سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

خلیفہ سیدمحمدحسن صاحب نے براہین احمدیہ کے ذریعہ جس مقبول محبت کااظہارمامورزمانہ حضرت اقدسؑ سے کیا اس کی وجہ سے ان کانام انشاء اللہ رہتی دنیاتک رہے گا۔اورقیامت تک براہین احمدیہ کوپڑھنے والاہرشخص جن لوگوں کے لیے دعائیں کرے گاان میں سے ایک نام یہ بھی رہے گا

۵: حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیر اعظم دستور معظم ریاست پٹیالہ

براہین احمدیہ کے صفحہ نمبر ۱۰ پر خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب کا ذکر ہے اور ان کے نام کے آگے ازجیب خاص ۲۵۰ روپے اور از دیگر احباب ۷۵روپے لکھا ہے۔

یہ بات قابل ذکر اور ان صاحب کے لیے باعث فخرو سعادت ہے کہ براہین احمدیہ کی اشاعت کے دوران سب سے زیادہ اعانتی رقم ان کی طرف سے یاان کی وساطت سے موصول ہوئی۔ اس وقت کہ جب بڑے بڑے نواب اور رئیس جولاکھوں کروڑوں کی جائیدادکےمالک تھے ان کی طرف سے یاتوکچھ اعانت ہوئی ہی نہیں اور چندایک کی طرف سے اعانت ہوئی بھی تو اب بھی اور تب بھی اتنی رقم کہ حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تھوڑی اور قلیل رقم یعنی پانچ روپے،بیس روپے اوربس۔لیکن خلیفہ صاحب کی طرف سے دوسوپچاس روپے اور پچھترروپے آپؓ نےاپنے دوستوں کی طرف سے فراہم کیے۔حضورعلیہ السلام نے بطورخاص ان کی اس مخلصانہ مددکاذکرکرتے ہوئے لکھا:’’اوراس جگہ بطورتذکرہ خاص کے اس بات کاظاہرکرنا بھی ضروری ہے کہ اس کارخیرمیں آج تک سب سے زیادہ حضرت خلیفہ سیدمحمدحسن خان صاحب بہادروزیراعظم ودستورمعظم ریاست پٹیالہ سے اعانت ظہورمیں آئی یعنے حضرت ممدوح نے اپنی عالی ہمتی اورکمال محبت دینی سے مبلغ دوسوپچاس روپیہ اپنی جیب خاص سے اورپچھترروپیہ اپنے اور دوستوں سے فراہم کرکے تین سوپچیس روپیہ بوجہ خریداری کتابوں کے عطا فرمایا عالی جناب سیدنا وزیرصاحب ممدوح الاوصاف نے اپنے والانامہ میں یہ بھی وعدہ فرمایاہے کہ تااختتام کتاب فراہمی چندہ اور بہم رسانی خریداروں میں اوربھی سعی فرماتے رہیں گے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱صفحہ۶،۵)

وزیر اعظم صاحب کی معرفت ۱۴ اصحاب کا چندہ بابت خریداری ملا ان کے نام براہین احمدیہ کے صفحہ نمبر ۱۰-۱۱ پر درج ہیں۔

آپ علیہ السلام نے ان کی اس خدمت واعانت کوتائیدایزدی کاایک نشان قراردیتے ہوئے لکھاکہ’’جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اُس کی چھپوائی کے لیے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا مجھے کسی سے تعارف نہ تھا تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو یہ الہام ہوا ہُزّ اِلَیۡکَ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسَاقِطۡ عَلَیۡکَ رُطَبًا جَنِیًّا۔دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۶۔ (ترجمہ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ چنانچہ میں نے اِس حکم پر عمل کرنے کے لیے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا پس خدا نے جیسا کہ اُس نے وعدہ کیا تھا اُن کو میری طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلاتوقف اڈھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڈھائی سو روپیہ دیا اور چند اور آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی اور اس طرح پر وہ کتاب باوجود نو میدی کے چھپ گئی اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۵۰)

حضرت اقدس علیہ السلام نے خلیفہ صاحب محترم کی اس خدمت کوہمیشہ یادرکھا۔ چنانچہ ایک بار خلیفہ محمد حسن صاحب وزیر اعظم پٹیالہ کسی ابتلا و فکر اور غم میں مبتلا تھے کہ ان کی طرف سے متواتر دعا کی درخواست ہوئی۔حضورؑ اس کاذکرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :’’ ایک دفعہ خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ نے اپنے کسی اضطراب اور مشکل کے وقت میری طرف خط لکھا کہ میرے لیے دعا کریں چونکہ انہوں نے کئی دفعہ ہمارے سلسلہ میں خدمت کی تھی اس لیے اُن کے لیے دعا کی گئی تب منجانب اللہ الہام ہوا:

چل رہی ہے نسیم رحمت کی
جو دُعا کیجئے قبول ہے آج

اس دعا کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ مشکلات اُن کے دُور کر دیئے اور انہوں نے شکر گذاری کا خط لکھا اس واقعہ کا وہی خط گواہ ہے جو میرے کسی بستہ میں موجود ہوگا اور کئی اور لوگ گواہ ہیں بلکہ اُس وقت صدہا آدمیوں میں یہ میرا الہام شہرت پا گیا تھا اور نواب علی محمد خان مرحوم رئیس جھجر نے بھی اس کو اپنی یاد داشت میں لکھ لیا تھا۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۹۴،۳۹۳)

ریاست پٹیالہ میں خلیفہ خاندان کاتعلق سامانہ کے نقوی بخاری سادات سے تھا۔ جوحضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے پوتے حضرت مخدوم نظام الدین کی اولادسے تھے۔ وہ اس خاندان کے مورث اعلیٰ تھے۔ جنہوں نے ۱۴۰۰ء کے لگ بھگ دہلی کی سکونت ترک کرکے سامانہ میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔حکیم سیدغلام حسن اس خاندان کے پہلے بزرگ تھے جو۱۷۶۰ء کے قریب ریاست پٹیالہ کے قیام کے وقت سامانہ کی سکونت ترک کرکے پٹیالہ میں رہائش پذیرہوئے۔چونکہ یہ اس وقت کے معروف حاذق طبیب تھے ا س لیے جلدہی انہیں پٹیالہ دربار کا شاہی طبیب مقررکیاگیا۔حکیم غلام حسن کے بعد ان کے بیٹے حکیم سعادت علی بھی نامورحکیم اور فاضل انسان تھے۔خلیفہ محمدحسن مرحوم نے اپنی تصنیف کردہ تاریخ پٹیالہ میں لکھاہے کہ میرے والدکو ۱۸۳۵ء میں مہاراجہ پٹیالہ نے اپنے بیٹے نریندرسنگھ کوفارسی پڑھانے کے لیے استادمقررکیااوراس کے بعد وزیرخارجہ پٹیالہ مقررکیا۔ یہ اس خاندان کے پہلے وزیرتھے پھران کوخلیفہ کالقب دیاجوکہ اتالیق اور ٹیوٹرکے معانی ومفہوم میں مستعمل تھا۔ تب سے یہ خطاب ان کے خاندان میں موروثی ہوگیا۔اوران کی اولاد اپنے نام کے ساتھ خلیفہ کالقب استعمال کرتی رہی۔ حکیم سیدسعادت علی کے چھ بیٹے تھے۔سیدمحمدحسن،سیدمحمدحسین،سید محمد محسن،سیدمحمدکاظم،سیدمحمد جعفر اور سیدعلی محمد۔ان میں سے اول الذکردوبھائیوں نے نام پیداکیا۔اور خاکسارتویہ کہے گا کہ خلیفہ سیدمحمدحسن صاحب نے براہین احمدیہ کے ذریعہ جس مقبول محبت کااظہارمامورزمانہ حضرت اقدسؑ سے کیا اس کی وجہ سے ان کانام انشاء اللہ رہتی دنیاتک رہے گا۔اورقیامت تک براہین احمدیہ کوپڑھنے والاہرشخص جن لوگوں کے لیے دعائیں کرے گاان میں سے ایک نام یہ بھی رہے گا۔ سیدخلیفہ محمدحسن صاحب ۱۸۳۲ء میں پیداہوئے اور ۲۰ سال کی عمرمیں مہاراجہ کے منظورنظر اورمعتمدبن گئے۔اور ریاست کے لیے ضابطہ دیوانی وفوجداری قانون جیل مرتب کرکے رائج کیے۔

آپ کی تجاویز اور حسن تدبیرکی بدولت ریاست ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے اثرات سے محفوظ رہی۔جس سے آپ کی شہرت اور وقار واعتمادمیں اضافہ ہوا۔ مہاراجہ نے ’’خان بہادر‘‘ کاخطاب اور جاگیر دی اور ساتھ ہی جوڈیشل منسٹرمقررکردیا۔۱۸۵۷ء میں جب انگریزحکومت نے ریل کی توسیع اور تعمیرانہارکااعلان کیاتو خلیفہ صاحب کی جہاں دیدہ فراست کی بدولت یہ پہلی ریاست تھی کہ جس نے اس تجویزکاخیرمقدم کیا اور ریل اور انہارکی تعمیرکے معاہدے کیے گئے۔ حکومت نے آپ کی عالی دماغی کے صلے میں’’وزیرالدولہ مدبرالملک‘‘ کا خطاب دیا۔

انگریزی سلطنت کے ساتھ معاہدات کرتے ہوئے ریاست کی بہبودی کے لیے نمایاں خدمات کودیکھتے ہوئے ۱۸۶۵ء میں انہیں ریاست کا وزیراعظم مامورکیاگیا۔اور تیس سال تک یعنی ۱۸۹۵ء میں اپنی وفات تک یہ اس عہدہ جلیلہ پرفائز رہے۔ریاست کی خدمات کی بدولت انہیں سی۔آئی۔ای کاخطاب ملا۔

Companion of the Order of the Indian Empire (C.I.E.)

مہاراجہ کے نابالغ ہونے کی صورت میں کونسل آف ریجنسی کے ممبربھی قائم ہوئے۔ علی گڑھ کالج اورپنجاب یونیورسٹی کے بورڈانتظامیہ اور سینیٹ کے تاحیات ممبر رہے۔ اور ریاست کی طرف سے اورذاتی طورپران اداروں کی مالی امدادکرتے رہے۔بلکہ ایک ریکارڈ کے مطابق علی گڑھ کالج کواس ریاست کی طرف سے انہوں نے ۵۸ہزار روپے دلوائے۔ خلیفہ صاحب کوکتب بینی کاخاص شوق تھا۔خودکتابیں خریدتے اور ایک نہایت قیمتی کتب کاذخیرہ جو۲۵ ہزارکے قریب کتب پرمشتمل تھاان کی لائبریری کاحصہ تھا۔

۱۸۹۴ء میں آپؓ کے اکلوتے فرزند خلیفہ سیدمہدی حسن صاحب پرائیویٹ سیکرٹری مہاراجہ نے رحلت کی اور ایک خوردسال فرزند سیدہادی حسن یادگارچھوڑا۔اور ۱۸۹۵ء میں سیدخلیفہ محمدحسن صاحب کاانتقال ہوگیا۔اورریاست میں تین دن کاسوگ منایاگیا۔

خلیفہ محمد حسن صاحب خود بھی ایک مصنف تھے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’اعجاز التنزیل‘‘ لکھی جس پر سرسید نے علی گڑھ گزٹ میں تبصرہ بھی کیا۔اور ایک کتاب ’’تاریخ ریاست پٹیالہ ‘‘ بھی تصنیف فرمائی۔[ان معلومات کے لیے محترم ڈاکٹرسیدنجم الحسن صاحب کی کتاب ’’تاریخ بخاری سادات‘‘ کے صفحات ۶۴-۶۹ سے بھی معلومات لی گئیں۔]

جناب خلیفہ محمد حسین صاحب حضورعلیہ السلام سے محبت اور عقیدت کے گہرے تعلقات رکھتے تھے اوران کے مصاحبوں اور ملاقاتیوں میں بھی حضرت مسیح موعود ؑکا تذکرہ ہوتا تھا۔اس ضمن میں سیرت المہدی کی ایک بہت دلچسپ اورایمان افروزروایت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحبؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کوبیان فرمایاکہ ’’پٹیالہ میں خلیفہ محمدحسین صاحب وزیر پٹیالہ کے مصاحبوں اور ملاقاتیوں میں ایک مولوی عبد العزیز صاحب ہوتے تھے۔جو کرم ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔ان کا ایک دوست تھا جو بڑا امیر کبیر اور صاحب جائیداد تھا اور لاکھوں روپے کا مالک تھا مگر اس کے کوئی لڑکا نہ تھا جو اُس کا وارث ہوتا۔ اس نے مولوی عبد العزیز صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب سے میرے لیے دعا کرواؤ کہ میرے لڑکا ہو جاوے۔مولوی عبد العزیز نے مجھے بلا کر کہا کہ ہم تمہیں کرایہ دیتے ہیں۔تم قادیان جاؤ اور مرزا صاحب سے اس بارہ میں خاص طور پر دعا کے لیے کہو۔چنانچہ میں قادیان آیا اور حضرت صاحبؑ سے سارا ماجرا عرض کر کے دعا کے لیے کہا۔آپؑ نے اس کے جواب میں ایک تقریر فرمائی جس میں دعا کا فلسفہ بیان کیا اور فرمایا کہ محض رسمی طور پر دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دینے سے دعا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ایک خاص قلبی کیفیت کا پیداہوناضروری ہوتا ہے۔جب آدمی کسی کے لیے دعا کرتا ہے توا س کے لیے ان دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہوتا ہے یا تو اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا گہرا تعلق اور رابطہ ہو کہ اس کی خاطر دل میں ایک خاص درد اور گداز پیدا ہو جائے جو دعا کے لیے ضروری ہے اور یا اس شخص نے کوئی ایسی دینی خدمت کی ہو کہ جس پر دل سے اس کے لیے دعا نکلے۔مگر یہاں نہ تو ہم اس شخص کو جانتے ہیں اور نہ اس نے کوئی دینی خدمت کی ہے کہ اس کے لیے ہمارا دل پگھلے۔پس آپ جا کر اسے یہ کہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کے لیے ایک لاکھ روپیہ دے یا دینے کا وعدہ کرے پھر ہم اس کے لیے دعا کریں گے۔اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ پھر اللہ اسے ضرور لڑکا دے دے گا۔ میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جا کر یہی جواب دیا مگر وہ خاموش ہو گئے۔اور آخر وہ شخص لاولد ہی مر گیا۔اور اس کی جائیداد اس کے دُور نزدیک کے رشتہ داروں میں کئی جھگڑوں اورمقدموں کے بعد تقسیم ہو گئی۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۲۶۴)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button