ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ ٔجرمنی و بیلجیم۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ اول)
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
تعارف
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ یکم ستمبر٢٠١٨ء کو جرمنی اور بیلجیم کے اَٹھارہ روزہ دَورے کا آغاز فرمایا، جس کے دوران آپ نے دونوں ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ کو برکت اور رونق بخشی۔
احمدیوں کے جذبات
مورخہ یکم ستمبر ۲۰۱۸ء کو حضور انورو بیگم صاحبہ مع قافلہ صبح ساڑھے نَو بجے مسجد فضل لندن سے روانہ ہوئے اور براستہ فرانس اسی روز رات نَو بجے مسجد بیت السبوح میں جرمنی رونق افروز ہوئے۔ اگلی صبح حضور انور کا فیملی ملاقاتوں کا ایک سیشن تھا، جس میں زیادہ تر ایسے احمدی شامل تھےجو حال ہی میں جرمنی آئے تھے اور حضور انورسے پہلی بار ملاقات کرنے کا شرف حاصل کر رہے تھے۔
جب فیملی ملاقاتوں کا سیشن شروع ہوا تو مَیں باہر چلا گیا اور کچھ خاندانوں سے ملا جنہیں اس صبح حضرت صاحب سے ملاقات کا موقع میسر آیا تھا۔
ایک صاحب جنہیں پہلی مرتبہ حضور انور سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا، وہ تینتیس سالہ نوجوان ڈاکٹر مصور احمد صاحب تھے، جو Kaiserslauternسے تعلق رکھتے ہیں اور ٢٠١٤ء میں پاکستان سے جرمنی منتقل ہوئے تھے۔
مصور صاحب نے بتایا کہ مَیں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی اور چیز اس سے بھی زیادہ خوشی اور مسرت کا باعث بن سکتی ہے جو مجھے اور میری اہلیہ کو حضرت صاحب کی معیّت میں دومنٹ گزارنے میں حاصل ہوئی۔ وہ دو منٹ ہمیشہ ہماری یادوں میں نقش رہیں گے اور ساری زندگی ہمارے ساتھ رہیں گے۔
مصور صاحب نے مزید بتایاکہ جب مَیں پاکستان میں تھا تو یہ تصور بھی محال تھا کہ مجھے کبھی حضرت صاحب سے ملاقات کا موقع ملے گا۔ مجھے وہ لمحات بھی یاد ہیں جب ہمارے مرکزی اجتماعات یا جلسوں کا انعقاد ہیں ہوسکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمارا سارا درد دُور فرما دیا اور جو ناممکن لگتا تھا اسے حقیقت بنا دیا۔ یہاں ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے، ہم جلسے میں شریک ہو سکتے ہیں اور اپنے روحانی پیشوا سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے آج حاصل کیا ہے وہ دنیا کی تمام دولت سے کہیں بڑھ کر ہے۔
مَیں اکتیس سالہ پیٹرک لاکاکوز(Lakakosz) صاحب اور ان کی اہلیہ رخشندہ اعوان صاحبہ سے بھی ملا۔ان کی شادی ٢٠١٣ء میں ہوئی تھی اور دونوں سماجی کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔حضرت صاحب سے پہلی بار ملاقات کے بعد ان کی جذباتی کیفیت ان کے چہرے سے خوب عیاں تھی۔
رخشندہ صاحبہ نےبتایا کہ حضرت صاحب کے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے مَیں شدید گھبراہٹ کا شکار تھی اور جیسے ہی اندرداخل ہوئی، مَیں جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور میری زبان نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ یہ ایک ناقابلِ بیان لمحہ تھا، ایک ایسا منفرد احساس، جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ حضرت صاحب کے ملنے کا انداز اور شخصیت بے حد مہربان، نرم خُو اور محبّت سے بھرپورتھی۔ انہوں نے ہمارا حال احوال دریافت فرمایا، ہمیں حوصلہ دیا اور ہماری عاجزانہ گذارشات پر گہری دلچسپی لی۔ آپ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ حضرت صاحب سے ملاقات کے بعد مَیں پختہ ارادہ رکھتی ہوں کہ مَیں اپنی زندگی اس طرح گزاروں گی کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
ان کے شوہر پیٹرک صاحب نے کہا کہ مَیں حضرت صاحب کو اپنی زندگی کی کہانی سنانا چاہتا تھا۔ خاص طور پر مَیں ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ مَیں نے سوشل ورک میں اپنی تعلیم مکمل کی ہے لیکن جتنے نمبر مجھے درکار تھے، ان سے کچھ کم تھے، جس کی وجہ سے مجھے جلسہ کے موقع پر حضرت صاحب سے تعلیمی انعام نہیں مل سکا تھا۔ اس معمولی فرق کی وجہ سے مَیں بہت افسردہ تھا، لیکن ملاقات کے دوران حضرت صاحب نے مجھے ایک انگوٹھی تحفۃً عنایت فرمائی جسے مَیں اپنا انعام سمجھتا ہوں۔
موصوف نے فرطِ جذبات سے پُر آواز میں کہا کہ میری زندگی میں مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن کسی نہ کسی طرح مَیں رفتہ رفتہ سنبھلتا گیا اور خود کو بہتر بناتا چلا گیا۔ مَیں حضرت صاحب کو یہ سب بتانا چاہتا تھا کیونکہ جب بھی مَیں اپنی زندگی میں پریشان ہوتا، مَیں حضور کو دعا کے لیے لکھتا اور ان کے خطوط میرے دکھوں کا مداوا بنتے اور مجھے حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ ان کی دعاؤں نے میری زندگی کے ہر مرحلے پر میری مددفرمائی۔ اب مَیں یہ یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ تربیت کو جماعت کی خدمت کے لیے بروئے کار لاؤں۔
مَیں ایک اٹھائیس سالہ احمدی شاہد ارشد صاحب سے ملا جنہوں نے تین ماہ قبل جلالپور پاکستان سے جرمنی ہجرت کی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں اور ان کے خاندان کو احمدیت کی وجہ سے بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے والد نے احمدیت قبول کی تھی، جس کے بعد انہیں معاشرتی مقاطعہ کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا خاندان بھی ان کے خلاف ہو گیا۔مثال کے طور پر ان کے والد کو خاندانی وراثت سے محروم کر دیا گیا اور اپنے خاندان سے رابطہ بالکل منقطع ہو گیا۔
شاہد صاحب نےبتایا کہ مَیں نے دیکھا اور مشاہدہ کیا کہ میرے والد کے خاندان نے ان پر دباؤ ڈالنے اور انہیں احمدیت سے دستبردارکروانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن کوئی بھی حیلہ ہمارے ایمان کو ہم سے چھین نہیں سکا۔ اگرچہ انہوں نے میرے والد کو وراثت سے بے دخل کر دیامگر ہمارا خاندان مالی طور پر بہتر ہو رہا ہے، جبکہ میرے والد کے خاندان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
جب مَیں نے پوچھا کہ ان کے حضرت صاحب سے پہلی بار ملاقات کرنے پر کیا تاثرات ہیں تو شاہد صاحب کا چہرہ فوراً خوشی سے تمتما اُٹھا۔شاہد صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے اور میری اہلیہ سے بڑی محبّت اور شفقت سے ملاقات کی۔ایسا محسوس ہوا جیسے حضور بیک وقت ہمارے والد، والدہ، بھائی اور دوست بھی ہیں۔ اس سعادت کو حاصل کرنے کے بعد مَیں جانتا ہوں کہ میری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ اگر مَیں اپنی اصلاح نہ کر سکا اور روحانی ترقی نہ کر سکا تو پھر اس ملاقات کا کیا فائدہو گا؟
ایک اورصاحب جنہیں حضور انورسے ملاقات کی سعادت ملی وہ بتیس سالہ اوصاف احمد صاحب تھے۔ موصوف ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیںجو پہلے ربوہ منتقل ہوئے اور پھر ٢٠١٢ء میں جرمنی ہجرت کر آئے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ کو قبول احمدیت کی توفیق ملی تھی اوربعد ازاں٢٠١٣ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
اوصاف صاحب نےبتایا کہ میری والدہ بہت مضبوط ایمان رکھتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ حضور انور کی خلافت سے پہلے انہوں نے مجھے ایک مرتبہ کہا کہ کسی کو بتانا مت ،لیکن یہ شخص یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایک دن خلیفہ بنے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں یہ کیسے علم ہوا؟ شاید انہوں نے کوئی خواب دیکھا ہو۔بہرحال مَیں ان کے الفاظ کبھی نہیں بھولا اور بالآخر ان کی بات سچ ثابت ہوئی۔ آج جب مَیں نے حضور انور سے ملاقات کی تو میری خواہش تھی کہ میری والدہ بھى یہاں ہوتیں اور وہ بھی ان برکات سے حصہ پاتیں جو مجھے حاصل ہوئیں۔
احمدیوں کے جذبات
دوپہر کے کھانے کے بعد ایک اور فیملی ملاقات کا سیشن منعقد ہوا جو نمازِمغرب و عشاء تک جاری رہا۔
ایک دوست جو حضور انور سے ملے وہ بتیس سالہ حارث شکیل صاحب تھے۔موصوف ربوہ میں پلےبڑھے، ٢٠٠٨ء میں دبئی چلے گئےاور وہاں سے پھر ۲۰۱۴ء میںجرمنی آگئے۔
حضورِانورسے ملاقات کے بعد حارث صاحب نے کہا کہ مَیں ذاتی طور پر حضور انورکے لیے بہت درد محسوس کرتا ہوں کیونکہ مَیں پاکستان سے ہوں اور مَیں ہر روز اسے بہت یاد کرتا ہوں۔ لیکن ہم اکثر اس عظیم قربانی کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو ہمارے پیارے حضور نے دی ہے کہ وہ اس ملک میں واپس نہیں جا سکتے جہاں وہ پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ کوئی شخص جتنا مرضی اپنےنئے ملک میں ضمّ ہو جائے لیکن آبائی وطن ہمیشہ ایک خاص مقام رکھتا ہے، لہٰذا مَیں باقاعدگی سے دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے حالات بہتر ہوں تاکہ ایک دن حضور انور پاکستان واپس تشریف لا سکیں، چاہے ایسا صرف ایک مختصر دَورے پر ہی منتج کیوں نہ ہو۔
بعد ازاں مَیں نے حارث صاحب کی بات پر غور کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور انور کو پاکستان کی بہت یاد آتی ہے۔ کئی مواقع پر حضور انور نے مجھے پاکستان میں اپنی زندگی کے واقعات سنائے ہیں اور خاص طور پر ربوہ کے بارے میں بات کی ہے۔کئی مرتبہ مَیں نے حضور انور کو ایسے تبصرہ یا اس انداز میں بات فرماتے سنا ہے جو ان کی پاکستان سے بے پناہ محبّت اور گہری وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔مثال کے طور پر کئی مواقع پرحضور انور مجھ سے کچھ اس طریق پر مخاطب ہوئے کہ تم انگریز ہو، لیکن مَیں تو پاکستانی ہوں۔
دہائیوں پر محیط ظلم اور ناانصافی کے باعث پاکستان نے خلافتِ احمدیہ کا مرکز ہونے کا بے مثل فخر اوراعزاز کھو دیا ہے۔ اپنے ملک کے حکمرانوں کے اس ظلم کے باوجود حضور انور اپنی قوم اور ملک سےگہری محبّت رکھتے ہیں۔
ایک اور صاحب جنہوں نے حضور انور سے ملاقات کی، وہ انچاس سالہ طاہر احمد پھول صاحب تھےجو ١٩٨٤ء میں جرمنی منتقل ہوئے، لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ سے کبھی ملاقات نہیں کر پائے تھے۔ یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی اور مَیں نے پوچھا کہ ان کی ملاقات کی باری اتنے عرصے بعد کیوں آئی؟
میرے سوال کے جواب میں طاہر صاحب نے بتایا کہ مَیں نے خود ملاقات کے لیے اب تک درخواست نہیں دی تھی کیونکہ مَیں چاہتا تھا کہ میرے بچے اس عمر کو پہنچ جائیں جہاں وہ خلافت کی برکات اور حضور انور سے ملاقات کے مقصد کو حقیقی طور پر سمجھ سکیں۔ ممکن ہے کہ یہ میری زندگی میں اپنے خلیفہ سے ملاقات کا واحد موقع ہو، اس لیے مَیں نے چاہا کہ میرے بچے ایسی عمر میں ہوں جہاں وہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکیں۔
طاہر صاحب نے مزید کہا کہ بچپن سے ہی میں نے پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ غیر احمدیوں کی بدسلوکی مشاہدہ کی ہے، لیکن اس نفرت آمیز سلوک نے ہمیشہ خلافت پر ہمارے ایمان کو بڑھایاہے اورہر گزرتے دن کے ساتھ اس بات پر یقین بڑھتا گیا ہے کہ خلیفہ خدا بناتاہے۔خلیفہ وقت اور احمدیوں کے درمیان محبّت کے جذبات اللہ تعالیٰ ہی کسی کے دل میں ڈال سکتا ہے۔
اس شام میری ملاقات بتیس سالہ عتیق احمد صاحب سے بھی ہوئی، جنہوں نے پہلی دفعہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ حضور انور سے ملاقات کی ۔موصوف ٢٠١٧ء میں پاکستان سے جرمنی منتقل ہوئے تھے۔عتیق صاحب نے مجھے بتایا کہ انہیں پاکستان میں بہت زیادہ ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ، انہیں جھوٹے الزامات میں قید کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
آپ نے مزید کہا کہ ٢٠١١ء میں مجھے اورمیرے بھائی کو پاکستان میں گرفتار کر کے مقامی جیل میں لے جایا گیا، جہاں پولیس صرف ہمارے احمدی مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمیں باربارزدو کوب کرتی تھی۔ہمیں ایک ماہ اور چھ دن تک جیل میں رکھا گیا اور مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ مَیں زندہ ہوں اور اس ظلم سے بچ گیا ہوں۔ اس دوران مَیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے برداشت سے بڑھ کر اذیت نہ پہنچے۔اللہ تعالیٰ نے میری دعا سنی، کیونکہ جب بھی مجھے لگتا تھا کہ مَیں اپنی جسمانی اور ذہنی برداشت کی حد کو پہنچ گیا ہوں تو کچھ وقت کے لیے تشدد رک جاتا تھا۔عتیق صاحب نے مزید بیان کیا کہ مَیں دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ کبھی بھی میرا اِیمان کمزور نہیں ہوا اور نہ ہی مَیں نے کبھی رعایتی سلوک کی خاطر اپنے ایمان کے خلاف کچھ کہنے کا سوچا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا، وہ ہمیشہ میرے ساتھ تھا اور آج اس نے مجھے ان تکالیف کے بدلے بہترین انعامات عطا فرمائےہی۔حضور انور سے ملاقات نے میرے دل سے ہر غم اور دکھ کو دُور کر دیا ہے۔ حضور انور کے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے مَیں کافی گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ مَیں سانس نہیں لے پا رہا۔ لیکن جیسے ہی مَیں حضور انور کے دفتر میں داخل ہواتو مَیں نے حضور انور کی بےپناہ محبّت اور شفقت کو محسوس کیا۔ مَیں جانتا تھا کہ مَیں اپنے سب سے بہترین اور خوبصورت روحانی باپ کی معیّت میں ہوں۔
(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مدثرہ ثروت)