خلاصہ خطبہ جمعہ

غزوۂ خندق کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز دنیا کے حالات اور پاکستان و بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍اکتوبر۲۰۲۴ء

٭…نمازیں وقت پر ادانہ کیے جانے کے متعلق رسول اللہﷺ کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپؐ نے فرمایا خدا کفار کو سزا دے انہوں نے ہماری نمازیں ضائع کیں

٭… دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ترین چیز آپؐ کے لیے خدا کی عبادت تھی

٭… صبح سفیدی نمودار ہونے سے پہلے سارا میدان خالی ہوگیا اور ایک فوری اور محیر العقول تغیّر کے طور پر مسلمان مفتوح ہوتے ہوتے فاتح بن گئے

٭…دنیا کے حالات نیز پاکستان اور بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک

٭… ہمیں اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنا ہو گا اور دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ اس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہیے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍اکتوبر۲۰۲۴ء بمطابق۴؍اخاء ۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۴؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

خطبات میں آج کل جنگِ احزاب کا ذکر ہورہا ہے۔

جنگِ احزاب کی مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ جب مشرکین کو خندق عبورکرنےکےباوجود کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی اور سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اتحاد کیا کہ وہ سب مل کر صبح حملہ کریں گے۔ چنانچہ صبح سب نے مل کر خندق کو گھیر لیا ، خندق کو باربار عبور کرنے کے ساتھ سخت تیراندازی کا مقابلہ ہوا۔ کفار مسلمانوں کی طرف سے کسی غفلت کے منتظر تھے، اور یہ حملے اور کوششیں وقفے وقفےسے ہوتی رہیں۔ اسی مرحلے پر وحشی بن حرب نے طفیل بن نعمان یا طفیل بن مالک بن نعمان انصاری ؓکو اپنا چھوٹا نیزہ مارکر شہید کردیا، حضرت سعد بن معاذ ؓکو بھی تیر لگا اور آپؓ بھی زخمی ہوگئے، اور اسی زخم کی وجہ سے کچھ دن بعد اُن کی شہادت ہوگئی۔

یہی وہ دن تھا کہ جس روز مسلمانوں کے لیے شدید مصروفیت، اور حملوں کی وجہ سے نماز بھی اپنے وقت پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ اس دن مسلمان نمازیں تو پڑھتے رہے مگر ایک مسلسل خوف اور پریشانی کے عالَم میں نمازیں ادا کی گئیں، عصر کے وقت شدید حملے کی وجہ سے نمازِ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت تک کیونکہ صلوٰةِ خوف مشروع نہیں ہوئی تھی اس لیے بوجہ مسلسل خطرے اور مصروفیت کے صرف ایک نماز یعنی عصر بے وقت ہوگئی تھی جو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھی گئی، اور بعض روایات کی رُو سے صرف ظہر اور عصر کی نمازیںبےوقت اداکی گئی تھیں۔

نمازیں وقت پر ادانہ کیے جانے کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایاہے کہ

رسول اللہﷺ کو اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ آپؐ نے فرمایا خدا کفار کو سزا دے انہوں نے ہماری نمازیں ضائع کیں۔ اس سے محمدرسول اللہﷺ کے اخلاق پر ایک بڑی گہری روشنی پڑتی ہے اورمعلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ترین چیز آپؐ کے لیے خدا کی عبادت تھی۔

حَکَم و عدل سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اُن تمام روایات کو جن میں تمام نمازوں کا رات کے وقت ادا ہونے کا ذکر ہے، ضعیف قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ کسی معتبر حدیث میں چار(نمازیں) جمع کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ

واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰة العصرمعمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔

حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بروز پِیر، منگل اور بدھ ظہر و عصر کے درمیان تشریف لائے اور اپنے اوپرکی چادر رکھ دی اور ہاتھ بلند کیے اور احزاب پر بددعا کی۔ جابر ؓکہتے ہیں کہ ہم نے آپؐ کے چہرے میں خوشی پہچان لی۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ

تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور خدا سے عافیت چاہو لیکن اگر تمہاری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہوجائے تو پھرصبرکرو اور جان لو کہ جنّت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔

آپؐ نے دعاکی کہ

اے اللہ! اے کتاب نازل کرنے والے! اے جلد حساب لینے والے! تُو لشکروں کو شکست دےدے۔ اے اللہ! ان کو شکست دےدے اور ان کے خلاف ہماری مدد کر۔ ایک اور روایت میں یہ دعا بھی مذکور ہے کہ اے اللہ! مَیں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تُو چاہے تو تیری عبادت نہ جائے۔

ابو سعید خُدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺسے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ کلیجے منہ کو آگئے ہیں۔ کیا ہمارے کہنے کے لیے کوئی کلمات ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! یہ دعا کرو کہ

اے اللہ! ہمارے عیب ڈھانپ دے اور ہمارے خوف دُور فرمادے۔

جنگ اسی طرح اپنے عُروج پر پہنچی ہوئی تھی اور قریشِ مکّہ اور اُن کے حلیف قبائل اب مسلسل محاصرے سے تنگ آچکے تھے اور جلد سے جلد کوئی حتمی وار کرکے، مسلمانوں کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ کفار کے سردار یہ حکمتِ عملی تیار کر رہے تھے مگر دوسری جانب خدا تعالیٰ اُن کے ارادوں کو خاک میں ملانے کافیصلہ کرچکا تھا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نُعیم بن مسعود جو قبائلِ غطفان کی شاخ قبیلہ اشجع سے تعلق رکھتا تھا، جو اس جنگ میں مسلمانوں سے لڑ رہے تھے، مگر یہ شخص دل میں مسلمان ہوچکا تھا، کفّار اس کے اسلام قبول کرنے سے ابھی بےخبر تھے۔ چنانچہ اس نے اس سے یہ فائدہ اٹھایا کہ ایک روز یہ مدینے پہنچ گیا اور سب سے پہلے بنو قریظہ کے پاس گیا اور چونکہ نُعیم کے بنوقریظہ کے رؤسا ءسے پرانے تعلقات تھے لہٰذا اس نے بنو قریظہ کے سرداروں سے کہا کہ میرے خیال میں تم نے یہ اچھا نہیں کیا کہ محمدﷺ کے ساتھ غداری کرکے غطفان اور قریش کےساتھ مل گئے، وہ دونوں تو یہاں چند دن کے مہمان ہیں مگر تم لوگوں نے بہرحال یہاں ہی رہنا ہے، یاد رکھو! کہ قریش اور غطفان جاتے ہوئے تمہیں مسلمانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ جائیں گے اس لیے کم از کم ایسا کرو کہ قریش اور غطفان بطور ضمانت اپنے چند آدمی تمہارے ساتھ کردیں تاکہ تمہیں اطمینان رہے کہ تمہارے ساتھ کوئی غداری نہیں ہوگی۔

اس کے بعد نُعیم بن مسعود قریش کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ بنو قریظہ تم سے خائف ہیں اور تمہارے چند آدمی یرغمال بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر تم ہرگز ایسا نہ کرنا۔ اسی طرح اس نے بنوغطفان سے بھی ایسی باتیں کیں۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ انہی دنوں قریش و غطفان یہ ارادہ کر رہے تھے کہ مسلمانوں پر چاروں طرف سے ایک ہی وقت میں حملہ کیا جائے تاکہ مسلمان قلّتِ تعدادکی وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرسکیں اور کہیں نہ کہیں سے ان کی لائن ٹوٹ جائے اور حملہ آور آسانی سے مدینے میں داخل ہوسکیں۔ اس تجویز کےمطابق بنو قریظہ کو پیغام بھیجا گیا تو انہوں نے جواب بھجوایا کہ کل تو ہمارا سبت کا دن ہے اس لیے ہم معذور ہیں اور ویسے بھی جب تک آپ لوگ اپنے چند آدمی ضمانت کے طور پر ہمارے پاس نہ ٹھہرائیں گے ہم اس حملے میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس بات کے سامنے آتے ہی دونوں طرف نُعیم کی بات کی تصدیق ہوگئی اور دونوں جانب شدید بد دلی پھیل گئی۔ بنو غطفان اور قریش نے پیغام بھیجا کہ ہم یرغمالی نہیں دیتے، تم نے آنا ہے تو ویسے ہی آؤ! اس پر بنو قریظہ کو یقین ہوگیا کہ غطفان اور قریش کی نیّت صاف نہیں ہے اور یوں نُعیم کی یہ سکیم کامیاب ہوگئی۔

پھر

اللہ تعالیٰ کی تقدیر مسلمانوں کے حق میں ایک روز شدید آندھی کی صورت میں بھی ظاہر ہوئی۔

اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک رات جب شدید سردی تھی اللہ تعالیٰ نے اس زور کی آندھی بھیجی کہ جس نے کفار کی ہانڈیوں کو پلٹ دیا اور برتن الٹ دیے۔ اس آندھی نے کفار کی آنکھیں بھردیں، ان میں کمزوری اور بزدلی داخل کردی اور مشرکین پسپا ہوگئے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ خوف ناک آندھی کی تفصیل بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ ان مناظر نے کفار کے وہم پرست قُلوب کو جو پہلے ہی محاصرے کے تکلیف دہ طُول اور اتحاد کی باہمی بے اعتمادی کے تلخ تجربے سے متزلزل ہورہے تھے، ایک ایسا دھکا لگایا کہ پھر وہ سنبھل نہ سکے اور صبح سے پہلے پہلے مدینے کا افق لشکرِ کفّار کےگَردو غبار سے صاف ہوگیا۔

جب آندھی کا زور ہوا تو ابو سفیان نے آس پاس کے قریشی رؤساءکو بلاکر کہا کہ ہماری مشکلات بہت بڑھ رہی ہیں اب یہاں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں ہے اس لیے بہتر ہے کہ ہم واپس چلے جائیں اور مَیں تو بہرحال جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے آدمیوں کو واپسی کا حکم دیا اور پھر اونٹ پر سوار ہوگیا مگر گھبراہٹ کا یہ عالَم تھا کہ اونٹ کے پاؤں کھولنے یاد نہ رہے، سوار ہونے کے بعد جب اونٹ نے حرکت نہ کی تو اسے خیال آیا۔ اس وقت عکرمہ بن ابی جہل نے کسی قدر تلخی سے کہا کہ ابو سفیان! تم امیر العسکر ہو اور لشکر کو چھوڑ کر بھاگے جارہے ہو، تمہیں لشکر کا خیال بھی نہیں ہے۔ اس پر ابو سفیان شرمندہ ہوا اور اونٹ سے اتر کر کہا لو! مَیں نہیں جاتا مگر تم لوگ جلدی جلدی تیاری کرلو۔ اس کے بعد جیسے جیسے دوسرے قبائل کو کُوچ کی اطلاع ہوتی گئی انہوں نے بھی تیزی سے واپسی کی تیاری شروع کردی۔ بنو قریظہ بھی اپنے قلعوں میں واپس چلے گئے، اور ان کے ساتھ بنو نضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی ان کے قلعوں میں چلا گیا اور

صبح سفیدی نمودار ہونے سے پہلے سارا میدان خالی ہوگیا اور ایک فوری اور محیرالعقول تغیّر کے طور پر مسلمان مفتوح ہوتے ہوتے فاتح بن گئے۔

جب رسول اللہﷺ کو کفار کی پسپائی کی اطلاع ملی تو آپؐ نے خدا کا شکر اداکیا اور فرمایا کہ

یہ ہماری کسی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض خدا تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے اپنے دَم سے احزاب کو پسپا کردیا۔

اس کے بعد کفار کے فرار کی خبر مسلمانوں میں مشہور ہوگئی۔

حضورِانور نے بقیہ تفصیل آئندہ بیان کیے جانے کا ارشاد فرمانے کے بعد

دنیا کے موجودہ حالات کےلیے دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ

دنیا کے حالات، جیسا کہ پتا ہے آپ کو دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ امریکہ اور بڑی طاقتیں انصاف سے کام لینا نہیں چاہتیں۔ جنگ وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں اور معصوموں کو اس کے خوف ناک اور بد اثرات سے بچائے۔ اس کے لیے

ہمیں اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنا ہو گا اور دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ اس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں احمدیوں

کے حالات بھی کافی زیادہ خراب ہو رہے ہیں، اُن کے لیے بھی دعا کریں۔

بنگلہ دیش کے احمدیوں

کے حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ اُن لوگوں پر بھی بڑی سختیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم اور فضل فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button