جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت دعا کرو
اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔ سو آدم جمعہ کی اخیر گھڑی میں بنایا گیا۔ یعنی عصر کے وقت پیدا کیا گیا اسی وجہ سے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت دعا کرو کہ اس میں ایک گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ وہی گھڑی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی۔ اِس گھڑی میں جو پیدا ہو وہ آسمان پر آدم کہلاتا ہے اور ایک بڑے سلسلہ کی اس سے بنیاد پڑتی ہے۔ سو آدم اسی گھڑی میں پیداکیا گیا۔ اس لئے آدم ثانی یعنی اس عاجز کو یہی گھڑی عطا کی گئی۔
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ ۲۸۱-۲۸۰، حاشیہ)
ایک صاحب نےعورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو امر سنت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ اہل اسلام میں سے بعض ایسے بھولے بھالے بھی ہیں کہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعد اس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں۔ اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہوا ہے۔ اس کے ذکر پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیّت میں اس امر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ میں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیّت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی؟
(ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۱۲۹ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ڈیڑھ میل تک شہر میں اپنے گائو ں سے آنا بجز حرج کے متصور نہیں۔ چونکہ گائوں میں مسجد ہے۔ اگر شہر کے نزدیک بھی ہے تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتاہے۔ کسی حدیث صحیح میں اس ممانعت کا نام ونشان نہیں۔ بلاشبہ جمعہ جائز ہے۔ خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں۔
(مکتوبات احمد جلد ۳صفحہ۵۲مکتوب بنام حضرت منشی حبیب الرحمان صاحبؓ رئیس حاجی پور مکتوب نمبر ۴)