں گے تو یہ بھی تو ناانصافی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلہ پر ایک صفائی کرنے والا اس سے زیادہ اجرت لے رہا ہے۔ تو اس بات کی طرف بھی حکومت کو دھیان دینا چاہیے کیونکہ حکومتی عہدیداروں کا صرف یہ کام نہیں کہ عہدہ لےکر وہ صرف اپنے مفادات کو پیش نظر رکھیں بلکہ حکومت تو ملک کے ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے، اس لیے اس عوامی ذمہ داری کو بھی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button