حاصل مطالعہ
نیکیوں کی ماں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے۔ خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہے۔ اخلاق ہے۔ دو لفظ ہیں۔ ایک خَلق اور دوسرا خُلق۔ خَلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خُلق باطنی پیدائش کا۔ جیسے ظاہر میں کوئی خوب صورت ہوتا ہے اور کوئی بہت ہی بدصورت۔ اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دلربا ہوتاہے اور کوئی اندر سے مجذوم اور مبروص کی طرح مکروہ۔ لیکن ظاہری صورت چونکہ نظرآتی ہے، اس لیے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بدوضع ہو، مگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس لیے اُس کو پسند کرتا ہے اور خُلق کو چونکہ دیکھا نہیں، اس لیے اُس کی خوبی سے ناآشنا ہوکر اُس کو نہیں چاہتا۔ ایک اندھے کے لئے خوبصورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں۔ اسی طرح پروہ انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی، اس اندھے ہی کی مانند ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۱، صفحہ ۳۵۴-۳۵۵۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
کوئی سلسلہ بغیر پیسہ کے نہیں چل سکتا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام چندہ کے متعلق فرماتے ہیں:’’قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجالاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجاآوری میں کوتا ہی نہیں چاہیے۔ دیکھودنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریم ﷺ،حضرت موسٰیؑ اورحضرت عیسٰیؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تواسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۳، صفحہ ۳۵۸۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
نماز میں توجہ قائم رکھنے کا طریق
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دُور ہوسکتے ہیں۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا! ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا۔(سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم صفحہ ۲۸، روایت ۱۰۱۶)
دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیےدعاؤں پر بہت زور دینا چاہیے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ہم احمدی کمزور ہیں۔ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس دولت نہیں ہے۔ ہمارے پاس حکومت نہیں ہے۔ لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو مان لیا ہے جس سے اب دنیا کا امن اور سلامتی وابستہ ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل کرنے سے قائم ہو گا۔ دنیا اگر جنگوں کی تباہی اور بربادی سے بچ سکتی ہے تو صرف ایک ہی ذریعہ سے بچ سکتی ہے اور وہ ہے ہر احمدی کی ایک درد کے ساتھ ان تباہیوں سے انسانیت کو بچانے کے لئے دعا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ دعا ایسی مصیبت سے بچانے کے لئے بھی فائدہ دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو اور ایسی مصیبت کے بارے میں بھی جو ابھی نازل نہ ہوئی ہو۔ فرمایا کہ پس اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب من فتح لہ منکم باب الدعاء … الخ حدیث ۳۵۴۸)‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍جون ۲۰۱۷ء)
دعا کے لیے کہنے کے علاوہ خود بھی دعا ؤ ں کی طرف توجہ دیں
ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دعا کے متعلق فرماتے ہیں:’’دعا کے لئے کہنا منع نہیں ہے۔ مومنوں کو ایک د وسروں کے لئے دعائیں کرنی بھی چاہئیں اور کہنا بھی چاہئے لیکن اس کے ساتھ خود بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے…کسی مشکل میں نہیں بلکہ عام حالت میں خداتعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جو اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کا حق ادا کرنے والا ہو اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان نے ادھر ادھر پناہیں ڈھونڈنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھو نڈنے کی کوشش کی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍نومبر ۲۰۰۹ء)
قرآن مجید کی روشنی میں جدید دریافتیں
’’کالج جانے والے وہ بچے جو سمندروں کی سائنس یعنیOceanography پڑھ رہے ہیں کہ سمندر کو پانی کی تین تہوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پہلے ۲۰۰ میٹرز کو یوفوٹک زون (Euphotic zone)کہتے ہیں، جہاں تک روشنی سرایت کرتی ہے۔ پھر ۲۰۰سے ۱۰۰۰ میٹر کی تہ کو ڈیسفوٹک زون (Dysphotic zone)کہتے ہیں، جہاں ہلکی سی روشنی رہتی ہے۔ لیکن ایک کلومیٹر کے بعد تیسری تہ ایفوٹک زون (Aphotic zone) میں مکمل اندھیرا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت ۴۱ میں فرماتا ہے:اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍترجمہ:یا (ان کے اعمال) اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر میں ہوں جس کو موج کے اوپر ایک اَور موج نے ڈھانپ رکھا ہو۔
جب ۲۰۱۲ء میں جیمز کیمرون (James Cameron) بحرالکاہل کی تہ تک گیا تو اس کا خیال تھا کہ وہ عجیب و غریب مچھلیاں دیکھے گا۔ اس نے کیا دیکھا؟ گھپ اندھیرا۔( The New York Times by William Broad. March 26, 2012) ماہر تیراک بھی یہ بتاتے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں اتنا اندھیرا ہے کہ انسان کو اپنا ہاتھ تک نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ سورۂ نور آیت ۴۱ ہی میں فرماتا ہے ’’جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی نہیں دیکھ سکتا‘‘۔(الفضل انٹرنیشنل۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء صفحہ ۳)
(عطاء المجیب راشد۔امام مسجد فضل لندن)