ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۷۵)
عقیدہ تناسخ
فرمایا:جنم کی شکی بات کو قبول کرنا عقل کا کام ہرگز نہیں۔انسان جب پید اہوتااور اپنی عمر طبعی پوری کرکے مرجاتا ہے تو کبھی کسی نے اُس شخص کو اس جہان میں واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔مثلاً بڑے بڑے عالم اور فاضل مرجاتے ہیں تو اُنہوں نے واپس آکر کبھی نہیں بتلایا کہ میں نے پچھلے جنم میں فلاں علم حاصل کیا تھا۔ہزاروں جنم پائے اور علم و عمل حاصل کرتا رہا۔مگر جب واپس آیا وہ پہلے علم وعمل ضائع ہوتے رہے۔جس طرح وہ واپس آکر سب علوم بھلا دیتابلکہ یہاں کا پہلا آنا بھی اس کو یاد نہیں رہتا،تو وہاں کیا یاد رکھے گا اور نجات کس طرح حاصل کرے گا۔جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ مکتی گیان سے ہوگی مگر کروڑ دفعہ کے جنم سے ایک حرف تک ان کو یاد نہیں رہتا اور جب آتا ہے خالی ہاتھ ہی آتا ہے۔کچھ تو ساتھ لاوے۔اگر کچھ ساتھ نہیں لاتا تو گیان کیا ہوا۔
غرض جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کےہاتھ پاؤں سرد ہو گئے ہیں۔دَم بند ہو گیا ہے۔آنکھیں پتھراگئی ہیں اور روح رخصت ہو گیا ہے۔اسی طرح تم اس کے واپس آنے کا ثبوت پیش کرو۔تو ہم مان لیتے ہیں۔واپس آنے کا ثبوت تو یہی تھا کہ اپنے کسی گیان کو ساتھ لے آتا۔مگر یہ بیہودہ خیال ہے کہ وہ کسی گیان کو ساتھ لاوے۔پس بغیر ثبوت کے ہم کیسے مان سکتے ہیں۔بڑا مولوی اور بڑا پنڈت بن کر اس جگہ سے رخصت ہوا تھا۔واپس آکر کچھ بھی یاد نہیں۔جب وہاں جا کر سب کچھ بھول آتا ہے تو کس طرح معلوم ہو کہ یہ دوسرا جنم لے کر آیا ہے۔اگر صرف اس کمی بیشی کو پورا کرنے کے واسطے جنم مانتا ہے،تو ہم یوں کیوں نہ مان لیں کہ جس طرح یہاں تکلیف اُٹھاتا ہے۔اسی طرح وہ خدا تعالیٰ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ عطا نہیں کرسکتا؟مثلاً دیا نند مرگیا ہے۔آجاوے تو ہم اس کو اس طرح شناخت کر سکیں گے کہ ستیار تھ پر کاش کا یا وید کا کچھ حصہ ہمیں پڑھ کر سنا دیوے۔پڑھا ہوا آدمی تو اگر بھینس کی شکل میں بھی آجاوے تو چاہیے کہ وہ بھینس بھی طوطے کی طرح بولے۔ہاں صوفیوں نے بھی یہ لکھا ہے:
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام
ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام
مگر اس کے کچھ اَور معنے ہیں۔یعنی جب انسان خد اتعالیٰ کی طرف ترقی کرنے لگتا ہے تو پہلے اس کی حالت بہت اَبتر ہوتی ہے۔جس طرح ایک بچہ آج پید اہوا ہے تو ا س میں صرف دودھ چوسنے ہی کی طاقت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔پھر جب غذا کھانے لگتا ہےتو آہستہ آہستہ غصہ،کینہ،خودپسندی،نخوت علیٰ ہذاالقیاس۔سب باتیں اس میں ترقی کرتی جاتی ہیں۔اور دن بدن جُوں جُوں اس کی غذائیت بڑھتی جاتی ہے شہوات اور طرح طرح کے اخلاقِ ردّیہ اور اخلاقِ فاضلہ زور پکڑتے جاتے ہیں اور اسی طرح ایک وقت پر اپنے پورے کمال انسانی پر جاپہنچتا ہے اور یہی اس کے جسمانی جنم ہوتے ہیں۔یعنی کبھی کُتّے،کبھی سؤر،کبھی بندر،کبھی گائے،کبھی شیر وغیرہ جانوروں کے اخلاق اور صفات اپنے اندر پید اکرتا جاتا ہے گویا کل مخلوقات الارض کی خاصیت اس کے اندر ہوتی جاتی ہے۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۹۶-۹۴،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعرمولوی رومی کاہے۔ شعرمع اعراب اوراردوترجمہ ذیل میں درج ہے۔
ہَمْچُوْ سَبْزِہْ بَارْہَا رُوْئِیْدِہْ اَمْ
ہَفْت صَدْ ہَفْتَادْ قَالِبْ دِیْدِہْ اَمْ
ترجمہ: میں بار بار نباتات اور ہریاؤں کی شکل میں اُگا ہوں، میں سات سو ستر یعنی بے شمار سانچوں سے گذرا ہوں۔