حضرت خارجہ بن زیدؓ، اور حضرت شَمَّاسْ بن عُثْمانؓ کی شہادت کے واقعات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۶؍فروری ۲۰۲۴ء)
حضرت خارجہ بن زیدؓ کی شہادت کابھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت خارجہؓ نے غزوۂ اُحد میں بڑی بہادری اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔ تیروں کی زد میں آ گئے اور آپؓ کو تیرہ سے زائد زخم لگے۔ آپؓ زخموں سے نڈھال پڑے تھے کہ پاس سے صَفْوان بن امیہ گزرا۔ اس نے انہیں پہچان کر حملہ کر کے شہید کر دیا۔ پھر ان کا مُثْلہ بھی کیا اور کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے بدر میں ابوعلی کو قتل کیا تھا یعنی میرے باپ اُمَیَّہ بن خَلَف کو قتل کیا تھا۔ اب مجھے موقع ملا ہے کہ ان اصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے بہترین لوگوں کو قتل کروں اور اپنا دل ٹھنڈا کروں۔ اس نے حضرت ابن قَوقَلؓ، حضرت خَارِجہ بن زیدؓ اور حضرت اَوس بن اَرْقم ؓکو شہید کیا۔ حضرت خارجہؓ اور حضرت سعد بن ربیع ؓجو کہ آپؐ کے چچا زاد بھائی تھے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔(الاستیعاب جلد ۲ صفحہ ۳-۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
روایت ہے کہ اُحد کے دن حضرت عباس بن عُبادہؓ اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ اور اپنے نبی سے جڑے رہو۔ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے یہ اپنے نبی کی نافرمانی سے پہنچی ہے۔ وہ تمہیں مدد کا وعدہ دیتا تھا لیکن تم نے صبر نہیں کیا۔ پھر حضرت عباس بن عبادہؓ نے اپنا خَود اور اپنی زرہ اتاری اور حضرت خارجہ بن زیدؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ خارجہ نے کہا نہیں۔ جس چیز کی تمہیں آرزو ہے وہی میں بھی چاہتا ہوں یعنی شہادت۔ پھر وہ سب دشمن سے بھڑ گئے۔ عباس بن عبادہ ؓکہتے تھے کہ ہمارے دیکھتے ہوئے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچی تو ہمارا اپنے رب کے حضور کیا عذر ہو گا۔ اور حضرت خارجہؓ یہ کہتے تھے کہ اپنے رب کے حضور ہمارے پاس نہ تو کوئی عذر ہو گا اور نہ ہی کوئی دلیل۔ حضرت عباس بن عبادہؓ کو سفیان بن عبدشمس سَلَمِی نے شہید کیا اور خارجہ بن زیدؓ کو تیروں کی وجہ سے جسم پر دس سے زائد زخم لگے۔(کتاب المغازی جلد ۱ صفحہ ۲۲۷-۲۲۸ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر ایک حوالہ میں ہے کہ غزوۂ اُحد کے دن حضرت مالک بن دُخْشُمؓ حضرت خارجہ بن زیدؓ کے پاس سے گزرے۔ حضرت خارجہؓ زخموں سے چُور بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو تیرہ کے قریب مہلک زخم آئے تھے۔ حضرت مالکؓ نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ کافروں کے دوبارہ حملے کے بعد کا ذکر ہے۔حضرت خارجہؓ نے کہا کہ اگر آپؐ کو شہید کر دیا گیا ہے تو یقیناً اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا۔
یہ تھا ان لوگوں کا ایمان۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام پہنچا دیا تم بھی اپنے دین کے لیے قتال کرو۔(کتاب المغازی جلد ۱ صفحہ ۲۴۳ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)لیکن اب دشمن لڑ رہا ہے تمہارے سے تو تم لڑو۔ ہمارا کام بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر جانیں قربان کرنا ہے۔
پھرحضرت شَمَّاسْ بن عُثْمانؓ کی شہادت کا ذکر ہے۔ حضرت شماس بن عثمانؓ غزوۂ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے۔ آپؓ غزوہ اُحد میں بہت جانفشانی سے لڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگِ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی جب آپؐ پر حملہ ہوا اور پتھر آ کے لگا۔ حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپؓ شدید زخمی ہو گئے اور آپ یعنی حضرت شماس ؓکو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا۔ آپؓ میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ ان کو حضرت عائشہؓ کے ہاں لے جایا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ کیا میرے چچازاد بھائی کو میرے سوا کسی اَور کے ہاں لے جایا جائے گا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں حضرت ام سلمہؓ کے پاس اٹھا کر لے جاؤ۔ پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر وفات پائی۔ آپ اُحد سے زخمی ہو کے آئے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت شماس ؓکو مقام اُحد میں لے جا کر انہی کپڑوں میں دفن کیا گیا۔ دو دن بعد مدینہ میں وفات ہو گئی لیکن دفن ان کو اُحد میں جا کے کیا گیا۔ جب جنگ کے بعد آپؓ کو زخمی حالت میں اٹھا کر مدینہ لایا گیا تو وہاں ایک دن اور ایک رات تک زندہ رہے تھے اور اس دوران کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں۔ انتہائی کمزوری کی حالت تھی بلکہ بیہوشی کی حالت تھی۔ حضرت شماسؓ کی وفات چونتیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ نوجوان تھے۔
حضرت شماس بن عثمانؓ کے بارے میں تاریخ نے ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو اُن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ایک مثال بن گیا ہے اور اسلام کی خاطر قربانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے کی بھی مثال ہے۔ جنگِ اُحد میں جہاں حضرت طلحہ ؓکی عشق و محبت کی داستان کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا کہ کوئی تیر آپؐ کو نہ لگے وہاں حضرت شماسؓ نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا۔ حضرت شماسؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہر حملہ اپنے اوپر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شماسؓ کے بارے میں فرمایا کہ شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو ڈھال سے تشبیہ دوں گا کہ وہ اُحد کے میدان میں میرے لیے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا۔ وہ میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظر ڈالتے آپؐ فرماتے ہیں شماس انتہائی بہادری سے وہاں مجھے لڑتے ہوئے نظر آتا۔ جب دشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے میں کامیاب ہو گیا اور آپؐ کو غشی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپؐ گر گئے تب بھی شماس ہی ڈھال بن کر آگے کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لایا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے کہا یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں۔ میں ان کی قریبی ہوں۔ رشتہ دار ہوں اس لیے میرے گھر میں ان کی تیمارداری اور علاج وغیرہ ہونا چاہیے لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے ڈیڑھ دو دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے جس طرح باقی شہداء کو کیا گیا ہے۔(الطبقات الکبریٰ جلد۳صفحہ۱۸۶ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)