غزوۂ خندق کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍ستمبر۲۰۲۴ء
٭… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاںنثار صحابہ کا بھی آپؐ سے وفا کا عجیب رنگ تھا اس طرح وہ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر ان سب کو ترجیح دے رہے تھے۔ایسے شجاع کہ اپنی جان کا کوئی فکر نہیں اہل مدینہ کا فکر ہے اور اس کےلیے اکثر خود جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں اور کبھی بظاہرآرام کرنے کےلیےخیمہ میں تشریف لاتے بھی ہیں تو اس کا اکثر حصہ خدا کے حضورسربسجود ہو کر دعائیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں
٭… حضرت صفیہؓ نے خود آگے نکل کر اس یہودی کا مقابلہ کیا ، اسے مار کر گرا دیا اور اس کا سَر کاٹ کریہودیوں کی طرف گرادیا
٭…حضرت علیؓ کا عمرو بن عبدودکو قتل کرنے کا واقعہ
٭… آج سے لجنہ اور انصار کے اجتماع بھي شروع ہو رہے ہيں۔ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں میں بہت وقت گزاریں، درود پڑھنے کی طرف توجہ رکھیں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍ستمبر۲۰۲۴ء بمطابق۲۷؍تبوک ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۷؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
جیسا کہ میں نے گذشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اُن حالات کا ذکر فرمایا ہےجو جنگ احزاب میں پیش آئے۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ مدینہ کا کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلےاور کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے اس لیے فوج یکدم حملہ نہیں کرسکتی تھی۔پس کافروں نے مشورہ کرکے تجویز کیا کہ
کسی طرح مدینہ میں موجود یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو اپنے ساتھ ملالیا جائے
اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے۔چنانچہ بنو نضیر کے رئیس حیی بن اخطب کو مقرر کیا گیا کہ وہ بنو قریظہ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔پہلے تو بنو قریظہ کے سرداروں نے انکار کیا لیکن پھر حیی بن اخطب کے سبز باغ دکھانے پر وہ معاہدہ شکنی پر آمادہ ہوگئے۔بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ ان کی طرف سےہوکر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکےگا۔ اسی وجہ سے ان کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا۔ایسے وقت میں بنو قریظہ کا دشمن کے ساتھ ملنے سے مدینہ پرحملے کا خطرہ بھی بہت بڑھ گیا تھا۔ بہرحال ان حالات میں مسلمانوں کی فکر قدرتی تھی اور اس کے سد باب کےلیے بھی کوشش ضروری تھی۔ اس لیے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی حفاظت کےلیے پانچ سو افراد تعین کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
بنو قریظہ کے معاہدہ توڑنے کی خبر مسلمانوں تک پہنچ گئی تو ان کا خوف بڑھ گیا اور ان کو عورتوں اور بچوں کی فکر ہونے لگی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی توآپؐ نے
حضرت سلمہ بن اسلمؓ کو دو سو افراد اور حضرت زید بن حارثہؓ کو تین سو افراد کے ساتھ مدینے کی حفاظت کے لیے بھیجا اور فرمایا کہ رات کے وقت وہ مختلف جگہوں پر پہرا دیں اور وقتاً فوقتاًتکبیر یعنی اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ نےاس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس صورتحال نے جس کی حقیقت کسی سمجھدار شخص پر مخفی نہیں رہ سکتی کمزور مسلمانوں میں سخت پریشانی اورسراسیمگی پیدا کر دی۔بعض منافقین نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ یا رسول اللہؐ! شہر میں ہمارے مکانات بالکل غیر محفوظ ہیں۔آپؐ اجازت دیں تو ہم اپنے گھروں میں ٹھہر کر ان کی حفاظت کریں جس کے جواب میں خدا ئی وحی نازل ہوئی۔ وَمَا ھِیَ بِعَوۡرَۃٍۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا۔یعنی
یہ غلط ہے کہ ان لوگوں کو اپنے گھروں کےغیرمحفوظ ہونے کا خیال ہےبلکہ بات یہ ہے کہ میدان کارزار سے بھاگنے کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
پس ایسے خطرناک وقت میں مسلمانوں کی قلیل جمعیت جن میں بعض کمزور طبیعت لوگ اور بعض منافق بھی شامل تھے کیا مقابلہ کر سکتی تھی؟بعض اوقات حالات بہت نازک صورت اختیار کرلیتے اورقریب ہوتا کہ کسی کمزور موقعےسے فائدہ اُٹھا کر لشکر کفارحدودشہر کے اندر داخل ہو جائے۔ ان دھاووں کا مقابلہ مسلمانوں کی طرف سےعموماً تیروں کے ذریعہ کیا جاتاتھا۔
یہ دن مسلمانوں کےلیے نہایت تکلیف اور پریشانی اور خطرے کے دن تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات میں سعدبن معاذؓاورسعد بن عبادہؓ سےفرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تو قبیلہ غطفان کو محاصل میں سے کچھ حصہ دے کر اس جنگ کو ٹال دیا جائے۔اس پر دونوں نے یک زبان ہو کر کہاکہ
یا رسول اللہؐ! جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کو کچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہو کر کیوں دیں۔واللہ !ہم انہیں تلوار کی دھار کے سواکچھ نہیں دیں گے۔
چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انصارہی کی وجہ سے فکر تھاجو مدینہ کے اصل باشندے تھےاور غالباً اس مشورہ میں آپؐ کا مقصد بھی صرف یہی تھا کہ انصار کی ذہنی کیفیت کاپتا لگائیں کہ کیا وہ ان مصائب میں پریشان تو نہیں ہیں۔ اور اگر وہ پریشان ہوں تو ان کی دلجوئی فرمائیں۔
آپؐ نے پوری خوشی سے ان کا مشورہ قبول فرمایا اور جنگ جاری رہی۔
اس پریشان کن صورتحال میں مختلف جگہوں پر پہرے میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفس نفیس موجود ہوتے۔ مدینے کی یہ راتیں سخت سردی کی راتیں تھیں اور بھوک کی مشکلات اس کے علاوہ تھیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتنا تھکے ہوئے تھے کہ فرمایا:
کاش !کوئی نیک آدمی ہوتا تو پہرا دیتا۔سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! مَیں آپؐ کی حفاظت کےلیے پہرا دیتا ہوں۔
آپؐ نے فرمایا :فلاں جگہ جاؤ وہاں خندق کا ایک حصہ کمزور ہے وہاں پہرا دو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاںنثار صحابہ کا بھی آپؐ سے وفا کا عجیب رنگ تھا اس طرح وہ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر ان سب کو ترجیح دے رہے تھے۔ایسے شجاع کہ اپنی جان کا کوئی فکر نہیں اہل مدینہ کا فکر ہے اور اس کےلیے اکثر خود جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں اور کبھی بظاہرآرام کرنے کےلیےخیمہ میں تشریف لاتے بھی ہیں تو اس کا اکثر حصہ خدا کے حضورسربسجود ہو کر دعائیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
اس جنگ کے دوران
حضرت صفیہؓ کی بہادری کا واقعہ بھی ملتا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ مستورات اور بچوں کوشہر کے ایک خاص حصے جو ایک گونہ قلعہ کا رنگ رکھتا تھا میں رکھا جاتا تھااور ان کی حفاظت کے لیے صرف ایسے مرد رہ جاتے تھے جو کسی وجہ سے میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ ہوں۔یہودیوں نے ایک موقع پر جاسوسی کی غرض سے اپنا ایک آدمی اس محلے میں بھیجا۔اس وقت اتفاق سے عورتوں کے قریب صرف ایک صحابی حسان بن ثابتؓ موجود تھے۔عورتوں نے جب اس دشمن یہودی کو ایسے مشتبہ حالت میں اپنے جائے قیام کےآس پاس چکر لگاتے دیکھا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلبؓ نے حسانؓ سے کہا کہ اسے قتل کر دو مگر حسان کو اس کی ہمت نہ ہوئی جس پر
حضرت صفیہؓ نے خود آگے نکل کر اس یہودی کا مقابلہ کیا ، اسے مار کر گرا دیا
اور اس کا سَر کاٹ کریہودیوں کی طرف گرادیا
تاکہ یہودیوں کو مسلمان عورتوں پر حملہ آور ہونے کی ہمت نہ پڑے اور وہ یہ سمجھیں کہ ان کی حفاظت کے لیے اس جگہ کافی مرد موجود ہیں۔ چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اور یہودی لوگ مرعوب ہوکر واپس چلے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنو قریظہ کا جاسوس تھا تو مسلمان اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینے کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اوربارہ سو سپاہیوں میں سے پانچ سو کو عورتوں کی حفاظت کےلیے شہر میں مقرر کردیا
اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ بیس ہزار لشکر کےمقابلے کے لیے صرف سات سو سپاہی رہ گئے۔
حضرت علیؓ کا عمرو بن عبدودکو قتل کرنے کا واقعہ بھی ملتا ہے۔
عمر وبن عبدود ایسا بہادر تھاکہ عرب میں ایک ہزار مردوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ یہ جنگ بدر میں زخمی ہوا تھا اور انہی زخموں کی وجہ سے وہ جنگ اُحد میں شامل نہیں ہو سکا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ اپنے سر پر تیل نہیں لگائے گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل نہ کر لے۔
یہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ خندق کو پار کرکے آیا اور بڑے متکبرانہ انداز سے آواز لگائی کہ اے جنت کی خواہش کرنے والو!آؤ میں تمہیں جنت میں پہنچا دوں یا تم مجھے جہنم میں بھیج دو۔ جب اس نے دوسری یا تیسری بار آواز دی تو حضرت علیؓ اٹھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداپنا امامہ اُن کے سَر پر باندھا اور اپنی تلوار عنایت فرمائی اور دعا دیتے ہوئے مقابلےپر بھیج دیا۔حضرت علیؓ نے اُس کو تین باتوں کا فرمایا کہ واپس چلے جاؤ، مسلمان ہوجاؤ یا پھر مقابلے پر آجاؤ۔اُس نے مقابلہ کیا اور حضرت علیؓ نے اُسے قتل کردیا۔اُس کے قتل کے بعد اُس کے ساتھی بھاگ گئے۔ایک روایت کے مطابق ضرار بن خطاب جو کہ حضرت عمرؓ کا بھائی تھا یہ جب بھاگا تو حضرت عمرؓ نے اس کا تعاقب کیا۔ضرار اچانک رُکا اور حضرت عمرؓ پر نیزے سے حملہ کرنے کو تھا کہ رُک گیا اور حملہ نہیں کیا۔پھر حضرت عمرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ عمرؓ میرا یہ احسان یاد رکھنا کہ میں نے تم پر حملہ نہیں کیا۔ضرار کا کیا احسان ہوناتھا،ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ احسان اُس پر ہوا کہ
فتح مکہ کے موقع پر یہی ضرار اسلام لے آئے۔
اسلامی جنگوں میں بھرپور شرکت کی۔ خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ بعض کے نزدیک شہادت نہیں پائی بلکہ دیر تک زندہ رہے اور اسلام پر وفات ہوئی۔
بعض روایات کے مطابق عمرو بن عبدود کے بجائے نوفل بن عبداللہ ایک موقع پر مارا گیا تھااور اُس کی لاش کے لیے کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا تھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ ایک دن کفار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے لیکن مسلمانوں نے ایسا جان توڑ کر حملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے اُن کے لیے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ
اس وقت خندق پھاندتے ہوئے کفار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا۔
یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفار نے یہ سمجھا کہ اگراُس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لیے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپؐ اس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپؐ کو دینے کےلیے تیار ہیں۔ اُن لوگوں کا تو یہ خیال تھا کہ شاید جس طرح ہم نے رؤسا بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان اُحد کی جنگ میں کاٹ دیے تھے اس طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک کان کاٹ کر ہماری قوم کی بےعزتی کریں گے۔ مگراسلام کے احکام تو بالکل اور قسم کے ہیں۔ اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔چنانچہ کفار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپؐ نے فرمایا:
اس لاش کو ہم نے کیا کرنا ہے؟ یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلے میں ہم تم سے کوئی قیمت لیں۔ اپنی لاش بڑے شوق سے اُٹھا کر لے جاؤ۔ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔
حضور انور نے آخر میں فرمایا کہ
آج سے لجنہ اور انصار کے اجتماع بھی شروع ہورہے ہیں۔
خدام کو جس طرح میں نے کہا تھا لجنہ کو بھی اور انصار کو بھی یہی کہتا ہوں کہ
ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں میں بہت وقت گزاریں، درود پڑھنے کی طرف توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔
اور اجتماع کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ صرف تفریحی پروگراموں میں یا باتوں میں وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ بابرکت فرمائے۔
٭…٭…٭