کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی نسبت بِرّو احسان کا حکم

قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اُس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے مثلاً نمونہ کے طور پر اِن آیات کو دیکھو لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُوۡمًا مَّخۡذُوۡلًا وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ۔ وَاخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَقُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (بنی اسرائیل:۲۳۔۲۵)۔یعنی خدائے تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا مت ٹھہرا اگر تو نے ایسا کیا تو مذموم اور مخذول ہو کر بیٹھے گا۔ اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو اُس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبود نہ ہو اور ماں باپ سے احسان کر اگر وہ دونو یا ایک اُن میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تُو اُن کو اُف نہ کر اور نہ اُن کو جھڑک بلکہ اُن سے ایسی باتیں کہہ کہ جن میں اُن کی بزرگی اور عظمت پائی جائے اور تذلل اور رحمت سے ان کے سامنے اپنا بازو جھکا اور دعا کر کہ اے میرے رَبّ تو ان پر رحم کر جیسا اُنہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی۔ اب دیکھو کہ ان آیات میں یہ ہدایت ظاہر ہے کہ یہ واحد کا خطاب جماعت اُمت کی طرف ہے جن کو بعض دفعہ انہیں آیتوں میں تم کر کے بھی پکارا گیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات میں مخاطب نہیں کیونکہ ان آیتوں میں والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی نسبت بِرّو احسان کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو صغیر سنی کے زمانے میں بلکہ جناب ممدوح کی شیر خوارگی کے وقت میں ہی فوت ہوچکے تھے سو اس جگہ سے اور نیز ایسے اور مقامات سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کو واحد کے طور پر مخاطب کر کے پکارنا یہ قرآن شریف کا ایک عام محاورہ ہے کہ جو ابتدا سے آخر تک جا بجا ثابت ہوتا چلا جاتا ہے۔

(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، روحانی خزائن جلد۴صفحہ ۴۴۱-۴۴۲)

وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا (الدھر:۹)اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گویا یتیم ہی ہے۔ پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہو گا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۹۹، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button