دادی جان کاآنگن
ہستیٔ باری تعالیٰ
محمود کا باقاعدہ سکول شروع ہوئے چند روز ہوچکے تھے اس لیے وہ روزانہ سکول سے واپس آکر اپنے سارے دن کی کارگزاری تمام گھر والوں کو بتایا کرتا تھا۔ مگرآج وہ کچھ پریشان اور الجھا ہوا لگ رہا تھا۔ سب سے پہلے یہ بات دادی جان نے محسوس کی اور محمود کو پیار سے اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے پوچھا: کیا بات ہے آج میرا بیٹا بہت خاموش خاموش ہے۔ کیا سکول میں کوئی بات ہوئی ہے ؟ مجھے آج کوئی سکول کی بات بھی نہیں بتائی آپ نے؟
محمود: نہیں دادی جان کچھ خاص بات نہیں بس میری کلاس میں ایک نیا بچہ آیا ہے دوسرے سیکشن سے وہ بہت عجیب عجیب باتیں کرتا ہے اور ٹیچر بھی اسے کچھ نہیں کہتیں۔
دادی جان: اچھا ایسی کیا بات ہے مجھے بھی تو بتائیں ناں؟
محمود: آپ کو پتا ہے وہ کہتا ہے کہ ہم سب خود پیدا ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ناں۔ وہ کہتا ہے کوئی خدا نہیں ہے(نعوذباللہ)۔ ہمیں سب کچھ ہماری کوشش اور پیسوں سے ملتا ہے۔ اللہ میاں تو کسی کو کچھ بھی نہیں دیتے۔ یہ کتنی غلط باتیں کی ہیں ناں۔ میں آپ کو بتاؤں میں نے ٹیچر کو جب یہ ساری باتیں بتائیں تو وہ اُلٹا مجھے کہنے لگیں کہ یہ اس کا Faithہے اس لیے مجھے اس سے بحث نہیں کرنی چاہیے۔ یہ کیا بات ہوئی ایک بندہ غلط بات کرے تو اس کی غلطی کی درستگی کرنا تو اچھی بات ہے۔ یہ آپ نے ہی تو بتایا ہے، پھر میں نے ایسا کیا غلط کہا تھا کہ ٹیچر نے مجھے ہی چپ کروا دیا۔ آپ کو پتا ہے ٹیچر آجکل ہمیں ہیلووین کے بارے میں بھی بتا رہی ہیں۔یہ بھی تو غلط بات ہے ناں آپ تو کہتی ہیں کوئی بھوت پریت نہیں ہوتے تو پھر سکول میں ہیلووین کا تہوار کیوں مناتے ہیں ؟
دادی جان: محمود میاں تو اب ماشاء اللہ بہت ہی سمجھ داری کی باتیں کرنے لگ گئے ہیں۔
گڑیا: ہیلووین تو صرف ایک رسم ہے جس کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا ناں پچھلےسال ہم نے ہیلووین کے متعلق بچوں کے الفضل میں بھی پڑھا تھا۔ آج ہم پھر وہ والی ویڈیو سن لیتے ہیں تاکہ بات مستحضر ہو جائے۔
دادی جان: اور جہاں تک بات ہے اس بچے کے ایمان یاFaithکی تو ہر انسان کا اعتقاد مختلف ہے کیونکہ تمام مذاہب میں خدا کا تصور مختلف ہے۔ اب جیسے ہم مسلمان ہیں۔ ہم ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اسی طرح عیسائیوں میں تین خداؤں کا تصور ہے وہ حضرت عیسیٰؑ کو اور روح القدس کو بھی خدا مانتے ہیں۔ یہود خدا کے قائل تو ہیں مگر عملاً اسے بھلا بیٹھے ہیں۔ ہندوؤں میں کئی خداؤں کا تصور ہے اسی طرح بعض لوگوں میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ یہ کائنات اور اس میں موجود تمام چیزیں خود بخود پیدا ہوئی ہیں بلکہ پہلے لوگوں کا یہاں تک خیال تھا کہ انسان بندر سے ترقی کرتا کرتا انسان بنا ہے ورنہ وہ پہلے بندر کی نسل سے تھا۔
محمود: ہاں یہ بھی کتنی عجیب بات ہے ناں۔ ٹیچر نے بھی بتایا تھا کہ ہم پہلے بندر تھے۔
دادی جان: یہ بات درست نہیں لگتی صرف ایک نظریہ ہے۔ اس لیے کیونکہ یہ سب باتیں انسان کے دماغ میں وقت کے ساتھ بتدریج پیدا ہوئیں اور ایسےسوالات سے ایک ایسا گروہ پیدا ہوا جو ہر چیز کو عقل کی بنیاد پرسمجھنا چاہتا تھا۔ مطلب ان کی عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی اَن دیکھی ہستی ہوسکتی ہے جو اس کائنات کو پیدا کرنے والی ہے۔ حالانکہ اب تو سائنس بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ یہ کائنات خود بخود پیدا نہیں ہوئی اور اس کا نظام چلانے والی کوئی ہستی ہے۔ بہرحال یہ ایک بہت لمبی بحث ہے ایسے لوگ جو کسی خدا پر اعتقاد یا یقین نہیں رکھتےانہیں ‘دہریہ’کہا جاتا ہے۔ جہاں تک آپ کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا ہے وہ بچہ بھی کسی دہریہ فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خدا کو نہیں مانتے لیکن مشکل وقت میں ان کے منہ سے خدا کا ہی نام نکلتا ہے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کی پیشگوئی فرمائی اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت لاہور میڈیکل کالج کا ایک طالبعلم جو ہر روز اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا بلکہ استہزا کی حد تک چلا جاتا تھا۔ زلزلہ کے دوران وہ جس کمرے میں تھا اسے محسوس ہوا کہ کمرے کی چھت گرنے والی ہے اور یہ یقین ہو گیا کہ اب کوئی طاقت اسے گرنے سے یعنی چھت کو گرنے سے بچا نہیں سکتی تو کیونکہ وہ ہندو خاندان سے تھا، اس کے منہ سے بے اختیاررام رام نکل گیا۔ اگلے دن اس کے دوستوں نے پوچھا کہ تمہیں اس وقت کیا ہو گیا تھا؟ تم تو خدا کو مانتے ہی نہیں۔ تو اس حالت میں رام رام کا شور تم نے مچا دیا۔ ہندوؤں کے نزدیک رام خدا تعالیٰ کے لیے بولا جاتا ہے۔ تو کہنے لگا کہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا، میری عقل ماری گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہی اس کی عقل نے کام کیا اور جب تمام دنیاوی سہارے اس کی نظروں سے چھپ گئے، اوجھل ہوگئے تو اسے ایک ہی سہارا نظر آیا جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اور مددگار دکھائی نہیں دیا۔ (خطبہ جمعہ 28؍ نومبر 2014ء)
اسی طرح پیارے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک سائنس کی سٹوڈنٹ نے سوال کیا کہ وہ اپنی ساتھیوں کو خدا تعالیٰ کی ذات پر کیسے یقین دلا سکتی ہے؟اس پر حضور انورنے فرمایا تھا کہ انہیں کہو کسی نے تو دنیا بنائی ہے۔ ہر چیز کے لیے کوئی بنانے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دنیا بنائی ہے یاجس نے بھی بنائی ہے، تم اس کو جو مرضی نام دو، ہم اس کو خدا کا نام دیتے ہیں۔ حضورِانور نے سائنس کی اس طالبہ کو ہستی باری تعالیٰ کےموضوع پرجماعتی لٹریچر کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے کتاب ‘‘ہمارا خدا’’پڑھی ہے؟ سائنس سٹوڈنٹ ہو تو اپنا لٹریچر بھی پڑھو تاکہ تمہیں پتا لگے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب Ten Proofs for the Existence of God(دس دلائل ہستی باری تعالیٰ)ہے۔ اگر اردو نہیں آتی تو انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہے۔ وہ پڑھو۔ پچیس چھبیس صفحہ کی چھوٹی سی کتاب ہے۔ پھر اس سے بڑی کتاب Existence of Allah بھی ہے۔ پھر اگر scientifically بھی proveکرنا ہے تو Revelation Rationality Knowledge and Truth میں حضرت خلیفہ رابعؒ نے اس بارے میں ایک chapter لکھ کر دیا ہے۔ وہ پڑھو۔ اس سے تمہیں پتا لگ جائے گا۔ اپنا علم بڑھاؤ گی تو پھر ان کو جواب دو گی۔ تم نے ان کوتفصیلی جواب دینا ہے۔ (ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 6؍ جنوری 2023ء )
محمود: احمد بھائی مجھے پڑھ کر سنائیں گے یہ کتاب؟
احمد:کیوں نہیں بلکہ ہم سب مل کر پڑھیں گے۔
دادی جان: اور سب سے بڑا ثبوت تو ہم روز دیکھتے ہیں۔ جب ہم دعا کرکے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہیں تو کیسے اللہ تعالیٰ ہماری دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے؟ مجھے یاد آیا کہ ایک ناصرہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ایک ملاقات میں پوچھا تھا کہ وہ اپنی کلاس فیلوز کو خدا پر ایمان لانے کے بارے میں کس طرح قائل کر سکتی ہے ؟تو اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ انہیں اپنا ذاتی تجربہ بتا سکتی ہو۔ پھر حضور انور نےاستفسار فرمایا تھا کہ کیا تم خدا پر ایمان رکھتی ہو، کیا خدا نے کبھی تمہاری مدد کی ہےاور تمہاری خواہشات اور تمنائیں پوری کی ہیں؟
حضور انور نے تلقین فرمائی کہ تم اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر یہ توکہہ سکتی ہو کہ جب مَیں دعا کرتی ہوں تو وہ میری دعائیں قبول کرتا ہے لیکن تم کسی کو مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانے یا اس پر ایمان لائے۔ اس کے علاوہ تم ہستیٔ باری تعالیٰ کے دس دلائل والی کتاب بھی پڑھو۔ یہ ایک چھوٹا کتابچہ (Booklet)ہےجو تم کو مدد دے گا۔ اسی طرح کتاب ‘‘ہمارا خدا’’بھی پڑھو۔ پھر تمہیں علم ہو گا کہ اس مسئلہ کو مختلف طریق سے کس طرح حل کرنا ہے؟ مختلف لوگوں کے مختلف نظریے اور سمجھنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں۔ تو اگر تم ان کتابوں کو پڑھوگی تو تمہیں پتا چلے گا کہ کس طرح مختلف مواقع پر اس سوال کا سامنا کرنا ہے۔ ہمیشہ اپنا نمونہ دکھاؤ۔ کہو کہ مَیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتی ہوں اور مَیں نے اس کی ذات کا تجربہ کیا ہے۔ (تلخیص الفضل انٹرنیشنل 4؍جولائی 2024ء)
گڑیا: دادی جان یہ سوال تو میری کلاس فیلوز بھی کرتی ہیں۔ مجھے یہ دس دلائل بھی سکھائیے گا۔
دادی جان: جی ضرور۔ ان شاء اللہ۔ لیکن آپ بھی اس بچے کے لیے سچے دل سے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اسے سچائی اور ہدایت کا رستہ دکھائے۔ ٹھیک ہے ؟
محمود: جی دادی جان میں اب اس کے لیے بہت دعا کروں گا۔ ان شاء اللہ
دادی جان: شاباش! میرا پیارا بیٹا۔ اب جلدی سے قرآن پاک لے آئیں ہم اپنا سبق پڑھ لیں۔
محمود: جی دادی جان میں ابھی لایا۔
(درثمین احمد۔ جرمنی)