خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ ستمبر 2024ء

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: أَبْشِرُوْا یَامَعْشَرَالْمُؤْمِنِیْنَ بِنَصْرِاللّٰہِ تَعَالٰی وَ عَوْنِہٖ۔
اے مومنوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے ساتھ خوش ہو جاؤ…
مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں گا اور اس کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور کسریٰ اور قیصر ضرور ہلاک ہو جائیں گے اور ان کے مال اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے

بعض اوقات ہمارے نوجوان بھی غیروں کی باتیں سن کے سوال کر دیتے ہیں کہ بنو قریظہ پہ اس وقت کیوں یہ ظلم کیا گیا؟ انہوں نے معاہدہ توڑا تھا اس لیے ان کو اس کی سزا دی گئی تھی۔ کوئی ظلم نہیں تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان پر ہوا

غزوۂ احزاب کے دوران کھانے میں برکت کے واقعات، خندق کی کھدائی کے دوران منافقوں اور مومنوں کی حالت،
آنحضرتﷺ کی لڑائی کی تیاری، مسلمانوں کی تعداد، مشرکین کے مدینہ پہنچنے اور اس کے بعد کے حالات نیز بنو قریظہ کی غداری کا بیان

آج سے خدام الاحمدیہ کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے… ان دنوں میں خدام روحانی اور علمی معیاروں کو بڑھانے کی بھی کوشش کریں۔ جن دعاؤں اور درود کی طرف میں نےتوجہ دلائی تھی اور اس کی تحریک کی تھی، ان دنوں میں اس طرف بھی خاص توجہ رکھیں اور ہمیشہ دہراتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شیطانی حملے سے ہر ایک کو بچائے

مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب ربوہ، ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب ، مکرم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب ربوہ اور مکرم ماسٹر منیر احمد صاحب جھنگ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ستمبر 2024ء بمطابق 20؍تبوک 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جنگ احزاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ذکر ہو رہا تھا۔

میں نے گذشتہ خطبہ میں کھانے میں برکت کا معجزہ بیان کیا تھا۔ اسی طرح کا

کھجوروں میں برکت کا بھی واقعہ ملتا ہے۔

لکھا ہے کہ تھوڑی سی کھجوریں جو تمام خندق کھودنے والوں نے کھائیں۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے کہ غزوہ خندق کے موقع کی ایک روایت ہے۔ حضرت بشیر بن سعدؓ کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عَمْرَہ بنت رَوَاحَہ نے میرے کپڑوں میں تھوڑی سی کھجوریں دے کر کہا کہ بیٹی !یہ اپنے باپ اور ماموں کو دے آؤ اور کہنا یہ تمہارا صبح کا کھانا ہے۔ وہ کہتی ہیں مَیں ان کھجوروں کو لے کر چلی اور اپنے والد اور ماموں کو ڈھونڈتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکی! یہ تیرے پاس کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کھجوریں ہیں۔ میری ماں نے میرے والد بشیر بن سعد اور میرے ماموں عبداللہ بن رواحہ کے لیے بھیجی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ لاؤ مجھے دے دو۔ میں نے وہ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں میں رکھ دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو ایک کپڑے پر ڈال دیا اور پھر ان کو ایک اور کپڑے سے ڈھانپ دیا اور ایک شخص سے فرمایا کہ لوگوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ چنانچہ تمام خندق کھودنے والے جمع ہو گئے اور ان کھجوروں کو کھانے لگے اور وہ کھجوریں زیادہ ہوتی گئیں یہاں تک کہ جب سب کھا چکے تو کھجوریں کپڑے کے کنارے سے نیچے گر رہی تھیں ۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 623-624دارالکتب العلمیۃ بیروت)

کھانے میں برکت کے مزید واقعات بھی ہیں ۔

عُبَیداللہ بن ابی بُرْدَہ روایت کرتے ہیں کہ اُمِّ عامر اَشْھَلِیَہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن بھیجا جس میں حَیس تھا ۔حَیْس ایسا کھانا ہے جو کھجور ،گھی اور پنیر سے بنایا جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں حضرت ام سلمہؓ کے پاس تھے۔ حضرت ام سلمہؓ نے اپنی ضرورت کے مطابق اس سے کھایا ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن کو لے کر باہر تشریف لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے کھانے کے لیے بلایا تو اہل خندق نے اس کو کھایا یہاں تک کہ اس سے سیر ہوگئے اور وہ کھانا پہلے کی طرح تھا جیسے کچھ بھی نہ کم ہوا ہو۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ370 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(لغات الحدیث جلد 1 صفحہ 542)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سالک کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہ جہاں وہ خدا کا اس قدر قرب حاصل کر لیتا ہے کہ جیسے آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسے چھپا لیتی ہے کہ ظاہر نظر میں بجز آگ کے کچھ نظر نہیں آتا اور جس کو

لقا کا مرتبہ

کہا جاتا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ سالک کی اور جن کو لقا ملتا ہے ان کی تعریف بیان کرتے ہیں پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑاکہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا … اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزارہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب‘‘ یعنی کڑوا نمکین پانی کے ’’کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر‘‘ یعنی زخمیوں پر ’’اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا۔ ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کیے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 65-66)

خندق کی کھدائی کے دوران منافقوں اور مومنوں کی حالت

کا بیان بھی ہوا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے ۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ کئی منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے کام میں شرکت سے سستی کی اور وہ تھوڑا سا کام کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے بغیر اور اجازت لیے بغیر گھر کھسک جاتے اور مسلمانوں میں سے کسی کو جب کوئی ضرورت پیش آتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے اور جانے کی اجازت طلب کرتے۔ یہ مومنوں کی حالت تھی۔

منافقین بغیر پوچھے چلے جاتے تھے۔ مومن پوچھ کے جاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کو اجازت دیتے تھے۔ اور وہ جیسے ہی حاجت پوری کرلیتے تو واپس آجاتے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4صفحہ370دارالکتب العلمیۃ بیروت)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑائی کی تیاری کی مزید تفصیل

بھی بیان ہوئی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ روایات کے مطابق ابوسفیان کے لشکر کی آمد سے تین دن قبل خندق تیار ہو چکی تھی۔ اب منصوبے کے مطابق خندق میں کام کرنے والے بچوں اور نوجوانوں کو بھی ان قلعوں کی طرف بھیج دیا گیا جہاں عورتوں کو حفاظت کی غرض سے منتقل کیا گیا تھا۔ البتہ جن کی عمر پندرہ سال تھی ان کو اجازت دی گئی کہ چاہیں تو یہاں رہیں چاہیں تو واپس قلعوں میں چلے جائیں ۔ ایسے جن نوجوانوں کو جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی ان میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت زید بن ثابتؓ  ،حضرت ابوسعید خُدریؓ اور حضرت بَراء بن عَازِبؓ شامل تھے۔

(سبل الھدیٰ والرشادجلد4صفحہ371دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوہ احزاب از باشمیل صفحہ175 نفیس اکیڈیمی کراچی)
(ویکیپیڈیا ، غزوہ خندق)

ابن ہشام کے قول کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پر اپنا نائب ابنِ اُمِّ مَکْتُوم ؓکو بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سَلْع پہاڑکے سامنے پڑاؤ ڈالا۔ سلع مدینہ کے شمالی جانب ایک پہاڑ ہے جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آجکل مسجد نبوی سے تقریباً پانچ سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس پہاڑ کو اپنے پیچھے رکھا اور خندق کو سامنے رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر بھی وہاں تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چمڑے کا خیمہ لگایا گیا۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ ؓکو اور انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہؓ کو دیا گیا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ371 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(ویکیپیڈیا ، سلع پہاڑ)

مسلمانوں کی تعداد

کے بارے میں مؤرخین کافی مختلف روایات بیان کرتے ہیں ۔ کسی کے نزدیک یہ تعداد نو سو سے زائد نہیں تھی اور کسی کے نزدیک سات سو تھی ۔کسی کے نزدیک دو ہزار اور کسی کے نزدیک تین ہزار تھی۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ371 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوہ احزاب ازباشمیل صفحہ178 نفیس اکیڈیمی کراچی)
( الصحیح من سیرۃ النبی ﷺ الاعظم،صفحہ 297،جلد10)
(سیرت انسائیکلوپیڈیا صفحہ 300 مطبوعہ دار السلام)

مختلف جگہ مسلمانوں کی مختلف تعداد بیان ہوئی ہے ۔ مؤرخین کو اس تعداد کے بیان میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ جب اس تعداد کا ذکر کرتے ہیں تو ایک روایت کو ترجیح دیتے ہوئے باقی روایات کو غلط قرار دیتے ہیں ۔لیکن

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمال فراست سے کسی کو بھی غلط کہنے کی بجائے ان تمام روایات کی جو آپس میں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں تطبیق کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں

کہ ’’اِس موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کے بارہ میں مؤرخین میں سخت اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس لشکر کی تعداد تین ہزار لکھی ہے بعض نے بارہ تیرہ سو اور بعض نے سات سو۔ یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی تاویل بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے اور مؤرخین اسے حل نہیں کر سکے۔ لیکن

مَیں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے اور وہ یہ کہ تینوں قسم کی روایتیں درست ہیں ۔

یہ بتایا جا چکاہے کہ جنگ اُحد میں منافقین کے واپس آجانے کے بعد مسلمانوں کا لشکر صرف سات سو افراد پر مشتمل تھا۔ جنگ احزاب اس کے صرف دو سال کے بعد ہوئی ہے اور اس عرصہ میں کوئی بڑا قبیلہ اسلام لا کر مدینہ میں آکر نہیں بسا۔ پس سات سو آدمیوں کا یکدم تین ہزار ہو جانا قرین قیاس نہیں۔‘‘یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ سات سو آدمی جو تھے وہ ایک دم تین ہزار ہو گئے جبکہ باہر سے بھی کوئی نہیں آیا۔ ’’دوسری طرف یہ امر بھی قرین قیاس نہیں کہ اُحد کے دو سال بعد تک باوجود اسلام کی ترقی کے قابلِ جنگ مسلمان اتنے ہی رہے جتنے احد کے وقت تھے۔‘‘ کچھ نہ کچھ تعداد بڑھی ہو گی۔ ’’پس اِن دونوں تنقیدوں کے بعد وہ روایت ہی درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑنے کے قابل مسلمان جنگ احزاب کے وقت کوئی بارہ سو تھے۔

اب رہا یہ سوال کہ پھر کسی نے تین ہزار اور کسی نے سات سو کیوں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دو روایتیں الگ الگ حالتوں اور نظریوں کے ماتحت بیان کی گئی ہیں ۔جنگ احزاب کے تین حصے تھے۔ ایک حصہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینہ کے سامنے نہ آیا تھا اور خندق کھودی جار ہی تھی۔ اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچے بھی کر سکتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس کام میں مدد دے سکتی تھیں ۔ پس جب تک خندق کھودنے کاکام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی مگر اِس میں بچے بھی شامل تھے اور صحابیہ عورتوں کے جوش کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس تعداد میں کچھ عورتیں بھی شامل ہوں گی جو خندق کھودنے کا کام تو نہیں کرتی ہوں گی مگر اوپر کے کاموں میں حصہ لیتی ہوں گی۔ یہ میرا خیال ہی نہیں ہے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں یہ میرا خیال نہیں ہے بلکہ ’’تاریخ سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب خندق کھودنے کا وقت آیا سب لڑکے بھی جمع کر لیے گئے اور تمام مرد خواہ بڑے تھے خواہ بچے خندق کھودنے یا اس میں مدد دینے کا کام کرتے تھے۔ پھر جب دشمن آگیا اور لڑائی شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لڑکو ں کو جو پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے تھے چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے ہو چکے تھے، انہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہریں خواہ چلے جائیں ۔

اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھودنے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہو گئی کیونکہ نابالغوں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ پس جن روایتوں میں تین ہزار کا ذکر آیا ہے وہ خندق کھودنے کے وقت کی تعداد بتاتی ہیں جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے اور جیسا کہ میں نے دوسری جنگوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالا ہے کچھ عورتیں بھی تھیں ۔‘‘کیونکہ باقی جنگوں کی روایات میں ملتا ہے ناں کہ عورتیں شامل ہوتی تھیں ’’لیکن بارہ سو کی تعداد اس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہوگئی اور صرف بالغ مرد رہ گئے۔

اب رہا یہ سوال کہ تیسری روایت جو سات سو سپاہی بتاتی ہے کیا وہ بھی درست ہے؟‘‘تین ہزار سے بارہ سو تک تو مان لیا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا سات سو والی روایت بھی درست ہے؟ ’’تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ابن اسحٰق مؤرخ نے بیان کی ہے جو بہت معتبر مؤرخ ہے اور ابن حزم جیسے زبردست عالم نے اِس کی بڑے زور سے تصدیق کی ہے۔ پس اس کے بارہ میں بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ یہ بھی صحیح ہو گی۔ ’’اور اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کی مزید چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے دوران میں بنو قُریظہ کفار کے لشکر سے مل گئے اور انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر اچانک حملہ کر دیں اور ان کی نیتوں کا راز فاش ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری سمجھی جس سمت بنوقریظہ تھے اور جو سمت پہلے اس خیال سے بےحفاظت چھوڑ دی گئی تھی کہ بنو قریظہ ہمارے اتحادی ہیں یہ دشمن کو اِس طرف سے نہ آنے دیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنو قریظہ کے غدر کا حال معلوم ہواتو ۔‘‘ علیحدگی کا حال جب معلوم ہوا، دھوکے کا حال جب معلوم ہوا تو ’’چونکہ مستورات بنو قریظہ کے اعتبار پر اس علاقہ میں رکھی گئی تھیں جدھر بنو قریظہ کے قلعے تھے اور وہ بغیر حفاظت تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب ان کی حفاظت ضروری سمجھی اور دو لشکر مسلمانوں کے تیار کر کے عورتوں کے ٹھہرنے کے دونوں حصوں پر مقرر فرمائے۔ مَسْلَمَہ ابن اَسْلَمؓ  کو دو سو صحابہ دے کر ایک جگہ مقرر کیا اور زید بن حارثہؓ  کو تین سو صحابہ دے کر دوسری جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہتے رہا کریں تاکہ معلوم ہوتا رہے کہ عورتیں محفوظ ہیں ۔ اِس روایت سے ہماری یہ مشکل کہ سات سو سپاہی جنگ خندق میں ابن اسحاق نے کیوں بتائے ہیں حل ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارہ سو سپاہیوں میں سے جب پانچ سو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لیے بھجوا دیئے گئے تو بارہ سو کا لشکر صرف سات سو رہ گیا اور اس طرح جنگ خندق کے سپاہیوں کی تعداد کے متعلق جو شدید اختلاف تاریخوں میں پایا جاتا ہے وہ حل ہو گیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ269تا271)

مشرکین کے مدینہ پہنچنے اور اس کے بعد کے حالات

کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ ابوسفیان کی قیادت میں قریش مکہ اور دیگر قبائل کی فوج مدینہ پہنچ گئی اور مدینہ کے گردا گرد ڈیرے ڈال دیے۔ اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح بیان کی ہے کہ ’’کم وبیش بیس ایام یاایک روایت کی رو سے چھ شبانہ روز‘‘صبح شام کی محنت ’’ کی مسلسل محنت سے یہ طویل خندق تکمیل کوپہنچی۔ اور اس غیر معمولی محنت ومشقت نے صحابہ کو بالکل نڈھال کر دیا۔ مگر اِدھر یہ کام اختتام کو پہنچا اور اُدھر یہود اور مشرکین عرب کا لاؤ لشکر اپنی تعداد اور طاقت کے نشہ میں مخمور افق مدینہ میں نمودار ہو گیا۔ سب سے پہلے ابو سفیان نے احد کی پہاڑی کی طرف رخ کیا مگر اس جگہ کو ویران وسنسان پا کر وہ مدینہ کی اس سمت کوبڑھا جوشہر پر حملہ کرنے کے لیے موزوں تھی مگر جس کے سامنے اب خندق کھود دی گئی تھی۔ جب کفار کالشکر اس جگہ پہنچا تو خندق کو اپنے رستہ میں حائل پا کر سب لوگ حیران وپریشان ہو گئے اور اس بات پر مجبور ہوئے کہ خندق کے پار کھلے میدان میں ڈیرے ڈال دیں ۔ دوسری طرف لشکر کفار کی آمد آمد کی خبر پاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تین ہزار مسلمانوں کو ساتھ لے کر شہر سے نکلے اور خندق کے پاس پہنچ کر شہر اور خندق کے درمیان سلع پہاڑی کو اپنے عقب میں رکھتے ہوئے ڈیرے ڈال دیے۔ اور چونکہ خندق زیادہ فراخ نہیں تھی اور بعض حصے یقیناً ایسے تھے کہ مضبوط اور ہوشیار سوار انہیں پھاند کر شہر کی طرف آسکتے تھے۔ اور پھر مدینہ کے وہ اطراف جہاں خندق نہیں تھی اور صرف مکانات اورباغات اوربے ترتیب چٹانوں کی روک تھی ان کی حفاظت بھی ضروری تھی تاکہ دشمن اس طرف سے مکانوں کو نقصان پہنچا کر یاکسی اور حکمت سے تھوڑے تھوڑے آدمیوں کی لائنوں میں ہو کر شہر پرحملہ آور نہ ہوجاوے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کومختلف دستوں میں منقسم کرکے خندق کے مختلف حصوں پر اور مدینہ کی دوسری اطراف میں مناسب جگہوں پرپہرے کی چوکیاں مقرر فرما دیں اور تاکید فرمائی کہ دن ہو یا رات کسی وقت میں یہ پہرہ سست یا غافل نہ ہونے پائے۔ دوسری طرف جب کفار نے یہ دیکھا کہ بوجہ خندق کی روک کے کھلے میدان کی باقاعدہ لڑائی یاشہر پر عام دھاوے کا حملہ ناممکن ہو گئے ہیں توانہوں نے بھی محاصرہ کے رنگ میں مدینہ کا گھیرا ڈال لیا اور خندق کے کمزور حصوں سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ تلاش کرنے لگ گئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ583-584)

بہرحال

جب دشمن خندق عبور کرنے میں ناکام رہا تو پھر اَور چالیں چلنے لگا۔

اس کی تفصیل تاریخ میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ مشرکین نے مدینہ کے چاروں طرف سے محاصرہ تو کر لیا لیکن

باوجود پوری کوشش کے وہ خندق کو کسی بھی جگہ سے نہ عبور کر سکے اور نہ ہی مسلمانوں پر کھل کر حملہ کر سکے۔ اس لاچارگی اور بے بسی کی کیفیت کو دیکھ کر ابوسفیان اور بنو نضیر کے سردار حُیَی بن اخطب وغیرہ نے ایک اَور سازش کا منصوبہ بنایا کہ مدینہ کے اندر موجود یہودی قبیلہ بنو قُریظہ کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کو توڑ دے اور ہمارے ساتھ مل جائے اور وہ اندر سے مدینہ والوں پر حملہ کر دے۔

چنانچہ اس بھیانک سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حُیَی بن اخطب بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد قُرَظِی کے پاس آیا۔ جب کعب نے اس کے آنے کی خبر سنی تو قلعہ کا دروازہ بند کر دیا۔ حُیَی نے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی تو کعب نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ حُیَی نے آواز دے کر کہا کہ اے کعب !تیرا ناس ہو دروازہ کھول دے۔ کعب نے کہا اے حُیَی!تُو منحوس آدمی ہے۔ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر چکا ہوں ۔ میں اس وعدے کو نہیں توڑوں گا اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ سچا اور معاہدوں کی پاسداری کرنے والا پایا ہے۔ ایک طرف تو یہ بیان دیا لیکن آگے جا کر بدل گیا۔ پھر اس نے کہا دروازہ کھول۔ میں نے تجھ سے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔ کعب نے کہا اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا۔ لیکن کچھ تکرار کے بعد آخر کار کعب نے دروازہ کھول دیا تو حُیَی نے کہا اے کعب! تیرا ناس ہو ۔میں تیرے پاس زمانے کی عزت اورٹھاٹھیں مارتا سمندر لایا ہوں ۔ میں تیرے پاس قریش کے قائدین اور سرداروں کو لایا ہوں اور اس نے ان تمام قبائل کی تفصیل بتائی جو اپنی فوجوں کو لے کر مدینہ کے چاروں طرف سے مسلمانوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہم نے آپس میں پختہ عہد کیا ہوا ہے کہ اب یہاں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کا قلع قمع کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے اور ہم اس میں کامیاب بھی ہو چکے ہوتے اگر ہمارے راستے میں یہ خندق حائل نہ ہوتی۔ لیکن یہ ساری باتیں سن کر بھی بنو قریظہ کا سردار کعب معاہدہ توڑنے پر آمادہ نہ ہوا اور اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! تُو میرے پاس زمانے کی ذلت اور ایسا بادل لایا ہے جس میں پانی نہیں ہے۔ وہ صرف گرج اور چمک دکھاتا ہے اس میں کوئی چیز نہیں ہے۔

اے حُیَی! تیرا ناس ہو۔ مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ زبان کا سچا اور وعدہ وفا کرنے والا پایا ہے۔ بار بار یہی کہہ رہاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سچے اور وعدہ وفا کرنے والے ہیں ۔ وہ نہ تو ہم پر کوئی جبر کرتے ہیں اور نہ ہی ہمارے دین میں کسی قسم کی مداخلت کرتے ہیں ۔ وہ ہمارا بہترین ہمسایہ ہے۔ لہٰذا تم واپس چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارا بھی وہی حشر ہو جو ہم سے پہلے تم لوگوں کا ہوا ہے ۔

لیکن حُیَیکعب کو بہلاتا رہا اور پھسلاتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے قبیلے اور بنو قینقاع کے دکھوں اور مصیبتوں کا ذکر کیا اور یہ کہ سب تکلیفیں انہی مسلمانوں کی وجہ سے ہمیں مل رہی ہیں ۔ یہاں تک کہ

آخر کار وہ کعب کے دل کو نرم کرنے میں کامیاب ہونے لگا اور کعب بھی آخر کار اس کی باتوں میں آ گیا ۔

اس کی جو فطرت عہد شکنی تھی وہ غالب آنے لگی اور حُیَی سے کہا کہ اچھا اگر میں تمہاری بات مان لوں لیکن اگر قریش اور غطفان واپس چلے گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہ کر سکے تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ اس پر حُیَی نے کہا کہ تُو پریشان نہ ہو ۔ایسی صورت میں مَیں تیرے ساتھ تیرے قلعہ میں داخل ہو جاؤں گا اور جو مصیبت تجھ پر آئے گی وہ مجھ پر بھی آئے گی۔

اس ساری گفت و شنید کے بعد آخر کار کعب بن اسد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے معاہدے کو توڑ دیا۔ا س موقع پر کعب کے ساتھی عَمْرو بن سُعْدٰی نے ان کو وعظ و نصیحت کی اور ان کے برے فعل سے ان کو ڈرایا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پختہ عہد یاد دلایا اور ان کو کہا کہ اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہیں کرتے تو ان کو اور ان کے دشمنوں کو چھوڑ دو لیکن عہد شکنی کرتے ہوئے مخالف حملہ آوروں کا ساتھ مت دو لیکن اس نے انکار کر دیا۔

اس صورتحال کو دیکھ کر بنو قریظہ میں سے چند افراد جو ان یہودیوں میں سے نیک فطرت تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور اسلام بھی لے آئے۔

حضرت عمر بن خطابؓ کو بنو قریظہ کے عہد توڑنے کی خبر ملی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ کو بھیجا۔ یہ دونوں اپنی قوم کے سردار تھے اور ان دونوں کے ساتھ عبداللہ بن رَوَاحہؓ اور خَوَّات بن جُبَیر ؓکو بھی بھیجا۔ ایک روایت کے مطابق ساتھ میں اُسَید بن حُضَیر ؓکو بھی بھیجا اور فرمایا کہ تم جاؤ اور جا کر دیکھو کہ اس قوم کے بارے میں جو ہمیں خبر ملی ہے وہ سچی ہے یا نہیں ۔ اگر یہ خبر سچی ہو تو سب لوگوں کے سامنے یہ بات نہ بتانا بلکہ اشارے کنائے میں مجھے بتانا مَیں جان لوں کہ یہ خبر سچی ہے ۔اور اگر وہ معاہدے میں قائم ہوں اور یہ خبر جھوٹی ہو تو علی الاعلان یہ بات سب کے سامنے بتا دینا ۔چنانچہ یہ وفد بنو قریظہ کے پاس گیا۔ وہاں جب کعب اور اس کے ساتھیوں سے بات ہوئی تو ان کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔ جب کعب سے کہا گیا کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا ہوا ہے تو اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ کون رسول؟ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ میں نے اس معاہدے کو ایسے توڑ دیا جیسے جوتے کے تسمے کو توڑ دیا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق اس موقع پر فریقین کی طرف سے سخت کلامی بھی ہوئی۔ بہرحال یہ وفد واپس آیا اور اشارے سے بات کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دیا تو ایسے اعصاب شکن اور ہوش و حواس کھو دینے والے لمحات کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمایا۔آپؐ پہ کوئی اثر نہیں ہوا ۔ عام آدمی کے تو اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:

أَبْشِرُوْا یَامَعْشَرَالْمُؤْمِنِیْنَ بِنَصْرِاللّٰہِ تَعَالٰی وَ عَوْنِہٖ۔
اے مومنوں کی جماعت! اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے ساتھ خوش ہو جاؤ۔

پھر فرمایا:

مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں گا اور اس کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور کسریٰ اور قیصر ضرور ہلاک ہو جائیں گے اور ان کے مال اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔

(سبل الھدی والرشاد جلد4 صفحہ373-374 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بنو قریظہ کی غداری کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’ابو سفیان نے یہ چال چلی کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی رئیس حُیَی بن اخطب کویہ ہدایت دی کہ وہ رات کی تاریکی کے پردے میں بنو قریظہ کے قلعہ کی طرف جاوے اوران کے رئیس کعب بن اسد کے ساتھ مل کر بنو قریظہ کواپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے۔چنانچہ حُیَی بن اخطب موقعہ لگا کر کعب کے مکان پر پہنچا۔ شروع شروع میں تو کعب نے اس کی بات سننے سے انکار کیا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہمارے عہدوپیمان ہیں اورمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے عہدوپیمان کو وفاداری کے ساتھ نبھایا ہے اس لیے میں اس سے غداری نہیں کر سکتا۔ مگر حُیَی نے اسے ایسے سبز باغ دکھائے اوراسلام کی عنقریب تباہی کا ایسا یقین دلایا اور اپنے اس عہد کو کہ جب تک ہم اسلام کو مٹا نہ لیں گے مدینہ سے واپس نہیں جائیں گے اس شدومد سے بیان کیا کہ بالآخر وہ راضی ہو گیا۔ اوراس طرح بنوقریظہ کی طاقت کا وزن بھی اس پلڑے کے وزن میں آکر شامل ہو گیا جوپہلے سے ہی بہت جھکا ہوا تھا۔‘‘ یعنی ان کافروں کی تعداد تو پہلے ہی بہت زیادہ تھی ان میں ایک اور وزن ان یہودیوں کی عہد شکنی کا پڑگیا۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوجب بنوقریظہ کی اس خطرناک غداری کا علم ہوا تو آپ نے پہلے تو دوتین دفعہ خفیہ خفیہ زُبیربن العَوَّامؓ کو دریافت حالات کے لیے بھیجا۔ اور پھر باضابطہ طور پر قبیلہ اوس وخزرج کے رئیس سَعدِ بن مُعاذؓاورسَعدِ بن ِعُبَادہ ؓاور بعض دوسرے بااثر صحابہ کو ایک وفد کے طور پر بنو قریظہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کوئی تشویشناک خبر ہوتو واپس آکر اس کا برملا اظہار نہ کریں بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیں تاکہ لوگوں میں تشویش نہ پیدا ہو۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعدینؓ کی طرف سے معاہدہ کاذکر ہونے پر وہ اور اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کربولے کہ ’’جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘‘ یہ الفاظ سن کر صحابہ کا یہ وفد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا اور سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہ ؓنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مناسب طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالات سے اطلاع دی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ584-585)

بعض اوقات ہمارے نوجوان بھی غیروں کی باتیں سن کے سوال کر دیتے ہیں کہ بنو قریظہ پہ اس وقت کیوں یہ ظلم کیا گیا؟ انہوں نے معاہدہ توڑا تھا اس لیے ان کو اس کی سزا دی گئی تھی۔ کوئی ظلم نہیں تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان پر ہو۔

بہرحال اس بارے میں مزید تفصیل بھی ہے اور حضرت مصلح موعودؓ نے بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا بیان انشاء اللہ آئندہ کروں گا۔

آج سے خدام الاحمدیہ کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے۔

خدام اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ گو کہ موسم کی پیشگوئی یہی ہے کہ شاید بارشیں ہوتی رہیں لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور آرام سے ان کے پروگرام ہو جائیں۔

ان دنوں میں خدام روحانی اور علمی معیاروں کو بڑھانے کی بھی کوشش کریں۔ جن دعاؤں اور درود کی طرف میں نےتوجہ دلائی تھی اور اس کی تحریک کی تھی۔ ان دنوں میں اس طرف بھی خاص توجہ رکھیں اور ہمیشہ دہراتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شیطانی حملے سے ہر ایک کو بچائے۔

کچھ

جنازہ غائب

بھی آج پڑھاؤں گا۔ ان کا ذکر کر دوں۔

پہلا ذکر ہے

مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب ربوہ

کا جو گذشتہ دنوں تہتر (73)سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور واقف زندگی تھے۔ ان کے والد کا نام صوفی خدا بخش زیروی تھا۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد صوفی خدا بخش زیروی صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1928ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔

حبیب الرحمٰن زیروی صاحب نے ابتدائی تعلیم ربوہ سے حاصل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ایم ایس سی کی۔ 1981ء میں انہوں نے زندگی وقف کی اور ان کا وقف منظور ہوا۔ پھر 1981ء میں اسسٹنٹ لائبریرین کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ تین چار سال انچارج خلافت لائبریری کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی ہے۔ پھر ان کا تقرر نظارت اشاعت میں ہوا۔ پھر طاہر فاؤنڈیشن میں ان کا تقرر ہوا اور اس وقت آپ بطور نائب ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ خدام الاحمدیہ میں بھی مہتمم کے طور پر مختلف خدمات کا ان کو موقع ملا۔ انصار اللہ میں بھی مرکزی قائد کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ انہوں نے بڑی محنت سے حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ سیرت حضرت مسیح موعودؑ کو مختلف کتابوں سے یکجا کرکے ایک کتاب بھی مرتب کی جو ’’تذکار مہدی ‘‘کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد مسودات پر یہ کام کر رہے تھے جن میں سے کچھ مختلف مراحل میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ خلافت کے ساتھ ان کا بڑا تعلق تھا۔بڑے خاموش طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والے تھے۔ ان کے سپرد جو بھی خدمت کی جاتی اسے اچھی طرح نبھاتے۔ ہمیشہ وقف کا حق ادا کیا اور جنون سے کام کیا۔ بڑے ملنسار، خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی نیکیوں پر قائم ہونے کی توفیق دے۔

دوسرا ذکر

ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب

کا ہے۔ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر ضیاءالحسن صاحب کے یہ بیٹے تھے۔ انہوں نے زندگی وقف کی اور ڈاکٹر کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ چھوٹی عمر سے ہی یہ جماعت کی خدمت کر رہے تھے ۔ مجلس نصرت جہاں کے تحت تقریباً بیس سال سے زائد عرصہ یوگنڈا، کینیا، گیمبیا اور پاکستان میں بھرپور خدمت کی ان کو توفیق ملی۔ کینیا میں کئی سالوں کی خدمت کے بعد انہوں نے سپیشلائزیشن اور جنرل سرجن کی ٹریننگ کے لیے اجازت مانگی اور وہاں سے پاکستان چلے گئے اور کئی میڈیکل ڈپلومے اور سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ انہیں میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹروں کو اناٹومی پڑھانے کی بھی توفیق ملی۔ اچھے لائق ڈاکٹر تھے۔ گیمبیا کے مقامی طلبہ کی مالی مدد کرتے۔ ان کی تعلیم کو سپانسر کرتے۔ کام ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرتے۔ غرباء اور ضرورتمند احباب کی مالی امداد کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ ان کی بہت بڑی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ بہت دعا گو اور تہجد گزار تھے۔ جوانی سے ہی تہجد کی ان کو عادت تھی۔ آپ کے جاننے والے لکھتے ہیں کہ انتہائی ملنسار ،مریضوں سے سچی شفقت اور ہمدردی اور محبت کرنے والے تھے۔ محنتی ،پُرجوش، متوکل علی اللہ انسان تھے۔ دعا گو اور شفقت علی الناس کا پیکر تھے۔ آپ کی شخصیت میں کسر نفسی، عاجزی اور خدمت کا بےپناہ جذبہ تھا۔ بہت خوش اخلاق تھے۔ واقف زندگی کا بہت احترام کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

تیسرا ذکر

مکرم پروفیسر عبدالجلیل صادق صاحب ربوہ

کا ہے جن کی گذشتہ دنوں اسّی (80)سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ قریشی عبدالغنی صاحب ربوہ کے یہ بیٹے تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا حضرت میاں قطب الدین صاحب آف گولیکی ضلع گجرات اور نانا حضرت مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت ڈیرہ غازی خان کے ذریعہ ہوا۔ جلیل صادق صاحب نے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔ پھر 1964ء میں تعلیم الاسلام کالج میں استاد مقرر ہوئے۔ پھر 66ء میں انہوں نے ایم اے انگریزی کیا اور پھر ان کا تعلیم الاسلام کالج کے شعبہ انگریزی میں باقاعدہ تقرر ہو گیا۔ مسلسل انتالیس سال تک باقاعدہ تدریس میں خدمت بجا لاتے رہے۔

مَیں بھی کالج میں ان کا شاگرد رہا ہوں ۔بڑے خاموش طبع اور بڑے پیار سے پڑھانے والے استاد تھے۔ شاگردوں سے بڑا اچھا تعلق رکھنے والے، شاگردوں کی عزت کرنے والے تھے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد 2003ء میں انہوں نے زندگی وقف کر دی اور ان کا تقرر صدر،صدر انجمن احمدیہ کے شعبہ ترتیب و ریکارڈ کے انچارج کے طور پر ہوا جہاں وہ نائب ناظر تھے۔ مجلس خدام الاحمدیہ میں مختلف جگہوں پر بطور مہتمم ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ یہ صدر مجلس صحت پاکستان بھی تھے۔ پھر 1983ء سے یہ مرکزی قضا ءمیں پاکستان میں قاضی بھی تھے۔ اپنے محلے کی صدارت کی بھی ان کو توفیق ملی۔ دو بیٹیاں اور ایک ان کا بیٹا ہے۔ ان کے بارے میں لکھنے والے کہتے ہیں اور بڑا صحیح کہتے ہیںکہ بڑے نفیس طبع ،درویش صفت انسان تھے۔ آپ اکثر خاموش رہنا پسند کرتے لیکن جب بولتے تو ہمیشہ سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر اور جانچ کر بولتے تھے۔ کردار کے صاف ستھرے اور بُردبار۔ کسی کے کام میں بےجا مداخلت نہ کرتے۔ جہاں ضرورت ہوتی اچھا مشورہ ضرور دیتے۔ نیک کاموں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ کبھی کسی سے تکلیف پہنچتی تو شکوہ نہ کرتے۔ بڑے صابر ،شاکر اور قانع شخصیت کے مالک تھے۔ ضرورتمند احباب کی خاموشی اور پوشیدہ ہاتھ سے مستقل مالی امداد کرتے تھے۔ خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا ۔یہ باقاعدہ خط لکھتے تھے۔ ان کے اپنے گھریلو تعلقات بھی بڑے خوشگوار تھے۔ گھر میں بیوی سے بھی اور والدین کی بھی خدمت کرنے والے، ان کا حق ادا کرنے والے تھے بلکہ ان کے بھائی لکھتے ہیں کہ بھائی بہنوں کا بھی بہت خیال رکھتے اور بڑا فرض سمجھ کر ان کی خدمت کرتے۔

اگلا ذکر

مکرم ماسٹر منیر احمد صاحب جھنگ

کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں بیاسی (82)سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے والد میاں غلام محمد صاحب نے 1930ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی تھی۔ ماسٹر صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ میں ان کو چالیس سال خدمت کا موقع ملا۔ قائد ضلع رہے۔ جھنگ کے ناظم ضلع رہے۔ پھر چنیوٹ ضلع بنا تو وہاں کے بھی یہ ناظم رہے۔ بڑے مخلص اور فدائی خادم سلسلہ تھے اور نافع الناس وجود تھے۔ بطور پرائمری سکول ٹیچر جھنگ میں ملازمت کی اور ہزاروں شاگرد ان کے ہیں جو ان کی بڑی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ لوگوں کے بڑے کام آتے رہتے تھے۔ سرکاری دفتروں میں جانے کے لیے یہ لوگوں کے خاص طور پر احمدیوں کے کام کرتے اور نہ صرف کام میں ان کی معاونت کرتے بلکہ اپنے گھر لا کر ان کی مہمان نوازی بھی کرتے۔ تعلقات عامہ کا دائرہ بہت وسیع تھا اور ان تمام تعلقات کو جماعت اور احباب جماعت کی خدمت کے لیے استعمال کرتے تھے، یہ نہیں کہ ذاتی فائدہ اٹھایا۔ اسیران خواہ وہ جماعتی اسیران ہوں یا غیر جماعتی ان کی بہبود اور خدمت کے لیے کمربستہ رہتے۔ جیل خانوں کے اہلکاروں سے آپ کے ذاتی مراسم تھے جن سے آپ جماعتی اسیران کی بہبود کا کام لیتے۔ جیلوں میں سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے آپ کے وسیع روابط تھے۔

جب ہم، مَیں اور میرے ساتھی جیل میں تھے تو اس عرصہ میں ہماری بھی بڑی خدمت کی ہے ۔اور جیلر سے ذاتی تعلقات کی وجہ سے بعض بڑی سہولتیں بھی ہمیں مہیا کر دیں جو عام قیدیوں کو مہیا نہیں ہوتیں ۔اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کسی خاص آدمی کی خدمت کرنی ہے۔ چاہے وہ غریب احمدی ہے یا امیر ہے ہر ایک کی خدمت کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے اور عمومی طور پر بھی قیدیوں کی بہبود کے لیے کام کیا کرتے تھے۔

قادیان کے ساتھ بھی آپ کو بہت محبت تھی۔ تقریباً ہر سال آپ قادیان جاتے اور وہاں ڈیوٹیوں میں بھی شامل ہوتے۔ مرکزی نمائندگان جب ان کے ضلع میں دورے پر جاتے تو وہاں بھی ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے۔ ان پر پمفلٹ تقسیم کرنے کا ایک مقدمہ بھی 1988ء میں قائم ہوا تھا لیکن بہرحال بعد میں وہ خارج ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button