حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳ اور۲۰؍ستمبر۲۰۲۴ء میں غزوہ احزاب کا ذکر فرمایا۔ خطبہ میں مذکور مقامات کا مختصر تعارف پیش ہے۔
خندق کا محل وقوع
غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کے محل وقو ع کے متعلق معروف محقق ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں:خندق کی تجویز پختہ ہونے کے بعد آنحضرتؐ چند انصار و مہاجرین کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوکر نکلے اور شہر کے اطراف میں ان مقامات کا معائنہ فرمایا جو جنگ اور محاصرے میں اہمیت رکھ سکتے تھے اور اس مقام کی تلاش کی جہاں پڑاؤ ڈال کر مسلمان سپاہی اتر سکیں اور یہ طے ہوا کہ حسب معمول عورتیں، بچے، جانور، غلہ اور قیمتی اثاث البيت ان گڑھیوں(چھوٹے قلعوں/اونچے پختہ مکانات)میں منتقل کر دیے جائیں جو مدینے کے اطراف میں سینکڑوں کی تعداد میں تھیں اور جن کو آطام اور آجام کہا جاتا تھا اور مسلمان سپا ہی جبل سلع کے دامن میں خیمے لگا دیں اور اپنے سامنے ایک لمبی اور گہری خندق کھود دیں۔
شہر کے اطراف خاص کر جنوب میں باغوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ اوران کے درمیان جو راستے تھے ان میں سے گزرنے کی کوشش دشمن کو صف کی جگہ قطار بنانے پہ مجبور کرتی تھی اور ان راستوں میں چھوٹی چھوٹی چوکیاں بھی بڑی سے بڑی فوج کو روک دینے کے لیے کافی تھیں مشرق میں بنو قریظہ وغیرہ یہودیوں کے سینکڑوں مکان اور باغ تھے اور فی الوقت ان سے بہت اچھے تعلقات تھے اور ادھر سے بھی اطمینان سا تھا۔ شمال کا رخ ہی سب سے خطرناک تھا۔ ایک حد تک مغربی رخ بھی۔ اس لیے آنحضرتؐ کی ابتدائی تجویز کے مطابق شمال میں حرہ شرقی اور حرہ غربی کو ملاتی ہوئی ایک خندق کھدائی گئی جو نیم دائرہ بناتی ہوئی جبل سلع کے مغربی کنارے سے آملی….شمال کی جانب خندق کھودی جانی طے ہوئی۔چنانچہ اولاً اس علاقے کی پیمائش کی گئی۔ پھر کام رضا کاروں کو بانٹا گیا اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رضا کارانہ خدمت کی دعوت پرجب تین ہزار مسلمانوں نے لبیک کہا تو ہر دس دس آدمیوں کی ٹکڑی پر چالیس ’’ذراع ‘‘جو شاید بیس گز کے مترادف ہے لمبی خندق کھودنے کا کام سپرد ہوا۔ دوسرے الفاظ میں یہ خندق تقریباً ساڑھے تین میل طویل تھی۔ گہری اور چوڑی کتنی تھی اس کا کوئی پتا مجھے اب تک کسی کتاب میں نہیں ملا۔ لیکن اس کے کئی مرتبہ تذکرے ملتے ہیں کہ دشمن کے سوار خندق کُدا کر آنے کی کوشش میں ناکام رہے اور ایسی ہی ایک کوشش میں ایک سوار خندق کے اندر گر کر مرگیا۔ اس طرح کوئی تعجب نہیں جو دس گز چوڑی اور اتنی ہی گہری خندق کھودی گئی ہو۔خندق کی کھدائی کے زمانے میں آنحضرتﷺ اپنا مکان چھوڑ کر خندق سے متصل ایک پہاڑی پر خیمہ لگا کر مقیم ہو گئے، جس کی یادگار آج تک مسجد ذباب (اصل میں ذوباب )یعنی دروازے والی مسجد موجود ہے… یہ کھدائی بعض بیانوں کے مطابق کوئی تین ہفتے جاری رہی جب’’سرکاری‘‘خندق شمال میں مکمل ہونے لگی تو مختلف محلوں کے باشندے بھی دیکھا دیکھی اپنے طور پر اس سامان مدافعت سے استفادہ کرنے کے لیے خندق کی اپنے محلے کے سامنے تو سیع کرنے لگے اور اس طرح شہر کے مغرب میں بھی کوئی دو اڑھائی میل کی خندق کھودی گئی۔ اس کے علاوہ بعض آطام کے گرد خندق کھودلی گئی۔(عہد نبوی کے میدان جنگ صفحہ۶۳-۷۱)
اٹلس سیرت النبی ﷺ میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے ذاتی سفر اور مشاہدے کے حوالے سے مزید لکھا ہے : ابن سعد وغیرہ کے مطابق دیار بنی حارثہ کے قلعہ رائج (راتج) اور بعض روایتوں میں آطام شیخین سے جبل ذباب تک کا حصہ مہاجرین کے سپرد ہوا اور وہاں سے جبل بنی عبید اور مذاد سے ہوتے ہوئے مسجد فتح تک انصار متعین کیے گئے۔ آطام شیخین کی جانشین مسجد شیخین مجھے ۱۹۴۷ء میں جبل سلع اور جبل احد کے درمیان حرہ شرقی کے مغربی کنارے پر نظر آئی اور شاید دو گڑھیوں کی یادگار اس چھوٹی سی مسجد کی چھت پر برجیاں بنائی گئی ہیں غالباً رائج (راتج)اس کے پاس ہی ہوگا۔ جبل ذباب پر رسول اللہ ﷺ کھدائی کے وقت خیمہ زن تھے۔ اس کی یادگار میں وہاں ’’ذوباب‘‘یعنی دروازے والی مسجد تعمیر ہوئی جو اب تک ذُباب کے نام سے مشہور ہے اور جبل سلع پر واقع ہے۔ جبل بنی عبید کا پتا نہیں چل سکا۔ گمان ہوتا ہے کہ یہ حرہ غربی میں مسجد قبلتین کے قریب دو پہاڑیوں میں سے مغربی پہاڑی ہوگی۔ جبل مذاد میری دانست میں جبل سلع کے مغرب کی ہلالی شکل کی پہاڑی یا اس سے ملے ہوئے ٹیکرے کا نام ہے۔مسجد فتح وہ مقام ہے جہاں محاصرہ شروع ہونے پر نبیٔ ا سلامؐ کا خیمہ منتقل ہوا۔ یہاں آپ ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں فتح کی دعا کی تھی۔ یہ ایک مشہور قدیمی زیارت گاہ ہے اور اب تک جبل سلع کی ایک مغربی چوٹی کے محفوظ مقام پر موجودہے۔ ذباب، بنی عبید، مذاد اور مسجد فتح ایک مربع سا بن جاتا ہے۔ غالباً یہ آباد علاقہ تھا یہاں اب بھی کچھ باغات موجود ہیں۔ عام فوج اس محفوظ علاقے میں خیمہ زن ہوئی ہوگی۔ ذباب و شیخین کے نیچے کا رقبہ بھی آباد ہوگا کیونکہ ۱۹۴۵ء ومابعد میں یہاں ایک بڑے شفا خانے کی تعمیر کے لیے جگہ صاف کرائی گئی تو بیسیوں پرانے کنویں برآمد ہوئے تھے۔(اٹلس سیرت النبیؐ صفحہ۲۷۹)
مندرجہ بالا مقامات کی روشنی میں اگر ہم موجودہ نقشے پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں مدینہ کی مشرقی جانب حرہ واقم کے ساتھ جہاں قبیلہ بنی حارثہ آباد تھا، اس علاقے کو اب بھی بنی حارثہ ہی کہتے ہیں۔ اس سے ملحقہ دائیں طرف علاقے میں قدیم تاریخی مسجد الشیخین ہے۔بقول ڈاکٹر حمید اللہ صاحب یہ آطام شیخین کی جانشین ہے۔ اب یہ مسجد الدرع کے نام سے بھی مشہور ہے۔ ممکنہ طور پر راتج پہاڑ یاچند روایات کے مطابق یہود کا ایک قلعہ بھی اس کے قریب ہی واقع تھا۔مشرقی طرف سے خندق اس مقام سےشروع ہوئی۔ مسجد نبویؐ کے شمالی جانب اڑھائی کلو میٹر دور پہاڑی پر ایک مسجد ہے۔اس کو جبل الرایة کہتے ہیں۔ اس مقام کو پہلے ذوباب یا ذباب کہتے تھے۔ جہاں رسول اللہﷺ نے خندق کی کھدائی کی نگرانی کے لیے خیمہ لگایا۔ خندق اس مقام کے شمال سے گزرتی ہوئی مذاد/جبل عبید تک بنائی گئی تھی۔مذاد کے متعلق لکھا ہے کہ سلع پہاڑ کے شمالی جانب ایک جگہ تھی۔ یہاں سے خندق کھودنے کا آغاز ہوا تھا۔ جبل عبید مسجد قبلتین کے قریب موجود ایک چھوٹی پہاڑی کو کہتے ہیں۔ خندق کی لمبائی تقریباً ۵۵۴۴ میٹر ہے، اس کی چوڑائی ۴ یا ۵ میٹر کے قریب ہے، اور اس کی گہرائی ۳ میٹر ہے۔کھدائی کے دوران نکلنے والی مٹی نے مسلمانوں کی جانب ایک آڑ سی بنا دی تھی۔ اسی علاقےمیں وادی بطحان کی قدیم گزر گاہ بھی تھی۔ بعض دیگر قبائل نے یہاں سے حرہ غربیہ کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف مسجد الغمامہ کی طرف بھی خندق کی کھدائی کی تھی۔
خندق کی کھدائی کے بعد رسو ل اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اپنا پڑاؤ جبل سلع کے دامن میں محفوظ مقام پر لگا لیا۔ پہاڑ کی چوٹی سے دشمن فوج کی نقل و حمل اور اپنے پشت پر مدینہ کی صورتحال دیکھنا اور نگرانی کرنا آسان تھا۔
بیداء
مدینہ منورہ کے جنوب میں ذو الحلیفہ سے آگے ویران اور بے آباد علاقے کو البیداء کہا جاتا تھا۔ایک قول کے مطابق ذو الحلیفہ کے آغاز میں مکہ جانے والےراستے پر قدرے اٹھی ہوئی ہموار زمین تھی جس کو البیداءکہتے تھے۔ جنگ خندق کے لیے آنے والے لشکر قریش کا اس جگہ پر دو مسلمانوں سے سامنا ہوا جن کو انہوں نے شہید کر دیا۔ موجودہ دور میں یہ تمام علاقہ شہری آبادی میں شامل ہو چکا ہے۔بعض حکومتی محکموں کی عمارتیں بھی اس جگہ تعمیر ہیں۔
وادئ بطحان
یہ مدینہ منوّرہ کی بڑی وادیوں میں سے ایک ہے جو چھوٹی چھوٹی چند وادیوں سے مل کر بڑی وادی میں تبدیل ہوئی۔یہ وادی قبا کے مشرقی حصہ سے شروع ہوتی ہوئی،مسجد الغامہ کے قریب پہنچتی ہے پھر سلع پہاڑ کے قریب مسجد فتح کے ساتھ سے گزرتی ہوئی غابہ میں چلی جاتی ہے۔ غزوہ خندق کے موقع پر ایک روز جب رسول اللہؐ کونماز عصر ادا کرنے میں تاخیر ہوئی تو آپؐ نے وادی بطحان سے وضو فرمایا۔
سلع پہاڑ
سلع پہاڑ مدینہ منورہ کے وسط میں مسجد نبویؐ کے شمالی جانب واقع ہے۔غزوہ خندق کے موقع پر اسی پہاڑ کے دامن میں رسول اللہ ﷺ اورمسلمانوں نے اپنا کیمپ لگایا۔جس جگہ رسول اللہﷺ کا قیام تھا وہاں مسجد فتح تعمیر کی گئی۔اسی طرح کبار صحابہ کرامؓ کے خیموں کی جگہ پر مساجد تعمیر کی گئیں جن کو مساجد السبعہ کہتے ہیں۔ بعدا زاں یہاں ایک بڑی مسجد فتح/مسجد خندق کے نام سے تعمیر کی گئی اور سات میں سے کچھ مساجد اس میں شامل ہو گئیں۔
مسجد الشیخین /راتج
اس مسجد کو آج کل مسجد الدرع کہتےہیں۔اسے مسجد شیخین، مسجد البداع اور مسجد العدوہ کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے تاہم سب سے زیادہ مشہور الدرع نام ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس مسجد میں حضورﷺ نے جنگ احد پر جاتےہوئے زرہ زیب تن فرمائی تھی۔ آپ ﷺنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ عصر، مغرب اور عشاء اور اگلی فجر کی نماز ادا کی اور اس کے بعد جبل احد کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ بقول ڈاکٹر حمید اللہ صاحب عہد نبویؐ میں مدینہ میں شیخان کے نام سے دو قلعے معروف تھے۔ یہ مسجد شاید ان کی نشانی ہے۔ شاید راتج پہاڑ یا قلعہ اس کے قریب ہو لیکن موجودہ دور میں اس کے کوئی آثار نہیں ملتے۔