تقدیر الٰہی (قسط نمبر6)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
ان الفاظ کی مختصر حقیقت بیان کرنے کے بعد اب میں اس سوال کی طرف آتا ہوں کہ قرآن کریم سے کیا ثابت ہے کہ وہ بندوں سے کس طرح معاملہ کرتا ہے؟ آیا ان کا ہر ایک فعل اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہوتا ہے یعنی صدقہ، خیرات، خوش خلقی، ہمدردی یا چوری، ڈاکہ، ٹھگی سب کچھ خدا ہی کراتا ہے۔ یا یہ کہ بندوں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کمالیں اور جیسا جیسا وہ کمائیں ویسا ویسا بدلہ پائیں۔ قرآن کریم سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
مسئلہ تقدیر پر صرف لفظی ایمان لانا کافی نہیں
لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون پر کچھ بیان کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے اس معاملہ میں بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ صرف تقدیر پر ایمان لے آنا کافی ہے۔ حالانکہ اس کے سمجھنے اور جاننے کی ضرورت تھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے۔ اور جب یہ ایمان کی شرط ہے تو معلوم ہوا کہ ہمارے لیے مفید بھی ہے ورنہ اس پر ایمان لانا ضروری نہ ٹھہرایا جاتا۔ مثلاً خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہے کہ انسان کو اپنے محسن کا علم ہوتا ہے اور اس سے تعلق قائم کرنا جو اس کی ترقی کا موجب ہے اور اس کی پیدائش کی واحد غرض ہے اسی ایمان کے نتیجہ میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اور پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ اس علم اور ایمان سے انسان سمجھتا ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے سامنے مجھے اپنے اعمال کے متعلق جوابدہی کرنی پڑے گی۔ اسی طرح انبیاءؑ پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اس کا فائدہ ہے کہ ان کے ذریعہ انسان کو خدا تک پہنچنے کا رستہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ انسان یہ مانتا ہے کہ وہ نیک تحریکیں کرتے ہیں اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے تعلق پیدا کر کے ہدایت کے راستہ پر قدم زن ہونے کے لیے مددگار اور دوست پیدا کر لیتا ہے۔ اسی طرح خدا کی کتابوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اس کا یہ فائدہ ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اسے معلوم ہوجاتی ہے اور وہ احکام معلوم ہوتے ہیں جن پر چل کر یہ ہلاکت سے بچ جاتا ہے۔ اسی طرح بعث بعدالموت پر ایمان ہے اس کا یہ فائدہ ہے کہ انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی لغو نہیں بلکہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہے اور یہ اس کے لیے کوشش کرتا ہے اسی طرح جتنی باتیں ایسی ہیں جن پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے ان میں سے ہر ایک کا فائدہ ہے مگر تقدیر کے متعلق مسلمانوں نے اس بات کو نہیں سوچا کہ اس پر ایمان لانے کا کیا فائدہ ہے؟ وہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہوگئے کہ تقدیر کو مانو۔ اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا تھا کہ آگے کہہ دیا جائے اچھا یہی ہماری تقدیر!
تو مسلمان بجائے اس کے کہ اس مسئلہ کو ماننے کے فائدہ پر غور کرتے بیہودہ باتوں کی طرف چلے گئے۔ حالانکہ انہیں اسی طرف جاناچاہیے تھا کہ تقدیر کے ماننے کا کیا فائدہ ہے؟ اگر اس طرف جاتے تو جو تعریف انہوں نے مسئلہ تقدیر کی کی ہے وہ خود بخود لغو ثابت ہوجاتی اور ان پر واضح ہو جاتا کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں یہ تو بالکل فضول بات ہے اور تقدیر کے مسئلہ کا ماننا فضول نہیں ہوسکتا بلکہ روحانیت سے اس کا بہت بڑا تعلق ہے اور اس سے انسان کو بڑا فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ ایمانیات میں وہی باتیں داخل ہیں جن کا انسان کی روحانیت سے تعلق ہے اور جو روحانیت کی ترقی کا باعث ہیں۔
پس تقدیر کا ماننا جب انسان پر فرض کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ روحانیت سے اس کا تعلق ہے اور اس سے روح کو فائدہ پہنچتا ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا تو پھر اس طرف توجہ کرنی چاہیے تھی کہ معلوم کریں وہ کیا فائدہ ہے جو اس سے پہنچتا ہے۔ کیونکہ جب تک اس فائدہ کو معلوم نہ کریں گے اس وقت تک کیا فائدہ اٹھا سکیں گے؟ مگر افسوس فلسفیوں نے قدر اور جبر کی بحثوں میں عمریں ضائع کر دیں اور ایک منٹ کے لیے بھی اس بات کو نہ سوچا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بے فائدہ سر پھٹول کرتے رہے اور اس سے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ اگر اس امر کو سوچتے اور اس پر عمل کرتے تو ضرور فائدہ اٹھاتے۔ چنانچہ ان فلسفیوں کے مقابلہ میں وہ لوگ جنہوں نے تقدیر کے مسئلہ کے متعلق یقین کر لیا کہ یہ ہماری روحانی ترقی کے لیے ضروری ہے اور پھر اسی پر غور کر کے پتہ لگایا کہ اس کے نہ ماننے کے نقصان کیا ہیں اور ماننے کے فائدے کیا ہیں؟ اور پھر اس علم سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے تو یہاں تک ترقی کی کہ خدا تعالیٰ تک پہنچ گئے مگر دوسرے لوگ بیٹھے بحثیں کرتے رہے کہ جو فعل ہوتے ہیں وہ ہم کرتے ہیں یا خدا کرتا ہے۔
غرض اس مسئلہ کے متعلق لغو بحثیں کرنے والوں سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور یہ رسول کریم ﷺ کی اس حدیث کے مصداق ہوگئے کہ میری امت میں سے ایک قوم ایسی ہوگی جو قدر کے مسئلہ کی وجہ سے مسخ کی جائے گی۔
(ترمذی ابواب القدر باب الرضاء بالقضاء)
کیا ہر ایک فعل خدا کراتا ہے؟
اصل بات تو یہ تھی کہ وہ دیکھتے کہ اس مسئلہ کے فوائد کیا ہیں؟ مگر انہوں نے اس کو نہ دیکھا اور ایسے رنگ میں اس مسئلہ کو مانا کہ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان اٹھانا پڑا۔ اور اَور بھی جو کوئی ان کی بیان کردہ طرز کو مانے گا نقصان ہی اٹھائے گا۔ مثلاً ان لوگوں میں سے ایک فریق کہتا ہے کہ جو کچھ انسان کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ ہی کراتا ہے۔ اب اگر یہ بات درست ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ ادھر تو ہر ایک برے سے برا فعل خدا کراتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں ڈانٹتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ اب یہ عجیب بات ہے کہ آپ ہی خدا پکڑ کر انسان سے زنا کراتا ہے اور جب کوئی کرتا ہے تو کہتا ہے کیوں کرتے ہو؟ پھر آپ ہی تو ابوجہل کے دل میں ڈالتا ہے کہ محمد (ﷺ) جھوٹا ہے آپ ہی اس کو رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں ہاٹھ اٹھانے کے لیے کہتا ہے پھر آپ ہی کہتا ہے اس کو کیا ہوگیا؟ اس کی کیوں عقل ماری گئی؟
ہم کہتے ہیں یہ تو ظلم ہے اور نہ صرف ظلم ہی ہے بلکہ کم عقلی بھی ہے کہ آپ ہی خدا انسان سے ایک برا فعل کرائے اورپھر آپ ہی ڈانٹے۔ اب دیکھو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ بات ماننے سے کس قدر نقصان ہوسکتا ہے؟ ایسے عقیدہ کے ساتھ تو ایک منٹ کے لیے بھی انسان کا ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ تو قدر والوں کا حال ہے۔
تدبیر والوں کی غلطی
اب رہے تدبیر والے۔ انہوں نے جو تعلیم پیش کی ہے اس کے متعلق اگر وہ خود ہی غور و فکر سے کام لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انہوں نے ان تعلقات پر جو انسان اور خدا تعالیٰ کے درمیان ہیں تبر رکھ دیا ہے۔ کیونکہ تعلقات کی مضبوطی اور ان میں زیادتی محبت ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان کی تعلیم اس محبت کو جو انسان اور خدا کے درمیان ہے بالکل مٹا دینے والی ہے۔ تعلقات کس طرح محبت کا باعث ہوتے ہیں اس کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ‘‘اخبار عام’’پڑھ رہے تھے کہ مجھے آواز دی محمود!محمود!محمود! جب میں پاس گیا تو فرمانے لگے کلکتہ کا فلاں شخص مرگیا ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا مجھے کیا؟ فرمایا یہ بے تعلقی کا نتیجہ ہے۔ اس کے گھر تو ماتم پڑا ہوگا اور تُو کہتا ہے مجھے کیا؟
تو تعلق سے محبت پیدا ہوتی ہے مگر تدبیر کے قائل لوگوں کی تعلیم اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اشیاء پیدا کر دیں اور انسان کو پیدا کردیا۔ اور اس کے بعد اس نے اس کو بالکل چھوڑ دیا کہ جس طرح چاہے کرے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر بندہ اور خدا میں تعلق کیونکر قائم ہوسکتا ہے؟ بے شک جو چیزیں خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں ان کے اندر فوائد بھی ہیں مگر ان کے اندر نقصان بھی تو ہیں۔ مثلاً خدا نے آگ بنائی ہے۔ اگر اس کے کچھ فائدے ہیں تو نقصان بھی ہیں۔ اگر اس سے کھانا پکتا ہے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ کا سامان اور گھر بھی جلا کر سیاہ راکھ کر دیتی ہے۔
پس ان لوگوں نے تقدیر کے مسئلہ کو اس رنگ میں منوایا کہ ایک تو نعوذ باللہ، نعوذ باللہ خدا تعالیٰ پر جو تمام عقلوں کا پیدا کرنے والا ہے خلاف عقل کام کرنے کا الزام آتا ہے۔ اور دوسرے خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا جو محبت کا تعلق ہے وہ بالکل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ انسان کے دل میں طبعاً خیال پیدا ہوتا ہے کہ مثلاً آگ جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اگر فائدہ پہنچاتی ہے تو نقصان بھی تو کرتی ہے۔ پھر اس کے پیدا کرنے میں خدا تعالیٰ کا کیا احسان ہوا؟ یہ خیالات جب پیدا ہوں تو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات محبت نہیں پیدا ہوسکتے بلکہ ایسا ہی تعلق رہ جاتا ہے جیسا کہ یہاں کے لوگوں کو امریکہ والوں سے ہے بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ امریکہ سے تو مال بھی منگوا لیا جاتا ہے مگر خدا سے کسی بات کی امید نہیں۔ غرض اس قسم کے خیالات نے روحانیت کو حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
مسئلہ تقدیر کے متعلق ذوقی باتیں
اب میں اصل مسئلہ کی وہ حقیقت بیان کرتا ہوں جو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ پہلے میں اس کی تشریح کروں گا اور پھر اس کے فوائد بتاؤں گا۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مسئلہ تقدیر کے بعض ایسے پہلو بھی ہیں جن کو بڑے بڑے لوگ بھی بیان نہیں کرسکے اور نہ انہوں نے ان کے بیان کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ بعض ایسی باریک باتیں ہیں جو محض ذوقی ہوتی ہیں۔ ذوقی سے میری مراد وہ نہیں جو عام لوگ کہتے ہیں۔ یعنی جو باتیں بلادلیل کے ہوں اور ان کی کچھ حقیقت نہ ہو بلکہ میری مراد اس سے وہ امور ہیں کہ جب تک انسان ان کو خود نہ چکھے ان کو معلوم نہیں کرسکتا۔ پس ان باتوں کو نہ مجھ سے پہلے لوگ بیان کرسکے نہ میں بیان کرسکتا ہوں۔
تقدیر کی اقسام
تقدیر کے مسئلہ کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تقدیر کئی قسم کی ہوتی ہے اور ان اقسام میں سے مَیں اس وقت چار قسمیں بیان کروں گا۔ اور وہ چونکہ ایسی ہیں جو عام بندوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے لوگ انہیں سمجھ سکتے ہیں اور وہ سمجھائی جاسکتی ہیں۔
ان میں سے ایک کا نام مَیں تقدیر عام طبعی رکھوں گا یعنی وہ جو دنیا کے معاملات میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہے۔ یعنی آگ میں یہ خاصیت ہے کہ جلائے۔ پانی میں یہ خاصیت ہے کہ پیاس بجھائے اور لکڑی میں یہ کہ جلے۔ تاگے میں یہ کہ جب اسے خاص طرز پر کام میں لایا جائے تو کپڑا بُنے۔ روٹی میں یہ کہ پیٹ میں جائے تو پیٹ بھر جائے۔ یہ سب تقدیر ہے جو خدا کی طرف سے جاری ہے۔ انسان کا اس میں دخل نہیں۔ یہ عام ہے اور طبعی معاملات سے تعلق رکھتی ہے۔ روح سے اس کا تعلق نہیں بلکہ جسم سے ہے۔ یا یہ کہ آگ جلانا، انگور کی بیل کو انگور لگنا، کھجور کے درخت کو کھجور لگنا، بعض درختوں کے پیوند کا آپس میں مل جانا، بچہ کا نو ماہ یا ایک خاص مدت میں پیدا ہونا، یہ سب ایسے قانون ہیں جو عام طور پر جاری ہیں ان کا نام مَیں تقدیر عام طبعی رکھتا ہوں۔
دوسری تقدیر خاص طبعی ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک تقدیر عام ہے جیسے کہ قانون مقرر ہے کہ آگ جلائے۔ سورج کی تمازت کے نیچے گرمی محسوس ہو۔ سورج کی گرمی سے پھل پکیں۔ فلاں چیز سے صحت ہو فلاں سے بیماری ہو۔ یہ تو تقدیر عام طبعی ہے۔ لیکن ایک خاص تقدیر طبعی ہے۔ یعنی بعض دفعہ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام نازل ہوتے ہیں کہ فلاں شخص کو دولت مل جاوے۔ فلاں چیز کو جلا دیا جاوے۔ فلاں شخص کو مار دیا جاوے فلاں کے ہاں بچہ پیدا ہو (خواہ اس کی بیوی بانجھ ہی کیوں نہ ہو)یہ احکام خاص ہوتے ہیں۔ کسی عام طبعی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے یعنی ایسے طبعی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے جس کا لازمی نتیجہ اسی شکل میں نکلنا ضروری ہے جس شکل میں کہ کسی خاص شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے خاص احکام کے ماتحت ظاہر ہوا ہے۔
تیسری قسم تقدیر کی تقدیر عام شرعی ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر انسان اس رنگ میں نماز پڑھے تو اس کا یہ نتیجہ ہو اور اس رنگ میں پڑھے تو یہ ہو۔ روزہ رکھے تو یہ خاص روحانی تغیر پیدا ہو۔
چوتھی قسم تقدیر کی تقدیر خاص شرعی ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ خاص طور پر کسی بندہ پر اللہ تعالیٰ فضل کرے جو بطور موہبت ہو جیسے کلام الٰہی کا نزول کہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَلرَّحْمٰنُ۔ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔ (الرحمٰن:2۔3)
یہ چار اقسام تقدیر کی ہیں جن کے سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لیے میں نے الگ الگ نام رکھ دیے ہیں۔
(1) تقدیر عام طبعی۔(2)تقدیر خاص طبعی (3) تقدیر عام شرعی (4)تقدیر خاص شرعی۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صرف تقدیر عام طبعی جسمانی تعلقات سے ظاہر ہوتی ہے اور دوسری تمام اقسام تقدیر کی خواہ تقدیر خاص طبعی ہو یا تقدیر عام شرعی اور تقدیر خاص شرعی ان سب کا ظہور روحانی تعلقات کی بنا پر ہوتا ہے۔ یعنی ان کے ظہور کا باعث دنیوی اسباب نہیں ہوتے بلکہ وہ روحانی تعلقات جو بندہ کو اللہ تعالیٰ سے ہوتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ کو بندہ سے ہوتے ہیں۔ پس یہ تقدیر یا مومنوں کی ترقی کے لیے ظاہر ہوتی ہے یا کافروں کی ذلت کے لیے یا عام لوگوں کے لیے بطور رحم کے۔
تقدیر کی ان اقسام کے سوا کوئی ایسی قسم تقدیر کی نہیں ہے جو انسان کو مجبور کرتی ہے کہ چوری کرے، ڈاکہ مارے، زنا کرے، وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ خدا مجبوراً ایسا کراتا ہے وہ جھوٹ کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں۔
……………………………(باقی آئندہ)