اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (مئی ۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
ڈیرہ غازی خان میں احمدیہ قبروں کی بے حرمتی
بستی احمدپور۔۲۹؍مئی ۲۰۲۴ء:پولیس نے بستی احمدپور ڈیرہ غازی خان میں احمدیہ قبرستان میں کتبوں کو مسمار کر دیا۔ یہ کارروائی مخالفین کی جانب سے پولیس کو دی گئی ایک درخواست کے بعد کی گئی۔ مخالفین نے قبروں کی تصاویر بنائیں جن میں کتبوں کے اوپر اسلامی الفاظ کندہ دیکھے جاسکتے تھے۔ پولیس نے بستی رِنداں،بستی احمدپور اور بستی نصیر آباد کے صدران کو پولیس سٹیشن بلایا جہاں پر ملّاں پہلے سے موجود تھے۔ پولیس نے ان کی موجودگی میں احمدی احباب سے کتبوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن احمدی احباب نے انکار کردیا۔ یہ بات ان کے خلاف توہین کے مقدمات کا باعث بن سکتی تھی۔ بعد ازاں پولیس احمدی احباب کے ساتھ قبرستان میں گئی جہاں پر تین احمدی احباب کی قبریں موجود تھیں۔ ایک قبر کے کتبے پر اسلامی الفاظ کندہ تھے۔ پولیس نے ان کو مسمار کر دیا اور ملبہ ساتھ لے گئی۔ نیز احمدی صدران سے اس بات پر دستخط بھی کروائے کہ آئندہ کسی کتبے پر اسلامی الفاظ کندہ نہ کیے جائیں گے۔
احمدی سکول ٹیچر کو ناجائز طور پر معطل کر دیا گیا
ربوہ۔ضلع چنیوٹ۔مئی ۲۰۲۴ء:گورنمنٹ ماڈل ایلیمنٹری سکول مسلم کالونی میں ایک احمدی خاتون بطور استاد فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ مسلم کالونی میں موجود مولوی توصیف نے ایک ویڈیو پیغام میں ان پر الزام عائد کیا کہ بچوں کو پڑھاتے ہوئے موصوفہ نے ختم نبوت کی آیا ت کا مبہم ترجمہ کیا ہے اور حال کے صیغہ کی جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ساتھ اس نے مطالبہ کیا ا ن کو معطل کیا جائے نیز یہ کہ انتظامیہ علاقے میں احمدی اساتذہ کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کر رہی۔ چنانچہ ضلعی محکمہ تعلیم کے متعلقہ افسر نے انہیں نالائقی،غیرشائستہ رویہ کی حامل ہونے اورایک سبق کی غلط تشریح کے الزام عائد کر کےمعطل کر دیا۔ حالانکہ یہ معاملہ اس سے برعکس تھا۔ موصوفہ نے بچوں کو آنحضورﷺ کے متعلق خود سے کچھ لکھنے کو کہا تھا۔ جس پر کچھ بچوں نے حال اور کچھ نے ماضی کے صیغے استعمال کیے۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر اس مولوی نے ان کے خلاف یہ مہم چلائی اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالا۔استانی صاحبہ سے اس معاملے کے متعلق تفتیش بھی کی گئی اور کچھ ادارے اس معاملے کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن بظاہر محسوس ہوتا ہےکہ مذہبی شدّت پسندوں کے دباؤ میں آکر جلد بازی میں ان کو معطل کر دیا گیا لیکن اگرغیرمتعصبانہ تحقیق کی جائے تو یہ الزامات غلط ثابت ہوں گے۔
احمدیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق عمل نہ کر سکیں
ضلع گو جرانوالہ۔ مئی ۲۰۲۴ء:۲۳؍مئی ۲۰۲۴ء کو احمدیہ وفد کو اے ایس پی سول لائن پولیس سٹیشن کی جانب سے اسے ملنے کے لیے کہا گیا۔ جب وفد اس سے ملنے کے لیے پہنچا تو اس نے کہا کہ گذشتہ سال احمدیوں نے عید کے روز نہ نماز ادا کی تھی اور نہ ہی جانور ذبح کیے تھے۔ اسی طرح اس سال بھی سارا دن احمدیہ مسجد بند رہے گی اور نہ ہی احمدی کوئی جانور ذبح کریں گے۔ اس پر احمدیہ وفد نے کہا کہ یہ باتیں سراسر غلط ہیں۔ گذشتہ سال احمدیوں نے عید بھی ادا کی تھی اور قربانی بھی کی تھی اور امسال بھی عید الفطر ادا کی ہے۔ اس پر اے ایس پی نے کہا کہ احمدی، مسلمانوں کے طور طریقے نہیں اپنا سکتے اور اگر نمازعید اداکر نی ہے اور جانور ذبح کرنے ہیں تو ڈی سی سے اجازت لیں۔اس پر وفد نے کہا کہ گذشتہ سال تو اس بابت ڈی سی سے کوئی اجازت طلب نہیں کی گئی۔ اور آئین پاکستان احمدیوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔ نیز وفد نے اس بابت حکومتی حکم نامہ فراہم کرنے کا کہا جس میں احمدیوں کو ان باتوں سے منع کیا گیا ہو۔ علاوہ ازیں وفد نے اسے ۲۰۲۲ء کا ایک عدالتی فیصلہ بھی دکھایا جس میں راولپنڈی کینٹ کے ایک رہائشی کو اپنے گھر میں قربانی کرنے پر ہونے والے مقدمے میں عدالت نے بری کر دیا تھا۔ اس پر اے ایس پی نے کہا کہ وہ ضلعی سطح پر ایک نشست کا اہتمام کرے گا جہاں احمدی وفد اور انتظامیہ کے افراد شامل ہوں گے اور وہ احمدیوں کو عید کے روز کے متعلق ایسی باتوں سے آگاہ کریں گے جن کو ملحوظ ِخاطر رکھنا ضروری ہے۔
اسی طرح ۲۶؍مئی کو شیرا کوٹ کے پولیس سٹیشن میں بھی احمدی احباب کو بلا کر اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ اس تحریر پر دستخط کریں کہ وہ نہ تو عید کی نماز ادا کریں گے اور نہ ہی کوئی جانور ذبح کریں گے۔ پولیس نے دو احمدی احباب کو وہیں روک لیا۔ جنہیں بعد میں دوسرے احمدی احباب نے پولیس سٹیشن جا کر چھڑایا۔
گوجرانوالہ میں ایک احمدی کو اپنے عقیدے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا
گوجرانوالہ۔ مئی ۲۰۲۴ء:گوجرانوالہ میں تحریک لبیک کے شر پسندوں کی جانب سے اس بات پر شدید زور دیا جا رہا ہےکہ چار مختلف مقامات پر احمدی ایک بجے سے قبل نماز جمعہ ختم کریں۔ ان مقامات میں راہوالی،ترگڑی، گجو چک اور تلونڈی شامل ہیں۔ ایس ایچ او کینٹ نے احمدیوں کو بلایا اور مخالفین کا مدعا بیان کیا۔ احمدیوں نے بتایا کہ انہوں نے سی پی او گوجرانوالہ سے اجازت لے رکھی ہے کہ وہ جب چاہیں اپنی نماز ادا کر لیں۔ اور اس بابت ان کو عدالتی حکم بھی دکھائے کہ احمدی اپنی چار دیواری میں اپنی مرضی کے اوقات میں عبادت بجا لاسکتے ہیں۔لیکن ایس ایچ او نے کہا کہ یہ حکم پرانے ہیں۔اور اعلیٰ افسران کی جانب سے کسی بھی راہنمائی کے انتظار پر راضی ہو گیا۔ بہر حال ۱۷؍مئی کو جمعہ نئی پابندی کے تحت ہی ادا کیا گیا۔ اسی طرح ۲۰؍مئی کو اے ایس پی کامونکی کے ایک نمائندے نے آکر بتایا کہ احمدیوں کے خلاف ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ اور احمدی احباب کو پولیس سٹیشن آنا ہو گا۔ چنانچہ صدر جماعت اور چند احمدی احباب مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گئے۔ احباب جماعت کو بتایا گیا کہ شدت پسند تحریک لبیک کے جابر نامی شخص نے احمدیوں کے خلاف درخواست دی ہے جس میں اس نے موقف اختیار کیا ہے کہ احمدیوں نے ایک میڈیکل کیمپ لگایا ہے جس میں انہوں نے کلمہ آویزاں کر رکھا تھا اور تبلیغ بھی کر رہے تھے اور ساتھ ہی انہوں نے عید کی نماز بھی ادا کی ہے۔ اس پر احمدی احباب نے بتایا کہ وہ میڈیکل کیمپ کے دوران کو ئی تبلیغ نہیں کرتے اور جہاں تک کلمہ کا سوال ہے۔ تو یہ چار دیواری کے اندر ہے اور اس سے قبل ۲۰۲۱ء میں پولیس نے مسجد کی بیرونی دیواریں اونچی کروانے کا کہا تھا اور پولیس احمدیوں کے گھروں میں آویزاں کلمے بھی اتار کر لے گئی تھی۔ عید کے متعلق حالات کا جائزہ لینے کے لیے اےایس پی نے ایک انسپکٹر کو بھیجا۔ اس نے مسجد کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ کلمہ کو کپڑے سے ڈھانپا گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے کلینک کا جائزہ لیا اور مریضوں کے کارڈ دیکھے اور اسے اس بابت بھی آگاہ کیا گیا کہ علاقے میں رات دیر تک صرف یہی کلینک کھلا ہوتا ہے۔
مبارک ثانی کے مقدمہ کی تازہ صورتحال
اسلام آباد۔۳۰؍مئی ۲۰۲۴ء:اس موضوع پر روزنامہ ڈان نے خبر یوں شائع کی
رپورٹ :ناصر اقبال۔۳۰؍مئی ۲۰۲۴ء:چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے سپریم کورٹ کے بنچ نے پنجاب حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ۶؍فروری کو دیے جانےوالے فیصلے کے خلاف دی گئی درخواست کے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔۶؍فروری کے فیصلے میں ممنوعہ لٹریچر تقسیم کرنے کے معاملے میں مبارک ثانی کی سزا کو بدل دیا گیا تھا۔ مقدمہ کی آخری سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے اسلامی نظریاتی کونسل اور مذہبی شخصیات اور اداروں سے رائے طلب کی تھی۔ لیکن چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ایک مہم شروع ہو گئی۔پولیس کی بھاری نفری کو سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر تعینات کیا گیا جہاں پر بڑی تعداد میں مولوی اور ان کے متبعین موجود تھےا ور وہ مذہبی نعرے بازی کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے کئی مذہبی اداروں بشمول اسلامی نظریاتی کونسل،جماعت اہل حدیث،قرآن اکیڈمی،جماعت المنتظرلاہور اوردارالعلوم کراچی وغیرہ سے اس مقدمہ میں رائے طلب کی تھی۔عدالت نے تین افراد سے فرداً فرداً اس معاملے پر دلائل سنے جن کو اس فیصلے پر کوئی بھی اعتراض تھا۔
تاہم بہت سارے مذہبی راہنماؤں کو المورد کے ڈاکٹر ناصر خان کی موجودگی پر اعتراض تھا کیونکہ وہ ادارے کے ایماء کے بغیر خود سے ہی وہاں آئے تھے۔ عدالت نے باہمی مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ انفرادی گفتگو کا اختیار صرف ان لوگوں کو ہی دیا جائے گا جن کے پاس ان کے ادارے کی جانب سے اجازت موجود ہے۔
حیرت انگیز طور پر جسٹس سعادت خان نے کلمہ پڑھا اور کہا کہ بنچ کے تینوں جج الحمدللہ مسلمان اور ختم نبوت کے ماننے والے ہیں۔چیف جسٹس نے شمالی وزیرستان کے گاؤں شاخیمار میں لڑکیوں کے سکول کو آگ لگانے کے واقعے کا بھی ذکر کیا۔اس پر جامعہ نعیمیہ کے نمائندے نے کہا کہ کوئی مذہبی جماعت اس اقدام کو سراہتی نہیں بلکہ تمام مدرسوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بندوبست موجود ہے۔
مبارک ثانی پر قرآن کریم تقسیم کر کے مسلمانوں کے جذبات کوٹھیس پہنچانے کا الزام عائد ہے۔ ان پر 295-Bتوہین قرآن،298-C ایک احمدی کا خود کو مسلمان کہنا اور سیکشن 9(1A)کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ۲۴؍جون ۲۰۲۳ء کو عدالت نے ان پر دفعات لگائیں۔انہوں نے عدالت کو درخواست دی کہ ان دفعات کو ہٹایا جائے لیکن ۲۵؍ ستمبر کو یہ درخواست مسترد ہو گئی۔پھر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے سامنے درخواست دی لیکن وہاں سے ۱۶؍اکتوبر کو درخواست مسترد ہو گئی۔تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا۔ جس پر نہ صرف مذہبی جماعتوں کی طرف سخت رد عمل آیا بلکہ پنجاب حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ صوبائی حکومت نے اپنی نظر ثانی درخواست ایڈیشنل پراسیکیوٹر احمد رضا گیلانی کے ذریعے دائر کی اور کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے نالاں ہے۔کیونکہ یہ فیصلہ مادی حقائق کے متعلق غلطی پر مبنی قیاس آرائیوں پر مشتمل ہے۔ بدھ کے روز کارروائی کا اختتام کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو دوبارہ اس معاملے میں مدد طلب کی جائے گی۔
ضلع اٹک میں مذہبی نوعیت کے مسائل
مئی ۲۰۲۴ء:کارسان کے احمدیہ قبرستان میں اپریل میں دو احمدی احباب کی قبروں کے کتبے مسمار کیے گئے اور کئی ایک کے کتبوں کی بے حرمتی کی گئی۔ ۷؍مئی ۲۰۲۴ء کو انتظامیہ نے احمدی احباب کوتحصیل پنڈی گھیپ میں بلایا جہاں پر مخالفین بھی موجود تھے۔ انتظامیہ نے احمدیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قبروں سے اسلامی الفاظ کو ہٹائیں۔ اس پر احمدیوں نے اس مطالبے کو ماننےسے انکارکر دیا او رساتھ ہی واضح کر دیا کہ کسی بھی عام آدمی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ مخالفین نے احمدیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ قربانی نہ کریں۔ اسی طرح ایک احمدی لیڈی ہیلتھ ورکر کے متعلق ڈی سی آفس سے ہدایت جاری کی گئی کہ ان کی ذمہ داریاں صرف ہسپتال کی عمارت تک محدود کر دی جائیں۔
کوٹلی میں احمدیت مخالف ریلی نے حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی
کوٹلی۔مئی ۲۰۲۴ء:تحریک لبیک کے پیر مراد علی شاہ کی قیادت میں تحفظ قرآن اور فلسطین کے حق میں ایک ریلی نکالی گئی۔ تحفظ قرآن اور فلسطین کے حق میں نکالی جانے والی ریلی میں حکومت پاکستان اور کوٹلی کی انتظامیہ سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ احمدیوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ان کی تمام عبادتگاہوں سے مینارے اور محراب ہٹا دیے جائیں۔ اور یہ کہ احمدی اپنی حدود میں رہیں اور انہیں قربانی کی کوئی اجازت نہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان باتوں پر عمل نہ ہوا تو وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور اس کی ذمہ داری کوٹلی انتظامیہ پر عائد ہو گی۔انہوں نے انتظامیہ کو ایک ماہ کا وقت دیا اور یاددہانی کروائی کہ ان کی جانیں ختم نبوت کے لیے حاضر ہیں۔
احمدیوں کو اپنی چھت پر بیٹھنےکی وجہ سے پولیس نے بلا لیا
ماڈل کالونی۔کراچی۔مئی ۲۰۲۴ء:دو احمدیوں کے خلاف غیظ و غضب سے بھرپور ایک درخواست دی گئی کہ یہ لوگ اپنی چھت پر بیٹھ جاتے ہیں اور اونچی آواز میں ٹی وی پر اپنے پروگرام دیکھتے ہیں جس سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہےاوریہ عمل آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ اس پر پولیس نے انہیں بلایا اور تحریری طور پر جواب طلبی کی۔ جس پرانہوں نےبتایا کہ لوڈشیڈنگ کے دوران ان کے چند رشتہ دار ان کو ملنے آئے تھے اور وہ گرمی سے بچنے کے لیے چھت پر بیٹھےتھے۔ اس جواب طلبی کے بعد تاحال مخالف ملّاں خاموش ہیں۔
احمدیہ مسجد کے باہر گستاخانہ اشتہار
سنت نگر۔لاہور۔ مئی ۲۰۲۴ء:چند شرپسندوں نے احمدیہ مسجد کے باہر بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمدؑ کے خلاف گستاخانہ اشتہار چسپاں کر دیا اور ایک اشتہار مسجد کے سامنے والی دیوار پر چسپاں کیا۔ اس بات سے احمدیوں کو نمازفجر کے وقت آگاہی ہوئی۔
(مرتبہ:مہر محمد داؤد۔یوکے)