والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا معاملہ کرو
ایک ایک کرکے مَیں ان حکموں کو لیتا ہوں جو معاشرے کے ہر طبقے میں صلح، سلامتی اور پیار کی فضا پیدا کرنے اور قائم کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ حکم دیا گیا کہ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرو۔ اس بات کی طرف توجہ دلا دی کہ خداتعالیٰ کی عبادت کے بعد تمہیں والدین کو ہر شر سے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ انہوں نے بھی تمہیں بچپن میں ہر شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ تمہارے والدین ہی ہیں جو تمہاری صحت و سلامتی کے لئے تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ پس آج بڑے ہو کر تمہارا فرض بنتا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو۔ ایک جگہ فرمایا اگر ان پہ بڑھاپا آ جائے تو انہیں اُف تک نہ کہو، ان کی باتیں مانو۔ ایک جگہ فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَقُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (بنی اسرائیل:۲۵) پس یہ دعا بھی اس لئے ہے کہ تمہارے جذبات، تمہارے خیالات ان کے لئے رحم کے رہیں اور پھر یہ دو طرفہ دعائیں ایک دوسرے پر سلامتی برسانے والی ہوں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے احسان کا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور شکر گزار بندہ بننے کا ذکر فرمایا۔فرماتا ہے وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّوَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَحَمۡلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًاؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃًۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَاَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَاِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔(الاحقاف:۱۶)اور ہم نے انسان کو تاکیدکی، نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ ۳۰ مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور ۴۰ سال کا ہو گیا تو اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے توفیق عطا کر کہ مَیں تیری اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی اصلاح کر دے، یقیناً مَیں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یعنی حقیقی فرمانبردار مَیں تبھی بن سکتا ہوں، حقیقی اسلام میرے اندر تبھی داخل ہو سکتا ہے، سلامتی پھیلانے والا میں تبھی کہلا سکتا ہوں جب ان حکموں پر عمل کرتے ہوئے جس میں سے ایک حکم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو۔ ان کے احسانوں کو یاد کرکے ان سے احسان کا سلوک کرو۔ ان نعمتوں کا شکر گزار بنو۔
(خطبہ جمعہ یکم جون ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍جون ۲۰۰۷ء)