متفرق مضامین

پیاری آپا امۃالنصیر ظفر صاحبہ کے ساتھ گزرے ہوئے یاد گار لمحات

یاد ہیں لوگ قناعت کی قبا اوڑھے ہوئے

زرد موسم میں بھی شاداب ہوا کرتے تھے

فاتحہ پڑھ کے مبارک میں بہت رویا آج

آہ کیا پھول سے احباب ہوا کرتے تھے

(مبارک صدیقی)

زندگی ایک سفر ہے اور اس سفر میں ہم کئی اونچی نیچی راہوں سے گزرتے ہیں بعض رستے سنگلاخ چٹانوں کی طرح اونچےنیچے ہوتے ہیں جہاں چلنا نہایت دشوار ہوتا ہے اور بعض رستے لق ودق صحرا کی مانند ہوتے ہیں جہاں چند قدم چلنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ زندگی کے اس سفرمیں بعض ایسے مقام بھی آتے ہیں جہاں قوّتِ بینائی رکھنے کے باوجود انسان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا جہاں خرد بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ کیسے آگے بڑھناہے، کون سا راستہ لینا ہے، فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

زندگی نشیب و فراز رستوں اورپُر پیچ صحراؤں کا سفر ہے لیکن اس دشوارگزار سفر میں ہمارا پیارا خدا جو بڑا مہربان ہے۔ وہ ہمیں ایسے شفیق محبت کرنے والے پُرخلوص دوست ساتھی اور غمگسار عطا کرتا ہے جن کا خلوص، بے لوث پیار، ان کٹھن راہوں اور صحراؤں کو گلزار بنا دیتا ہے وہ راستوں سے کانٹے چُنتے ہیں اور محبت کے گلاب سجاتے ہیں اور یوں سفر کو سہل بنادیتے ہیں۔

خواہ صدیاں بیت جائیں، تیز و تُند ہوائیں محبت کے ان چراغوں کو بجھا نہیں سکتیں ان کی لَو ہمیشہ آپ کے تن من کو روشن رکھتی ہے۔

فاصلوں کی وسعت اور مرورِ زمانہ کی دھول ان کے دلکش چہروں کو دھندلا نہیں سکتی۔ ان کے خلوص کی مہک ہمیشہ ہماری روح کومعطر اور ترو تازہ رکھتی ہے۔

ایسی ہی ایک پیاری ہستی کے ذکرِ خیر کے لیے اُن کی حسین یادوں کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے قرطاس و قلم کا سہارا لیا ہے۔انہوں نے عمر کا ایک حصہ جرمنی میں گزارا لیکن ہماری بھی ان سے ملاقات رہی اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے اوقات ہمارے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔

خاکسار نے اپنے میاں مکرم زرتشت منیر احمد صاحب سے مکرم ومحترم جناب حیدر علی ظفر صاحب کا، بحیثیت مشنری انچارج و نائب امیر جرمنی شفقتوں کا تذکرہ تو سُن رکھا تھا کیونکہ وہ مختلف جماعتی اُمور کے سلسلے میں جرمنی آتے جاتے رہتے تھے۔ جب بچے کچھ بڑے ہوئے تو خاکسار کو بھی مختلف اوقات میں زرتشت صاحب کے ساتھ جرمنی جانے اورچند دن قیام کے مواقع میسر آنےلگے اُن کے ساتھ تمام اسفار اور قیام یاد گار ہیں۔ آپا امۃالنصیر ظفر صاحبہ کی مہمان نوازی ان کی دلداری اور بے لوث محبت بھلائی نہیں جاسکتی۔ زندگی وقف کرنے کا عہد کرنا پھر ساری زندگی اس عہد کو نبھانا کوئی آسان کام نہیں۔

آپ نہایت خوش قسمت تھیں کہ آپ کوحُسن و خوبی کے ساتھ اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ کام دنیا کے ہوں یا دین کے میاں بیوی باہم یک جان ہوں تو بہتر ہوتے ہیں۔خاص طور پر واقفِ زندگی کے جیون ساتھی کو توواقفِ زندگی کی طرح ہی عمر بسر کرنا ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ہرقسم کی قربانی میں حصہ لینا ہوتا ہے۔

جہاں تک اس عاجزکا مشاہدہ ہے اس نیک جوڑے کو بھی قدم سے قدم ملا کر چلتے دیکھا اور ہمیشہ صابر وشاکر پایا۔ ہر ایک سے حسنِ سلوک سے پیش آتیں، سب کی دلداری کرتیں۔طبیعت میں انکساراور خلوص تھا۔ خلافت سے بے انتہا محبت اور اطاعت کا تعلق تھا۔

چند سال پہلے آپ سے ہماری آخری ملاقات ہوئی۔ ہمارا گیسٹ ہاؤس جرمنی میں قیام تھا لیکن کھانے اور چائے کے لیے مختلف عزیزوں کی طرف مدعو تھے۔ جبکہ ناشتے کا بندوبست گیسٹ ہاؤس میں ہی تھا۔ ہمیں جماعتی انتظام کے تحت بروقت ناشتہ مل جاتا تھا۔

لیکن پیاری آپا اپنے ہاتھ سے کوئی نہ کوئی میٹھی چیزبناکرضرور بھجواتیں۔ جب ہمارے بزرگ محترم حیدرعلی ظفر صاحب تیسری یا چوتھی منزل پرمختلف خوان اور آم کے ڈبوں کے ساتھ تشریف لاتے تو ہم بہت شرمندہ ہوتے کہ ہماری خاطر کس قدر تکلیف اُٹھاتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے کیوں زحمت کی فون کردیتے ہم خود آکر لے جاتے۔ لیکن آپ کا یہی معمول رہا۔ ہم دو میاں بیوی اتنے آم کھا تو نہیں سکتے تھے۔ لیکن ان آموں سے ہم نے بہت سے مہمانوں کی تواضع کی۔

انہی دنوں میں جرمنی میں ہی ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام بھی تھا بہت سی غیر از جماعت خواتین شعراء بھی مدعو تھیں جو بیت السبوح کے قریب ہی لجنہ ہال میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ بڑا شاندار مشاعرہ ہوا۔ خاکسار نے بھی اشعار پڑھے اورخوب داد بھی ملی فیض احمد فیض ایوارڈ بھی ملا۔ کچھ اور تحائف بھی تھے جنہیں میں ساتھ ساتھ اُٹھائے پھرتی تھی۔آپا امۃالنصیرظفر صاحبہ بھی ہمارے ساتھ وہاں ہمہ وقت رونق افروز رہیں بعد میں ان کے ساتھ ہی ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اوراس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا۔

جب گھر جانے لگیں تو میرا سامان جو میں ساتھ ساتھ اُٹھائے پھرتی تھی مجھ سے لے کراپنی گاڑی میں رکھوا لیا اور کہنے لگیں کہ سارا دن چل چل کراور وزن اُٹھا کر تمہارے پاؤں متورّم ہو چکے ہیں اسی وجہ سے چلنے میں دقت ہو رہی ہے سامان میں لے جاتی ہوں تاکہ تمہیں اٹھانا نہ پڑے جب گھر آؤ گی تو اوپر گیسٹ ہاؤس میں پہنچا دوں گی۔ خاکسار نہیں چاہتی تھیں کہ آپ میرے لیے اس قدر زحمت اُٹھائیں آپ بزرگ اور قابلِ احترام ہستی تھیں۔ میرا فرض تھا کہ میں آپ کی خدمت کروں لیکن ان کی محبت اور شفقت کی وجہ سے مجھے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ الله تعالیٰ ان کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر شفقت کا سلوک فرمائے جو انہوں نے اس عاجزو نابکار کے ساتھ روارکھا۔

اس موقع پر احمدی خواتین شعراء کے علاوہ کچھ غیر از جماعت خواتین شعراء جو مہمان تھیں وہ نیچے لجنہ ہال میں ٹھہری ہوئی تھیں ان کا خاکسار کو فون آیا کہ آپ نیچے لجنہ ہال میں آجائیں کچھ دیر مل کر بیٹھتے ہیں۔ میرے میاں نے مجھے بخوشی اجازت دے دی۔ جاتے ہوئے خاکسار اپنے ساتھ آم بھی لے گئی جو فریج میں رکھنے کی وجہ سے خوب ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ ان خواتین شعراء کو پیش کیے تو وہ بے انتہاخوش ہوئیں ساتھ ساتھ جماعت کا تفصیلی تعارف بھی ہوا۔ خاکسار نے اگلی صبح آپا امۃالنصیرظفر صاحبہ کو بتایا کہ آپ کے محبت سے بھیجے ہوئے آموں سے بہت سے مہمانوں کی تواضع کی گئی تو آپ بہت خوش ہوئیں۔ آپ ہمیںاپنے گھر بُلا کر خاطر تواضع کرتیں۔ طبیعت بہت سادہ اور بے تکلف تھی لیکن نفاست اور نظافت کا بہت خیال رکھتیں۔

لباس سادہ لیکن سلیقے سے پہنتیں۔ ان کے لباس اور رکھ رکھاؤ سے کبھی کسی کمی کا احساس نہیں ہوا۔ میں نے جب بھی دیکھا عمدہ حال میں دیکھا۔ خوش و خرم نظر آتی تھیں۔ چہرے پر مسکراہٹ بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔

مجھے تھوڑے وقت میں آپ سے بہت زیادہ پیار ملا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ میرے دل میں ان کی محبت گھر کر چکی تھی۔ ان کے حسنِ سلوک نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ہمیشہ میری دلداری کی ان کا مقام نیکی اور قربانی کے لحاظ سے بہت بلند تھا۔ ہماری بزرگ تھیں لیکن اس عاجز سے بہت محبت اور عزت سے پیش آتیں۔ ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ فون کر کے دونوں بزرگوں کی خیریت معلوم کروں، بہت دیر ہوگئی بات نہیں ہوئی۔اپنے میاں سے اس خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ انہوں نے فون کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ اس کے چند دن بعد ہی ایک مخلص بہن کی وساطت سے آپا امۃالنصیرظفر صاحبہ کی وفات کا علم ہوا،اچانک اُن کی جدائی کی خبر سن کردل کوبہت صدمہ پہنچا۔ دل سخت رنجیدہ اور ملول ہوا لیکن ہمیں الله کی رضا پر راضی رہنے کا حکم ہے۔

راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو

اِنشاؔ نے کیا خوب کہا ہے:؎

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

یہ زندگی مختصر ہے ہر ایک مسافر ہے دنیا ایک سرائے ہے کچھ دیر یہاں ٹھہرنا اور آخر کوچ کرجانا ہے۔ گذشتہ سال بہت پیاری پیاری ہستیاں ہم سے جدا ہوئیں جن کی جدائی سے دل زخمی ہیں۔ لیکن پیاری آپا امۃالنصیر ظفرصاحبہ کے جانے سے محسوس ہوا کہ ہماری شفیق خواہر ہم سے جدا ہوگئیں، لیکن یہ جدائی تو عارضی جدائی ہے ہم سب میں سے ہر ایک نے جلد یا بدیر اس عارضی جہان سے کُوچ کرجانا ہے، لیکن ہم سب اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ محبت کرنے والوں کو ابدی زندگی میں ضرور ایک ساتھ اکٹھا کرے گا۔ آپا امۃالنصیرظفرصاحبہ بہت خوش قسمت تھیں، آپ کو نیک ساتھی ملا، ساری زندگی خدا کی خاطر بسر کی، الله کے دین کے لیے دن رات وقف رہے، دنیا میں عزت سے زندگی بسر کی اور عزت سے اپنے جیون ساتھی کے ہاتھوں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں۔

خلافت سے محبت اور اطاعت آپ کے کردار کا خاصہ تھا خواتین میں بیٹھتیں تو حضورپُرنور کی نصائح بیان کرتیں۔ زندگی بھر خلافت کی مطیع اور فرمانبردار رہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّد ہُ الله تعالیٰ بنصرِہِ العزیز نے نمازِ جنازہ غائب ادا کی اور آپ کے متعلق فرمایا:’’ان کے نانا حضرت چودھری امین اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابیؓ تھے۔ حیدر علی ظفر صاحب لکھتے ہیں کہ میں مربی تھا، فیلڈ میں رہا ہوں تو مختلف اوقات میں تقریباً بارہ سال یہ مجھ سے علیحدہ رہی ہیں لیکن کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا اور ایک دفعہ کسی بات پہ کبھی کچھ ڈسٹرب رہی ہیں۔ جب میں نے پوچھا پہلے کیوں نہیں بتایا تو انہوں نے کہا اس لیے نہیں بتایا کہ آپ کو وہاں اپنے میدان عمل میںکسی قسم کی ڈسٹربنس نہ ہو۔ فرینکفرٹ کے حلقہ بیت السبوح کی صدر بھی رہیں۔ خلافت جوبلی کے سال میں ان کو بطور صدر لجنہ فرینکفرٹ میں خدمت کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز، روزہ کی بہت پابند تھیں۔ تہجد گزار تھیں۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والی، بہت صدقہ خیرات کرنے والی اور چندوں کی بروقت ادائیگی کرنےو الی تھیں۔‘‘(خطبہ جمعہ، فرمودہ ۱۲؍جنوری ۲۰۲۴ء)

خدا تعالیٰ مرحومہ کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل کرے اور اعلیٰ علیین مقام عطا فرمائے۔

اے میری جاں ہم بندے ہیں اک آقا کے آزاد نہیں

اور سچے بندے مالک کے ہر حکم پہ قرباں جاتے ہیں

ہے حکم تمہیں گھر جانے کا اور ہم کو ابھی کچھ ٹھہرنے کا

تم ٹھنڈے ٹھنڈے گھر جاؤ ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں

(کلامِ محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button